حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت سے وصال تک ایام پر ایک مختصر نظر


ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ  وسلم ...................۱۲ ربیع الاول ۵۷۱ ء

آپ  کی پیدائش پر معجزات ہوئے جن کا ذکر قدیم آسمانی کتب میں تھا۔ مثلاً آتشکدہ فارس جو ہزار سال سے زیادہ سے روشن تھا بجھ گیا۔ ایک ایسا نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے

صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت مکہ کے علاقے شعب ابی طالب کے جس گھر میں ہوئی وہ بعد میں کافی عرصہ ایک مسجد رہی جسے آج کل ایک کتب خانہ (لائبریری) بنا دیا گیا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر 25 سال تھی۔ جب آپ کی پہلی شادی حضرت خدیجہ علیہا السلام سے ہوئی قریش کی مالدار ترین اور معزز ترین خواتین میں سے تھیں۔ حضرت خدیجہ علیہا السلام سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چار بیٹیاں حضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ پیدا ہوئیں۔

آغاز وحی 

حضرت محمد  غار میں جا کر عبادت کرتے تھے اس غار کو غار حرا کہا جاتا ہے۔ یہاں پر 610ء میں ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام (فرشتہ) ظاہر ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا پیغام دیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کی جانب سے جو پہلا پیغام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچایا وہ یہ ہے۔
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (1) خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) --
اس وقت آپ کی عمر چالیس سال تھی ۔۔۔

شروع ہی میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، آپ کے چچا زاد حضرت علی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قریبی دوست حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ ، اور آپ کے آزاد کردہ غلام اور صحابی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ 
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لے آئے۔

دوسرے حصہ کی شان نزول
ابن عباس کی روایت ہے کہ ابو جہل نے کہا کہ اگر میں نے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو کعبہ کے پاس نماز پڑھتے دیکھ لیا تو ان کی گردن پاؤں تلے دبا دوں گا۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس کی خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ اگر اس نے ایسا کیا تو ملائکہ علانیہ اسے آ پکڑیں گے  ابن عباس سے ایک اور روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مقام ابراہیم پر نماز پڑھ رہے تھے۔ ابو جہل کا ادھر سے گزر ہوا تو اس نے کہا اے محمد! کیا میں نے تم کو اس سے منع نہ کیا تھا؟ اور اس نے آپ کو دھمکیاں دینی شروع کیں۔ جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کو سختی کے ساتھ جھڑک دیا۔ اس پر اس نے کہا اے محمد، تم کس بل پر مجھے ڈراتے ہو۔ خدا کی قسم، اس وادی میں میرے حمایتی سب سے زیادہ ہیں۔ 
انہی واقعات پر اس سورت کا وہ حصہ نازل ہوا جو کلآ ان الانسان لیطغٰی سے شروع ہوتا ہے۔ قدرتی طور پر اس حصے کا مقام وہی ہونا چاہیے تھا جو قرآن کی اس سورت میں رکھا گیا ہے کیونکہ پہلی وہی نازل ہونے کے بعد اسلام کا اولین اظہار حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نماز ہی سے کیا تھا اور کفار سے آپ کی مڈبھیڑ کا آغاز بھی اسی واقعہ سے ہوا تھا۔



619ء میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیوی حضرت خدیجہ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیارے چچا حضرت ابوطالب انتقال فرما گئے۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن یعنی دکھ کا سال قرار دیا۔


620ء میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے۔ اس سفر کے دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ سے مسجد اقصیٰ گئے اور وہاں تمام انبیائے کرام کی نماز کی امامت فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آسمانوں میں اللہ تعالٰی سے ملاقات کرنے تشریف لے گئے۔ وہاں اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جنت اور دوزخ دکھائی۔ وہاں آپ کی ملاقات مختلف انبیائے کرام سے بھی ہوئی۔ اسی سفر میں نماز بھی فرض ہوئی


مدنی دور:
ہجرت کا پہلا سال  
622ء تک مسلمانوں کے لئے مکہ میں رہنا ممکن نہیں رہا تھا۔ کئی دفعہ مسلمانوں اور خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تکالیف دیں گئیں۔ اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ کے حکم سے حضرت ابوبکر کے ساتھ ستمبر 622ء میں مدینہ کی طرف روانہ ہوئے

غار ثور
مکہ معظمہ کی دائیں جانب تین میل کے فاصلے پر ثور پہاڑ میں واقع ہے۔ رسول نے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کی تو یکم ربیع الاول سے تین دن تک یہاں قیام کیا ۔ قرآن میں ہجرت کا بیان کرتے ہوئے جس غار کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ جناب حضرت ابوبکر صدیق بھی تھے۔ اسی لیے انہیں یار غار کہتے ہیں۔

چار ربیع الاول کو مدینہ کی جانب روانہ ہوئے اور پیر یا جمعرات کے دن آپ صلی الله علیہ وسلم قبا پہنچے اور حضرت کلثوم ابن ہدم کے مکان میں  چار روز قیام کیا
اسلام کی پہلی مسجد قبا کی بنیاد رکھی ۔۔۔۔

مدینہ میں اپنی جگہ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کو امانتوں کی واپسی کے لیے چھوڑا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مدینہ پہنچنے پر انصار نے ان کا شاندار استقبال کیا اور اپنے تمام وسائل پیش کر دیے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ پہنچے تو انصار استقبال کے لیے آئے اور خواتین چھتوں پر سے دیکھ رہی تھیں۔ اور دف بجا کر کچھ اشعار پڑھ رہی تھیں جن کا ترجمہ یہ ہے۔


اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے مکان پر بیٹھی جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات ماہ قیام فرمایا................یکم ہجری
جس جگہ اونٹنی رکی تھی اسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قیمتاً خرید کر ایک مسجد کی تعمیر شروع کی جو مسجد نبوی کہلائی۔ اس تعمیر میں انہوں نے خود بھی حصہ لیا۔

٭... دور اسلام کا پہلا جمعہ محلہ بنی سالم میں ادا کیا، اس وقت عمر مبارک53 سال4 دن تھی۔
٭... مسجد نبوی کی تعمیر کی گئی اور انصار ومہاجرین کے درمیان رشتہٴ مواخاة قائم کیا گیا۔
٭... اذان واقامت کی ابتدا ہوئی۔
٭... زکوٰة فرض ہوئی۔
٭... قریش مکہ کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم دیا گیا:﴿أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرٌ﴾ ( الحج:39) (الکامل فی التاریخ،ج2،ص:75 تا77)
٭... حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی رُخصتی ہوئی- (وبنی بعائشة رضی الله عنہا بعد مقدمہ بتسعة أشھر النص الکامل، امتاع الإسماع:65)
٭... ہجرت کے چھ ماہ بعد شوال میں حضرت عبدالله بن زبیر رضی الله عنہ کی پیدائش ہوئی۔ یہ مدینہ میں پیدا ہونے والے پہلے بچے ہیں۔(عہد نبوت کے ماہ وسال،ص:160)

'میثاق مدینہ'
مدینہ میں  کچھ یہودیوں کے قبائل بھی تھے جو ہمیشہ فساد کا باعث تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آنے کے بعد یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والے معاہدہ 'میثاق مدینہ' نے مدینہ میں امن کی فضا پیدا کر دی۔ اسی دور میں مسلمانوں کو کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا، اس سے پہلے مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے جو کہ یہودیوں کا بھی قبلہ تھا

میثاق مدینہ کو بجا طور پر تاریخ انسانی کا پہلا تحریری دستور قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ 730 الفاظ پر مشتمل ایک جامع دستور ہے جو ریاست مدینہ کا آئین تھا۔ 622ء میں ہونے والے اس معاہدے کی 53دفعات تھیں۔ یہ معاہدہ اور تحریری دستور مدینہ کے قبائل (بشمول یہود و نصاریٰ) کے درمیان جنگ نہ کرنے کا بھی عہد تھا

ہجرت کے دوسرے سال
٭... حضرت رقیہ رضی الله عنہا بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم کا انتقال ہوا۔
٭...مدینہ تشریف آوری کے ٹھیک ستر دن بعد رجب میں بروز منگل ”تحویل قبلہ“ کا حکم ہوا بقول بعض شعبان2ھ۔
٭...تحویل قبلہ کے ایک ماہ بعد رمضان المبارک کے ”روزے“ فرض ہوئے۔
٭... اسی سال ”عیدین کی نمازوں“ اور صدقہٴ فطر کا بھی حکم آیا۔
٭...اسی سال رمضان میں ” غزوہٴ بدر کبریٰ“ ہوا۔
٭... حضرت ”فاطمہ رضی الله عنہا بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم کا نکاح حضرت علی کرم الله وجہ سے ہوا۔ (النص الکامل، رہبر وراہ نماص:67-101)
غزوہ بدر
 : 17 رمضان 2ھ (17 مارچ 624ء) کو بدر کے مقامات پر مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان غزوہ بدر ہوئی۔ مسلمانوں کی تعداد 313 جبکہ کفار مکہ کی تعداد 1300 تھی۔ مسلمانوں کو جنگ میں فتح ہوئی۔ 70 مشرکینِ مکہ مارے گئے جن میں سے 36 حضرت علی علیہ السلام کی تلوار سے ہلاک ہوئے۔ مشرکین 70 جنگی قیدیوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ مسلمان شہداء کی تعداد 14 تھی۔ جنگ میں فتح کے بعد مسلمان مدینہ میں ایک اہم قوت کے طور پر ابھرے۔

ہجرت کے تیسرے سال
٭... حضرت حفصہ رضی الله عنہا او رحضرت زینب بنت خزیمہ رضی الله عنہا سے اسی سال نکاح ہوا۔
٭... اسی سال بروز پیر 7 شال کو ”غزوہ احد “ پیش آیا۔ رئیس المنافقین عبدالله بن ابی ایک تہائی لشکر کو الگ کرکے مدینہ لے گیا۔
٭... اسی سال ”نوحہ “ کی حرمت کا حکم آیا۔
٭...”واقعہ رجیع“ پیش آیا، جس میں ستر صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین کو شہید کیا گیا۔
٭...غزوہ حمراء الأسد پیش آیا۔ ( تہذیب سیرة ابن ہشام، ص:197-176)

غزوہ احد
:7 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں ابوسفیان کفار کے 3000 نفری لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہوا۔ احد کے پہاڑ کے دامن میں ہونے والی یہ جنگ غزوہ احد کہلائی۔ آپ نے مسلمانوں کے ایک گروہ کو ایک ٹیلے پر مقرر فرمایا تھا اور یہ ہدایت دی تھی کہ جنگ کا جو بھی فیصلہ ہو وہ اپنی جگہ نہ چھوڑیں۔ ابتدا میں مسلمانوں نے کفار کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ ٹیلے پر موجود لوگوں نے بھی یہ سوچتے ہوئے کہ فتح ہو گئی ہے کفار کا پیچھا کرنا شروع کر دیا یا مالِ غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ خالد بن ولید نے جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اس بات کا فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں پر پچھلی طرف سے حملہ کر دیا۔ یہ حملہ اچانک تھا۔ مسلمانوں کو اس سے کافی نقصان ہوا لیکن کفار چونکہ پیچھے ہٹ چکے تھے اس لئے واپس چلے گئے۔ اس جنگ سے مسلمانوں کو یہ سبق ملا کہ کسی بھی صورت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی نہ کریں۔

ہجرت کے چوتھے سال
٭... غزوہ بنو نضیر پیش آیا۔
٭... اسی سال ربیع الاول میں ”شراب“ کی حرمت کا حکم نازل ہوا۔
٭...اسی سال ”صلوة الخوف“ اور ”صلوة القصر“ کا حکم نازل ہوا۔
٭... سیدناحسین بن علی رضی الله عنہ کی پیدائش ہوئی۔
٭... اسی سال ذوالقعدہ میں زینب بنت جحش رضی الله عنہا کے دن”شرعی پردہ“ کا حکم نازل ہوا۔ (تہذیب سیرة ابن ہشام، ص:212-202)

ہجرت کے پانچویں سال
٭... اسی سال غزوہٴ خندق پیش آیا اور پھر غزوہ بنو قریظہ، غزوہ بنی المصطلق اور غزوہ دومة الجندل پیش آیا۔
٭...واقعہ افک پیش آیا اور حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی براء ت میں قرآن پاک کی آیات نازل ہوئیں۔
٭...تیمم کا حکم نازل ہوا۔(تہذیب سیرة ابن ہشام، ص:243-213
ہجرت کے پانچویں سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے شادی کی)

غزوہ خندق
 شوال۔ ذی القعدہ 5ھ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی مگر مسلمانوں نے حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے کئی افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ بعض روایات کے مطابق ایک آندھی نے مشرکین کے خیمے اکھاڑ پھینکے۔

غزوہ بنی قریظہ: ذی القعدہ ۔ ذی الحجہ 5ھ (اپریل 627ء) کو یہ جنگ ہوئی۔ مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔
غزوہ بنی مصطلق: شعبان 6ھ (دسمبر 627ء۔ جنوری 628ء) میں یہ جنگ بنی مصطلق کے ساتھ ہوئی۔ مسلمان فتح یاب ہوئے۔

ہجرت کے چھٹے سال
٭...صلح حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا۔
٭... آپ صلی الله علیہ وسلم نے شاہانِ عالم کی طرف دعوتی خطوط تحریر فرمائے، اسی سال نجاشی شاہ حبشہ اسلام لایا۔
٭... اسی سال مقام حدیبیہ میں کیکر کے درخت کے نیچے بیعت رضوان ہوئی۔ (تہذیب سیرة ابن ہشام، ص:255-250)
صلح حدیبیہ
مدینہ اورمشرکینِ مکہ کے درمیان مارچ 628ء کو ایک معاہدہ ہوا جسے صلح حدیبیہ (عربی میں صلح الحديبيۃ) کہتے ہیں۔ 628ء (6 ھجری) میں 1400 مسلمانوں کے ہمراہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ سے مکہ کی طرف عمرہ کے ارادہ سے روانہ ہوئے۔ عرب کے رواج کے مطابق غیر مسلح افراد چاہے وہ دشمن کیوں نہ ہوں کعبہ کی زیارت کر سکتے تھے جس میں رسومات بھی شامل تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمان تقریباًًًًً غیر مسلح تھے۔ مگر عرب کے رواج کے خلاف مشرکینِ مکہ نے حضرت خالد بن ولید (جو بعد میں مسلمان ہو گئے) کی قیادت میں دو سو مسلح سواروں کے ساتھ مسلمانوں کو حدیبیہ کے مقام پر مکہ کے باہر ہی روک لیا۔ اس وقت تک مسلمان انتہائی طاقتور ہو چکے تھے مگر یہ یاد رہے کہ اس وقت مسلمان جنگ کی تیاری کے ساتھ نہیں آئے تھے۔ اسی لیے بعض لوگ چاہتے تھے کہ جنگ ضرور ہو۔ خود مسلمانوں میں ایسے لوگ تھے جن کو معاہدہ کی شرائط پسند نہیں تھیں۔ مثلاً اگر کوئی مسلمان مکہ کے لوگوں کے کے پاس چلا جائے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا مگر کوئی مشرک مسلمان ہو کر اپنے بزرگوں کی اجازت کے بغیر مدینہ چلا جائے تو اسے واپس کیا جائے گا۔ مگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دانشمندی سے صلح کا معاہدہ ہو گیا۔ اس کی بنیادی شق یہ تھی کہ دس سال تک جنگ نہیں لڑی جائے گی اور مسلمان اس سال واپس چلے جائیں گے اور عمرہ کے لیے اگلے سال آئیں گے۔ چنانچہ مسلمان واپس مدینہ آئے اور پھر 629ء میں حج کیا۔ اس معاہدہ سے پہلے جب مسلمانوں کے ایک نمائندے کو مشرکین نے روک لیا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں سے اپنی بیعت بھی لی جسے بیعتِ رضوان کہا جاتا ہے۔ اس بیعت میں مسلمانوں نے عہد کیا کہ وہ مرتے دم تک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ اس معاہدہ کے بہت سود مند اثرات برآمد ہوئے۔

صلح حدیبیہ کے بعد محرم 7ھ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مختلف حکمرانوں کو خطوط لکھے اور اپنے سفیروں کو ان خطوط کے ساتھ بھیجا۔ ان خطوط میں اسلام کی دعوت دی گئی۔ ان میں سے ایک خط ترکی کے توپ کاپی نامی عجائب گھر میں موجود ہے۔ ان حکمرانوں میں فارس کا بادشاہ خسرو پرویز، مشرقی روم (بازنطین) کا بادشاہ ھرکولیس، حبشہ کا بادشاہ نجاشی، مصر اور اسکندریہ کا حکمران مقوقس اور یمن کا سردار شامل ہیں

ہجرت کے ساتویں سال
٭... غزوہ خیبر اور غزوہ ذات الرقاع پیش آیا۔
٭... اسی سال آپ صلی الله علیہ وسلم نے عمرة القضاء ادا کیا، جیسے عمرة القصاص، عمرة الصلح اور عمرة القضیہ بھی کہا جاتا ہے۔
٭...اسی سال محرم وصفر کے مابین غزوہ خیبر کے ایام میں یمن سے ابوہریرہ رضی الله عنہ کا قبیلہ دوس کا وفد بارگاہ نبوی میں حاضر ہوا اور ستر اسی گھرانوں کے چار سو افراد نے اسلام قبول کیا۔
٭...اسی سال گدھوں کے گوشت اور پنجوں سے شکار کرنے والے پرندوں کی حرمت کا حکم فرمایا۔ (النص الکامل، اصح السیر ص:227/253)


غزوہ خیبر: محرم 7ھ (مئی 628ء) میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ جنگ ہوئی جس میں مسلمان فتح یاب ہوئے۔
جنگِ موتہ: 5 جمادی الاول 8ھ (اگست ۔ ستمبر 629ء) کو موتہ کے مقام پر یہ جنگ ہوئی۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریک نہیں ہوئے تھے اس لیے اسے غزوہ نہیں کہتے۔

ہجرت کے آٹھویں سال
٭... سال کے آغاز میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی سب سے بڑی صاحب زادی حضرت زینب رضی الله عنہاکا انتقال ہوا، ان کی ولادت سن30 میلادی میں ہوئی، نبوت سے دس سال قبل۔
٭...اسی سال فتح مکہ ہوا اور ہجرت کرنے کی فرضیت کا حکم منسوخ ہوا۔
٭...غزوہ حنین اور غزوہ طائف بھی اسی سال پیش آیا۔
٭... غزوہ موتہ پیش آیا ، یہ جزیرہٴ عرب سے باہر پہلا معرکہ تھا۔ (النص الکامل، سیرة المصطفی ج2،ص:419/274)

