Toheen Risalat توہین رسالت



توہین رسالت سے جڑے اہم واقعات

08 ستمبر 2020
لاہور کی سیشن عدالت نے توہین رسالت کا جرم ثابت ہونے پر آصف پرویز کو موت کی سزا سنا دی۔ایڈیشنل سیشن جج منصور احمد قریشی نے مجرم کو ٹیلی گراف ایکٹ کے تحت بھی 3 برس قید کی سزا کا حکم دیا۔ عدالت نے توہین عدالت کا جرم ثابت ہونے پر آصف پرویز پر 50 ہزار روپے جرمانہ بھی عاید کیا۔ مجرم آصف پرویز کی سزا کی روبکار سپرنٹنڈنٹ ڈسٹرکٹ جیل کو بھجوا دی گئی۔گرین ٹاؤن پولیس نے مجرم کے خلاف توہین رسالت، توہین قرآن، توہین مذہب سمیت دیگر الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ پولیس نے 2013ء میں مجرم آصف پرویز کے خلاف مقدمہ کا چالان پیش کیا۔عدالت نیدستیاب شواہد اور گواہوں کی روشنی میں آصف پرویز کو موت کی سزا سنائی

گستاخ رسول آصف پرویز مسیح کو اپنے موبائل فون سے 
 اللہ کی توہین و توہین رسالت پر مبنی 
 توہین آمیز ایس ایم ایس 
کرنے کے 
ارتکاب میں سزاۓ موت سنا دی۔
قانونی ماہرین کے بقول مجرم کی سزا پر اس وقت تک عملدرآمد نہیں ہو گا جب تک متعلقہ ہائیکورٹ فیصلے کی توثیق نہ کر دے۔
آصف پرویز کے وکیل سیف الملوک کے مطابق سیشن عدالت کے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جائے گی۔
قانون کے مطابق فیصلے کی نقول ملنے کے بعد مجرم کو سات دن میں اپنے سزا کے خلاف متعلقہ ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کا قانونی حق ہے اور دو رکنی بنچ اس اپیل پر سماعت کرتا ہے



جولائی 29 2020
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں توہین رسالت کے مقدمے میں ملزم کو عدالت میں جج کے سامنے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔
یہ واقعہ بدھ صبح سیشن جج شوکت علی کی عدالت میں پیش آیا۔ پولیس کے مطابق ملزم طاہر احمد نسیم کو عدالت میں مقدمے کی سماعت کے لیے لے جایا گیا تھا جہاں ایک شخص محمد خالد عدالت میں داخل ہوا اور ان پر فائرنگ کر دی

طاہر احمد نسیم کے خلاف 25 اپریل 2018 کو تھانہ سربند میں تعزیرِات پاکستان کی دفعات کے تحت توہینِ رسالت اور توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
22 دسمبر2019
پاکستان میں پنجاب کے جنوبی شہر ملتان کی بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے لیکچرار 
جنید حفیظ کے خلاف توہین مذہب کے مقدمے کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے انھیں سزائے موت کا حکم دیا


ملزم کے وکیل کو 7 مئی 2014 کو چوک کچہری پر واقع چیمبر میں گولی ماری گئی تھی اور اس قتل کے واقعے میں اور بھی وکیل زخمی ہوئے تھے۔ جس کے بعد ملزم کا کیس لینے والے دوسرے وکیل پیروی سے دستبردار ہوگئے تھے۔
پیروی کرنے والے تیسرے وکیل کو بھی دوران سماعت دھمکیاں دی گئی تھیں۔
ملزم جنید کے خلاف 15 گواہوں کی شہادتیں اور زیر دفعہ 342 کے بیانات مکمل کیے گئے۔ مقدمے کے بقیہ 11 گواہوں کو غیر ضروری جان کر ترک کر دیا گیا۔
واضح رہے سابق یونیورسٹی لیکچرار جنید حفیظ پر سوشل میڈیا پر مذہبی دل آزاری پر مبنی تبصرہ کرنے کا مقدمہ 13 مارچ 2013 میں درج کیا گیا تھا۔ سکیورٹی خدشات کے باعث اپریل 2014 کو کیس کی سماعت سینٹرل جیل میں کرنے کی ہدایات جاری ہوئی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


02 نومبر 2018
۔سپریم کورٹ کی جانب سے آسیہ بی بی کی رہائی کے فیصلے کے خلاف دو دن جاری رہنے کے بعد دھرنا ختم کردیا گیا

وفاقی حکومت اور اسلام آباد میں ہونے والے تحریک لبیک کے دھرنے کے مظاہرین کے مابین معاملات طے پانے کے

25 اکتوبر 2018
ڈچ پارلیمنٹرین کا گستاخانہ ٹوئیٹ ، ہالینڈ کے سفیر دفتر خارجہ طلب، پاکستان کا شدید احتجاج


30 اگست 2018

پاکستان سمیت دنیا بھر میں گستاخانہ خاکوں پر احتجاج  رنگ لے آیا ،ہالینڈمیں  گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منسوخ ،اسلام آباد میں دھرنا ختم

29 اگست 2018
گستاخانہ خاکوں کے خلاف تحریک لبیک سمیت دیگر مزہبی جماعتوں کے ملک بھر میں مظاہرے


27 اگست 2018
گستاخانہ خاکوں کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھائیں گے ، او آئی سی سے بھی رابطہ کیا جائے گا یہ پوری  امت مسلمہ کی ناکامی ہے عمران خان
سینٹ میں مزمتی قرارداد منظور



20 اگست 2018
20،ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کی دوبارہ اشاعت پر ہالینڈ کے سفیر کوطلب کیا گیا ۔۔۔احتجاج ریکارڈ کرایا گیا


11 جون 2017

،سوشل میڈیا پر گستاخی کا الزام ثابت ہونے پر پہلی سزائے موت
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر  بہاولپورکی ایک عدالت نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ اور فرقہ وارانہ مواد شائع کرنے کے الزام میں ملوث ملزم تیموررضا کو موت کی سزاسنائی

13 اپریل 2017
 مردان ، عبدالولی خان یونیورسٹی کے  مشتعل طلبہ نے توہین مزہب کے نام  تشدد کرکے طالبعلم  مشال کی جان لے لی 

07 فروری 2018
،مشال خان قتل کیس کا فیصلہ سنادیا گیا،ایک شخص کو سزائے موت 5 افراد کو عمر قید 25 کو 4 سال قید جبکہ 26افراد کو  بری کردیا گیا،فیصلہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے  ہری پور سینٹرل جیل میں سنایا

58 افراد کو گرفتار کرکے پوچھ گچھ کی گئی 

31، مارچ 2017
پی ٹی اےکو گستاخانہ مواد فوری ہٹانےکاحکم۔ گستاخ بلاگرز کو وطن واپس لانے 
کے انتظامات کيے جائيں۔اسلام آبادہائی کورٹ کامختصر فیصلہ جاري۔
بلاگر کے خلاف گستاخانہ مواد کے ثبوت نہیں ملے ، ایف آئی آے
06 جنوری 2017
اسلام آباد سے پروفیسر سلمان حیدرسمیت  پانچ بلاگر لاپتہ ہوگئے تھے

