Tehreek Azadi Kai Hero
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال
(9 نومبر 1877ء تا 21 اپریل 1938ء)
علامہ اقبال بیسوی صدی کے اردو اور فارسی
میں زبان میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجۂ شہرت ہے۔ ۔ علامہ
اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے
علامہ اقبال تحریک پاکستان کی اہم
ترین شخصیات میں سے ایک تھے
۔ بحیثیت سیاستدان ان کا سب سے نمایاں
کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ
کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی
بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔
12 مئی 1936 کو اقبال دوبارہ پنجاب مسلم
لیگ کے صدر مقرر ہوئے۔ آپ کی تعلیمات اور قائد اعظم کی ان تھک کوششوں سے ملک آزاد
ہوگیا اور پاکستان معرض وجود میں آیا۔
گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی
آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں
پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے
پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے
لیاقت علی خان
1895-1951
لیاقت علی خان نے 1923 میں مسلم لیگ
میں شمولیت اختیار کی
1936ء میں آپ مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل
بنے۔ آپ قائد اعظم محمد علی جناح کے دست راست تھے
آپ کی بیگم رعنا لیاقت علی ایک ماہر تعلیم
اور معیشت دان تھیں۔ آپ لیاقت علی خان کے سیاسی زندگی کی ایک بہتر معاون ثابت
ہوئیں
مولانا محمد علی جوہر
1878-1931
جدوجہد
آزادی میں سرگرم حصہ لینے کے جرم میں مولانا کی زندگی کا کافی حصہ قید و بند میں
بسر ہوا۔ تحریک عدم تعاون کی پاداش میں کئی سال جیل میں رہے۔ 1919ء کی تحریک خلافت
کے بانی آپ ہی تھے۔ ترک موالات کی تحریک میں گاندھی جی کے برابر شریک تھے۔ جامعہ
ملیہ دہلی آپ ہی کی کوششوں سے قائم ہوا۔ آپ جنوری 1931ء میں گول میز کانفرنس میں
شرکت کی غرض سے انگلستان گئے۔ یہاں آپ نے آزادیء وطن کا مطالبہ کرتے ہوئے فرمایا
کہ اگر تم انگریز میرے ملک کو آزاد نہ کرو گے تو میں واپس نہیں جاؤں گا اور تمہیں میری
قبر بھی یہیں بنانا ہوگی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد آپ نے لندن میں انتقال فرمایا
محترمہ فاطمہ جناح
1893- 1967
حصول پاکستان کی جدوجہد میں مسلمان عورتوں
میں زندگی کی نئی روح پھونکنے والی محترمہ فاطمہ جناح جذبہ خدمت اور جرات و
بے باکی میں کسی سے کم نہ تھیں۔۔
قائداعظم
کا ساتھ دیتے ہوئے انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں شرکت
کی۔محترمہ فاطمہ جناح نے تحریک پاکستان کے دوران قائد اعظم کا ساتھ دیا اور انہی
کی بدولت برصغیر کے گلی کوچوں میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی تحریک میں سرگرم
ہوئیں
25دسمبر1955کو محترمہ فاطمہ جناح نے خاتون پاکستان کے نام سے کراچی
میں اسکول کھولا
قیام
پاکستان کے لیے انتھک کوششوں پر قوم نے انہیں مادر ملت کا خطاب دیا
9جولائی 1967 کو 76سال کی عمر میں ایک عظیم بھائی کی عظیم بہن کا
انتقال ہوگیا۔
سرمحمد ظفراللہ خان