فتح مکہ
 رمضان 8ھ (جنوری 630ء) میں مسلمانوں نے مکہ فتح کیا۔ جنگ تقریباًًًًً نہ ہونے کے برابر تھی  اس جنگ میں دس ہزار مجاہدین نے حصہ لیا تھا کیونکہ مسلمانوں کی ہیبت سے مشرکینِ مکہ ڈر گئے تھے۔ اس کے بعد مکہ کی اکثریت مسلمان ہو گئی تھی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عام معافی کا اعلان کیا۔ ایک چھوٹی سے جھڑپ کے علاوہ تمام کارروائی پر امن انداز سے مکمل ہو گئی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فاتح بن کر مکہ میں داخل ہو گئے۔ داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے آپ نے کعبہ میں موجود تمام بت توڑ ڈالے اور شرک وبت پرستی کے خاتمے کا اعلان کیا۔

غزوہ حنین: شوال 8ھ (جنوری ۔ فروری 630ء) میں یہ جنگ ہوئی۔ پہلے مسلمانوں کو شکست ہو رہی تھی مگر بعد میں وہ فتح میں بدل گئی۔

ہجرت کے نویں سال
٭...غزوہ تبوک پیش آیا۔
٭... اس سال کو ”عام الوفود“ کہا جاتا ہے ، ستر سے زائد وفود آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
٭...اسی سال شعبان میں حضرت اُم کلثوم رضی الله عنہا کا انتقال ہوا۔
٭... اسی سال عبدالله بن ابی ابن سلول رئیس المنافقین کی موت ہوئی۔ (خذلھم الله) (تاریخ اسلام،ص:164)

غزوہ تبوک: رجب 9ھ (اکتوبر 630ء) میں یہ افواہ پھیلنے کے بعد کہ بازنطینیوں نے ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کے محاذ پر رکھی ہے اور کسی بھی وقت حملہ کیا جا سکتا ہے، مسلمان ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کی طرف تبوک کے مقام پر چلے گئے۔ وہاں کوئی دشمن فوج نہ پائی اس لیے جنگ نہ ہو سکی مگر اس علاقے کے کئی قبائل سے معاہدے ہوئے اور جزیہ ملنے لگا اور مسلمانوں کی طاقت کے چرچے عرب میں دور دور تک ہو گئے۔

ہجرت کے دسویں سال
٭... اس سال آپ صلی الله علیہ وسلم نے حج ادا کیا، جسے حجة الوداع، حجة الاسلام،حجة التمام اور حجة الکمال کہا جاتا ہے۔
٭...اسی سال آپ صلی الله علیہ وسلم نے عرفہ کے دن میدان عرفات میں ایک عظیم و بلیغ خطبہ دیا ،جسے ” خطبہ حجة الوداع“ کہا جاتا ہے اور خطبہٴ عرفات کے دوران یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:﴿ الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْنا﴾  (المائدہ:3)
٭...مسیلمہ کذاب اور أسود عنسی نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ (تہذیب سیرة ابن ہشام،ص:370-368)٭...اسی سال دس ربیع الاول کور بروز منگل ، بقول بعض اواخرِ ذوالحجہ میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے صاحب زادے حضرت ابراہیم رضی الله عنہ کی اٹھارہ یا چوبیس ماہ کی عمر میں وفات ہوئی۔

ہجرت کے گیارہویں سال
٭...آپ صلی الله علیہ وسلم بدھ کے دن 30 صفر کو علیل ہوئے ، مرض کی مدت13 روز تھی۔
٭...اسی سال وصال سے چار روزپہلے 9 ربیع الاول شب جمعہ کو حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا اور باقی تین روز بھی صدیق اکبر رضی الله عنہ ہی امام رہے اور سترہ نمازیں پڑھائیں۔
٭...اسی سال مدینہ میں  آپ صلى الله عليه وسلم کا وصال بقول مشہور 12 ربیع الاول پیر کے دن، چاشت یا زوال آفتاب کے وقت 632 ء ، تریسٹھ63 سال کی عمر مبارک میں ہوا۔
٭...آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی قبر مبارک ٹھیک اسی جگہ تیار کی گئی جہاں حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے گھر میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا بستر لگا ہوتا تھا۔
٭...12 ربیع الاول11ھ آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے روز حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سے بیعت خلافت ہوئی۔
٭...اسی سال آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے چھ ماہ بعد حضرت فاطمة الزہراء رضی الله عنہا کا 29 یا 24 سال کی عمر میں منگل کی شب 3 رمضان المبارک11ھ کو انتقال ہوا۔ (النص الکامل/ إمتاع الأسماع، ص:392-383)

حجة الوداع
حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی کا آخری حج سن 10ھ میں کیا۔ اسے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔ آپ 25 ذی القعدہ 10ھ (فروری 632ء) کو مدینہ سے روانہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج آپ کے ساتھ تھیں۔ مدینہ سے 9 کلومیٹر دور ذوالحلیفہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے احرام پہنا۔ دس دن بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ پہنچ گئے۔ حج میں مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ تھی۔ عرفہ کے دن ایک خطبہ دیا اور اس سے اگلے دن منیٰ میں ایک یادگار خطبہ دیا جو خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے۔ اس خطبہ میں انہوں نے اسلامی تعلیمات کا ایک نچوڑ پیش کیا اور مسلمانوں کو گواہ بنایا کہ انہوں نے پیغامِ الٰہی پہنچا دیا ہے۔ اور یہ بھی تاکید کی کہ یہ باتیں ان لوگوں کو بھی پہنچائی جائیں جو اس حج میں شریک نہیں ہیں۔ اس خطبہ میں انہوں نے یہ فرمایا کہ شاید مسلمان انہیں اس کے بعد نہ دیکھیں۔ انہوں نے فرمایا کہ مسلمان پر دوسرے مسلمان کا جان و مال حرام ہے۔ اور یہ بھی کہ نسل کی بنیاد پر کسی کو کسی پر فوقیت نہیں ہے۔ انہوں نے اسلام کے حرام و حلال پر بھی روشنی ڈالی۔ خطبہ کے آخر میں انہوں نے تاکید کی کہ جو حاضر ہے وہ غائب تک اس پیغام کو پہنچائے۔ ان دو خطبات کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غدیرِ خم کے 
مقام پر بھی خطبہ دیا جو خطبہ غدیر کے نام سے مشہور ہے۔
 اس حج کے تقریباًًًًً تین ماہ بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا سے پردہ فرماگئے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت

مشہور اسما النبی کے معنی


حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رشتہ دار




ازواج مطہرات
























(1) میرے پیا رے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عالم شباب میں (25 سال کی عمر میں) ایک سن رسیدہ بیوہ خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر 40 سال تھی اور جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا زندہ رہیں آپ نے دوسری شادی نہیں کی۔

50 سال کی عمر تک آپ نے ایک بیوی پر قناعت کی۔
(اگر کسی شخص میں نفسانی خواہشات کا غلبہ ہو تو وہ عالم ِ شباب کے 25 سال ایک بیوہ خاتون کے ساتھ گزارنے پر اکتفا نہیں کرتا)

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد مختلف وجوہات کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے متعدد نکاح کئے۔

حضورصلی اللہ علیہ والہہ وسلم  نے گیارہ شادیاںوں میں سے سوائے ایک کے 
سب بیوگان تھیں
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی رخصتی ہجرت کے دو سال بعد ہوئی۔۴۳؂ یہ شادی ہجرت سے چند سال پہلے نکاح کی صورت میں ہوچکی تھی
جنگ اُحد میں ستر صحابہ رضی اللہ عنہم شہید ہوئے, نصف سے زیادہ گھرانے بے آسرا ہوگئے، بیوگان اور یتیموں کا کوئی سہارا نہ رہا, اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے
سورۂ نساء کی ابتدائی آیات نے ان کی اس مشکل کا ایک حل تجویز کیا اور ان میں وہ طریقہ بتایا جس سے اس مسئلے کو حل کیا جاسکتا تھا۔
’’اے پیغمبر( صلی اللہ علیہ وسلم)، ہم نے تمھاری وہ بیویاں تمھارے لیے جائز ٹھہرائی ہیں جن کے مہر تم ادا کرچکے ہو اور (اسی طرح)وہ (خاندانی) عورتیں جو (تمھارے کسی جنگی اقدام کے نتیجے میں) اللہ تمھارے قبضے میں لے آئے اور تمھاری وہ چچا زاد، پھوپھی زاد، ماموں زاد اور خالہ زاد بہنیں جنھوں نے تمھارے ساتھ ہجرت کی ہے اور وہ مسلمان عورت جواپنے آپ کو نبی کے لیے ہبہ کردے، اگر نبی اس سے نکاح کرنا چاہے۔ یہ حکم دوسرے مسلمانوں سے الگ صرف آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے خاص ہے۔ ہم کو معلوم ہے جو کچھ ہم نے ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے معاملے میں ان پر فرض کیا ہے۔(اس لیے خاص ہے)کہ اپنی ذمہ داریوں کے ادا کرنے میں) تم پر کوئی تنگی نہ رہے۔ اور (اگر کوئی کوتاہی ہو تو)اللہ بخشنے والا ہے، اس کی شفقت ابدی ہے۔ تمھیں اختیار ہے کہ ان میں سے جسے چاہو، الگ رکھو اور جسے چاہو، ساتھ رکھو، اور جسے چاہو الگ رکھنے کے بعد اپنے پاس بلا لو۔ اس معاملے میں تم پر کوئی مضائقہ نہیں۔

عرب میں ایک سے زیادہ شادیوں کا رواج اس مسئلے کے حل کے لیے استعمال کیا گیا۔ قرآن مجید نے مسلمان مردوں کو ترغیب دی کہ وہ ان بیوہ خواتین سے شادی کریں ، لیکن شرط یہ ہے کہ سب کے ساتھ عدل اور یکساں سلوک کریں، اور شادیاں چار سے زیادہ نہ کریں ۔ 

 نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بیوگان سے شادی کرنے کو کہا، لوگوں کو ترغیب دینے کے لیے آپ صلی اللہ 
علیہ و سلم نے,

(2) حضرت سودہ رضی اللہ عنہا

(3) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا
اور
(4)حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا سے مختلف اوقات میں نکاح کیے۔

ضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی رخصتی ہجرت کے دو سال بعد ہوئی۔۴۳؂ یہ شادی ہجرت سے چند سال پہلے نکاح کی صورت میں ہوچکی تھی

آپ کی دیکھا دیکھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی بیوگان سے شادیاں کیں جس کی وجہ سے بے آسرا گھرانے آباد ہوگئے-

(5) عربوں میں کثرت ازواج کا رواج تھا۔
شادی کے ذریعے قبائل کو قریب لانا اور اسلام کے فروغ کا مقصد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیش نظر تھا۔

عربوں میں دستور تھا کہ جو شخص ان کا داماد بن جاتا, اس کے خلاف جنگ کرنا اپنی عزت کے خلاف سمجھتے۔

ابوسفیان رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا شدید ترین مخالف تھا, مگر جب ان کی بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا نکاح ہوا تو یہ دشمنی کم ہو گئی۔

ہوا یہ کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا شروع میں مسلمان ہو کر اپنے مسلمان شوہر کے ساتھ حبشہ ہجرت کرگئیں، وہاں ان کا خاوند نصرانی ہوگیا۔
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے اس سے علیحدگی اختیار کی اور بہت مشکلات سے گھر پہنچیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی دلجوئی فرمائی اور بادشاہ حبشہ کے ذریعے ان سے نکاح کیا.

(6) حضرت جویریہ رضی اللہ عنہ کا والد قبیلہ بنومصطلق کا سردار تھا۔
یہ قبیلہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان رہتا تھا ۔

حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس قبیلہ سے جہاد کیا، ان کا سردار مارا گیا۔

حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا قید ہو کر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے مشورہ کرکے سردار کی بیٹی کا نکاح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا اور اس نکاح کی برکت سے اس قبیلہ کے سو گھرانے آزاد ہوئے اور سب مسلمان ہو گئے۔

(7) خیبر کی لڑائی میں یہودی سردار کی بیٹی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا قید ہو کر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے مشورے سے ان کا نکاح حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے کرا دیا۔

(8) اسی طر ح حضرت میمونہ رضی الله عنہا سے نکاح کی وجہ سے نجد کے علاقہ میں اسلام پھیلا۔

ان شادیوں کا مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب آسکیں، اخلاقِ نبی کا مطالعہ کر سکیں تاکہ انہیں راہ ہدایت نصیب ہو۔

(9) حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا سے نکاح بھی اسی سلسلہ کی کڑی تھا۔
آپ پہلے مسیحی تھیں اور ان کا تعلق ایک شاہی خاندان سے تھا۔
ان کو بازنطینی بادشاہ شاہ مقوقس نے بطور ہدیہ کے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں بھیجا تھا۔

(10) حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح متبنی کی رسم توڑنے کے لیے کیا۔

حضرت زید رضی الله عنہ حضور صلی الله علیہ و سلم کے متبنی (منہ بولا بیٹا) کہلاتے تھے،

ان کا نکاح حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے ہوا, مناسبت نہ ہونے پر حضرت زید رضی الله عنہ نے انہیں طلاق دے دی تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے نکاح کر لیا اور ثابت کر دیا کہ متبنی ہرگز حقیقی بیٹے کے ذیل میں نہیں آتا.

(11) علوم اسلامیہ کا سر چشمہ قرآنِ پاک اور حضور اقدس صلی الله علیہ و سلم کی سیرت پاک ہے۔

آپ صلی الله علیہ و سلم کی سیرت پاک کا ہر ایک پہلو محفوظ کرنے کے لیے مردوں میں خاص کر اصحاب ِصفہ رضی الله عنہم نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

عورتوں میں اس کام کے لیے ایک جماعت کی ضرورت تھی۔ ایک صحابیہ سے کام کرنا مشکل تھا

۔ اس کام کی تکمیل کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے متعدد نکاح کیے۔

آپ نے حکما ً ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہما کو ارشاد فرمایا تھا کہ ہر اس بات کو نوٹ کریں جو رات کے اندھیرے میں دیکھیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جو بہت ذہین، زیرک اور فہیم تھیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نسوانی احکام و مسائل کے متعلق آپ کو خاص طور پر تعلیم دی۔

حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 45 سال تک زندہ رہیں اور 2210 احادیث آپ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں۔

صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اجمعین فرماتے ہیں کہ جب کسی مسئلے میں شک ہوتا ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کا علم ہوتا۔

اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایات کی تعداد 368 ہے۔


ان حالا ت سے ظاہر ہوا کہ ازدواجِ مطہرات رضی اللہ عنہا کے گھر، عورتوں کی دینی درسگاہیں تھیں کیونکہ یہ تعلیم قیامت تک کے لیے تھی اور ساری دنیا کے لیے تھی اور ذرائع ابلاغ محدود تھے، اس لیے کتنا جانفشانی سے یہ کام کیا گیا ہو گا، اس کا اندازہ آج نہیں لگایا جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قیمتی فرمان


وفات

وفات کا منظر


اسمائے نبی سے مراد عام طور پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے 99 صفاتی نام ہیں، جن سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پکارا جاتا ہے۔ وہ نام یہ ہیں۔
  1. عادل
  2. عالم
  3. عبد الله
  4. ابوالقاسم
  5. ابو الطاہر
  6. ابوالطیب
  7. ابو ابراہیم
  8. عفو
  9. احید [حوالہ درکار] اُمی
  10. طہ
  11. احمد
  12. اجیر
  13. علم الایمان
  14. علم الیقین
  15. علم الہدیٰ
  16. علیم
  17. امین
  18. النجم الثاقب
  19. عاقب
  20. عربی
  21. اول
  22. عین الغر
  23. عین النعیم
  24. عزیز
  25. بالغ
  26. بار
  27. بشیر
  28. بیان
  29. ب رہان
  30. بشریٰ
  31. داع
  32. دلیل الخیرات
  33. فاتح
  34. فاضل
  35. فصیح اللسان
  36. فتاح
  37. غنی
  38. غریب
  39. غوث
  40. غیث
  41. غیاث
  42. ہاد
  43. حبیب الله
  44. حبیب
  45. حفی
  46. حافظ
  47. حکیم
  48. حامد
  49. حمید
  50. حق
  51. حریص علیکم
  52. ہاشم
  53. حاشر
  54. ہاشمی
  55. ہدیۃ الله
  56. حجازی
  57. حزب الله
  58. ہدی
  59. حجۃ
  60. اکلیل
  61. امام
  62. امام المتقین
  63. عز العرب
  64. جامع
  65. جبار
  66. جواد
  67. کاف
  68. کامل
  69. کاشف الکرب
  70. کفیل
  71. کلیم الله
  72. کریم
  73. خلیل الرحمٰن
  74. خلیل
  75. خاتم الانبیآء
  76. خاتم النبیین
  77. خاتم الرسل
  78. خطیب الامم
  79. خطیب
  80. خاتم
  81. ماح
  82. مدنی
  83. مدعو
  84. مہد
  85. مہدی
  86. محمود
  87. مکین
  88. مخصوص بالعز
  89. مخصوص بالمجد
  90. مخصوص بالشرف
  91. معلوم
  92. مامون
  93. منصور
  94. معراج
  95. مشہود
  96. مشکور
  97. متین
  98. موصول
  99. مفتاح

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائل مبارکہ

''اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہاری مانند تیزی سے مسلسل کلام نہیں فرماتے تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس طرح کلام فرماتے کہ کلام کے درمیان وقفہ ہوتا تھا اور پاس بیٹھنے والا شخص اُسے (صرف سن کر) یاد کر لیتا تھا۔''


’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تمام لوگوں سے بڑھ کر خوبصورت چہرے والے تھے، رنگ مبارک کے اعتبار سے بھی سب سے زیادہ نورانی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا کسی نے بھی وصف بیان نہیں کیا جو ہم تک پہنچا ہے مگر اُس نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چہرئہ انور کو چودھویں کے چاند کے ساتھ تشبیہ دی ہے، اُن میں سے کہنے والا کہتا تھا: شاید ہم نے چودہویں رات کا چاند دیکھا اور کہا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہماری نظروں میں چودہویں کے چاند سے بھی بڑھ کر خوبصورت ہیں، جگمگاتی رنگت والے، نورانی مکھڑے والے ہیں جو ایسے چمکتا ہے جیسے چودہویں رات کا چاند چمکتا ہے۔‘‘