دیگر بلاگر میں وقاص گورایہ ، احمد رضا، ثمر عباس  اور عاصم سید شامل تھے 

201727 مارچ
،اسلام آباد:سوشل میڈیا پرگستاخانہ موادکی تشہیر کیخلاف دائر درخواست پر سماعت، انوشہ رحمان آئیں۔اور بتائیں یہ۔معاملہ۔کیوں حل نہ۔ہوا، جسٹس صدیقی


16 مارچ 2017
سوشل ميڈيا پر گستاخانہ مواد کي تشہير کے حوالے سے گيارہ افرد کي نشاندہي۔ ايف آئي اے نے تفتيش کے ليے انٹرپول سے رابطہ کرليا

14 مارچ 2017
فوری طور پر گستاخانہ مواد کی بندش کے حوالے سے تمام ضروری اقدامات کریں، عدالت کی وزیر داخلہ کو ہدایت 

08، مارچ 2017
سو شل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست پر سماعت ،اس معاملے پر آج ہی ایکشن لیں اور گستاخانہ مواد آج ہی بلاک کریں، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی عدالت کی آئی جی کو ہدایت، وزیرداخلہ چوہدرئ نثارطلبی کےباوجودتاحال عدالت نہیں پہنچے
گستاخانہ پیجز اپ لوڈ کرنے والون کے خلاف ایف آئی آر درج کریں گے ، پی ٹی اے، تمام چھ پیجز بلاک کر دیئے گئے ہیں


18، جنوری 2016
یو ٹیوب کا پاکستانی ورژن کھول دیاگیا،،،گستاخانہ مواد اپ لوڈ کیےجانےپر فوری ہٹادیا جائےگا،،،حکومت کا گوگل سے معاہدہ ہوگیا

14 جنوری 2015

فرانسیسی اخبار نے گستاخانہ خاکے دوبارہ جاری کردیے ۔۔۔
،فرانسیسی اخبار مین گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف ارکان قومی اسمبلی  نے احتجاجی مارچ
ملک بھر میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف جماعت اسلامی جماعت الدوة 
اور دیگر مزہبی جماعتوں کا احتجاج۔۔۔۔۔۔۔


05 نومبر 2014
 پنجاب کے ضلع قصور کے نواحی علاقے کوٹ رادھا کشن میں ایک مشتعل ہجوم نے میں قرآن کی مبینہ بےحرمتی کے الزام پر اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والے ایک مسیحی میاں بیوی شمع اور شہزاد مسیح کو بھٹے میں جلا دیا 

لاہور میں انسداد دہشت گردی کی ایک خصوصی عدالت نے توہین قرآن کے الزام میں میاں بیوی کو زندہ جلانے والے پانچ افراد کو سزائے موت اور نو دیگر ملزموں کو دو، دو سال قید کی سزا سنائی


18 مئی 2014
18، گستاخانہ پروگرام نشرکرنےپر جیوٹی وی کے خلاف تیسرے دن بھی ملک بھرمیں مظاہرے اور جلوس،،

27 فروری 2014
 مسلمانوں کے جذبات کی کوئی پروا نہیں۔۔ ایک اداکارہ کی جان بچانے کے لیے امریکی عدالت نے گوگل کو گستاخانہ فلم یو ٹیوب سے ہٹانے کا حکم دے دیا۔۔


مارچ 2013  09


ساون  مسیحی پر مبینہ  توہین رسالت کا الزام  میں لاہور میں واقع مسیحیوں کی جوزف کالونی کے سینکڑوں مکانات کو نذر آتش کردیا  گیا جس کے الزم میں 155 افراد کو گرفتار کیا گیا  جنوری 2017 میں تمام افراد کو رہا کردیا گیا

21 ستمبر 2012
گستخانہ فلم کے خلاف، ملک بھر میں احتجاج ۔ 29 افراد جاں بحق، پیٹرول  پمپس سنیما، بینک ، غیرملکی ریسٹورینٹس نزر آتش ، موبائل سروس بند


17 ستمبر 2012
وزیر اعظم  راجہ پرویز اشرف نے یوٹیوب بلاک کردی

13 ستمبر 2012


متنازعہ فلم ، یمن میں امریکی سفارتخانہ جلادیا گیا


02 مارچ 2011
پاکستان کے اقلیتی امور شھباز بھٹی اسلام آباد میں قاتلانہ حملے میں ہلاک

تاثیر کے قتل کے بعد شہباز بھٹی نے ان کے قتل کی وجہ بننے والے قانونِ ناموسِ رسالت سےمتعلق ان کے بیانات کی حمایت کرتے ہوئے قانون میں ترامیم کا مطالبہ کیا تھا۔پاکستانی طالبان کے ایک گروپ نے شہباز بھٹی کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وفاقی وزیر کو ناموسِ رسالت کے قانون کی مخالفت کرنے کی پاداش میں نشانہ بنایا گیا۔
04 جنوری 2011

گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ان کے محافظ ممتاز قادری نے فائرنگ کرکے قتل کردیا
ممتاز قادری نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ 
گورنر پنجاب پر حملہ ان کے توہین رسالت کے قانون سے متعلق ایک بیان کی وجہ  کیا۔


29 فروری 2016

سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کواڈیالہ جیل میں پھانسی دے دی گئی ،،، ، ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے 

21 مئی 2010
گستاخانہ خاکوں کی اشاعت۔۔۔۔۔فیس بک پر پابندی
گستاخانہ خاکوں پر ملک بھر میں مظاہرے

28 مارچ 2008
، فلم اسلام مخالف فتنہ ہے ، ڈچ وزیراعظم ، توہین اسلام بند کی جائے ، اقوام متحدہ ، برطانیہ جرمنی فرانس کی مخافت، ہالینڈ کے سفیر کی طلبی گستاخانہ فلم پر احتجاج