1893-1985۔
سر ظفر اللہ خان 1926 میں پنجاب لیجسلیٹو
کونسل کے ممبر بنے۔ انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور
تحریک پاکستان کے سرگرم رکن رہے
خواجہ ناظم الدین
(1894-1964)
خواجہ ناظم الدین کا شمار
پاکستان کے ان ممتاز سیاسی رہنماؤں میں ہوتا ہے جن کے بارے میں ان کے ناقدین بھی
بیک زبان یہ رائے رکھتے ہیں کہ وہ ایک شریف النفس اور ایماندار سیاست دان تھے
خواجہ ناظم الدین نے مسلم
لیگ اور تحریکِ پاکستان کی بے مثال خدمت کی تھی۔ جب ہندو اخبارات نے مسلمانوں کا
ناطقہ بند کر رکھا تھا تو اسی ناظم الدین نے اپنی جائیداد بیچ کر مسلمانوں کا
انگریزی اخبار ”اسٹار آف انڈیا“ کلکتہ سے جاری کروایا خود کنگال بھی ہوگئے
فاطمہ صغری
1931
فاطمہ صغریٰ تحریک
پاکستان کی اُن نامور کارکنوں میں شامل تھیں جنہوں نے زمانہ کمسنی ہی میں اس
جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا اور اپنا ایک مقام پیدا کیا۔
آپ نومبر 1931ءمیں
نواں محلہ شاہ عالمی دروازہ لاہور میں پیدا ہوئیں اور کرسچین گرلز ہائی سکول سے
ابتدائی تعلیم حاصل کی
۔ خضر وزارت کے
خلاف جب مسلم لیگ کی جدوجہد اپنے عروج پر تھی، آپ اس وقت دسویں جماعت میں زیر
تعلیم تھیں۔ آپ نے تعلیمی نقصان کی پرواہ کئے بغیر اس تحریک میں حصہ لیا اور
جلوسوں میں بھرپورشرکت کی
آپ کو یہ اعزاز
حاصل ہے کہ آپ نے 1946 میں تحریک کے دوران سول سیکرٹریٹ سے یونین جیک اُتار
کر دوپٹے سے بنا ہوا مسلم لیگ کا پرچم لہرایا۔
بطور یادگار
محترمہ فاطمہ صغریٰ گولڈ میڈلسٹ کی پاکستانی پرچم لگاتے ہوئے تصویر پینٹنگ کی صورت
میں مینار پاکستان کے احاطے میں نصب کی گئی
مولوی فضل الحق
1873-1962
مولوی فضل الحق لے قرارداد پاکستان میں اہم
کام کیا جس کی وجہ سے انہیں شیر بنگال کا خطاب ملا۔
فضل
الحق قائداعظم محمد علی جناحؒ کے قریبی رفیق تھے اور جنہوں نے تحریکِ
پاکستان میں نمایاں اور قابلِ رشک کردار ادا کیا۔ آپ نے 23مارچ 1940ءکو لاہور میں
منعقد ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں تاریخی قرارداد لاہور پیش
کرکے تاریخ میں ایک منفرد اعزاز حاصل کیا۔
آپ
1935ءسے 1937ءتک ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے رکن رہے۔ 1935ءمیں میونسپل کارپوریشن
کے رکن اور پھر کلکتہ کے میئر چنے گئے۔ 1935ءکے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت
1937ءمیں ہونے والے انتخابات کے نتیجہ میں منتخب حکومتیں قائم ہونے پر آپ بنگال کے
وزیراعلیٰ مقرر ہوئے اور 1942ءتک اس عہدے پر فائز رہے
1954 میں مغربی بنگال کے وزیر اعلی بنے
۔انہوں نے پاکستان کے ھوم منسٹر کا کام 1955 میں کیا اور 1956 تا 1958 وہ مغربی
پاکستان کے گورنر بھی رھے۔ ان کا انتقال 27 اپریل 1962 میں ہوا
چوہدری رحمت علی
1895-1951
چودھری رحمت علی نے دوسری گول میز کانفرنس
کےموقع پر اپنا مشہور کتابچہ Now or
Never۔۔ابھی یا کبھی نہیں۔۔۔شائع کیا جس میں پہلی
مرتبہ لفظ پاکستان استعمال کیا
چوہدری رحمت علی نے 1933میں دوسری
گول میز کانفرنس کے دوران پہلی مرتبہ پاکستان کا نام استعمال
کیا