حسن سراپائے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)



 آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے سیدنا اِمام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ اپنے ماموں حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :


’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عظیم المرتبت اور بارعب تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ اقدس چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا تھا، قد مبارک متوسط قد والے سے کسی قدر طویل تھا لیکن لمبے قد والے سے نسبتاً پست تھا۔ سرِ اقدس اعتدال کے ساتھ بڑا تھا، بال مبارک قدرے بل کھائے ہوئے تھے، سر کے بالوں میں سہولت سے مانگ نکل آتی تو رہنے دیتے ورنہ مانگ نکالنے کا اہتمام نہ فرماتے، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال مبارک زیادہ ہوتے تو کانوں کی لو سے متجاوز ہو جاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ مبارک چمکدار، پیشانی کشادہ، ابرو خمدار، باریک اور گنجان تھے، ابرو مبارک جدا جدا تھے، ایک دُوسرے سے ملے ہوئے نہیں تھے۔ دونوں کے درمیان ایک مبارک رگ تھی جو حالتِ غصہ میں ابھر آتی۔ بینی مبارک مائل بہ بلندی تھی اور اُس پر ایک چمک اور نور تھا، جو شخص غور سے نہ دیکھتا وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلند بینی والا خیال کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک گھنی تھی، رخسار مبارک ہموار (اور ہلکے) تھے، دہن مبارک اِعتدال کے ساتھ فراخ تھا، سامنے کے دانتوں میں قدرے کشادگی تھی۔ سینے سے ناف تک بالوں کی ایک باریک لکیر تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن مبارک اتنی خوبصورت اور باریک تھی (جیسے کسی گوہرِ آبدار کو تراشا گیا ہو اور) وہ رنگ و صفائی میں چاندی کی طرح سفید اور چمکدار تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعضاء مبارک پُرگوشت اور معتدل تھے اور ایک دُوسرے کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھے۔ پیٹ اور سینہ مبارک ہموار تھے (لیکن) سینۂ اقدس فراخ (اور قدرے اُبھرا ہوا) تھا، دونوں شانوں کے درمیان مناسب فاصلہ تھا۔ جوڑوں کی ہڈیاں قوی تھیں، بدن مبارک کا جو حصہ کپڑوں سے باہر ہوتا روشن نظر آتا۔ ناف اور سینہ کے درمیان ایک لکیر کی طرح بالوں کی باریک دھاری تھی (اور اس لکیر کے علاوہ) سینۂ اقدس اور بطن مبارک بالوں سے خالی تھے، البتہ بازوؤں، کندھوں اور سینہ مبارک کے بالائی حصہ پر کچھ بال تھے، کلائیاں دراز تھیں اور ہتھیلیاں فراخ، نیز ہتھیلیاں اور دونوں قدم پُرگوشت تھے، ہاتھ پاؤں کی انگلیاں تناسب کے ساتھ لمبی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تلوے قدرے گہرے اور قدم ہموار اور ایسے صاف تھے کہ پانی ان سے فوراً ڈھلک جاتا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلتے تو قوت سے قدم اٹھاتے مگر تواضع کے ساتھ چلتے، زمین پر قدم آہستہ پڑتا نہ کہ زور سے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سبک رفتار تھے اور قدم ذرا کشادہ رکھتے، (چھوٹے چھوٹے قدم نہیں اٹھاتے تھے)۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلتے تو یوں محسوس ہوتا گویا بلند جگہ سے نیچے اتر رہے ہیں۔ جب کسی طرف توجہ فرماتے تو مکمل متوجہ ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر پاک اکثر جھکی رہتی اور آسمان کی نسبت زمین کی طرف زیادہ رہتی، گوشۂ چشم سے دیکھنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادتِ شریفہ تھی (یعنی غایتِ حیا کی وجہ سے آنکھ بھر کر نہیں دیکھتے تھے)، چلتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنھم کو آگے کر دیتے اور جس سے ملتے سلام کہنے میں خود ابتدا فرماتے۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی پسندہ غزائیں 

حضورﷺ كا کھانے پینے کا ذوق بہت نفیس تھا، گوشت سے خاص رغبت تھی، زیادہ ترجیح دست، گردن اور پیٹھ کے گوشت کو دیتے، نیز پہلو کی ہڈی پسند تھی، ثرید (گوشت کے شوربہ میں روٹی کے ٹکڑے بھگو کر یہ مخصوص عربی کھانا تیار کیا جاتا تھا) تناول فرمانا مرغوب تھا، پسندیدہ چیزوں میں شہد، سرکہ، خربوزہ، ککڑی، لوکی، کھچڑی، مکھن وغیرہ اشیاء شامل تھیں، دودھ کے ساتھ کھجور (بہترین مکمل غذا بنتی ہے) کا استعمال بھی اچھا لگتا اور مکھن لگا کے کھجور کھانا بھی ذوق میں شامل تھا، کھرچن (تہ دیگی) سے بھی انس تھا، ککڑی نمک لگا کر اور خربوزہ شکر لگا کر بھی کھاتے، مریضوں کی پرہیزی غذا کے طور پر حریرا کو اچھا سمجھتے اور تجویز بھی فرماتے، میٹھا پکوان بھی مرغوب خاص تھا، اکثر جو کے ستو بھی استعمال فرماتے۔
ایک مرتبہ بادام کے ستو پیش کئے گئے تو یہ کہہ کر انکار کردیا کہ یہ امراء کی غذا ہے، گھر میں شوربہ پکتا تو کہتے کہ ہمسایہ کے لئے ذرا زیادہ بنایا جائے، پینے کی چیزوں میں نمبر ایک میٹھا پانی تھا اور بطور خاص دور سے بھی منگوایا جاتا، دودھ، پانی ملا دودھ (جسے کچی لسی کہا جاتا ہے) اور شہد کا شربت بھی رغبت سے نوش فرماتے، غیر نشہ دار نبیذ بھی قرین ذوق تھی، افراد کا الگ الگ بیٹھ کر کھانا ناپسند تھا، اکٹھے ہوکر کھانے کی تلقین فرمائی، سونےچاندی کے برتنوں کو بالکل حرام فرما دیا تھا، کانچ، مٹی، تانبہ اور لکڑی کے برتنوں کو استعمال میں لاتے رہے، دسترخوان پر ہاتھ دھونے کے بعد جوتا اتار کر بیٹھتے، سیدھے ہاتھ سے کھانا لیتے اور اپنے سامنے کی طرف سے لیتے، برتن کے وسط میں ہاتھ نہ ڈالتے، ٹیک لگا کر کھانا پینا بھی خلاف معمول تھا، دو زانو یا اکڑوں بیٹھتے، ہرلقمہ لینے پر بسم اللہ پڑھتے، ناپسندیدہ کھانا بغیر عیب نکالے خاموشی سے چھوڑ دیتے، زیادہ گرم کھانا نہ کھاتے، کھانا ہمیشہ تین انگلیوں سے لیتے اور ان کو لتھڑنے نہ دیتے، دعوت ضرور قبول فرماتے اور اگر اتفاقاً کوئی دوسرا آدمی (بات چیت کرتے ہوئے یا کسی اور سبب سے) ساتھ ہوتا تو اسے لیتےجاتے مگر صاحب خانہ سے اس کے لئے اجازت لیتے، مہمان کو کھانا کھلاتے تو بار بار اصرار سے کہتے کہ اچھی طرح بے تکلفی سے کھاؤ، کھانے کی مجلس سے بہ تقاضائے مروت سب سے آخر میں اٹھتے، دوسرے لوگ اگر پہلے فارغ ہوجاتے تو ان کے ساتھ آپ ﷺ بھی اٹھ جاتے، فارغ ہوکر ہاتھ ضرور دھوتے، دعا کرتے جس میں خدا کی نعمتوں کیلئے ادائے شکر کے کلمات ہوتے، اور صاحب خانہ کے لئے اللہ سے رزق اور برکت چاہتے۔

کھانے کی کوئی چیز آتی تو حاضر دوستوں کو باصرار شریک کرتے اور غیر حاضر دوستوں کا حصہ رکھ دیتے، پانی غٹ غٹ کی آواز نکالے بغیر پیتے اور بالعموم تین بار پیالہ منہ سے الگ کرکے سانس لیتے اور ہر بار آغاز" بسم اللہ" اور اختتام " الحمد للہ والشکرللہ" پر کرتے، عام طریقہ بیٹھ کر پانی پینے کا تھا، پینے کی چیز مجلس میں آتی تو بالعموم داہنی جانب سے دور چلاتے اور جہاں ایک دور ختم ہوتا دوسرا وہیں سے شروع کرتے، بڑی عمر کے لوگوں کو ترجیح دیتے مگر داہنے ہاتھ والوں کے مقررہ استحقاق کی بناء پر ان سے اجازت لےکر ہی ترتیب توڑتے، کھانے پینے کی چیزوں میں پھونک مارنا یا ان کو سونگھنا نا پسندتھا، کھانے پینے کی چیزوں کو ڈھانکنے کا حکم دیتے، کوئی نیا کھانا سامنے آتا تو کھانے سے پہلے اس کا نام معلوم فرماتے، زہر خورانی کے واقعہ کے بعد معمول ہوگیا تھا کہ اگر کوئی اجنبی شخص کھانا کھلاتا تو پہلے ایک آدھ لقمہ خود اسے کھلاتے۔


حضورﷺ كى نشست و برخواست


کبھی اُکڑوں بیٹھتے، کبھی دونوں ہاتھ زانوؤں کے گرد حلقہ زن کر لیتے، کبھی ہاتھوں کے بجائے کپڑا (چادر وغیرہ) لپیٹ لیتے، بیٹھے ہوئے ٹیک لگاتے تو بالعموم الٹے ہاتھ پر، فکر یا سوچ کے وقت بیٹھے ہوئے زمین کو لکڑی سے کریدتے، سونے کے لئے سیدھی کروٹ سوتے اور دائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر داہنا رخسار رکھ لیتے، کبھی چت بھی لیٹتے اور پاؤں پر پاؤں بھی رکھ لیتے، مگر ستر کا اہتمام رکھتے، پیٹ کے بل اور اوندھا لیٹنا سخت ناپسند تھا اور اس سے منع فرماتے تھے، ایسے تاریک گھر میں سونا پسند نہ تھا جس میں چراغ نہ جلایا گیا ہو، کھلی چھت پر جس کے پردے کی دیوار نہ ہو سونا اچھا نہ سمجھتے، وضو کرکے سونے کی عادت تھی اور سوتے وقت مختلف دعائیں پڑھنے کے علاوہ آخری تین سورتیں یعنی(سورۂ اخلاص اور معوذتین)پڑھ کر بدن پر دم کرلیتے، رات میں قضائے حاجت کے لئے اٹھتے تو فارغ ہونے کے بعد ہاتھ منہ ضرور دھوتے، سونے کے لئے ایک تہ بند علیحدہ تھا، کرتا اتار کر ٹانگ دیتے۔




سیرت النبیﷺ.. مولانا شبلی نعمانی..