توہین رسالتؐ قانون کے تحت دی جانے والی سزائیں  


اسلام آباد (رپورٹ: وسیم عباسی) سپریم کورٹ کی جانب سے توہین رسالتؐ کے الزام میں سزائے موت کی مجرمہ عیسائی عورت آسیہ بی بی کی بریت کے ساتھ پاکستان نے توہین رسالتؐ کے حوالے سے قانون کے تحت آج تک کسی  کو سزائے موت  نہیں دی۔گئی
 یہ قانون 1986ء میں متعارف کرایا گیا تھا، گو کہ پورے ملک میں توہین رسالتؐ کے حوالے سے قانون کے تحت 1500افراد پر الزاما ت لگے۔ کئی کو سزائے موت سنائی بھی گئی لیکن ایک پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔ پاکستان کا توہین رسالتؐ سے متعلق قانون 1860ء میں برطانوی دور کے توہین مذہب سے متعلق قانون میں توسیع ہے، جو ضیاء دور میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 295۔ بی اور 295۔ سی کی شکل میں متعارف کرائی گئیں۔ 1927سے 1985تک 58سال میں توہین مذہب یا رسالتؐ کے حوالے سے عدالتوں میں 10مقدمات کی سماعت ہوئی۔ لیکن 1986ء میں شاتم رسولؐ کے خلاف توہین رسالتؐ کا قانون متعارف ہونے کے بعد چار ہزار مقدمات درج ہوئے۔ لاہور کی این جی او سنٹر فار سوشل جسٹس کے اعداد و شمار کے مطابق 1987سے2016ء کے درمیان 1472؍افراد پر مذکورہ قوانین کے
تحت فرد جرم عائد ہوئی جن میں 730مسلمان، 501قادیانی، 205عیسائی اور 26ہندو ہیں۔ لیکن آج تک سزائے موت پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ آئی سی جے کے ایک جائزے کے مطابق ٹرائل کورٹس کی دی گئی 80فیصد سزائیں ختم کر دی گئیں۔ لیکن ردعمل میں مشتعل ہجوم ا ور افراد کی جانب سے 75افراد موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔ زیادہ تر واقعات پنجاب اور ضلع لاہور میں ہوئے 2006ء میں مال روڈ لاہور اور 2013ء میں جوزف کالونی میں مشتعل ہجوم نے اربوں روپے کی املاک کو آگ لگا دی ۔توہین رسالتؐ سے متعلق مقدمات میں چار افراد کو پولیس کی حراست یا جیل میں قتل کیا گیا۔ توہین رسالتؐ کے ملزمان پطرس اور اس کے عم زاد ساجد مسیح کو جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر اور اقلیتی امور کے وزیر شہباز بھئی آسیہ بی بی کے حق میں آواز بلند کرنے پر قتل کر دیئے گئے۔ جولائی 2012میں بہاولپور کے قریب قرآنی صفحات جلانے کے الزام میں ایک ذہنی معذور کو آگ لگا کر قتل کیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفاقی دارالحکومت میں توہین رسالت کے قانون کے تحت 3مقدمات درج ہوئے
اسلام آباد ( ایوب ناصر) 
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں توہین رسالت کے قانون کے تحت درج ہونے والے مقدمات کی تعداد تین بتائی جاتی ہے جبکہ دو افراد وفاقی وزیر اقلیتی امور شہباز بھٹی اور گورنر پنجاب سلمان تاثیر اس قانون کے خلاف بولنے کی پاداش کے جرم میں قتل کر دیئے گئے، شہباز بھٹی نے اڈیالہ جیل میں آسیہ بی بی سے ملاقات کی اورصدرزرداری کو مقدمے کے بارے میں بریفنگ دی تھی 25 نومبر 2010 کو شہباز بھٹی گولیوں سے چھلنی کر دیئے گئے ، 4 جنوری 2011 کو تھانہ کوہسار کے علاقے میں سلمان تاثیر کو کو ہسار مارکیٹ ایف سکس تھری میں واقع ایک ریسٹورنٹ جاتے ہوئے انکی حفاظت پر مامور گن مین ممتاز قادری نے قتل کر دیا۔ دستیاب پولیس ریکارڈ کے مطابق تھانہ رمنا میں 2013 میں قرآن پاک کے اوراق پھاڑ کر توہین قرآن کی پاداش میں ایک 13 سالہ مسیحی لڑکی کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا جس کی تفتیش کے دوران یہ ثابت ہو گیا کہ اس مقدمے کا مدعی خالد جدون ہی توہین قرآن کا مرتکب تھا جس نے رمشا نامی دوشیزہ کے خلاف مقدمہ دراصل اس کے خاندان سے ذاتی انتقام کیلئے درج کروایا تھا مقدمے کے تفتیشی انسپکٹر منیر جعفری کا کہنا ہے کہ تھانہ رمنا کی حدود میں واقع دو دیہاتوں میرا جعفر اور میرا اکو کے درمیان واقع مسجد کے خطیب خالد جدون نے یہ مقدمہ درج کرایا تھا مگر
بعد میں اسی مسجد کے امام اور موزن نے الزام کی تردید کرتے ہوئے گواہی دی تھی کہ یہ جرم خالد جدون نے خود کیا جس پر پولیس نے مدعی کے خلاف مقدمہ درج کرکے چالان عدالت میں پیش کر دیا ۔

کراچی سمیت سندھ بھر میں 4؍ افراد توہین رسالت کے الزام میں عوامی تشدد کے نتیجے میں قتل


کراچی (خرم احمد 
کراچی سمیت سندھ بھر میں گزشتہ چند برسوں میں 4؍ افراد توہین رسالت کے الزام میں عوامی تشدد کے نتیجے میں قتل ہوئے جبکہ پولیس نے قتل کی واردات میں ملوث ملزمان کو گرفتار بھی کیا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق کراچی سمیت سندھ بھر میں توہین رسالت کے الزام میں شہریوں کے تشدد کے نتیجے میں 4؍ افراد مارے گئےجن میں سے ایک واقعہ کراچی جبکہ تین پر تشدد واقعات اندورن سندھ میں پیش آئے ،سال 2000ء میں سندھ کے علاقے دادو میں قادیانیت کا پیرو کار ظفر نامی شخص توہین رسالت کے الزام میں عوامی تشدد کے نتیجے میں مارا گیا ، سال 2008ء میں کورنگی میں فیکٹری میں بحث کے دوران جگدیش نامی شخص اپنے دوست کے ہاتھوں تشدد کے نتیجے میں قتل ہوا ۔2009ء میں سانگھڑ میں توہین رسالت کے الزام میں گرفتار ملزم انیس ملاح کو پولیس نے گرفتار کیا اور جیل میں ہنگامہ آرائی کے دوران انیس ملاح کو 200قیدیوں نے تشدد کے بعد قتل کردیا۔ 2017ء میں ٹنڈوآدم میں ایک معذورشخص کو توہین رسالت کے الزام میں تشدد کے بعد قتل کردیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ قتل کی واردات میں ملوث ملزمان کو پولیس نے گرفتار کیا ہے جس کا کیس عدالت میں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سندھ، توہین رسالت کے 26مقدمات میں 56ملزمان کو سزائیں