1935میں انہوں نےکیمبرج سےایک ہفت روزہ اخبار
نکالا جس کا نام بھی پاکستان تھا۔
1947ء میں اقوام متحدہ میں کشمیر پر اپنا موقف
بیان کیا۔6 اپریل 1948ء میں واپس پاکستان آئے اور پاکستانی بیورو کریسی نے ان کو
پاکستان سے واپس جانے پر مجبور کر دیا۔
جنوری1951 میں وہ نمونیہ کی
بیماری میں مبتلا ہوگئے لیکن صحت یاب نہ ہو سکے اور 3فروری1951کو اپنےخالق
حقیقی سےجا ملے۔ چودھری رحمت علی کی لندن کے شہر کیمبرج میں تدفین کردی گئی
نواب بہادر یار جنگ
1903-1944
نواب بہادر یار
جنگ باقاعدہ طور پر مسلم لیگ میں شامل ہوئے تو قائد نے فرمایا:- ”مسلم لیگ تا حال
بے زبان تھی‘ اب اسے زبان مل گئی
نواب بہادر یار آل
انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس اور دیگر خطابات میں میں قائداعظم محمد علی جناح کی تقریر کا اردو میں ترجمہ کیا کرتے تھے
بہترین ترجمانی
کرنے کے باعث قائداعظم نے پھر انہیں اپنا ترجمان مقرر کر دیا تھا ، وہ قائد اعظم
کے معتمد اور دست راست رہے
۔
مسلم لیگ کے مارچ
1940ء اہم اجلاس ہوا جس میں ”قراردادِ پاکستان“ پیش ہوئی ۔ اسی تاریخی اجلاس میں
نواب بہادر یار جنگ نے ایسی سحر انگیز تقریر فرمائی کہ سبھی کو مسحور کر دیا۔ جب
ان کا خطاب ہوچکا تو قائداعظم نے صرف ایک جملے میں انہیں کچھ اس طرح خراجِ تحسینِ
پیش کیا:”بہادر یار جنگ کے بعد کسی اور کا تقریر کرنا غلطی ہو گی
برصغیر کے مسلمانوں کی بہتری کے لیے آخر دم
تک کوشاں رہے۔ آپ نے مجلس اتحاد المسلمین کی بنیاد ڈالی۔ اس جماعت نے ریاست اور
ریاست کے باہر، مسلمانوں کی بہتری کے لیے بڑا کام کیا۔ آپ کا شمار چوٹی کے مقرروں
میں ہوتا ہے۔
نواب بہادر یار
جنگ 25 جون 1944 کو اچانک عارضہ قلب کے سبب
وفات پاگئے ۔۔۔
سردار عبدالرب نشتر
1899-1958
بلاشبہ سردار صاحب کی تمام زندگی احیائے اسلام تحریک پاکستان اور
استحکام پاکستان کی جدوجہد میں بسر ہوئی
اۤپ 1927 سے 1931 تک
آل انڈیا کانگریس کے رکن رہے اور 1929 سے 1938 تک پشاور میونسپل کمیٹی کے کمشنر
رہے۔ بعد میں اۤپ نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور 1932 میں آل
انڈیا مسلم لیگ کی کونسل کے رکن بنے
شاہی قلعہ لاہور کا مرکزی دروازہ عرصہ دراز سے بند تھا ۔ انگریز
مسلم فن تعمیر سے تعصب کے باعث عام لوگوں کےلئے نہیں کھولتے تھے مگر سردار صاحب نے
اسے کھولنے کا حکم جاری کیا
سردار عبدالرب نشتر کا اہم کردار قرارداد مقاصد کی منظوری ہے۔
یہ قرارداد پاکستان کے آئین کا حصہ ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سردار عبدالرب نشتر
پہلی کابینہ میں وزیر مواصلات بنے۔ یہی وہ کا بینہ تھی جس نے میانوالی ہائیڈل پاور
پراجیکٹ کی منظوری دی تھی جو بعد ازاں کالا باغ ڈیم منصوبہ کہلایا۔ سردار عبدالرب
نشتر پنجاب کے دوسرے گورنر تھے۔ بطور گورنر پنجاب آپ2 اگست 1949 تا24 نومبر1951ء
فائز رہے۔
سردار عبدالرب نشتر 14 1958 کو کراچی میں وفات پاگئے
آپ کو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے کہنے پر مزار قائد
کے احاطے میں دفن کیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں سردار عبدالرب نشتر جیسے عظیم