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات










  1. حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات مبارک [ جن میں آپ بنفس نفیس تشریف لے گئے ] ابن اسحٰق اور موسٰی بن عقبہ کے قول کے مطابق ستائیس ہیں اور باقی حضرات نے ان کی تعداد پچیس بتائی ہے جب کہ بعض روایات سے ان دونوں کے علاوہ تعداد بھی معلوم ہوتی ہے اور وہ سرایا جن میں آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھیجا [ اور خود تشریف نہیں لے گئے ] ابن سعد اور حافظ و میاطی رحمہ اللہ کے قول کے مطابق چھپن ہیں موسٰی بن عقبہ فرماتے ہیں کہ سرایا کی تعداد سینتالیس ہے جبکہ بعض نے اڑتالیس اور بعض نے چھتیس کی تعداد بھی بتائی ہے ۔ واللہ اعلم ۔
    اب ہم ابن اسحٰق کی روایت سے ترتیب وار غزوات اور سرایا کا تذکرہ کرتے ہیں۔
    ( 1 ) غزوہ الابواء
    اسے غزوہ ودان بھی کہتے ہیں یہ صفر 1 ھ میں پیش آیا اور اس میں لڑائی نہیں ہوئی ۔
    ( 2 ) غزوہ بواط
    یہ ربیع الاول 2 ھ میں پیش آیا ۔
    ( 3 ) غزوۃ العشیرہ
    یہ جمادی الاولٰی 2 ھ میں پیش آیا ۔
    ( 4 ) غزوہ بدرالاولٰی
    یہ ابن اسحٰق کی روایت کے مطابق غزوۃ العشیرۃ کی چند راتوں کے بعد پیش آیا آپ اس میں کرزبن جابرالفہری کے پیچھے نکلے تھے۔
    غزوہ بدر الکبریٰ
    یہ عظیم الشان معرکہ جس میں اللہ تعالی نے اسلام کو عزت بخشی اور کافروں کے رؤسا کو ہلاک فرمایا سترہ رمضان 2 ھ کی صبح پیش آیا۔
    ٭ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر میں مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ اور مشرکوں کی تعداد ایک ہزار تھی اور اس لڑائی میں ہر تین مسلمان ایک اونٹ پر باری باری سوار ہوتے تھے ۔ ( صحیح مسلم )
    صحیح بخاری شریف میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کئی صحابہ کرام سے روایت کرتے ہیں کہ غزوہ بدر میں مسلمانوں کی تعداد طالوت کے اس لشکر کے برابر تھی جنہوں نے [شرط پوری کرکے ] نہر کو عبور کر لیاتھا۔ (بخاری )
    غزوہ بدر کے بعض اہم واقعات
    مکہ مکرمہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی عاتکہ بنت عبدالمطلب نے خواب دیکھا کہ ایک اونٹ سوار آیا اور اس نے ابطح میں کھڑے ہوکر چیخ کر یہ اعلان کیا اے آل غدر تین دن میں اپنے قتل ہونے کی جگہ کی طرف نکلو۔ لوگ اس کے اردگرد جمع ہوگئے پھر وہ اپنا اونٹ لے کر مسجد حرام کی طرف گیا اور وہاں پر اس نے کعبہ کی چھت پر کھڑے ہو کر پھر وہی اعلان کیا پھر وہ جبل ابی قبیس پر چڑھ گیا اور وہاں سے وہی آواز لگائی اور اوپر سے اس نے ایک چٹان پھینکی جب وہ چٹان نیچے پہنچی تو ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی اور مکہ کا کوئی گھر ایسا نہ رہا جس میں اس کا کوئی ٹکڑا نہ گرا ہو۔
    عاتکہ نے اپنے بھائی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو یہ خواب بتایا اور کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ تمھاری قوم پر کوئی بڑی بلا اور مصیبت آنے والی ہے مگر تم یہ خواب کسی کو نہ بتانا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ خواب اپنے قریبی دوست ولید بن عتبہ کو بتایا اور اسے یہ خواب خفیہ رکھنے کی ہدایت کی مگر ولید نے اپنے باپ کو بتایا اور یوں یہ خواب پورے مکہ میں پھیل گیا ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ مسجد حرام گئے تو ابو جہل نے انہیں طنزاً کہا کہ ابوالفضل تمھارے مرد تو نبوت کا دعویٰ کرتے تھے اب تمھاری عورتیں بھی اس کا دعویٰ کرنے لگی ہیں ۔ حضرت عباس نے پوچھا کہ کیا ہوا ؟ تو اس نے عاتکہ رضی اللہ عنہا کا خواب بیان کیا اور کہنے لگا اگر تین دن میں یہ خواب سچا نہ نکلا تو ہم لکھ کر لٹکا دیں گے کہ تمھارا گھرانہ عرب کا سب سے جھوٹا گھرانہ ہے ۔ ابوجہل نے اس خواب کو لے کر حضرت عباس اور ان کے گھرانے کو خوب بدنام کیا تو تیسرے دن حضرت عباس ابو جہل کا علاج کرنے کے لئے نکلے مگر جب آپ حرم میں پہنچے تو ابوجہل تیزی سے باہر نکل رہا تھا کیونکہ اس نے ضمضم بن عمرو غفاری کی آواز سن لی تھی وہ اپنے اونٹ پر کھڑا ہوا تھا اور اس نے کپڑے پھاڑ رکھے تھے اور اونٹ کی ناک کاٹ رکھی تھی اور کجاوہ الٹا پھیرا ہوا تھا اور وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا اے قریش والو! اپنے قافلے کی خبر لو تمھارے اموال ابوسفیان کے قافلے میں ہیں اور اس پر محمد اور ان کے ساتھیوں نے حملہ کر دیا ہے ۔ بھاگو ، جلدی کرو ، مدد کو پہنچو یہ سنتے ہی لوگ جلدی جلدی تیاری کرنے لگے اور کہنے لگے کہ کیا محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] نے اسے ابن الحضرمی کا قافلہ سمجھ رکھا ہے ۔ ہر گز نہیں وہ اب کچھ اور دیکھیں گے ۔ اہل مکہ میں سے کوئی شخص بھی ایسا نہیں بچا جو نہ خود نکلا ہو یا اس نے اپنی جگہ کسی کو نہ بھیجا ہو۔
    • حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ستر اونٹوں کے ساتھ مدینہ منورہ سے نکلے ہر اونٹ پر تین آدمی باری باری سوار ہوتے تھے راستے میں آپ کو قریش مکہ کے لشکر کی روانگی کی اطلاع ملی تو آپ نے اپنے ساتھیوں کو اس کی اطلاع فرمائی اور انہیں مشورہ کے لئے جمع فرمایا سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور آپ نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ اظہار جانثاری فرمایا پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ اظہار جانثاری فرمایا ان کے بعد حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا اے اللہ کے رسول اللہ تعالٰی نے آپ کو جس کام کا حکم دیا ہے آپ اس کو سرانجام دیجئے ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔ اللہ کی قسم ہم بنی اسرائیل کی طرح یہ ہر گز نہیں کہیں گے کہ اے موسیٰ تم اور تمھارا رب جا کر لڑو ہم تو یہیں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ لیکن ہم تو یوں کہتے ہیں کہ آپ اور آپ کا رب قتال کرے ہم بھی آپ کے ساتھ قتال کریں گے اگر آپ ہمیں برک الغماد [ نامی مقام ] تک لے جائیں تو ہم آپ کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مقداد کی اس گفتگو کی تعریف فرمائی اور انہیں دعائے خیر سے نوازا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے لوگوں مجھے مشورہ دو یہ جملہ آپ نے تیسری بار فرمایا تھا چنانچہ اسے سن کر انصار کے سردار حضرت سعد بن معاذ فرمانے لگے یا رسول اللہ شائد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم انصار سے پوچھ رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ، اس پر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور آپ نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم آپ پر ایمان لائے اور آپ کی تصدیق کی اور اس بات کی گواہی دی کہ آپ جو کچھ لائے ہیں وہی حق ہے۔ اطاعت اور جانثاری کے بارے میں ہم آپ سے پختہ عہد و پیمان کر چکے ہیں ، آپ جو چاہئے کر گزریئے ہم آپ کے ساتھ ہیں قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے اگر آپ ہم کو سمندر میں کود جانے کا حکم دیں گے تو ہم اسی وقت سمندر میں کود پڑیں گے اور ہم میں سے کوئی ایک بھی پیچھے نہیں رہے گا ہم کل دشمنوں سے مقابلے کو برا نہیں سمجھتے ہم لڑائی میں ثابت قدم رہنے والے اور مقابلے کا حق اداء کرنے والے لوگ ہیں امید ہے کہ اللہ تعالٰی ہم سے آپ کو وہ چیز دکھائے گا جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی آپ اللہ کے نام پر ہمیں لے چلئے۔
    مسلم کی روایت میں یہ تقریر حضرت سعد بن عبادہ کی طرف منسوب ہے مگر وہ درست نہیں ہے کیونکہ حضرت سعد بن عبادہ کا بدر میں شریک ہونا بالاتفاق ثابت نہیں ہے ۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ باتیں سن کر خوش ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے نام پر چلو اور تم کو بشارت ہو اللہ تعالٰی نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ ابوجہل یا ابوسفیان کی دو جماعتوں میں سے کسی ایک جماعت پر فتح و نصرت عطاء فرمائے گا اللہ کی قسم گویا کہ میں مشرکوں کے قتل ہو کر گرنے کی جگہ دیکھ رہا ہوں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوچ فرمایا اور بدر کے قریب آکر آپ نے پڑاؤ ڈالا۔
    • حضرت حباب بن منذر بن جموع رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ نے یہ پڑاؤ اللہ کے حکم سے ڈالا ہے تو پھر ہمارے لئے یہاں سے آگے پیچھے ہٹنے کی کوئی گنجائش نہیں یا آپ نے جنگی حکمت عملی کے تحت اس جگہ کو منتخب فرمایا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جگی حکمت عملی کے تحت ہے انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول پھر تو ہمیں مشرکین کے سب سے قریبی پانی کے پاس پڑاؤ ڈالنا چاہئے تاکہ ہم پیچھے سے کنویں کو بند کردیں اور حوض بنا کر پانی جمع کرلیں اور یوں مشرکین کو پانی نہیں مل سکے گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مشورے کو پسند فرمایا اور اس پر عمل فرمایا ابن سعد کی روایت کے مطابق حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر حضرت حباب کے مشورے کی تائید فرمائی ۔ ( طبقات ابن سعد )
    • ابن اسحٰق کی روایت کے مطابق قریش نے عمیر بن وھب جمعی کو بھیجا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر کا اندازہ لگا کر آؤ اس نے لشکر کے گرد گھوڑا گھمایا اور کہنے لگا تین سو سے کچھ زیادہ یا کچھ کم ہیں۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ انہوں نے پیچھے کوئی کمین گاہ تو نہیں بنائی ہوئی کہ جس میں انہوں نے کمک چھپا رکھی ہو چنانچہ وہ دور دور تک گھوڑا دوڑاتا رہا اور واپس آکر کہنے لگا میں نے کچھ نہیں دیکھا لیکن اے قریش والو میں نے ہر طرف مصیبتیں ہی مصیبتیں دیکھی ہیں یثرب کے اونٹ اپنے اوپر سرخ موت کو اٹھا کر لائے ہیں تمھارے مقابلے میں ایسے لوگ ہیں جن کی پناہ گاہ صرف ان کی تلواریں ہیں بخدا اگر تم ان میں سے کسی کو قتل کروگے تو تمھیں بھی قتل ہونا پڑے گا اگر تم میں سے ان کی تعداد کے برابر لوگ قتل ہوگئے تو زندہ رہنے کا کیا فائدہ ہوگا اس لئے آپس میں مشورہ کرلو ۔ اسی وقت عامر بن حضرمی کھڑا ہوا اور اس نے اپنے پرانے مقتولوں کا نام لے کر لوگوں کو پھر بھڑ کا دیا ۔
    • مشرکوں میں سے سب سے پہلے اسود بن عبدالاسود مخزومی نامی شخص نکلا یہ بہت برا اور بد اخلاق آدمی تھا اس نے کہا کہ میں نے قسم کھائی ہے کہ یا تو مسلمانوں کے حوض سے پانی پیوں گا یا اس حوض کو گرا دوں گا یا میں اس کی خاطر مر جاؤں گا جب وہ آگے بڑھا تو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اسے روکنے کے لئے نکلے دونوں میں مقابلہ ہوا تو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے تلوار مار کر اس کا پاؤں پنڈلی کے درمیان کاٹ دیا وہ گر گیا اور پھر گھسٹ کر حوض کی طرف بڑھنے لگا کیونکہ وہ اپنی ضد اور قسم پوری کرنا چاہتا تھا مگر جب وہ حوض تک پہنچا تو وہیں حضرت حمزہ نے اسے مار دیا اور وہ حوض میں گر گیا ۔
    • مشرکین کی طرف سے باقاعدہ مبارزے کے لئے تین افراد نکلے عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ انہوں نے للکار کر مسلمانوں کو مقابلے کی دعوت دی مسلمانوں کی طرف سے تین انصاری صحابی نکلے۔ یہ تھے حضرت عوف رضی اللہ عنہ اور حضرت معوذ رضی اللہ عنہ دونوں عفراء کے بیٹے اور حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ ۔ مشرکین نے پوچھا تم لوگ کو ن ہو ؟ انہوں نے کہا ہم انصار میں سے ہیں تو مشرکین میں سے ایک شخص نے پکار کر کہا اے محمد ہمارے قوم میں سے ہمارے جوڑ کے افراد نکالو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عبیدہ بن حارث ، اے حمزہ ، اے علی کھڑے ہوجاؤ ، حکم کے مطابق یہ تینوں حضرات نکل کھڑے ہوئے [ چونکہ چہروں پر نقاب تھے اس لئے ] مشرکین نے ان سے بھی نام پوچھے جب انہوں نے نام بتائے تو مشرکوں نے کہا ہاں تم ہمارے برابر کے محترم لوگ ہو مقابلہ شروع ہوا تو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے شیبہ اور ولید کو بغیر مہلت دیئے قتل کر دیا جبکہ حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ ( جو بڑی عمر کے تھے ) کا عتبہ کے ساتھ مقابلہ ہوتا رہا دونوں نے ایک دوسرے کو زخمی کیا حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ کا پاؤں کٹ گیا تھا اسی وقت حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کی مدد کو آپہنچے اور انہوں نے عتبہ کا کام تمام کیا اور حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ کو پیچھے لے آئے۔
    • حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجاہدین کی صفیں سیدھی فرما کر اپنے عریش [ یعنی اپنے لئے بنائے گئے مخصوص چھپر ] پر تشریف لے گئے اور آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق کے سوا اور کوئی نہیں تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں آکر دعاء میں مشغول ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعاء کے دوران یہ بھی فرمایا اے میرے پروردگار اگر یہ چھوٹی سی جماعت ہلاک کر دی گئی تو پھر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ نے آپ کی دعائیں سن لی ہیں اور وہ آپ سے اپنا وعدہ ضرور پورا فرمائے گا پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہلکی سی اونگھ آئی پھر آپ بیدار ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خوشخبری لو اے ابوبکر اللہ کی مدد آچکی ہے یہ جبرئیل اپنے گھوڑے کی لگام پکڑ کر اسے ہانک رہے ہیں اور ان کے دانتوں پر غبار ہے ۔
    • غزوہ بدر کے دن ایسی ہوا چلی کہ اس جیسی سخت ہوا انہوں کے کبھی نہیں دیکھی تھی پھر وہ ہوا چلی گئ اور دوسری بار ہوا آئی پھر وہ بھی چلی گئی اور تیسری بار ہوا آئی ۔ پہلی بار جو ہوا آئی تھی وہ حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ، دوسری بار کی ہوا ایک ہزار فرشتوں کے ہمراہ حضرت میکائیل علیہ السلام تھے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف اترے ، تیسری بار کی ہوا ایک ہزار فرشتوں کے ہمراہ حضرت اسرافیل تھے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف اترے اس دن کئی کافروں کے سر اڑ گئے مگر معلوم نہ ہوا کہ اسے کس نے مارا ہے اور بعض لوگوں کے ہاتھ کٹ گئے مگر کاٹنے والا کوئی نظر نہ آیا ۔(طبقات ابن سعد)
    ٭ حضرت ربیع بن انس فرماتے ہیں کی بدر کے دن ہم مقتول مشرکوں میں سے فرشتوں کے ہاتوں قتل ہونے والوں کو گردن اور جوڑوں پر آگ سے جلے ہوئے کالے نشانوں سے پہچانتے تھے ۔
    اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ ایک فرشتہ ہی سب مشرکوں کے لئے کافی تھا تو پھر اتنے سارے فرشتے کیوں بیجھے گئے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کے دلوں کو مطمئن کرنے کے لئے اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزاز و اکرام کے اظہار کے لئے اتنی تعداد میں فرشتے بھیجے۔
    بعض علماء کا یہ بھی فرمانا ہے کہ اللہ تعالی نے اتنے فرشتے اس لئے بھیجے کیونکہ اللہ تعالی نے ان فرشتوں کو قیامت کے د ن تک کے لئے جہاد کرنے والا بنا دیا ہے چنانچہ مسلمانوں کا جو لشکر ایمان اور ثابت قدمی کے ساتھ لڑ تا ہے ۔ یہ فرشتے اترتے ہیں اور ان کے ساتھ مل کر لڑ تے ہیں۔
    حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کے غزوہ بدر میں جن پانچ ہزار فرشتوں کے ذریعے اللہ تعالی نے مسلمانوں کی مدد فرمائی تھی وہ قیامت کے دن تک مجاہدین کے مددگار ہیں۔
    ٭ حضرت رفاعی بن رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کی جبرئیل علیہ السلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے پوچھا کہ آپ لوگوں میں بدر والوں کا کیا مقام ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں مسلمانوں میں سب سے افضل شمار کیا جاتا ہے حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا اسی طرح بدر میں شریک ہونے والے فرشتوں کا حال ہے یعنی انہیں بھی فرشتوں میں افضل سمجھا جاتا ہے ۔ (بخاری )
    • حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکریوں کی ایک مٹھی لیکر شاھت الوجوہ فرما کر قریش کی طرف پھینکی اور اپنے صحابہ کرام رضی اللہ علیہ وسلم کو حملہ کرنے کا حکم دے دیا تھوڑی دیر میں مشرکین کو شکست ہوگئی اور ان کے کئی بڑے سردار مارے گئے اور کئی گرفتار ہوئے ۔
    • حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ ایک مسلمان ایک مشرک کے پیچھے دوڑا اوپر سے ایک کوڑے اور ایک گڑ سوار کی آواز سنائی دی وہ کہہ رہا تھا اے حیزوم آگے بڑھ اس کے بعد مسلمان نے دیکھا کہ وہ مشرک زمین پر چت پڑا ہوا ہے اور اسکی ناک اور چہرہ کوڑے کی ضرب سے پھٹ کر نیلا ہو گیا ہے اس انصاری صحابی نے یہ سارا واقعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ چوتھے آسمان کی مدد تھی اس دن ستر مشرک مارے گئے اور ستر گرفتار ہوئے۔ (مسلم)
    • قاسم بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے جس دن قریش مکہ کا مسلمانوں سے مقابلہ ہوا اس دن جنات میں سے ایک پکارنے والے جن نے بلند آواز میں اشعار پڑھے مگر وہ خود نظر نہیں آرہا تھا [اشعار کا مفہوم یہ ہے]
    حنیفی جنگ کے لئے بدر کی طرف بڑھ رہے ہیں
    اور ان کی یلغار کے ذریعے کسریٰ اور قیصر کی حکو متیں ٹوٹ جائیں گی
    اس جنگ نے قریش کے مردوں کو ہلاک کر دیا
    او ان کی عورتوں کو حسرت کے ساتھ سینہ پیٹتے ہوئے گھروں سے نکال دیا
    ہلاکت ہے اس کے لئے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہوا
    اور ہدایت کے راستے سے بھٹک کے گمراہیوں میں پڑ گیا
    کسی نے یہ آواز سن کر پوچھا کہ حنیفی کون ہے تو دوسروں نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی ۔ کیونکہ ان کا گمان ہے کہ وہ حضرت ابراہیم حنیف کے دین پر ہیں ابھی یہ لوگ باتیں کررہے تھے کہ انہیں بدر میں مشرکین کی شکست کی خبر پہنچ گئی۔
    (6) غزوہ بنی سلیم
    ابن اسحاق کی روایت ہے کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بدر سے واپس تشریف لے آئے تو ابھی آپ نے سات راتیں بھی نہیں قیام نہیں فرمایا تھا کہ آپ خود بنی سلیم سے مقابلے کے لئے نکلے اور آپ کدر نامی چشمے تک پہنچ گئے وہاں آپ نے تین دن قیام فرمایا اور کوئی لڑائی نہیں ہوئی ۔(السیرۃ النبویہ لابن ہشام )
    ( 7 ) غزوہ بنی قینقاع
    2 ھ شوال کی پندرہ تاریخ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا بیسواں مہینہ شروع ہو چکا تھا یہ غزوہ پیش آیا مدینہ منورہ میں موجود یہودیوں میں سے یہ سب سے پہلا قبیلہ تھا جس نے عہد شکنی کی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سختی سے جواب دیا اور جنگ کے لئے قلعہ بند ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قلعے کا سخت محاصرہ کر لیا اللہ تعالٰی نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور وہ یہ معاہدہ کرکے قلعہ سے اتر آئے کہ ان کے اموال مسلمانوں کے ہونگے اور ان کی عورتیں اور بچے خود ان کے رہیں گے قلعے سے اترنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مشکیں باندھ دیں اور اس کام پر حضرت منذر بن قدامہ کو مقرر فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کی منت سماجت کرنے پر انہیں قتل کرنے کے بجائے اپنے مال و اسباب سمیت جلاوطن ہونے کا حکم صادر فرمایا چنانچہ وہ اذرعات کی طرف چلے گئے ۔ ( طبقات ابن سعد )
    ( 8 ) غزوہ سویق
    5 ذی الحجہ 2 ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم [ دو سو سواروں کو لے کر ] ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کے مقابلے کے لئے نکلے مگر مشرکین بھاگ گئے اور جاتے وقت خود کو ہلکا کرنے کے لئے ستو کی تھیلیاں پھینکتے گئے اسی مناسبت سے اس غزوہ کا نام سویق پڑ گیا [ سویق عرب میں ستو کو کہتے ہیں ]
    ( 9 ) غزوہ غطفان
    اسی کو غزوہ انمار اور غزوہ ذی اَمر بھی کہتے ہیں یہ ربیع الاول 3ھ میں پیش آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب بنایا اور خود چار سو پچاس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ روانہ ہوئے مگر اس غزوے میں بھی لڑائی نہیں ہوئی۔
    ( 10 ) غزوہ بنی سلیم
    اس کو غزوہ نجران یا بجران بھی کہتے ہیں یہ جگہ حجاز کا معدن ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کچھ دن قیام فرمایا [ دشمن بھاگ چکے تھے اس لئے] جمادی الاولٰی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپسی فرمائی۔ [ یہ پہلے والے غزوہ بنی سلیم کے علاوہ ہے اور سیرت کی کتابوں میں غزوہ بجران کے نام سے مشہور ہے ]
    (11) غزوہ احد
    یہ غزوہ 7 شوال 3ھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بتیسویں مہینے کے آ غاز میں پیش آیا اس لڑائی میں مسلمانوں کی تعداد سو تھی جبکے مشرکین کا لشکر تین ہزار افراد پر مشتمل تھا ۔ ان کے پاس سات سو زرہیں دو سو گھوڑے تین ہزار اونٹ تھے جبکہ مسلمانوں کے پاس صرف دو گھوڑے تھے ابتداء میں جتنے مشرک بھی مقابلے کے لئے نکلے مسلمانوں نے انہیں خاک و خون میں تڑپا دیا یہاں تک کہ جب مشرکوں کا جھنڈا اٹھانے والا کوئی نہیں رہا تو ایک عورت نے یہ جھنڈا اٹھا لیا یہ دیکھ کے پھر مشرک لڑنے کے لئے تیار ہو گئے لیکن جب آخری جھڈا بردار بھی قتل ہو گیا تو مشرک بھاگ کر بے تحاشہ دوڑنے لگے اور ان میں سے کوئی پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھتا تھا اور ان کی عورتیں ہلاکت ہلاکت پکار رہی تھی مسلمان ان کا پیچھا کر رہے تھے ۔ اسی اثنا میں پیچھے درے پر مقرر مسلمان تیر اندازوں میں سے اکثر نے اپنی وہ جگہ چھوڑ دی جس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مقرر فرمایا تھا ۔ چنانچہ خالد بن ولید اور عکرمہ بن ابو جہل [جو دونوں اس وقت مشرکین کے ساتھ تھے ] نے پیچھے سے مسلمانوں پر حملہ کردیا ۔ جس سے مسلمانوں کو بہت نقصان ہوا۔ اسی اثنا میں شیطان نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی افواہ اڑا دی جس سے مسلمانوں کے پاؤں اکڑ گئے مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ڈٹ کر لڑتے رہے اس غزوے کے متفرق واقعات پہلے گزر چکے ہیں۔
    (12)غزوہ حمراء الاسد
    اتوار کی صبح 16 شوال 3ھ میں یہ غزوہ پیش آیا قریش مکہ جب غزوہ احد سے واپس مکہ کی طرف روانہ ہوئے تو انہیں راستے میں خیال آیا کہ ہم نے اپنا کام مکمل نہیں کیا چنانچہ ہمیں واپس جاکر مدینہ منورہ پر حملہ کرنا چاہئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی تو آپ خود مقابلے کے لئے نکل پڑے اور آپ کے زخمی صحابہ نے بھی بھر پورساتھ دیا آپ صلی اللہ علیہ وسم نے مدینہ منورہ سے نکل کر آٹھ میل دور حمراء الاسد نامی مقام پر پڑاؤ ڈالا مشرکین کو جب اسکی اطلاع ملی تو وہ خوف زدہ ہوکر مکہ کی طرف روانہ ہوگئے اور انہوں نے مدینہ منورہ پر حملے کا ارادہ منسوخ کر دیا۔
    (13)غزوہ بنی نضیر 
    یہ غزوہ ربیع اول 4ھ میں پیش آیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا چھتیسواں مہینہ شروع ہو ا تھا یہودیوں کے قبیلے بنی نضیر نے عہد شکنی اور شرارت کی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ عسلم نے ان کا محاصرہ کر لیا کئی دن کے محاصرے اور مسلمانوں کے ہاتھوں اپنے با غات کی تباہی کے بعد ان کے دلوں پر اللہ تعالی نے رعب طاری کر دیا اور انہوں نے صلح کی درخواست کی چنانچہ انہیں اسلحےکے سوا باقی اتنا سامان جو ان کے اونٹ اٹھا سکیں لے کر جلا وطن ہونے کی اجازت دے دی گئی ان میں سے اکثر نے خیبر کا رخ کیاجبکہ بعض شام جاکر آباد ہوگئے اس واقعے کے بیان میں قرآن مجید کی سورہ حشر نازل ہوئی۔
    ( 14 ) غزوہ ذات الرقاع
    یہ غزوہ جمادی الاولٰی 4ھ میں پیش آیا رقاع کپڑے کے چیتھڑوں کو کہتے ہیں حضرت ابو موسٰی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس غزوہ میں چلتے چلتے ہمارے پاؤں پھٹ گئے تھے اور ہم نے ان پر کپڑوں کے چیتھڑے لپیٹ لئے تھے اسی مناسبت سے اس غزوے کا نام ذات الرقاع پڑ گیا بعض لوگ کہتے ہیں کہ رقاع ا س جگہ کے ایک درخت یا پہاڑ کا نام تھا اس کی طرف یہ غزوہ منسوب ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار سو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہمراہ بنی محارب بنی ثعلبہ اور بنی غطفان کے مقابلے کے لئے نکلے تھے اس غزوے میں آپ نے صحابہ کرام کو صلٰوۃ الخوف بھی پڑھائی ۔
    ( 15 ) غزوہ بدر صغریٰ
    اس غزوے کو غزوہ بدر موعد بھی کہتے ہیں ۔ یہ غزوہ شعبان 4ھ میں پیش آیا گذشتہ سال احد کے موقع پر ابوسفیان سے آئندہ سال بدر کے مقام پر جنگ کا وعدہ تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پندرہ سو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ تشریف لائے اور آٹھ دن تک قیام فرمایا ۔ ابوسفیان بھی مکہ سے نکلا مگر اسے ہمت نہ ہوئی اور راستے سے لوٹ گیا ۔
    ( 16 ) غزوہ دومۃالجندل
    ربیع الاول 5ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دومۃالجندل [نامی مقام ]کی طرف سے بہت بڑے لشکر کے مدینہ منورہ پر حملہ آور ہونے کے ارادے کا علم ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو لے کر روانہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اپنے لشکر کے ساتھ چلتے تھے اور دن کو چھپ جاتے تھے جب دومۃ الجندل والوں کو اس لشکر کی اطلاع ملی تو وہ بھاگ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیس ربیع الثانی 5ھ میں واپس مدینہ منورہ تشریف لے آئے ۔
    ( 17 ) غزوہ خندق یا احزاب
    یہ غزوہ شوال 5ھ میں پیش آیا جب مشرکین نے مدینہ منورہ پر مشترکہ چڑھائی کی اور ابوسفیان کی قیادت میں قریش ، عینیہ بن حصن کی قیادت میں غطفان کے مشرک بنوفزارہ بنومرہ اور اشجع قبائل کے مشرکین کے ساتھ مل کر دس ہزار کی تعداد میں مدینہ منورہ کی طرف بڑھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تین ہزار مسلمانوں کو جمع فرمایا اور ان کے مشورے سے مدینہ کے باہر خندق کھودی ، مشرکین کا لشکر اس خندق کے پاس آکر رک گیا ۔ خندق کے دوسری طرف مسلمانوں کا لشکر تھا ۔ بیس دن سے زائد دونوں لشکر ایک دوسرے کے سامنے پڑے رہے اور تیروں اور پتھروں کا تبادلہ ہوتا رہا ۔ مشرکین کی طرف سے عمرو بن عبدود خندق پار کرنے میں کامیاب ہوا مگر وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں مارا گیا ۔ مسلمانوں کو اس لڑائی میں سخت خوف ، سردی ، اور بھوک پیاس کا سامنا کرنا پڑا ۔ پھر حضرت نعیم بن مسعود اشجعی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ میں اپنی قوم سے چھپ کر مسلمان ہو چکا ہوں آپ جو چاہیں مجھے حکم دیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم ایک تجربہ کار آدمی ہو تم سے جو ہو سکے مشرکین کے خلاف تدبیر کرو کیونکہ جنگ نام ہی اصل میں حیلہ اور تدبیر کا ہے ۔ حضرت نعیم بن مسعود پہلے یہودیوں کے قبیلے بنو قریظہ کے پاس آئے جاہلیت کے زمانےمیں آپ کےان سے قریبی تعلقات تھے آپ نے ان سے آکر پہلے خوب اپنی محبت جتائی اور پھر انہیں سمجھایا کہ قریش اور غطفان تو باہر سے آئے ہوئے لوگ ہیں جبکہ تم تو مدینہ کے رہنے والے ہو ۔ آج قریش اور غطفان محمد اور ان کے ساتھیوں پر حملے کے لئے آئے ہیں اور تم بلا شرط ان کی مدد کر رہے ہو حالانکہ صورت حال یہ ہے کہ اگر قریش کو فتح ہو گئی تو ٹھیک ہے لیکن اگر انہیں شکست ہوئی تو وہ اپنے علاقوں میں چلے جائیں گے اور تم یہاں مسلمانوں کے سامنے اکیلے رہ جاؤ گے اور پھر جو کچھ تمھارے ساتھ ہو گا وہ تمھیں معلوم ہے اس لئے میری نصیحت یہ ہے کہ تم قریش اور غطفان کی اس وقت تک مدد نہ کرو جب تک وہ اپنے چند بڑے معزز لوگ تمھارے ہاتھوں میں رہن نہ رکھ دیں یہودیوں نے کہا یہ تو بہت اچھا مشورہ ہے اور ہم اسی کے مطابق کریں گے ۔ اس کے بعد حضرت نعیم رضی اللہ عنہ قریش کے پاس آئے اور ان سے اپنی محبت اور دوستی جتائی جس کا قریش نے اقرار کیا پھر انہیں فرمایا کہ مجھے ایک اہم بات پتا چلی ہے جو میں تمہیں بتانا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ تم دھوکہ نہ کھا جاؤ لیکن میں اس شرط پر بتاؤں گا کہ تم میرا نام نہیں لو گے۔ قریش نے یہ شرط مان لی تو حضرت نعیم نے فرمایا کہ یہوودی محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] سے مل چکے ہیں اور انہوں نے ماضی کی ندامت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی دور کرنے کے لئے وعدہ کر لیا ہے کہ وہ قریش اور غطفان کے چند بڑے معزز لوگ محمد کے حوالے کریں گے تاکہ انہیں قتل کر دیں اور پھر یہودی اور محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] مل کر باقی قریش والوں کو ختم کردیں اس لئے اگر یہودی تم سے کچھ معزز لوگ بطور ضمانت کے مانگیں تو تم نہ دینا اس کے بعد حضرت نعیم رضی اللہ عنہ غطفان قبیلے والوں کے پاس تشریف لائے اور ان سے اپنے تعلق اور محبت کو جتلا کر انہیں بھی وہی باتیں بتائیں جو قریش کو بتائی تھیں۔ شوال 5ھ ہفتے کی رات اللہ کی کرنا یہ ہوا کہ ابو سفیان اور غطفان کے رؤسا نے اپنا ایک وفد بنو قریظہ کے پاس بھیجا کہ ہم اس طرح پڑے پڑے تباہ ہو رہے ہیں تم لوگ لڑائی کے لئے تیار ہو جاؤ تاکہ ہم صبح حملہ کرکے مسلمانوں کو ختم کر دیں ۔ یہودیوں نے جواب دیا کہ آج ہفتے کا دن ہے ماضی میں بھی اسی دن میں تجاوز کی وجہ سے ہماری قوم پر عذاب آیا تھا اور دوسری بات یہ ہے کہ جب تک تم اپنے کچھ افراد ہمارے پاس رہن نہیں رکھواؤ گے ہم لڑائی کے لئے نہیں نکلیں گے مشرکین کو جب یہ پیغام پہنچا تو انہوں نے کہا ۔ واقعی نعیم بن مسعود نے سچ کہا تھا چنانچہ انہوں نے یہودیوں کو جواب بھیجا کہ ہم کسی کو تمھارے پاس رہن نہیں رکھیں گے اگر تم لڑائی کے لئے نہیں نکلتے ہو تو پھر ہمارے اور تمھارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہے ۔ یہودیو ں نے جب یہ پیغام سنا تو کہنے لگے بے شک نعیم بن مسعود نے سچ کہا تھا اس طرح ان میں پھوٹ پڑ گئی اور اللہ تعالٰی نے سخت طوفانی ہوا بھیج دی جس نے ان کے پورے لشکر کو الٹ کر رکھ دیا۔
    حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ان کے درمیان انتشار کی خبر ملی تو آپ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو ان کی خبر لینے کے لئے بھیجا اور ان کے لئے گرفتاری سے حفاظت کی دعاء فرمائی حضرت حذیفہ ان کے مجمع میں گھس گئے اس وقت ابوسفیان نے اعلان کیا کہ ہر شخص اپنے ساتھ والے کو پہچان لے [ تاکہ ہم میں کوئی مخبر نہ گھسا ہوا ہو ] حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ یہ اعلان سنتے ہی میں نے اپنے ساتھ والے کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا کہ تم کون ہو اس نے اپنا نام بتا دیا [ اور مجھ سے کچھ نہیں پوچھا] اس کے بعد ابوسفیان نے کہا اے قریشیو ! یہ ٹھہرنے کی جگہ نہیں ہے ہمارے جانور ہلاک ہو چکے ہیں بنو قریظہ نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے اور اس نے ہمیں سخت پریشان کر دیا ہے اور ہمارا چلنا پھرنا اور بیٹھنا مشکل ہو گیا ہے اس لئے تم واپس لوٹ چلو میں تو جار ہا ہوں یہ کہہ کر وہ اپنے اونٹ پر بیٹھ گیا ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس وقت مجھے خیال آیا کہ میں تیر مار کر ابوسفیان کو ہلاک کر دوں مگر مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یاد آگیا کہ اے حذیفہ کوئی نئی بات نہ کرنا چنانچہ میں واپس آگیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے میں نے آپ کو خوشخبری سنائی تو آپ نے اللہ کا شکر اداء کیا جب غطفان والوں کو قریشیوں کی واپسی کا پتہ چلا تو وہ بھی فوراً واپس لوٹ گئے ۔
    ( 18 ) غزوہ بنی قریظہ
    غزوہ خندق سے واپسی پر صبح کے وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو لے کر مدینہ منورہ واپس تشریف لائے اور سب نے اپنا اسلحہ رکھ دیا ظہر کے وقت جبرئیل امین تشریف لائے اور فرمانے لگے یا رسول اللہ کیا آپ نے اسلحہ اتار دیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا فرشتوں نے تو ابھی تک اسلحہ نہیں اتارا ۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالٰی نے آپ کو بنو قریظہ کی طرف کوچ کا حکم دیا ہے میں ان کی طرف جا کر انہیں لرزاتا ہوں ۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرما دیا کہ جو مسلمان بھی فرمانبردار ہے وہ عصر کی نماز بنو قریظہ میں جا کر پڑھے ۔ یہ 23 ذی القعدہ 5ھ بدھ کے دن کا واقعہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تین ہزار صحابہ کرام تھے اور لشکر میں چھتیس گھوڑے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کا محاصرہ فرما لیا اور یہ محاصرہ پچیس راتوں تک جاری رہا بنو قریظہ والے سخت تنگی میں پڑ گئے اور اللہ تعالٰی نے ان کے قلوب میں رعب ڈال دیا چنانچہ وہ قلعوں سے اتر آئے اور ان کی خواہش پر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو ان کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا آپ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ ان کے بالغ مردوں کو قتل کر دیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو باندیاں اور غلام بنا لیا جائے۔
    اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد کو فرمایا کہ آپ نے ان کے بارے میں اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فیصلے کو جاری فرما دیا اور بنو قریظہ کے چھ سو یا سات سو اسلام دشمن یہودیوں کو قتل کر دیا گیا ۔
  2. واجدحسین