کراچی (رپورٹ / محمد منصف)
سندھ بھر میں توہین رسالت، توہین شان الٰہی ، توہین صحابہ ،توہین اہل بیت اورتوہین آمیز کتابیں چھاپنے اور تقسیم کرنے کے خلاف 26؍ مقدمات میں نامزد 56ملزمان کو قید کی سزائیں سنائی جاچکی ہیں جبکہ سندھ کی عدالتوں کی تاریخ میں سزائے موت صرف ایک ملزم قمر ڈیوڈ کو سنائی گئی جو فیصلے کے فوری بعدہی جیل میں انتقال کرگیا، 20؍ مقدمات اپیل گزاروں اور ان کے وکلاء کی عدم دلچسپی اور غیر حاضری کے باعث التواء کا شکار ہیں، 55؍ ملزمان کیخلاف صوبے سندھ سے آج تک توہین رسالت کے کسی مقدمے میں ماتحت عدالت سے لے کرسپریم کورٹ تک کسی عدالت سے کوئی ملزم بری نہیں ہوا ،8مقدمات میں مجرمان کی ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کیخلاف اپیلیں سندھ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سندھ میں توہین رسالت کے مرتکب ملزمان کیخلاف مجموعی طور پر 46؍ مقدمات درج ہوئے جن میں 2؍ مقدمات ٹنڈوآدم ، ایک مقدمہ میرپور خاص، 2؍ مقدمات حیدرآباد ، ایک مقدمہ ٹھٹھہ اورایک مقدمہ سانگھڑ میں درج ہے جبکہ دیگر 39؍ مقدمات سندھ ہائیکورٹ اور کراچی کی مقامی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، ملزمان میں ارشد ، جلال چانڈیو، شیخ سکندر ، اعجاز غریبی ، ذوالفقار باجوہ ، ظفراللہ سمیت دیگر شامل ہیں ۔ عدالتی ذرائع نے بتایا ہے کہ صوبے بھر میں درج مذکورہ
مقدمات میں تمام نامزد ملزمان و مجرمان مرد ہیں جن میں زیادہ کی عمریں 40؍ سال تک کی ہیں جبکہ 2؍ سے 3؍ ملزمان ایسے ہیں جن کی عمر 20؍ سال سے 28؍ سال کے درمیان ہیں ملزمان میں کوئی ایسا ملزم نہیں جو نابالغ یا خاتون ہو۔ عدالتی ذرائع نے بتایاہےکہ 26؍ مقدمات میں نامزد 55؍ ملزمان کو سزائیں سنائی جاچکی ہیں جن میں ایک ملزم کو سزائے موت جبکہ دیگر کو قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ سزائے موت پانے والے ملزم قمر ڈیوڈ کی عمر تقریباً 47؍ سال تھی ماتحت عدالت سے فیصلہ سنائے جانے کے فوری بعد ہی سینٹرل جیل میں حرکت قلب بند ہونے کے باعث اس کی موت واقع ہوئی جبکہ 8؍ مقدمات جن میں نامزد 15؍ ملزمان نے اپیلیں دائر کی ہیں ۔ عدالتی ذرائع کے مطابق 20؍ مقدمات ایسے ہیں جو ماتحت عدالتوں اور ہائی کورٹ کی عدالتوں میں التواء کا شکار ہیں اور التواء کی وجہ خود اپیل گزار اوران کے وکلا کی عدم دلچسپی بتائی گئی ہے جبکہ مقدمات میں نامز دگواہان ہر سماعت پر عدالت آتے ہیں لیکن اپیل گزار اوران کے وکلاء کی عدم حاضری کی وجہ سے نئی تاریخیں دے کرواپس کر دیا جاتا ہے مذکورہ مقدمات میں ملوث 5؍ ملزمان فیصلہ آنے پر عدالتوں سے فرار ہونے میںکامیاب ہوئے جو تاحال مفرور ہیں۔ عدالتی ذرائع کے مطابق ملوث ملزمان سب کے سب غیرمسلم ہیں جن کا تعلق عیسائیت اور قادیانیت سے ہے ۔

1987سے اب تک توہین رسالت کے 702 مقدمات ،62ماورائے عدالت قتل، 74فیصد واقعات پنجاب میں ریکارڈ

الاہور ( آصف محمود،عطاء اللہ، امداد حسین بھٹی ) 1987ء میں توہین رسالت کا قانون بننے کے بعد اب تک اس الزام میں 702 مقدمات درج ہوئے ،62 افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا جبکہ توہین رسالت کے 74فیصد واقعات پنجاب میں ریکارڈ ہوئے۔’’جنگ‘‘ کو ملنے والے مصدقہ ڈیٹا کے مطابق 1947ء سے لے کر 1987میں صرف 7افراد پر توہین رسالت کا الزام عائد کیا گیا جبکہ 1987ء میں توہین رسالت کا قانون بننے کے بعد سے اب تک 1335 افراد کے خلاف توہین رسالت کے الزامات عائد کئے گئے۔ 1947ء سے 1987ء تک 40 سال میں تو ہین رسالت کیسوں میں صرف 2 افراد ماورائے عدالت قتل ہوئے۔ 1987ء سے لے کر آج تک اقلیتوں کے خلاف توہین رسالت کے 702 کیسز رجسٹرڈ ہوئے جو کل درج ہونے والے 1335 کیسوں کا 52 فیصد ہیں۔ ان میں ہندوئوں کے خلاف 21، عیسائیوں کے خلاف 187، مسلمانوں کے خلاف 633 جبکہ قادیانیوں کے خلاف توہین رسالت کے 494 کیسز رجسٹرڈ ہوئے۔ توہین رسالت کے 74 فیصد کیسز پنجاب میں رجسٹرڈ ہوئے جن میں سے 173 کیسز کی تصدیق ہوسکی۔ ان میں سے 11فیصد کیسز لاہور سے شروع ہوئے۔ ماورائے عدالت اب تک مارے جانے والے 62 افراد میں سے 14 لاہور میں قتل ہوئے۔ توہین رسالت کیسوں میں ماورائے عدالت قتل ہونے والے لوگوں میں راشد رحمٰن، جسٹس (ر) عارف اقبال بھٹی، سابق وفاقی وزیر شہباز بھٹی، سابق گورنر سلمان تاثیر، ساون مسیح
جسےہائیکورٹ سے بریت کے بعد عدالت کے احاطے میں قتل کردیا گیا)یوسف کذاب، گوجرہ میں جلائے جانے والے شمع اور سجاد مسیح وغیرہ شامل ہیں۔ پنجاب کی مختلف جیلوں میں بھی توہین رسالت کے متعدد مجرمان اور ملزمان قید ہیں۔ ڈسٹرکٹ جیل گجرات میں قید ندیم مسیح کے خلاف سرائے عالمگیر کے یاسر نے واٹس اپ پر توہین آمیز نظم بھیجنے پر 295سی کے تحت توہین رسالت کا مقدمہ درج کرایا ۔ اڈیالہ جیل میں قید برطانوی شہری اصغر کو نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے پر سزائے موت ہو چکی ہے۔ شیخوپورہ جیل میں نبی ہونے کا دعویٰ کرنے والے مجرم کو سزائے موت ہو چکی ہے ۔ راجن پور سے تعلق رکھنے والے بہائوالدین زکریا یونیورسٹی کے لیکچرار جنید حفیظ پر دفعہ 295سی کے تحت مقدمہ زیر سماعت ہے۔ وہ ڈسٹرکٹ جیل ساہیوال میں قید ہے ، اس پر فیس بک پر ملا منافق کے نام سے ایک گروپ بنانے اور یونیورسٹی میں توہین آمیز پمفلٹ بانٹنے کا الزام ہے ۔ایک رپورٹ کےمطابق صوبائی دارالحکومت سمیت پنجاب میں گزشتہ 7 سالوں کے دوران توہین رسالت سمیت دیگر توہین مذہب کے 1249 کیسز ریکارڈ کئے گئے جن میں سب سے زیادہ کیسز سرگودھا ڈویژن میں ہوئے جن کی تعداد 172 ہے، دوسرے نمبر پر گوجرانوالہ ڈویژن جہاں یہ تعداد 168 ہے، تیسرے نمبر پر فیصل آباد ڈویژن 157، چوتھے نمبر پر لاہور ڈویژن 145، پانچویں نمبر پر ملتان ڈویژن142، چھٹے نمبر پر ڈیرہ غازی خان ڈویژن 124،ساتویں نمبر پر بہاول پور ڈویژن 113، آٹھویں نمبر پر راولپنڈی ڈویژن 82 اور نویں نمبر پر ساہیوال ڈویژن 68اور دسویں نمبر پر شیخوپورہ ڈویژن 60تعداد ہے۔ جنگ کو ملنے والے پولیس ڈیٹا کے مطابق مذہبی جرائم کے کیسز تعزیرات پاکستان کی شق295سی (توہین رسالت )، 295(مذہبی مقامات کی توہین)، 295اے (کسی بھی مذہب کے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کرنا) 295بی،(قرآن پاک کی توہین) اور 298 (مذہبی دل آزاری سے متعلق )کے تحت درج ہوتے ہیں۔ پولیس کی جانب سے مرتب کئے جانے والے ڈیٹا کے مطابق گزشتہ7 سالوں میں صوبے بھرمیں توہین رسالت 295سی کے تحت 82 مقدمات درج کئے گئے جبکہ دیگر دفعات 295 ،295اے، 295بی اور 298کے تحت 1094 مقدمات درج کئے گئے۔ مذہبی جرائم کے سب سے زیادہ کیسز 2014 ءمیں ہوئے جن کی تعداد 344 ہے جبکہ 2012 ءمیں 314، 2015 ءمیں 209، 2016 ءمیں 167، 2017ءمیں 126اور 2018 ءمیں 84کیسز ریکارڈ کئے گئے جبکہ 2013 ءمیں مذہبی جرائم کا ایک بھی کیس ریکارڈ نہیں ہوا۔