لوگوں کے نقش قدم پر چلنا چاہئے۔۔
حسین سہروردی
1892-1963
حسین سہروردی 1937میں مسلم لیگ میں شامل
ہوگئے اور اسی سال مسلم لیگ کے ٹکٹ پر اسمبلی کی نشست حاصل کی
حسین سہروردی نے مسلمانان برصغیر کے مفادات
اور حقوق کی خاطر بھرپور کام کیا۔آپ نے 1946ءکے انتخابات میں مسلم لیگ کی انتخابی مہم
کو بڑی عمدگی سے منظم کیا۔ حسین سہروردی نے تحریک خلافت میں سرگرم حصہ لیا اور
خلافت کمیٹی کلکتہ کے سیکرٹری بھی رہے
20دسمبر 1954ءکو وزیر قانون بنے۔اگست
1955ءمیں جب مسلم لیگ اور متحدہ محاذ کی مشترکہ وزارت قائم ہوئی تو آپ حزب اختلاف
کے لیڈر منتخب ہوئے۔ جنرل محمد ایوب خان کے مارشل لاءکی سخت مخالفت کی اور ملک میں
جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کا آغاز کیا۔
آپ 1956ء سے 1957ء تک پاکستان کے وزیراعظم
رہے۔ آپ قائد اعظم کے پسندیدہ افراد میں سے تھے۔ 16 اگست، 1946ء کے راست اقدام کے
موقع پر آپ نے شہرت حاصل کی
05دسمبر 1963ءکو بیروت کے ایک ہوٹل میں
انتقال کرگئے انکی تدفین۔ ڈھاکہ
میں ہوئی ۔
میں ہوئی ۔
بیگم رعنا لیاقت علی خان
1905-1990
نامور سماجی شخصیت بیگم رعنا لیاقت علی پاکستان کے پہلے وزیراعظم قائد
ملت لیاقت علی خان کی اہلیہ تھیں
آپ 1933میں نوابزادہ لیاقت علی خاں سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں
بیگم رعنا لیاقت علی ویمن مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کی رکن تھیں۔
قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی بحالی کے لئے خدمات انجام دیں۔ 1949ءمیں ”اپوا“ کی
بنیاد رکھی۔1954ءمیں ہالینڈ میں سفیر مقرر ہوئیں یہ اعزاز پاکستان کی کسی خاتون کو
پہلی مرتبہ نصیب ہوا۔1961ءمیں انہیں اٹلی اور تیونس میں سفیر کیا گیا۔ 1973ءسے
1974ءتک وہ صوبہ سندھ کی گورنر رہیں
………………………..
تحریک آزادی کے ہیرو
تحریک آزادی کے ہیرو
قیام پاکستان
کی تحریک میں جہاں مردوں نےقربانیاں دیں وہیں خواتین کی قربانیوں کو بھی فراموش
نہیں کیا جاسکتا۔۔۔
مادرملت فاطمہ جناح، بیگم
مولانامحمدعلی جوہر،بیگم رعنا لیاقت علی خان، شیریں فاروقی،بیگم شائستہ اکرام
اللہ، بیگم اختر سلیمان ، شہزادی سروری عرفان اللہ،بیگم سلمیٰ تصدق حسین، بیگم جہاں
آرا شاہنواز، بیگم حمید النسا ، بیگم وقار النسانون اورلیڈی ہاورن نے برصغیر کی مسلم خواتین میں آزادی
کے حصول کا شعور بیدار کرکے انہیں قیام پاکستان کی جدوجہد میں فعال کردار
کیلئےمنظم کیا۔۔۔۔
مادرملت فاطمہ جناح نے تحریک پاکستان کے دوران برصغیر کی
مسلم خواتین میں بیداری پیداکی اورانہیں آزادی کی اہمیت سے آگاہ کیا،سہروردی
خاندان سے تعلق رکھنے والی بیگم
شائستہ اکرام اللہ بھی تحریکِ پاکستان میں نامور خاتون رہنما کی حیثیت سے
ابھریں،انڈیا مسلم گرلز فیڈریشن کی تنظیم کا کام آپ کے ذمے تھا طالبات کو منظم
کرنا بڑا دشوار کام تھامگر بیگم شائستہ اکرام اللہ نے اپنےطالب علم ساتھیوں کے
ساتھ مل کرعہد آفرین کارنامے انجام دئیے۔۔
۔
۔
Tehreek Azadi Kai Hero
Reviewed by News Archive to Date
on
August 12, 2017
Rating:
No comments