    واجدحسینمعطل

    مراسلے:
    678
    جھنڈا:
    Pakistan
    موڈ:
    Cool







    ( 19 ) غزوہ بنی لحیان
    یہ غزوہ ربیع الاول 6ھ میں پیش آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو سو سواروں کے ہمراہ حضرت حبیب بن عدی رضی اللہ عنہ ، حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ اور دیگر شہداء رجیع کا بدلہ لینے کے لئے تشریف لے گئے مگر بنولحیان بھاگ کر پہاڑوں میں چھپ گئے۔
    ( 20 ) غزوہ ذی قرد
    یہ غزوہ 6ھ میں حدیبیہ سے پہلے ہوا ذی قرد نامی مقام پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیوں کی چراگاہ تھی ۔ عیینہ بن حصن فزاری نے اس پر حملہ کر دیا حضرت سلمہ بن اکوع نے کمال بہادری کا ثبوت دیتے ہوئے ان سب کا اکیلے مقابلہ کیا اور تمام اونٹنیاں بھی چھڑا لیں اور مال غنیمت بھی حاصل فرمایا ۔ ادھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پانچ سو یا سات سو افراد کو لے کر نکلے [ اس کا تفصیلی واقعہ پیچھے گزر چکا ہے ]
    ( 21 ) غزوہ بنی مصطلق
    اس کو غزوہ مریسیع بھی کہتے ہیں ابن اسحٰق کی روایت کے مطابق یہ شعبان 6ھ میں پیش آیا جبکہ ابن سعد کی روایت کے مطابق یہ غزوہ خندق سے پہلے شعبان 5ھ میں پیش آیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ حارث بن ابو ضرار نے مسلمانوں پر حملے کے لئے بہت ساری فوج جمع کر لی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت تیز رفتاری سے ان کی طرف کوچ فرمایا اور ان کے مویشیوں کے پانی پلانے کی ایک جگہ پر انہیں پایا اور فوراً ان پر حملہ کر دیا وہ لوگ اس حملے کی تاب نہ لا سکے ان میں سے دس آدمی مارے گئے اور باقی سب مرد عورت بچے بوڑھے گرفتار ہوگئے ۔ مسلمانوں کے ہاتھوں دو ہزار اونٹ پانچ ہزار بکریاں اور دو سو گھرانے آئے جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلے کے سردار کی بیٹی حضرت جویریہ کو اپنے نکاح میں لے لیا تو مسلمانوں نے تمام قیدی رہا کر دیئے۔

    ( 22 ) غزوہ حدیبیہ​
    یہ غزوہ ذی قعدہ 6 ھ میں پیش آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چودہ سو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہمراہ عمرے کے لئے نکلے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قربانی کے ستر اونٹ بھی تھے ۔ مشرکین مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روکنے کے لئے جنگ کا ارادہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو روک لیا اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کرام سے موت پر اور میدان جنگ سے نہ بھاگنے پر بیعت لی مگر پھر لڑائی کی بجائے صلح ہو گئی۔ تفصیلی واقعات کے لئے سیرت کی کتابوں کی طرف رجوع فرمائیں۔