توہین رسالت، خیبرپختونخوا میں 33مقدمات درج، 2ماورائے عدالت قتل

پشار(ارشد عزیز ملک ) 
پاکستان میں توہین مذہب کے قانون اور اس کی سزا ہونے کے باوجود پچھلے سال خیبرپختونخوا میں ذاتی عناد پر عبد الولی خان یونیورسٹی مردان میں ایک طالبعلم مشال خان کو اپنی ہی یونیورسٹی کے طلباءنے توہین رسالت کے الزام میں بری طرح تشدد کا نشانہ بنا کر مار ڈالا ‘ اسی طرح جنوری 2018ء میں چارسدہ میں کالج کےطالبعلم نے توہین رسالت کے الزام میں اپنے ہی کالج کے پرنسپل کو قتل کر دیا تھا‘حالانکہ قانون کی موجودگی میں مشال اور حافظ سریر کے کیسز عدالت میں پیش کئے جانے چاہیے تھے ‘خیبرپختونخوا میں 2014ء سے 2018ء مجموعی طور پرتوہین رسالت قانون کے تحت 33مقدمات درج ہوئے جن میں 25ملزمان کا تعلق مسلم گھرانوں اور 8کا تعلق اقلیتی برادری سے تھا جن پر پیش رفت کی تفصیلات نہ مل سکیں ‘ مشال قتل کیس کے الزام میں 34ملزمان کو گرفتار کرکے انسداد دہشت گردی کی عدالت ایبٹ آباد میں پیش کیا گیا اور عدالت نے مرکزی ملزم کو سزائے موت‘ 4کو عمر قید ‘25کو 3سال قید جبکہ 4کو رہا کرنے کے احکامات جاری کئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

توہین رسالت کا غلط الزام لگانے والے کو اسلام اتنی ہی سخت سزا دیتا ہے

سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیف جسٹس مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ یہ افراد یا گروہ کے اختیار میں نہیں ہے کہ وہ خود فیصلہ کریں کہ کوئی جرم دفعہ 295-C ت پ کے تحت سر زد کیا گیا ہے کہ نہیں۔ کیونکہ جیسا پہلے بیان کیا گیا یہ عدالت کی ذمہ داری ہے کہ مقدمے کی مکمل سماعت اور مصدقہ شہادتوں کو پرکھنے کے بعد اس قسم کا فیصلہ کرے۔ کوئی اور متوازی اتھارٹی کسی بھی قسم کے حالات میں کسی فرد یا گروہ کو نہیں دی جاسکتی۔ اسی وجہ سے عدالت ہذا نے قرار دیا ہے کہ ’’توہین کا ارتکاب انتہائی نازیبا اور غیر اخلاقی عمل ہے اور عدم برداشت کو جنم دیتا ہے لیکن دوسری طرف، قابل سزا قرار دینے سے پہلے، توہین کے ارتکاب کے متعلق ایک جھوٹے الزام کو بھی پوری طرح سے پرکھا جانا ضروری ہے۔ اگر ہمارا مذہب اسلام توہین کے مرتکب شخص کے لئے سخت سزا تجویز کرتا ہے تو اسلام اس شخص کے خلاف بھی اتنا ہی سخت ہے جو جرم کے ارتکاب کے متعلق جھوٹا الزام لگائے۔ لہٰذا یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ کسی معصوم شخص کو جھوٹے الزام کی بناء پر تفتیش اور سماعت کا سامنا نہ کرنا پڑے ـ



توہین رسالت  قوانین کب بنائے گئے؟

توہینِ مذہب کے قوانین پہلی مرتبہ برصغیر میں برطانوی راج کے زمانے میں 1860 میں بنائے گئے تھے اور پھر 1927 میں ان میں اضافہ کیا گیا تھا۔

1980 اور 1986 کے درمیان جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت کے دور میں متعدد شقیں ڈالی گئیں۔ جنرل ضیا ان قوانین کو اسلام سے مزید مطابقت دینا چاہتے تھے اور احمدیہ برادری (جسے 1973 میں غیر مسلم قرار دیا جا چکا تھا) کو ملک کی مسلمان اکثریت سے علیحدہ کرنا چاہتے تھے۔

برطانوی راج نے جو قوانین بنائے ان میں کسی مذہبی اجتماع میں خلل ڈالنا، کسی قبرستان میں بغیر اجازت کے داخل ہونا، کسی کے مذہبی عقیدے کی توہین کرنا، یا سوچ سمجھ کر کسی کی عبادت گاہ یا عبادت کی کسی چیز کی توہین کرنا جرم قرار پائے تھے۔ ان قوانین میں زیادہ سے زیادہ سزا دس سال قید اور جرمانہ تھی۔

1980 کی دہائی میں توہینِ مذہب کے قوانین میں اضافہ کیا گیا۔ 1980 میں اسلامی شخصیات کے خلاف توہین آمیز بیانات کو بھی جرم قرار دے دیا گیا تھا جس میں تین سال قید کی سزا مقرر کی گئی۔

1982 میں ایک اور شق شامل کی گئی جس میں جان بوجھ کر قرآن کی بےحرمتی کی سزا پھانسی رکھ دی گئی۔ 1986 میں پیغمبرِ اسلام کی توہین کی سزا بھی موت یا عمر قید رکھ دی گئی

متعدد سیکیولر جماعتوں کے ایجنڈے پر توہینِ مذہب کے قوانین میں اصلاحات کرنا رہا ہے۔ تاہم اس میں زیادہ پیش رفت نہیں ہوئی جس کی بنیادی وجہ معاملے کی حساسیت ہے۔