    ( 23 ) غزوہ خیبر​
    خیبر قلعوں والے ایک شہر کا نام ہے ۔ غزوہ حدیبیہ سے واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم محرم 7 ھ میں خیبر کے لئے روانہ ہوئے ۔
    حضرت سلمہ بن اکوع بیان فرماتے ہیں کہ ہم جب خیبر کی طرف روانہ ہوئے تو میرے چچا حضرت عامر بن اکوع نے اشعار پڑھے [ جن کا مفہوم یہ ہے ]
    اے اللہ تو ہدایت نہ فرماتا تو ہم کبھی ہدایت نہ پاتے
    اور نہ صدقہ خیرات کر سکتے اور نہ نماز پڑھ سکتے
    اے پروردگار ہم تیرے فضل و کرم سے بے نیاز نہیں ہیں
    پس دشمنوں سے لڑائی کے وقت ہمیں ثابت قدمی عطاء فرما
    اور خاص سکینہ ہم پر نازل فرما۔
    حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشعار سن کر پوچھا یہ کون ہیں انہوں نے فرمایا میں عامر ہوں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالٰی تمھاری مغفرت فرمائے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی کو مغفرت کی دعاء دیتے تھے تو وہ شخص ضرور شہید ہوتا تھا اس لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اونٹ پر بیٹھے ہوئے عرض کیا یا رسول اللہ کاش آپ عامر کی شجاعت سے ہمیں چند روز اور نفع عطاء فرماتے ۔ ( مسلم شریف )
    اس جنگ کے دوران اہل خیبر کا مشہور سردار مرحب مقابلے کے لئے نکلا اور اس نے یہ شعر پڑھا [ مفہوم ]
    اہل خیبر اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں مرحب ہوں
    سلاح پوش ، بہادر اور تجربہ کار ہوں
    حضرت عامر بن اکوع اس کے مقابلے میں نکلے تو آپ نے یہ شعر پڑھا [ مفہوم ]
    اہل خیبر جانتے ہیں کہ میں عامر ہوں
    سلاح پوش ، بہادر اور جنگوں میں گھسنے والا ہوں
    مقابلے کے دوران حضرت عامر کی تلوار پلٹ کر ان کے اپنے گھٹنے پر لگی جس سے وہ شہید ہوگئے ان کے اس طرح شہید ہونے پر بعض لوگوں نے کہا کہ عامر کے سارے اعمال ضائع ہوگئے حضرت سلمہ بن اکوع فرماتے ہیں کہ میں روتا ہوا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے لوگوں کی یہ بات بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لوگ جھوٹ بولتے ہیں عامر رضی اللہ عنہ کے دو اجر ہیں [ ایک شہید کا اور دوسرا لوگوں کی ان باتیں بنانے کا ] پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اس قلعے کی فتح کے لئے اب ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کرتے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلوایا۔ حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آنکھیں دکھ رہی تھیں میں ان کو ہاتھ سے پکڑ کر لے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں پر لعاب مبارک لگایا تو وہ ٹھیک ہو گئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جھنڈا دیا تو آپ مرحب کے مقابلے میں نکلے مرحب نے میدان میں نکل کر وہی اشعار پڑھے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں یہ رجز پڑھے [ مفہوم ]
    میں وہی ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر یعنی شیر رکھا ہے
    اور جنگل کے شیر کی طرح دیکھنے والوں کو ہیبت میں ڈالنے والا ہوں
    مقابلہ شروع ہوا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک ہی وار میں مرحب کے سر کو دو ٹکڑے کر دیا پھر اس کا بھائی یاسر مقابلے میں نکلا تو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کر دیا ۔
    مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہی بات زیادہ درست ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مرحب کو قتل کیا جبکہ بعض لوگ حضرت محمد بن مسلم رضی اللہ عنہ کو مرحب کا قاتل بتاتے ہیں ۔
    ٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خیبر کے قریب صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    اللہ اکبر خربت خیبر انا اذا نزلنا بساحۃ قوم فساء صباح المنذرین ۔
    [ اللہ سب سے بڑا ہے خیبر تباہ ہو گیا بے شک جب ہم کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں تو پھر ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بہت بری ہوتی ہے ]
    یہود آپ کے لشکر کو دیکھ کر گلیوں میں بھاگنے لگے آپ نے لڑنے والوں کو قتل کیا اور باقی کو قیدی بنایا ۔
    ( 24 ) عمرۃ القضاء
    اس کا نام قصاص بھی ہے علامہ سہیلی نے اسی نام کو ترجیح دی ہے بعض اہل سیر نے اسے غزوات میں شمار نہیں کیا محمد بن اسحٰق کی روایت ہے کہ خیبر سے واپسی پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال تک مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور آپ مختلف سرایا کو روانہ فرماتے رہے ۔ پھر ذی قعدہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پچھلے سال کے عمرے کو قضا کرنے کے لئے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے جب آپ عمرہ کے لئے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی لگام حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے پکڑ رکھی تھی اور وہ اشعار پڑھ رہے تھے ۔ [ مفہوم ]
    او کافروں کے بچو! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ چھوڑ دو
    آگے سے ہٹ جاؤ اور ساری خیریں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہیں
    اے میرے پروردگار ! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانوں پر ایمان رکھتا ہوں
    اور ان کے قبول کرنے کو اللہ کا حق جانتا ہوں
    ہم تم سے جہاد اور قتال اس کا حکم مانتے ہوئے کرتے ہیں
    جیسا کہ قرآن کو نہ ماننے کی وجہ سے ہم تم سے لڑتے ہیں
    ہم تمھیں ایسی مار ماریں گے کہ تمھاری کھوپڑیاں سر سے الک ہو جائیں گی
    اور دوست کو دوست بھول جائے گا
    ( سیرت ابن ہشام )
    ( 25 ) فتح مکہ
    مسلمانوں کا دس ہزار کا لشکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت مبارکہ میں رمضان 8 ھ میں مکہ میں داخل ہوا اور بعض حضرات نے مجاہدین کی تعداد بارہ ہزار بتائی ہے ۔
    ( 26 ) غزوہ حنین
    اسے غزوہ ہوازن بھی کہتے ہیں یہ غزوہ 6 شوال 8ھ میں پیش آیا ۔ مسلمانوں نے جب مکہ مکرمہ فتح کر لیا تو حنین میں مقیم ہوازن اور ثقیف کے قبیلوں کو بھی خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں مسلمان ان پر حملہ نہ کردیں چنانچہ یہ سارے قبائل اور ان کی تمام شاخیں اپنے سردار مالک بن عوف نضری کی قیادت میں جمع ہو گئیں ان کی تعداد بیس ہزار تھی یہ لشکر مسلمانوں کی طرف سے روانہ ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بارہ ہزار کا لشکر لے کر نکلے ان میں دس ہزار کا مدنی لشکر اور دو ہزار اہل مکہ تھے ابتداء میں مسلمانوں کو ہوازن اور ثقیف کے تیر اندازوں نے پیچھے دھکیل دیا مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہزاروں تیروں کے درمیان ڈٹے رہے اور مسلمانوں کو آوازیں دیتے رہے بالآخر مسلمان جمع ہوگئے اور دشمنوں کو شکست ہوئی اور ان کے چھ ہزار افراد مسلمانوں کے ہاتھوں قید ہو گئے جبکہ ان کے علاوہ چوبیش ہزار اونٹ چالیس ہزار سے زائد بکریاں اور چار ہزار اوقیہ چاندی مسلمانوں کے ہاتھ لگی۔

    ( 27 ) غزوہ طائف​
    شوال 8 ھ ہی میں غزوہ طائف پیش آیا حنین میں شکست کے بعد ثقیف کے لوگ طائف واپس آکر قلعہ بند ہوگئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لشکر سمیت تشریف لاکر ان کا محاصرہ کر لیا اہل طائف نے خوفناک تیر اندازی کی جس سے بارہ مسلمان شہید ہوگئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دبابہ اور منجنیق بھی استعمال فرمائی کئی صحابہ کرام دبابہ میں بیٹھ کر قلعہ کی دیوار میں نقب لگانے کے لئے آگے بڑھے تو اہل قلعہ نے اوپر سے لوہے کی گرم سلاخیں برسانا شروع کر دیں جس کی وجہ سے انہیں پیچھے ہٹنا پڑا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے باغات کاٹنے کا حکم دیا تو انہوں نے آپ کو اللہ اور قرابتوں کے واسطے دیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اللہ اور قرابتوں کے لئے ان کو چھوڑ دیتا ہوں پھر آپ نے قلعے کے پاس یہ آواز لگوائی کہ جو غلام بھی قلعے سے اتر کر آجائے گا وہ آزاد ہے چنانچہ بارہ تیرہ غلام نیچے اتر آئے ان میں حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوفل بن معاویہ دیلمی رضی اللہ عنہ کو بلا کر پوچھا کہ تمھاری کیا رائے ہے نوفل رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ لومڑی اپنے بھٹ میں ہے اگر آپ یہاں ٹھہرے رہے تو اسے پکڑ لیں گے اور اگر آپ چھوڑ دینگے تو وہ آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔ اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو واپسی کے اعلان کا حکم دے دیا ۔ کچھ دنوں بعد اہل طائف خود مسلمان ہوگئے اور ان کے سردار آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف بااسلام ہوگئے ۔
    ( 28 ) غزوہ تبوک
    رجب 9ھ بروز جمعرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیس ہزار جانثاروں کے ساتھ تبوک کی طرف روانہ ہوئے ۔ روم کے بادشاہ ہرقل نے نصارائے عرب کے بلانے پر اپنا لشکر جرار مسلمانوں کے مقابلے کے لئے روانہ کر دیا تھا اور انہیں ایک سال کی تنخواہ پیشگی دے دی تھی اور اس لشکر کا اگلا حصہ بلقاء تک پہنچ چکا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت گرمی ، قحط اور مشکل کے وقت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نکلنے کا حکم دیا چنانچہ مخلص اہل ایمان اس حالت میں بھی نکل کھڑے ہوئے جبکہ منافق بہانے بنانے لگے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ترغیب دینے پر مالدار مسلمانوں نے خوب اپنا مال خرچ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعائیں حاصل کیں جبکہ بعض غریب مسلمان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور جہاد میں نکلنے کے لئے سواری مانگنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس تو سواریاں نہیں ہیں اس پر وہ روتے روتے واپس ہوگئے اور ان کے اس رونے کا تذکرہ قرآن مجید نے بھی کیا۔
    حضرت خیثمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک روانہ ہوئے اور میں مدینہ منورہ میں رہ گیا میری دو بیویاں تھیں ایک دن سخت گرم دوپہر کے وقت ان دونوں بیویوں نے میرے لئے چھپر پر چھڑکاؤ کیا اور ٹھنڈا پانی اور کھانا لاکر رکھا تو یہ منظر دیکھ کر میں نے کہا ابو خیثمہ تو تو ٹھنڈے سائے میں حسین بیویوں کے ساتھ عیش کر رہا ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت گرمی اور لو میں ہیں یہ تو انصاف کی بات نہیں ہے پھر میں نے اپنی بیویوں سے کہا کہ اللہ کی قسم میں تم میں سے کسی کے چھپر کے نیچے نہیں آؤں گا جب تک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ پہنچ جاؤں تم دونوں میرا توشہ تیار کرو انہوں نے توشہ تیار کیا میں اپنی سواری لے کر نکل پڑا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آملا۔
    ابن اسحاق کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سے زائد راتیں تبوک میں قیام فرمایا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے آئے۔
    یہ وہ غزوات تھے جن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود بنفس نفیس تشریف لے گئے ۔
    [ سبحان اللہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم تو آٹھ سال کے عرصے میں ستائیس یا اٹھائیس بار ہاتھوں میں اسلحہ اٹھا کر میدانوں میں نکلیں جبکہ آپ صلی للہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کے دعوے کرنے والے کچھ لوگ زندگی بھر جہاد کا نام تک نہ لیں کیا آج ہماری زندگیاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی سے زیادہ قیمتی ہیں ؟ کیا ہمارے اوقات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ قیمتی ہیں ؟ یا نعوذباللہ ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مصروف ہیں ؟ یا ہم پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ذمے داریاں ہیں ؟ کچھ بھی نہیں بلکہ بات تو صرف ایمان کی ہے بے شک جس میں ایمان ہو گا وہ یہ سن کر کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اتنی بار جہاد کے لئے نکلے تھے کبھی چین سے گھر نہیں بیٹھے گا بلکہ وہ بھی جنت اور نجات کے ان میدانوں کی طرف دیوانہ وار دوڑے گا
پیغمبر اسلام کے زیر استعمال رہنے والی تلواروں کے نام اور تفصیل
الم اثور:
 اس تلوار کو ماثور الفجر بھی کہتے ہیں اور یہ پیغمبر اسلام کو اپنے والد سے وراثت میں ملی تھی۔ اس تلوار
 کا دستہ سونے کا اور اطراف سے مڑا ہوا ہے جس پر زمرد اور فیروزے جڑے ہیں۔ اس تلوار کی لمبائی 99 سینٹی میٹر ہے۔ یہ تلوار پیغمبر اسلام نے بعد میں اپنے چچا زاد بھائی علی بن ابی طالب کو دے دی تھی۔ اب یہ تلوار ترکی شہر استنبول کے عجائب گھر توپ کاپی میں موجود ہے۔
الرسّوب: الرسّوب من السیوف کے معنی ہیں، اندر گھس جانے والی تلوار۔ اس کی لمبائی 140سینٹی میٹر ہے۔ اس تلوار کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہ نسل در نسل منتقل ہو تے پیغمبر اسلام تک پہنچی۔ اس تلوار پر سنہری دائرے بنے ہوئے ہیں جن پر امام جعفر الصادق کا نام کندہ ہے۔ یہ تلوار بھی ترکی کے توپ کاپی میوزیم میں محفوظ ہے۔
البتّار:
. یہ تلوار سرکارِ دو عالم نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یثرب کے یہودی قبیلے (بنو قینقاع ) سے مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی

 البتّار کا معنیٰ السيف القاطع یعنی کاٹ دینے والی تلوار ہے۔ روایات کے مطابق اس تلوار کا اصل مالک جالوت تھا جس کا نبی حضرت داؤد نے 20 برس کی عمر میں سر قلم کر دیا تھا۔ تلوار پر ایک تصویر بھی بنی ہوئی ہے جس میں حضرت داؤد جالوت کا سر قلم کرتے دکھائے گئے ہیں۔ تلوار پر ایک ایسا نشان بھی بتایا جاتا ہے جو تراشیدہ چٹانوں کی وجہ سے منفرد شہرت حاصل کرنے والے اردن کے بترا نامی شہر کے تقریباً دو ہزار قدیم باشندے اپنی ملکیتی اشیا پر بنایا کرتے تھے۔
اس تلوار کو سیف الانبیا یعنی نبیوں کی تلوار بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس پر انبیا حضرات داؤود، سلیمان، ہارون، یسع، زکریا، یحییٰ، عیسیٰ اور پیغمبرِ اسلام نام کنندہ ہیں۔ اس تلوار کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ اسی تلوار سے دجال کا مقابلہ کریں گے۔101 سینٹی میٹر لمبی یہ تلوار پیغمبرِ اسلام کو یثرب کے یہودی قبیلے بنو قینقاع سے مالِ غنیمت میں حاصل ہوئی اور اب توپ کاپی میں محفوظ ہے۔
الحتف: 
حتف کے معنیٰ ہیں مارنا، حتف السیف یعنی مار دینے والی تلوار ۔ یہ تلوار یہودیوں کے قبیلے لاوی کے پاس بنی اسرائیل کی نشانیوں کے طور پر نسل در نسل محفوظ چلی آ رہی تھی۔ یہ بھی پیغمبر اسلام کو بنو قینقاع سے مالِ غنیمت میں حاصل ہوئی۔ رویات کے مطابق یہ تلوار حضرت داؤود نے خود بنائی تھی۔ وہ لوہے کا ساز و سامان اور ہتھیار بنانے میں خاص مہارت رکھتے تھے۔
یہ تلوار البتّار کی طرز پر ہی بنی ہوئی ہے لیکن سائز میں بڑی ہے۔ تلوار کی لمبائی 112 سینٹی میٹر اور چوڑائی آٹھ سینٹی میٹر ہے۔ یہ تلوار بھی اب توپ کاپی میں محفوظ ہے۔
القلعی:
 خوبصورت میان والی یہ تلوار بھی البتّار اور الحتف کی طرح پیغمبر اسلام کو یثرب کے قبیلے بنو قینقاع سے مال غنیمت میں حاصل ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ اس تلوار کے بارے میں یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ پیغمبر اسلام کے دادا عبد المطلب نے اس تلوار کو اور ہرنوں کے سونے سے بنائے گئے دو مجسموں کو چاہِ زمزم نکلوایا تھا اور یہ بھی کہ انھیں نبی اسماعیل کے سسرالی قبیلے نے دفن کیا تھا۔
القلعی کے نام کی وجہ اس کا شام، ہندوستان یا چین کے سرحدی علاقے سے تعلق ہو سکتا ہے جب کہ محققین کا ایک حلقہ یہ دلیل بھی دیتا ہے کہ قلعی ایک قسم کی دھات کا نام ہے جو دیگر دھاتی چیزوں کو چمکانے یا ان پر پالش چڑھانے کے کام آتی ہے۔ اس تلوار کی لمبائی 100 سینٹی میٹر ہے۔ اب یہ تلوار بھی ترکی کے عجائب گھر میں محفوظ ہے۔
الذوالفقار:
 اس تلوار کی شہرت دو دھاری ہونے اور اس پر بنے ہوئے دو نوک والے نقش و نگار کی وجہ سے ہے۔ یہ تلوار روایات کے مطابق جنگِ بدر میں مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی تاہم بعد میں پیغمبرِ اسلام نے اسے علی ابنِ ابی طالب کو دے دیا۔ اکثر حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تلوار ان کے خاندان کے پاس کئی نسلوں تک رہی تاہم اب یہ بھی توپ کاپی میں بتائی جاتی ہے۔
المِخذم:
 اس کے معنیٰ بھی ہیں کاٹ دینے والی۔ اس تلوار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ علی ابنِ ابی طالب کو شامیوں کے ساتھ ایک معرکے میں مال غنیمت کے طور پر ملی تھی۔ تاہم دوسری رائے یہ ہے کہ پیغمبرِ اسلام نے یہ تلوار علی ابنِ ابی طالب کو خود دی تھی جو ان کے ہاں نسل در نسل رہی۔ تلوار پر زین الدین العابدین کے الفاظ کنندہ ہیں۔
اس تلوار کی لمبائی 97 سینٹی میٹر ہے اور یہ تلوار بھی توپ کاپی میں رکھی گئی ہے۔
القضیب:
 قضیب کے معنیٰ ہیں کٹی ہوئی شاخ یا بغیر سدھائی ہوئی اونٹنی۔ یہ تلوار پتلی اور بہت کم چوڑائی والی ہے۔ یہ تلوار پیغمبر اسلام کے پاس تو ضرور رہی لیکن اس سے کوئی جنگ نہیں لڑی گئی۔ تلوار پر چاندی سے ’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب‘ کے الفاظ کنندہ ہیں۔ تلوار ہمیشہ پیغمبرِ اسلام کے گھر میں موجود رہی۔
کہا جاتا ہے کہ فاطمیوں کے عہد میں اس تلوار کو استعمال کیا گیا تھا۔ تلوار کی لمبائی 100 سینٹی میٹر ہے اور اس تلوار کی میان کسی جانور کی کھال کی بنی ہوئی ہے۔ یہ تلوار بھی ترکی کے توپ کاپی عجائب گھر، استنبول میں محفوظ ہے۔
العضب:
 العضب کے معنی ہے تیز چلنے والی، تیز دھار والی تلوار۔ پیغمبر اسلام کو یہ تلوار ایک صحابی حضرت سعد بن عبادہ الانصاری نے غزوہ اُحد سے قبل بطورِ تحفہ دی۔ آپ نے جنگ اُحد میں یہی تلوار ابو دجانہ الانصاری کو لڑنے کے لیے عطا فرمائی۔ یہ تلوار مصر کے شہر قاہرہ کی مشہور جامع مسجد الحسین بن علی میں محفوظ ہے۔
پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کا نام ضرب عضب پیغمبر اسلام کی ایک تلوار کے نام پر رکھا گیا ہے۔

09 تلواروں میں سے 8 تلواریں  ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر’ ’توپ کاپی‘‘استنبول میں محفوظ ہے
(ان تلواروں کی کم بیش تمام تصویریں محمد حسن محمد التہامی کی لی ہوئی ہیں جو انھوں نے 1929 میں اپنے اُس مقالے کے لیے کھینچی تھیں جو انھوں نے 
پیغمبرِ اسلام کی تلواروں اور سامانِ حرب کے بارے میں لکھا تھا۔)


ریاض الجنہ 

'' زلال جنت
جنت کے باغ '' ریاض الجنه
اصل موضو ع کی جانب آنے سے پہلے آپ مختصرا'' ان باتوں کو جان لیں جو آپکے ذہن میں ایک نقشہ سا کھینچ دیں گی اور آپکو آج کی دلچسپ اور نادر پوسٹ کو پڑھنے اور کچھ حیرت انگیز جاننے کا موقع اس طرح ملے گا کہ اپکا مزہ دو چند ہوجایے گا اور آپکی روحانی لطافت نور اعلی نور کی منزل تک جا پہنچے گی-
اس تصویر میں روضۂ اقدس اقدس صلی الله علیہ وسلم کی سرہانے والی دیوار کی جالیاں اس طرح نظر آرہی ہیں کہ اسمیں تین ستونوں کے نصف کرّے روضۂ اقدس کے باہر ہمیں نظر آرہے ہیں جنکو میں نے مختلف رنگوں کے تیروں سے ظاہر کیا ہے جب کہ بقیہ نصف کرّے روضۂ اقدس کے اندر ہیں جو ہمیں نظر نہیں آ رہے -
یہ روضۂ اقدس صلی الله علیہ وسلم کی سرہانے والی دیوار ہے جس کے ساتھہ مسجد النبوی کا وہ فرش نظر آ رہا ہے جسکو رسول مکرم صلی الله علیہ وسلم نے جنت کا باغ قرار دیا اور حرف عام میں ہم اسے '' '' ریاض الجنه '' کے نام سے جانتے ہیں اور اس دیوار میں بنے دروازے سے رسول مکرم صلی الله علیہ وسلم اپنے حجرہ مبارک سے مسجد النبوی میں داخل ہوتے اور منبر شریف تک دن میں کم از کم پانچ بار نمازوں کی امامت کے لیے تشریف لیے جاتے اور اس کے علاوہ نہ جانے کتنی بار کرہ ارضی کے اس چھوٹے سے خوشقسمت قطعے نے رسول مکرم صلی الله علیہ وسلم کے قدمین مبارک کا بوسہ لیا ہوگا اور اس وجہ سے الله سبحان و تعالی کو پوری کایںات میں زمین کا یہ چھوٹا سا ٹکڑا اتنا محبوب ہوگیا کہ آپ نے روز قیامت اسکو پورے کا پورا جنت میں اٹھا کر جنت کی کیاری بنانے کا وعدہ کیا -
اس تصویر میں پیلے تیر سے میں نے ان سبز قالینوں کو دیکھانے کی کوشش کی ہے جو '' ریاض الجنه '' میں بچھے ہوتے ہیں اور اس وقت انکا کچھ حصہ رول کر دیا گیا ہے تا کہ '' ریاض الجنه '' کا فرش نظر آ سکے - '' ریاض الجنه '' کے یہ سبز قالین پوری مسجد النبوی کے دیگر حصوں میں بچھے سرخ رنگ کے قالینوں سے صرف اس لیے مختلف رکھے گیے ہیں تا کہ لوگ جنت کے اس حصے کو آسانی سے پہچان سکیں -
اب آپ ذرا ستونوں پر نظر دوڑائیں تو دور والے ستوں کو میں نے براؤں کلر کے تیر سے دیکھایا ہے اور اس ستوں کو '' اسطوانہ سریر '' کہتے ہیں جہاں حالت اعتکاف میں رسول مکرم صلی الله علیہ وسلم کا سریر یعنی بستر لگایا جاتا تھا تا کہ آپ آرام کے وقت یہاں آرام کر سکیں اور حجرہ مبارک سے ایک کھڑکی اس مقام پر نکلتی تھی جس کا نشان آج بھی موجود ہے اور اندر سے بی بی اماں عائشہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے گپسو مبارک میں تیل ڈال دیا کرتی تھیں - آج کی پوسٹ میں ان مبارک ستونوں کا ذکر مقصود نہیں اسلئے بس 'مختصرا' اور اجمالا'' ان کا ذکر کر رہا ہوں - بیچ والے ستوں کو میں نے نیلے تیر سے ظاہر کیا ہے ، یہ '' اسطوانہ حرس '' یعنی محافظ والا ستوں کہلاتا ہے کیوں کہ اس مقام پر سیدنا علی رضی الله تعالی عنہ اس وقت تک رسول مکرم صلی الله علیہ وسلم کی حفاظت کی پہرے داری کے فرایض انجام دیتے رہے جب تک الله سبحان و تعالی نے وحی کے ذریعے از خود رسول مکرم صلی الله علیہ وسلم کی حفاظت کا ذمہ نہ لے لیا - اسکے بعد آپکو سب سے نزدیک '' کالے تیر '' والا ستوں نظر آ رہا ہے جو '' اسطوانہ وفود '' کہلاتا ہے کیوں کہ اس مقام پر رسول مکرم صلی الله علیہ وسلم مختلف مقامات سے آنے والے وفود سے ملاقات کیا کرتے تھے -
اب ہم اپنے اصل موضو ع کی جانب آتے ہیں - کالے تیر والے ستوں یعنی '' اسطوانہ وفود '' اور نیلے تیر والے ستوں یعنی '' اسطوانہ حرس '' کے درمیان آپکو ایک دروازہ نظر آ رہا ہے جسکو میں نے '' سرخ تیر '' سے واضح کیا ہے اور اس دوازے کو '' باب وفود '' کہا جاتا ہے - بس ، بس ، بس اسی مقام پر رک جایے اور غور سے ان تین سبز تیروں کی جانب دیکھیں جو آج کی پوسٹ کی اصل روحانی کہانی ہے- کہانی نہیں بلکہ حقیقت ہے -
ترک سلطان عبدلمجید کے دور میں جب '' ریاض الجنه '' کی از سر نو تزین و آرایش ہو نے لگی اور چھت پر گنبد بناتے جانے لگے تو سلطان کی خواہش تھی کہ '' ریاض الجنه '' میں موجود اوپر بیان کردہ تین ستونوں سمیت جو کل چھہ روحانی اور تاریخی ستوں ہیں جن میں '' اسطوانہ عائشہ '' ، '' اسطوانہ
ابی لبابہ '' اور '' '' اسطوانہ مخلقه'' بھی شامل ہیں جن ذکر آج کی پوسٹ میں ، میں نے نہیں کیا ہے ، انکے مقامات میں ذرہ برابر تبدیلی نہ ہو - گویا چھت پر گنبد تو بنایے جائیں پر چھہ کے چھہ تاریخی ستون ایک انچ بھی اپنی جگہہ سے نہ ہٹیں -
اسی لیے آپ اگر کبھی '' ریاض الجنه '' میں کھڑے ہوکر چھت کی جانب دیکھیں یا اوپر جاکر چھت دیکھیں تو آپکو چھت پر بنے گنبد چھوٹے بڑے مختلف سایز کے نظر آئیں گے کیوں کہ بنانے والوں کی مجبوری تھی جن ستونوں پر چھت ڈال کر گنبد بنانے تھے کہ انھیں اپنے پرانے مقام سے ہٹانے کی اجازت نہ تھی -
اب اصل واقعہ پر آئین ----- '' ریاض الجنه '' کے مختلف حصوں میں جب کھدائی ہو رہی تھی تا کہ مظبوط ستوں استوار کے جائیں تو روضۂ مبارک کی دیوار میں '' باب الوفود '' ( لال تیر دیکھیں ) کے قریب '' ریاض الجنه '' میں جب کوئی آٹھہ ہاتھہ یعنی چار میٹر کھدائی کی گئی تو وہاں خلاف توقع اچانک ایک میٹھے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا - ( مقام کے تعین کے لیے تین سبز تیروں کو دیکھیں ) -
چشم دید لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ پانی '' زلال جنت '' کی طرح سفید اور نہایت شرین تھا - زلال '' انڈے کی سفیدی کو کہتے ہیں '' - اس پانی سے فیضیاب ہونے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ پانی پینے میں مدینہ منورہ کے دیگر کنووں کے مقابلے میں سب سے منفرد اوریکتا تھا - یہ بے مثل پانی تھا اور شاید '' ریاض الجنه '' میں ہونے کی وجہ سے جنت کا ہی پانی ہو - اس چشمے کے گرد پرانے کھجور کے درختوں کی سبز جڑیں بھی پائی گیئں -
یہ متبرک پانی سلطان عبدلمجید
کی خدمت میں بھی پیش کیا گیا مگر سلطان نے نامعلوم وجوہ کی بنا پر اس کو بند کروا دیا مگر یہ یقین کامل ہے کہ آج بھی یہ متبرک جنتی پانی تقریبا'' اس مقام پر جہاں تین سبز تیر بنے ہیں محض چار یا چھہ میٹر نیچے موجود ہوگا -
کیا اچھا ہو کہ اب جب کبھی ہم سب مدینہ منورہ بلایے جائیں تو چند ساعتیں یہاں رک کر اس معجزانہ پانی کا تصور اپنے ذہنوں میں گھومائیں اور اسکی روحانی لطافتوں سے محظوظ ہوں -
اس واقعہ کا ذکر '' اللوا صادق باشا '' نے اپنے عربی سفر نامے '' الرحلات
الحجازية '' میں کیا ہے جو انٹر نیٹ پر بھی موجود ہے - یہ سفر آپ نے انیسویں صدی کے آخر میں کیا تھا اور انہوں نے یہ واقعہ انجینئیر محمود آفندی سے نقل کیا ہے جو اس مبارک کام پر مامور تھے اور چشم دیدہ گواہ تھے - بقول '' اللوا صادق باشا ''کے انھیں بھی ان متبرک کھجوروں کی کچھ باقیات نصیب ہوئیں - الله أعلم
(اس پوسٹ کے کچھہ اختتامی پیرے '' جستجو ے مدینہ '' سے مستعار لیے گئے ہیں - )



حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھوڑے


آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں صرف سات گھوڑوں کو یہ اعزاز نصیب ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر سواری کی ان کے نام یہ ہیں:۔
السکب: یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا گھوڑا تھا۔
المرتجز: یہ ایک اعرابی سے خریدا گیا تھا۔
اللزاز: یہ اسکندریہ کے بادشاہ مقوقس نے بھیجا تھا۔
الظرب: یہ ربیعہ بن ابراءرضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا۔
الورد: یہ تمیم داری رضی اللہ عنہ نے بطور ہدیہ پیش کیا تھا۔ ٭یعسوب‘ الجیف: یہ دونوں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنگی گھوڑے تھے۔
اونٹنی قصوا تھی،اسے جدعاءاور عضباءبھی کہتے ہیں۔ یہ وہ اونٹنی ہے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی تھی۔





استنبول کی ایک مسجد میں پیغمبر اسلام کا  جبہ ۔ شیشے کے ایک کیس میں رکھا گیا یہ مقدس چوغہ کپاس اور ریشم سے بنا ہوا ہے۔ترک زبان میں اسے ہیرکائے شریف (مقدس چوغہ)کہا جاتا ہے اور اسے سترہویں صدی میں استنبول میں لایا گیا تھا۔


ترکی کے شہر استنبول میں  واقع  توپ کاپی محل کے میوزیم میں   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سابقہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے منسوب تبرکات موجود ہیں۔ دروازے پر لگی توپ کی وجہ سے اس کا نام توپ کاپی یعنی ''توپ دروازہ‘‘ محل پڑ گیا۔ بعدازاں یہ دروازہ تو ختم ہوگیا مگر نام وہی مشہور ہو گیا۔

قسطنطنیہ کی فتح کے دوران رومی بادشاہ کا محل تباہ ہو گیا تھا، اس لئے سلطان محمد فاتح نے یہاں اپنے لئے محل تعمیر کروایا تھا۔1923ء میں ترک عثمانی سلطنت کا خاتمہ ہوا تو توپ کاپی محل کو عجائب گھر میں تبدیل کردیا گیا ۔ اس میں مقدس نوادرات جس میں رسول اکرم ﷺ کی تلواریں، چھڑی مبارک، ریش مبارک کے بال، جبہ اوردانت مبارک کے علاوہ آپﷺ کے پائوں مبارک کا نشان اور آپﷺ کا دستخط شدہ خط شامل ہیں‘ میرے لئے ایک عرصہ سے استنبول جانے کے لئے وجہ کشش تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پیالہ، حضرت یوسف علیہ السلام کی پگڑی، حضرت دائود علیہ السلام کی تلوار اورحضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کے علاوہ چاروں خلفاء کی تلواریں، حضرت بی بی فاطمہؓ کی عباء، حضرت امام حسینؓ کا کرتا اور بوقت شہادت تلاوت کیا جانے والا حضرت عثمانؓ کا قرآن مجید۔ یہ سب توپ کاپی میوزیم کے اسلامی نوادرات والے حصے میں موجود ہیں۔ خانہ کعبہ کی چابیاں، خانہ خدا کا پرنالہ اور دیگر اشیاء۔ ایک سونے کے بکس میں حضور اکرم ﷺ کا خرقہ مبارک جس کے بارے میںروایت ہے کہ یہ وہ چادر مبارک ہے جو 
آپﷺ نے حضرت کعب بن زہیر کو قصیدہ سنانے پر عطا کی تھی۔




31جولائی 2002ء میں بادشاہی مسجد سے چرا لیا گیا تھا۔ محکمہ اوقاف کی نااہلی دیکھئے کہ اس لمبے عرصہ میں اس معاملے پر کوئی پیش رفت نہیں کی گئی۔ حتی کہ عدالت میں درخواست تک نہیں دی جا سکی۔ یہ درخواست بھی پرائیویٹ شہریوں پیر ایس اے جعفری اور جناب خالد محمود صاحب نے جمع کرائی، جس پر فاضل جج مسٹر جسٹس محمد انوارالحق صاحب نے محکمہ اوقاف کے سربراہان سے استفسار کیا، تو انہوں نے بتایا کہ ’’چیف ایڈمنسٹریٹر اوقاف اور محکمہ اوقاف آرگنائزیشن و مذہبی امور پنجاب نے چور کی اطلاع دینے والے کے لیے بیس لاکھ روپے کے نقد انعام کا اعلان کیا ہے
سپریم کورٹ نے بادشاہی مسجد لاہور سے نبی پاک کے نعلین کی چوری کے اشتہارات جاری کرنے کی ہدایت کی ہے ۔ عدالت نے پنجاب پولیس کو حکم دیا ہے کہ معاملے کی تفتیش جاری رکھے اور ہر تین ماہ بعد رپورٹ دی جائے ۔
16 جنوری 2019 کو سپریم کورٹ نے نوٹس لیتے ہوئے کیس کی سماعت کی چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے نبی پاک کی نعلین کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی ۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اس نایاب چیز کی قیمت ہی کوئی نہیں، جب سے چوری ہوئی درخواست گزار ننگے پاوں پھر رہا ہے ۔ پولیس کی تفتیشی ٹیم کے سربراہ نے عدالت کو بتایا کہ 31 جولائی 2002 کو مغرب اور عشاء کے درمیان نعلین کی چوری ہوئی، معاملے کی ہر پہلو سے تفتیش کی کہ کہیں نعلین مبارک اسمگل تو نہیں ہوگئے ہوں ۔ تفتیشی ٹیم نے نعلین مبارک کی پیمائش بھی کرائی تھی اور بادشاہی مسجد کے باکس پر موجود فنگر پرنٹس کا جائزہ بھی لیا ۔ ایک دفعہ کراچی سے بھی خبر آئی ہم وہاں بھی گئے، اب ہمارے پاس اصل نعلین مبارک کی پہچان کا پیمانہ بھی آ گیا ہے، اور اس پر 15 لاکھ انعام بھی مقرر کیا ہے ۔
جو تبرکات ہمارے پاس موجود ہیں پنجاب حکومت ان کی حفاظت کرے، عدالت نے پولیس کو حکم دیا کہ ہر تین مہینے بعد پیش رفت رپورٹ جمع کروائے اور پنجاب حکومت باقی تبرکات کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے بھی اقدامات کرے ۔ سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی

مہر نبوت
حضرت محمدﷺ کے دونوں شانوں کے درمیان کبوتر کے انڈے کے برابر مہر نبوت تھی یہ بظاہر سرخ ابھرا ہوا گوشت سا تھا۔ لیکن ایک اور روایت کے مطابق بائیں شانہ کے پاس چند مہاسوں کی مجموعی ترکیب سے ایک مستدیر شکل پیدا ہو گئے تھے اسی کو مہر نبوت کہتے ہیں۔

چنانچہ حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دونوں شانوں کے بیچ میں مہر نبوت کو دیکھا جو کبوتر کے انڈے کی مقدار میں سرخ اُبھرا ہوا ایک غدود تھا مہر نبوت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن کے نیچے دوکندھوں کے درمیان ایک پارۂ گوشت تھا جس پر کچھ تل تھے۔ کبوتری کے انڈے یا مسہری کی گھنڈی کے برابر پارۂ گوشت نہایت چمکیلا اور نورانیت تھا،تل سیاہ آس پاس بال،ان کے اجتما ع سے یہ جگہ نہایت بھلی ہوتی تھی نیچے سے دیکھو تو پڑھنے میں آتا تھا "اَﷲُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْكَ لَہٗ"اوپر سے دیکھو تو پڑھاجاتاہے"تَوَجَّہَ حَیْثُ کُنْتَ فَاِنَّكَ مَنْصُورٌ"اسے مہرنبوت اس لیے کہتے تھے کہ گزشتہ آسمانی کتب میں اس مہر کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتم النبیّین ہونے کی علامت قرار دیا گیا تھا وفات کے وقت یہ مہر شریف غائب ہو گئی تھی۔ اس میں اختلاف ہے کہ بوقت ولادت موجود تھی یا نہیں۔ بعض نے فرمایا کہ شق صدر کے بعد فرشتوں نے جو ٹانکے لگائے تھے ان سے یہ مہر پیدا ہو گئی تھی۔ صحیح یہ ہے کہ بوقت ولادت اصل مہرموجود تھی مگر اس کا ابھار ان ٹانکوں کے بعدہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رسول اکرم ﷺ کے خطو ط