2010 میں برسرِاقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمان نے اس حوالے سے ایک بل متعارف کروایا۔ اس بل میں مذہبی جرائم کے حوالے سے پروسیجر میں تبدیلی کے لیے کہا گیا تھا تاکہ یہ کیسز اعلیٰ پولیس افسران کے پاس جائیں اور اعلیٰ عدالتیں ہی ان کیسز کو سنیں۔

مگر فروری 2011 میں مذہبی جماعتوں کے زبردست دباؤ کے بعد اس بل کو واپس لے لیا گیا۔ عمران خان نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ان قوانین کی حفاظت کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے



دنیا کے 71ممالک میں توہین مذہب قابل ِسزا جرم



لاہور(صابر شاہ)دنیا کے 71ممالک میں توہین مذہب قابل ِسزا جرم ہے۔الہامی کتاب توریت میں بھی مذہب کی اہانت پر موت کی سزا کا ذکر ملتا ہے۔اسلامی ممالک میں اردن میں توہین مذہب کی سزا نسبتاً کم یعنی تین سال قید اور جرمانہ ہے۔تفصیلات کے مطابق،ایسے دور میں کہ جب مذہبی آزادی اور آزادی اظہار رائے تنازعات میں گھری نظر آتی ہے، ایسے میں یونائیٹڈ اسٹیٹس کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی کی 2017کی رپورٹ میں دنیا کے 71ممالک کی نشان دہی کی گئی ہےجہا ں گستاخانہ خیالات اور توہین مذہب قابل سزا جرم ہیں۔ تحقیق کے مطابق گستاخانہ خیالات کی سزائوں میں جرمانے سے سزائے موت تک کی سزائیں شامل ہیں۔تاہم ، 86فیصد ممالک میں گستاخانہ قوانین کے تحت قید کی سزائیں دی جاتی ہیں۔مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا میں گستاخانہ پابندیاں، استثنا سے زیادہ معمول ہیں ، جہاں 20میں سے 18قومیں اسلام کے خلاف باتوں کو قابل سزا جرم سمجھتی ہیں۔اس کے علاوہ یہاں کے 14ممالک میں ارتداد بھی قابل سزا جرم ہے


31 اکتوبر 2018
،سپریم کورٹ میں آسیہ بی بی کو رہا کرنے کا حکم جاری کردیا


سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا 

سپریم کورٹ نے توہین رسالت کا الزام ثابت نہ ہونے پر آسیہ بی بی کو 8 سال بعد بری کردیا


‏فیصلہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے سنایا

عدالت عظمیٰ نے استغاثہ کی کمزوری اور شہادتوں میں تضاد ات کی بناء پر توہین رسالت کے مشہور مقدمہ کی ملزمہ آسیہ بی بی کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے اس کی اپیل منظور کرلی ہے اور لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے اسکی سزائے موت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اگر آسیہ بی بی پولیس کوکسی اور مقدمہ میں مطلوب نہیں تواسے جیل سے رہا کر دیا جائے۔ فیصلے میں کہاگیاہےکہ گواہوں کے بیانات میں تضادہے، نبی ﷺ کے نام پر جھوٹ بھی توہین رسالت ہے، ایف آئی آر وقوع کے 5؍ دن بعد درج ہوئی، 35؍ افراد موجود تھے، گواہی صرف 2؍ بہنوں نے دی، دبائو پر اعتراف جرم کی قانونی حیثیت نہیں، تفتیشی نے اپنی صفائی کیلئے آسیہ کو بائبل پر قسم اٹھانے کی اجازت نہیں دی، کسی کو پیغمبر اسلام ﷺ کی توہین کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی ایسا کرنیوالا سزا سے بچ سکتا ہے، بعض عناصر ذاتی مفادات کیلئے قانون کا غلط استعمال کرتے ہیں ، 
عدالت عظمیٰ آج ضلع ننکانہ صاحب کے توہین رسالت کے مشہور مقدمہ کی ،ملزمہ آسیہ بی بی کی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ سے ملنے والی سزائے موت اور اسے برقرار رکھنے کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف ملزمہ کی اپیل پر 8؍ اکتوبر 2018ء کو محفوظ کیا گیا فیصلہ جاری کردیا۔  اسلام آباد میں اندیشہ نقص امن کے پیش نظر ریڈ زون مکمل طور پر سیل کر دیا گیا تھا، داخلہ کے تمام راستوں پر کنٹینر لگا دیئے گئے  وزارت داخلہ نے چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹریز کو بھی ممکنہ صورتحال کے تدارک کے لئے سیکورٹی ہائی الرٹ رکھنے کی ہدایت کی 
ملک بھر میں احتجاج کیا وزیراعظم نے دھرنے و احتجاج کا سخت نوٹس لیا
چیف جسٹس ثاقب نثار نےفیصلہ میں آسیہ بی بی کو بری کرنے  کی جو وجوہات تحریر کی ہیں وہ یہ ہیں۔

1- وقوعہ 14 جون 2009 کو پیش آیا لیکن اس کی ایف آئی آر پانچ دن بعد 19 جون کو درج کی گئی جس کی وجہ سے مقدمہ کمزور ہو گیا۔ 

2- اس مقدمے میں عینی شاہد معافیہ بی بی اور اسما بی بی ہیں جنہوں نے گواہی دی کہ آسیہ بی بی نے ان کے سامنے توہین آمیز الفاظ ادا کیے۔ اس موقع پر 25 سے 35 کے درمیان خواتین موجود تھیں لیکن ان میں سے کوئی بھی گواہی دینے نہیں آیا۔

3- دونوں خواتین گواہوں نے کہا کہ آسیہ بی بی کے ساتھ ان کا پانی پلانے پر کوئی جھگڑا نہیں ہوا تھا جبکہ دیگر گواہوں نے تسلیم کیا کہ یہ جھگڑا ہوا تھا۔

4- سب سے اہم بات یہ تھی مختلف گواہوں کے بیانات میں فرق تھا۔ جب آسیہ بی بی کا معاملہ پھیلا تو ایک عوامی اجتماع بلایا گیا جہاں آسیہ بی بی سے اقرار جرم کرایا گیا۔ یاد رہے کہ اسی اقرار جرم پر ہی ابتدائی عدالت نے ملزمہ کو موت کی سزا سنائی تھی۔ اس لیے یہ اجتماع بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔  ایک گواہ نے کہا کہ اس اجتماع میں 100 افراد شریک تھے، دوسرے نے کہا کہ اس میں 1000 افراد شریک تھے، تیسرے گواہ نے یہ تعداد 2000 بتائی جبکہ چوتھے نے 200 سے 250 کے اعدادوشمار دیے۔ ان بیانات  کے فرق کی وجہ سے شکوک پیدا ہوئے اور دنیا کے ہر قانون کے مطابق شک کا فائدہ ملزم کو ملتا ہے۔