اللہ کے آخری نبی اور رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کو پھیلانے کی کوشش میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں چھوڑا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے جزیرہ عرب سے باہر بادشاہوں اور فرماں رواؤں کو متعدد خطوط ارسال کیے جن میں انہیں اسلام کی دعوت دی گئی۔ یہ تحریریں لوگوں تک دین کی دعوت پہنچانے کا ایک اہم ذریعہ تھیں۔
ہجرت کے چھٹے برس قریش اور مسلمانوں کے درمیان پُر امن دورانیے کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غنیمت جانا اور اسے اسلام کی بین الاقوامیت کے واسطے استعمال فرمایا۔
اللہ کے نبی نے مصر کے حکم راں مقوقس کو تحریر فرمایا " بسم الله الرحمن الرحيم ... اللہ کے رسول محمد کی جانب سے قِبطیوں کے عظیم مقوقس کو... سلام ہو اُس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی۔ بعد ازاں میں تم کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اسلام قبول کر لو امان پاؤ گے۔ تم کو اللہ دُہرا اجر عطا فرمائے گا لیکن اگر تم نے منہ موڑا تو تم پر اہلِ قبط کا بھی گناہ ہوگا۔ اے اہلِ کتاب ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں ۔ اور ہم میں سے بعض ، بعض کو اللہ کے بجائے رب نہ بنائیں۔ پس اگر وہ منہ موڑیں تو کہہ دو کہ گواہ رہو ہم مسلمان ہیں"۔
یہ خط حضرت حاطب بن ابی بلتعہ نے مقوقس تک پہنچایا۔ تاریخی روایت میں آتا ہے کہ مقوقس نے جب خط پڑھ لیا تو حضرت حاطب سے کہا " اگر تمہارا ساتھی واقعی میں نبی ہے تو اس کو کس چیز نے اس بات سے روکا کہ وہ اُن لوگوں کے لیے بد دعا کرے جنہوں نے اُسے اُس کے وطن سے نکالا۔ اس طرح اللہ اُن لوگوں پر تکلیف مسلط کر دیتا"۔
حضرت حاطب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا " حضرت عیسی علیہ السلام کو کس چیز نے روکا تھا کہ وہ اُن لوگوں کے لیے بد دعا کرتے جنہوں نے عیسی کے قتل کے واسطے سازش تیار کی تھی۔ اس طرح اللہ اُن لوگوں پر اُس چیز کو مسلط کرتا جس کے وہ مستحق تھے؟ ... اس پر مقوقس بولا کہ " تم دانش مند ہو اور ایک صاحبِ بصیرت شخصیت کی طرف سے بھیجے گئے ہو"۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی فرمارواؤں اور بادشاہوں کو خطوط ارسال کیے۔ ان میں حبشہ کا نجاشی، روم کا ہرقل عظیم ، شاہِ فارس کِسری ، امیر بحرین منذر بن ساوی ، یمامہ کا امیر ہوذہ الحنفی ، عمان کا بادشاہ ، یمن کا حاکم اور غساسنہ کی سلطنت کا امیر شامل ہے۔
بادشاہوں اور حکم رانوں کو اسلام کی دعوت کے طور پر بھیجے گئے نبوی خطوط میں ان شخصیات کے منصبوں کے نام اور القاب و خطابات بھی نظر آتے ہیں۔ ان خطوط کے اختتام پر یہ بھی تحریر ہوتا کہ " اگر تم اس دعوت کا انکار کرو گے تو تہمارے پیروکاروں کا وبال (گناہ) بھی تمہارے سر ہو گا"۔
تاریخی روایات کے مطابق شاہِ فارس کِسری (خسرو) نے پیغمبرِ اسلام کا نامہ مبارک یہ کہہ کر چاک کر دیا تھا کہ "میری رعایا میں سے ایک غلام اپنا نام مجھ سے پہلے لکھتا ہے"۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے کی جب خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اللہ اس کی بادشاہت کو پارہ پارہ کرے"۔ پھر وہ ہی ہوا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ کچھ عرصے بعد کسری اپنے بیٹے کے ہاتھوں مارا گیا اور اس کی سلطنت پارہ پارہ ہو گئی۔
پیغمبرِ اسلام کی جانب سے بعض بادشاہوں اور حکم رانوں کو بھیجے گئے خطوط میں سے کچھ کو استنبول کے عجائب خانے میں محفوظ کیا گیا ہے جب کہ مدینہ منورہ میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق اشیاء کی نمائش میں ان خطوط کی نقول رکھی گئی ہیں۔
بشکریہ محد الحربی




۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں 1050 مربع میٹر کے رقبے پر اپنے اصحاب کے ساتھ مل کر مسجد نبوی کی تعمیر کا آغاز کیا تھا۔ اس تعمیر میں بنیادی طور پر اینٹوں ، پتھروں ، کھجور کے تنوں ، چھپّر کی چھت اور کھجور کے تنوں کے سُتونوں کا سہارا لیا گیا۔
تاہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو اس پہلی تعمیر کے بنیادی ڈھانچے نے گزرتے وقت کے ساتھ ترقی کی منازل طے کیں یہاں تک کہ اس کا رقبہ 5 لاکھ مربع میٹر سے بھی زیادہ ہو گیا۔
اس سلسلے میں مسجد نبوی کی پہلی توسیع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہی کی گئی جب 1425 میٹر کے اضافے کے ساتھ مسجد کا مجموعی رقبہ 2500 مربع میٹر تک پہنچ گیا۔
مسجد نبوی شریف کے امور کی پریذیڈنسی میں تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر عبدالواحد الحطاب نے "العربیہ ڈاٹ نیٹ" سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مسجد نبوی کی تعمیر کا ارتقاء جاری رہا یہاں تک کہ شاہ سلمان کے دور کی توسیع تک کا وقت آ گیا اور اس طرح مسجد کے رقبے میں اس کی تعمیر کے بعد سے 300 گُنا اضافہ ہو چکا ہے۔

توسیع کے 14 مراحل

تقریبا 1400 برس قبل ہجرت کے پہلے سال 1050 مربع میٹر کے رقبے پر مسجد نبوی کی تعمیر کی گئی۔
مسجد کی پہلی سن 7 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں انجام پائی جب رقبے میں 1425 میٹر کا اضافہ کیا گیا اور اس طرح مسجد کا مجموعی رقبہ 2500 مربع میٹر کے قریب ہو گیا۔
سن 17 ہجری میں امیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی میں 1100 میٹر کا اضافہ کیا۔ اس طرح مجموعی رقبہ 3600 مربع میٹر ہو گیا۔
سن 29 سے 30 ہجری کے درمیان خلیفہ سوم عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے 496 میٹر کا اضافہ کیا ، اس طرح مجموعی رقبہ 4096 مربع میٹر ہو گیا۔ سن 88 سے 91 ہجری کے درمیان اموی خلیفہ الولید بن عبدالملک نے 2369 میٹر کا اضافہ کیا جس کے بعد مسجد کا مجموعی رقبہ 6465 مربع میٹر تک پہنچ گیا۔
سن 161 ہجری میں عباسی خلیفہ المہدی نے 2450 میٹر کی توسیع کی جس کے بعد مسجد نبوی کا مجموعی رقبہ 8915 مربع میٹر ہو گیا۔
سن 888 ہجری میں برجی مملوک سلطنت کے بادشاہ اشرف قائتبائی نے مسجد نبوی میں محض 120 میٹر کا اضافہ کیا جس کے بعد مجموعی رقبہ 9035 مربع میٹر ہو گیا۔ سن 1265 ہجری میں عثمانی دور کے سلطان عبدالمجيد نے 1293 میٹر کا اضافہ کیا جس کے بعد مجموعی رقبہ 10328 مربع میٹر تک پہنچ گیا۔

مملکتِ سعودی عرب کے قیام کے بعد شاہ عبدالعزیز آل سعود نے 1372 ہجری میں مسجد نبوی کے رقبے میں 6024 میٹر کا اضافہ کیا تا کہ مجموعی رقبہ 16352 مربع میٹر ہو جائے۔
شاہ فہد بن عبدالعزیز کے دور میں مسجد نبوی کی اُس وقت تک کی سب سے بڑی توسیع دیکھنے میں آئی جب سابقہ رقبے میں 82 ہزار میٹر کا اضافہ کیا گیا۔ اس طرح مسجد کا مجموعی رقبہ 98352 مربع میٹر تک پہنچ گیا جب کہ اطراف کے صحنوں کا رقبہ 2.35 لاکھ مربع میٹر ہو گیا۔
شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے مشرقی سمت کے صحنوں میں 30500 میٹر کی توسیع کا حکم دیا تا کہ بیرونی صحنوں کا مجموعی رقبہ 3.65 لاکھ مربع میٹر ہو جائے۔ اس کے علاوہ صحنوں میں سایہ فراہم کرنے کے واسطے 250 چھتریاں اور پانی کے چھڑکاؤ کے لیے 436 پنکھے نصب کیے گئے۔
سن 1433 ہجری مسجد نبوی کی تاریخ کا ایک اہم ترین سال شمار کیا جاتا ہے جب شاہ عبداللہ نے مسجد کی تاریخ کی سب سے بڑی توسیع کا سنگِ بنیاد رکھا۔ اس طرح بیرونی صحنوں کے ساتھ مسجد کا مجموعی رقبہ 5 لاکھ مربع میٹر سے بھی زیادہ ہو گیا۔ آخر کار سن 1436 ہجری میں شاہ سلمان نے توسیع کی نگرانی سنبھالی اور اس کو مسجد نبوی کی نئی تاریخی توسیع کے ضمن میں مکمل کرنے کا حکم جاری کیا۔



سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداللہ نے مسجد نبوی کی تعمیر و توسیع کے لیے 4ارب 70کروڑ ریال کے عظیم منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ منصوبے کے مطابق مسجد نبوی کے مشرقی حصے کی توسیع کی جائے گی جس کے بعد اس حصہ میں مزید 70 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہو جائے گی۔ اس منصوبہ میں مسجد نبوی میں 182 بڑی خودکار چھتریاں بھی نصب کی جائیں گی تاکہ زائرین سورج کی گرمی اور بارش سے محفوظ رہ سکیں۔
مسجد نبوی کے موزنین
  • حضرت بلال حبشیؓ
  • كامل بن صالح بن احمد نجدى.
  • مصطفى بن عثمان بن حسن نعمانى.
  • عبد المطلب بن صالح بن احمد نجدى.
  • عصام بن حسين بن عبد الغنى بخارى.
  • عبد الرحمن بن عبد الإله بن إبراهيم خاشقجي (شيخ المؤذنين).
  • عمر بن يوسف بن محمد كمال۔
  • سامي بن محمد حسن ديولی۔
  • فيصل بن عبد الملك بن محمد سعيد نعمان۔
  • سعود بن عبد العزيز بن حسين بخاری۔
  • محمد بن ماجد بن حمزة حكيم۔
  • إياد بن أحمد بن عباس شكری۔
  • أشرف بن محمد بن حمزة عفيفی۔
  • عبد المجيد بن سلامة بن عودة السريحی۔
  • عمر بن نبيل سنبل

ﻋﺜﻤﺎﻧﯽ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺠﺪ ﻧﺒﻮﯼصلی الله عليه وسلم ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﺗﻌﻤﯿﺮﺍﺕ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ
ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﻋﻘﯿﺪﺕ ﮐﯽ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﮬﮯ،ذﺭﺍ ﭘﮍﮬئے ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﻋﺸﻖ
ﻧﺒﯽصلی الله عليه وسلم ﺳﮯ ﻣﻨﻮﺭ ﮐﺮﯾﮟ ۔ ﺗﺮﮐﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﺐ ﻣﺴﺠﺪ ﻧﺒﻮﯼ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺎ ﺍﺭﺍﺩﮦ
ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻭﺳﯿﻊ ﻋﺮﯾﺾ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﻧﮭﯿﮟ
ﻋﻤﺎﺭﺕ ﺳﺎﺯﯼ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﻓﻨﻮﻥ ﮐﮯ ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮬﯿﮟ، ﺍﻋﻼﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ
ﺩﯾﺮ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﮬﺮ ﻋﻠﻢ ﮐﮯ ﻣﺎﻧﮯ ﮬﻮﮮٔ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﺪﻣﺎﺕ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﻦ،
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﺳﮯ ﺍﺳﺘﻨﺒﻮﻝ ﮐﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﺷﮩﺮ ﺑﺴﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ
ﺍﻃﺮﺍﻑ ﻋﺎﻟﻢ ﺳﮯ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻥ ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﮐﻮ ﺍﻟﮓ ﺍﻟﮓ ﻣﺤﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺴﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ،
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻋﻘﯿﺪﺕ ﺍﻭﺭ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﺎ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﺎﺏ ﺷﺮﻭﻉ ﮬﻮﺍ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻧﻈﯿﺮ ملنا
ﻣﺸﮑﻞ ﮬﮯ، ﺧﻠﯿﻔہ وﻗﺖ ﺟﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﻓﺮﻣﺎﻧﺮﻭﺍ ﺗﮭﺎ ، وہ نئے
ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮬﺮ ﺷﻌﺒﮯ ﮐﮯ ﻣﺎﮨﺮ ﮐﻮ ﺗﺎﮐﯿﺪ ﮐﯽ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺫﮬﯿﻦ ﺗﺮﯾﻦ
ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﻓﻦ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺳﮑﮭﺎﮮٔ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﯾﮑﺘﺎ ﻭ ﺑﯿﻤﺜﺎﻝ ﮐﺮ ﺩﮮ، ﺍسی
ﺍﺛﻨﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﮎ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﺍﺱ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ حافظ ﻗﺮﺁﻥ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺴﻮﺍﺭ ﺑﻨﺎﮮٔ ﮔﯽ،
ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻋﺠﯿﺐ ﻭ ﻏﺮﯾﺐ ﻣﻨﺼﻮﺑﮧ کئی ﺳﺎﻝ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮬﺎ ، 25
ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﻧﻮﺟﻮﺍﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺗﯿﺎﺭ ﮬﻮئی ﺟﻮ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﺍﭘﻨﮯ
ﺷﻌﺒﮯ ﻣﯿﮟ ﯾﮑﺘﺎ ﮮٔ ﺭﻭﺯﮔﺎﺭ ﺗﮭﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﮬﺮ ﺷﺨﺺ حاﻓﻆ ﻗﺮﺁﻥ ﺍﻭﺭ ﺑﺎ ﻋﻤﻞ
ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ، ﯾﮧ ﻟﮓ ﺑﮭﮓ 500 ﻟﻮﮒ ﺗﮭﮯ، ﺍﺳﯽ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺗﺮﮐﻮﮞ ﻧﮯ
ﭘﺘﮭﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﻧﯽٔ ﮐﺎﻧﯿﮟ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯿﮟ، ںئے ﺟﻨﮕﻠﻮﮞ ﺳﮯ ﻟﮑﮍﯾﺎﮞ ﮐﭩﻮﺍئیں،
ﺗﺨﺘﮯ حاﺻﻞ ﮐﯿﮯٔ گئے ، ﺍﻭﺭ ﺷﯿﺸﮯ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺑﮩﻢ ﭘﮩﻨﭽﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ،
ﯾﮧ ﺳﺎﺭﺍ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢصلی الله عليه وسلم ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺩﺏ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻋﺎﻟﻢ ﺗﮭﺎ
ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯٔ ﻣﺪیںہ منورہ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺑﺴﺘﯽ ﺑﺴﺎئی ﮔﯽٔ ﺗﺎ ﮐﮧ ﺷﻮﺭ
ﺳﮯ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی بارگاہ کی بے ادبی اور ﻣﺪینہ منورہ ﮐﺎ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﺧﺮﺍﺏ ﻧﮧ ﮬﻮ، ﻧﺒﯽصلی الله عليه وسلم ﮐﮯ ﺍﺩﺏ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ انہیں حکم تھاﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽ
ﮐﭩﮯ ﭘﺘﮭﺮ کو اپنی جگہ بٹھانے  کے لئے چوٹ لگانےکی ضرورت پیش آئے تو موٹے کپڑے  کو پتھر پرتہ بتہ یعنی کئی بار فولڈ کر کے رکھیں پھر لکڑی کے  ہتھوڑے سے آہستہ آہستہ سے چوٹ لگائیں تاکہ آواز پیدا نہ ہو اور اگر ﺗﺮﻣﯿﻢ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ہو ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﺍﺳﯽ ﺑﺴﺘﯽ
ﺑﮭﯿﺠﺎ ﺟﺎئے وہاں اسے کاٹ کر درست کیا جائے، ﻣﺎﮬﺮﯾﻦ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮬﺮ ﺷﺨﺺ ﮐﺎﻡ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺑﺎ ﻭﺿﻮ
ﺭﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﻭﺩ ﺷﺮﯾﻒ ﺍﻭﺭ ﺗﻼﻭﺕ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﻐﻮﻝ ﺭﮬﮯ، ﮬﺠﺮﮦ ﻣﺒﺎﺭﮎ
ﮐﯽ ﺟﺎﻟﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﭙﮍﮮ ﺳﮯ ﻟﭙﯿﭧ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﮔﺮﺩ ﻏﺒﺎﺭ ﺍﻧﺪﺭ ﺭﻭﺿﮧ ﭘﺎﮎ
ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺟﺎﮮٔ، ﺳﺘﻮﻥ ﻟﮕﺎﮮٔ ﮔﯿﮯٔ ﮐﮧ ﺭﯾﺎﺽ ﺍلجنۃ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺿﮧ ﭘﺎﮎ ﭘﺮ
ﻣﭩﯽ ﻧﮧ ﮔﺮﮮ ، ﯾﮧ ﮐﺎﻡ ﭘﻨﺪﺭﮦ ﺳﺎﻝ ﺗﮏ ﭼﻠﺘﺎ ﺭﮬﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻋﺎﻟﻢ ﮔﻮﺍﮦ ﮬﮯ
ﺍﯾﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﯾﺴﯽ ﻋﻘﯿﺪﺕ ﺳﮯ ﮐﻮئی ﺗﻌﻤﯿﺮ ﻧﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﭘﮩﻠﮯ ھوئیﺍﻭﺭ ﻧﮧ

ﮐﺒﮭﯽ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﮬﻮﮔﯽ .






نوٹ : میں  نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور عقیدت کی وجہ سے تمام ریسرچ مختلف ویب سائیٹ اور حوالوں سے ترتیب دی ہے 
اگر کوئی غلظی ہو تو تصحیح ضرور کریں ، اللہ ہم سب پر رحم فرمائے ، آمین
عبدالرحمان خان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قران کے بارے میں اہم معلومات 
https://rehmankhan8.blogspot.com/2018/08/quran-information.html

اسلامی مہینے کے حساب سے اہم دن 
https://rehmankhan8.blogspot.com/2017/09/islamic-important-days.html?q=islamic





حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت سے وصال تک ایام پر ایک مختصر نظر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت سے وصال تک ایام پر ایک مختصر نظر Reviewed by News Archive to Date on May 30, 2017 Rating: 5

1 comment