5- اس عوامی اجتماع کے بارے میں ایک گواہ نے کہا کہ یہ اجتماع مختاراحمد کے گھر منعقد ہوا تھا۔ دوسرے نے کہا کہ یہ عبدالستار کے گھر ہوا تھا، تیسرے نے کہا کہ اجتماع رانا رزاق کے گھر ہوا تھا جبکہ چوتھے گواہ کا بیان ہے کہ اجتماع حاجی علی احمد کے ڈیرے پر منعقد ہوا تھا۔

6- اجتماع میں آسیہ بی بی کو لانے کے حوالے سے بھی گواہوں کے بیانات میں تضاد تھا۔ ایک نے کہا کہ اسے یاد نہیں کہ ملزمہ کو کون لایا تھا، دوسرے نے کہا کہ وہ پیدل چل کر آئی تھی، تیسرے نے کہا کہ اسے موٹر سائیکل پر لایا گیا تھا۔

7- اس اجتماع کے وقت اور دورانیے کے بارے میں بھی گواہوں کے بیانات میں اختلاف تھا۔

8- ملزمہ کی گرفتاری کے  وقت کے متعلق سب انسپکڑ محمد ارشد کے بیانات میں تضاد پایا گیا۔ 

9- ملزمہ سے اعتراف جرم ایک ایسے مجمع کے سامنے کرایا گیا جس میں سینکڑوں لوگ شامل تھے اور جو اسے مارنے پر تلے ہوئے تھے۔ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی۔ اسے نہ ہی رضاکارانہ بیان قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی  قانون کے مطابق سزائے موت جیسی انتہائی سزا کے لیے ایسا بیان قابل قبول ہو سکتا ہے۔

10- آسیہ بی بی نے قانون کے تحت جو بیان دیا اس میں انہوں نے حضور پاک ﷺ اور قرآن پاک کی مکمل تعظیم کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ تفتیشی افسر کے سامنے بائبل پر حلف اٹھانے کو تیار ہے تاکہ اپنی معصومیت ثابت کر سکے لیکن تفتیشی افسر نے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی۔ 

............................

آسیہ بی بی کون ہیں اور ان کے خلاف مقدمہ کیسے ہوا؟

مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی آسیہ نورین بی بی پنجاب کے ضلع ننکانہ کے ایک گاؤں اِٹاں والی کی رہائشی تھیں جو لاہور سے تقریباً 50 کلومیٹر دوری پر واقع ہے۔

2009 میں اسی گاؤں میں فالسے کے ایک باغ میں آسیہ بی بی کا گاؤں کی چند عورتوں کے ساتھ جھگڑا ہوا جس کے دوران مبینہ طور پر انھوں نے پیغمبرِ اسلام کے خلاف 'تین توہین آمیز' کلمات کہے تھے۔
استغاثہ کے مطابق اس واقعے کے چند روز بعد آسیہ بی بی نے عوامی طور پنچایت میں خود پر لگائے جانے والے الزامات کی تصدیق کرتے ہوئے معافی طلب کی۔
الزام لگنے کے چند روز بعد آسیہ کو اِٹاں والی میں ان کے گھر سے ایک ہجوم نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد وہ پہلے شیخوپورہ اور پھر ملتان جیل میں قید رہیں۔
جون 2009 میں ان کے خلاف مقدمہ درج ہوا جس میں توہینِ رسالت کے قانون 295 سی کے تحت الزام لگایا گیا کہ انھوں نے اپنے ہمراہ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ بحث کے دوران پیغمبر اسلام کے خلاف 'تین توہین آمیز' کلمات کہے تھے۔
اس مقدمے کے مدعی ننکانہ صاحب کی مسجد کے امام قاری محمد سالم تھے
تاہم ملزمہ نے اپنے خلاف مقدمہ کی سماعت کے دوران بیان دیا تھا کہ ان پر اسلام قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا اور انکار کرنے پر یہ مقدمہ درج کروا دیا گیا۔
2010 میں ضلع ننکانہ صاحب کی سیشن عدالت نے آسیہ بی بی کو موت کی سزا سنا دی اور وہ پاکستان میں یہ سزا پانے والی پہلی خاتون بن گئیں۔
آسیہ بی بی نے اس فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل داخل کی۔ چار سال بعد اکتوبر 2014 میں عدالت نے سزا کی توثیق کر دی۔
آسیہ بی بی نے جنوری 2015 میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے آسیہ بی بی کی سزا کے خلاف درخواست پر ابتدائی سماعت جولائی 2015 میں شروع کی اور ان کی اپیل کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے اپیل پر حتمی فیصلہ تک سزا پر عمل درآمد روک دیا۔
وکلا کے مطابق یہ پہلا موقع تھا جب سپریم کورٹ نے تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295 سی کے تحت کسی مقدمے کی سماعت کی ہو۔
اکتوبر 2016 کو سپریم کورٹ کے جج جسٹس اقبال حمید الرحمان نے مقدمے کی سماعت کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا موقف تھا کہ چونکہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے مقدمے کی سماعت کر چکے ہیں اور یہ مقدمہ بھی اس سے کسی حد تک منسلک ہے اس لیے وہ اس کی سماعت نہیں کر سکتے۔
آٹھ اکتوبر 2018 کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی تین گھنٹے طویل سماعت کی جس کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔
31 اکتوبر کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے متفقہ طور پر آسیہ بی بی کے خلاف کیس خارج کرنے اور ان کی رہائی کا حکم دے دیا۔


ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کی کوشش


27 نومبر2017
اسلام آباد، فیض آباد پر 22 روز سے تحریک لبیک کی جانب سے دیے جانے والا دھرنا ختم کردیا گیا ،حکومت اور دھرنا قائدین کے درمیان معاہدہ طے پاگیا
زاہد حامد کے اپنی وزارت سے استعفیٰ دینے کے بعد دھرنا قائدین نے دھرنا اور احتجاج ختم کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔
معاہدے کی پہلی شق میں دھرنا مظاہرین کا مطالبہ درج ہے کہ کہ وزارت قانون کے ذریعے ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون میں ترمیم پیش کی گئی اس لیے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کو ان کے عہدے سے برطرف کیا جائے، تحریک لبیک ان کے خلاف کسی قسم کا فتویٰ جاری نہیں کرے گی۔
اس معاہدے کے دیگر مندرجات میں دھرنا قائدین کی جانب سے حکومت پاکستان کے الیکشن ایکٹ 2017ء میں 7بی اور 7سی کو مکمل متن کے ساتھ اردو حلف نامے میں شامل کرنے کے عمل کو قابل ستائش قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ  راجہ ظفر الحق کی انکوائری رپورٹ 30 دن میں منظر عام پر لائی جائے گی اور اس رپورٹ کے مطابق جو افراد ذمہ دار قرار پائیں گے ان کے خلاف ملکی قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
معاہدے میں کہا گیا ہے کہ 6نومبر 2017ء سے دھرنے کے اختتام پذیر ہونے تک تحریک لبیک کے ملک بھر میں گرفتار تمام کارکن 1تا 3 دن تک ضابطے کی کارروائی کے مطابق رہا کردیے جائیں گےاور ان کے خلاف درج مقدمات اور نظر بندیاں ختم کردی جائیں گی۔
معاہدے میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ 25نومبر 2017ء کو ہونے والے حکومتی ایکشن کے خلاف تحریک لبیک کو اعتماد میں لے کر ایک انکوائری بورڈ تشکیل دیا جائے جو تمام معاملات کی چھان بین کرکے حکومت ، انتظامیہ اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا تعین کرے اور 30 روز کے اندر انکوائری مکمل کرکے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جائے۔
معاہدے میں مزید کہا گیا ہے کہ 6نومبر 2017ء سے دھرنے کے اختتام تک جو سرکاری اور غیرسرکاری املاک کا نقصان ہوا ہے اس کا تعین کرکے ازالہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کریں گی۔
معاہدے کے مطابق یہ حکومت پنجاب سے متعلقہ جن نکات پر اتفاق ہو چکا ہے، ان پر من و عن عمل کیا جائے گا۔
معاہدے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تمام معاہدہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کی نمائندہ ٹیم کی خصوصی کاوشوں کے ذریعے طے پایا ہے جس کے لیے ان کے مشکور ہیں کہ انہوں نے قوم کو ایک بہت بڑے سانحے سے بچا لیا۔
معاہدے کے آخر میں 6 افراد کے دستخط ہیں جن میں سے حکومت کی جانب سے دو افراد وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال اور وفاقی سیکریٹری داخلہ ارشد مرزا، تحریک لبیک کی جانب سے مرکزی امیر علامہ خادم حسین رضوی، سرپرست اعلیٰ پیر محمد افضل قادری، مرکزی ناظم اعلیٰ محمد وحید نورجبکہ بوساطت میجر جنرل فیض حمید کے نام و دستخط شامل ہیں


02 اکتوبر 2017
قومی اسمبلی سے منظور کرائے گئے انتخابی اصلاحات بل کے تحت آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کا نفاز اور اراکین پارلیمنٹ کے لیے ختم نبوت کا حلف نامہ ختم کردیا اراکین پارلیمنٹ کے لیے آئندہ ختم نبوت پر یقین کا زکر کافی ہوگا، بل کی منظوری سے قبل بحث کے دوران شیخ رشید، اور جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ حکومتی اراکین کی توجہ ختم نبوت کا حلف نامہ ختم کئے جانے پر مبزول کراتے رہے تاہم وزیر قانون زاہد حامد کے پیش کردہ انتخابی اصلاحات کے بل کو اپوزیشن کے شور شرابے و احتجاج کے باوجود منظور کرلیا گیا جس کے نتیجے میں نوازشریف کے دوبارہ نواز لیگ بننے کا راستہ صاف ہوگیا انتخابی اصلاحات کے بل کے زریعے ہی حکومت نے اراکین پارلیمنٹ سے ختم نبوت کے حوالے سے لیے گئے حلف نامے میں اہم ترمیم کردی ہے جس کے تحت ختم نبوت پر صدق دل سے یقین کے حلف کی جگہ ختم نبوت پر یقین کے الفاظ شامل کیے گئے ہیں 

17 جون 2020
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آرایف) نے بدھ کو واشنگٹن میں جاری ہونے والی ایک نئی رپورٹ میں کہا ہے کہ اگر پاکستان چاہتا ہے کہ امریکہ اسے ان ممالک کی فہرست سے نکال دے جہاں مذہبی آزادی کو خطرہ لاحق ہے تو پاکستان کو امریکی حکومت کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کرنا چاہیے جس کے تحت پاکستان ملک میں توہین رسالت کے تمام قوانین کے خاتمے یا ان پر نظرثانی کرنے کی یقین دہانی کروائے گا۔ 

کمیشن نے کہا ہے کہ اگرچہ اس نے اپنی اس سال کی رپورٹ میں پاکستان کوان ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کی سفارش کی تھی جہاں مذہبی آزادی کے حوالے سے واشنگٹن کو خاص تشویش ہے، تاہم کمیشن نے دیکھا ہے کہ پاکستان نے اس دوران مذہبی اقلیتوں کے حوالےسے کئی مثبت اقدامات بھی اٹھائے ہیں۔
کمیشن نے خاص طور پر سپریم کورٹ کی جانب سے مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی رہائی، وجیہہ الحسن کیس، سیالکوٹ میں شوالہ تیجا سنگھ مندر کو ہندوؤں  اور کرتارپور راہداری کو سکھ برادری کے لیے کھولنے اور سپریم کورٹ کی حمایت یافتہ قومی کمیشن برائے اقلیت کے قیام کو سراہا۔ 
سال 2002 سے کمیشن ہر سال پاکستان کو Country of Particular Concern یا سی پی سی کی لسٹ میں شامل کرنے کی سفارش  کرتا آ رہا ہے تاہم امریکی محکمہ خارجہ (سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ) نے پہلی بار پاکستان کو 2018 کو اس فہرست میں شامل کیا۔
پاکستان سے امریکہ کی قومی سلامتی سے جڑے مفادات کے پیش نظر واشنگٹن نے دو سالوں تک پاکستان کو سی پی سی سےمستثنیٰ قراردیا۔ سعودی عرب اور تاجکستان کے بعد پاکستان وہ تیسرا ملک تھا جسے امریکہ نے اپنے مفادات کی خاطر 2019 میں اسشتنیٰ دیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے: 'خارجہ پالیسی سے متعلق سفارشات کی روشنی میں کمیشن یہ سفارش کرتا ہے کہ عالمی مذہبی آزادی ایکٹ (ایفرا) کے تحت پاکستان اور امریکہ ایک ایسا معاہدہ کریں جس کے تحت حکومت پاکستان کو ایسے معنی خیز اقدامات اٹھانے کو کہا جائے جس سے مذہبی اقلتیوں کی حالت بہتر ہو۔ اس دوطرفہ معاہدے کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس سے پاکستان میں مذہبی اقلتیوں کے حالات بہتر بنانے میں مدد ملے گی اور خود پاکستان کو سی پی سی سے نکلنے کا راستہ واضح طور پرمعلوم ہو گا۔
کمیشن نے پاکستان سےسی پی سی سے نکلنے کے لیے کئی قلیل مدتی، درمیانی مدت اور طویل مدتی اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ 
فوری اقدامات 
 کمیشن نے نادرا سے مطالبہ کیا ہے کہ قومی شناختی کارڈ فارم میں شہریوں سے ان کے مذہب کے بارے میں سوال ختم کرے کیونکہ اس سے کمیشن کے مطابق تمام مذہبی گروہوں اور خاص کر احمدی فرقے سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کمیشن نے حکومت پاکستان سے کہا ہےکہ وہ احمدی برادری کی مذہبی کتب و دیگر مواد کی اشاعت پر پابندی ہٹا دے اور توہین رسالت سے متعلق تمام قوانین کا ازسرنو جائزہ لے کیونکہ یہ قوانین مبینہ طور پر غیرمسلموں کے خلاف ذاتی مفادات کی خاطر استعمال ہوتے ہیں۔ 
درمیانی مدت کے اقدامات
کمیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ توہین رسالت کے مقدمات میں انصاف کا تقاضہ پورا کیا جائے کیونکہ یہ قوانین خود پاکستان کے قانون میں دیے گئے شہری حقوق کے خلاف ہیں جو برابر حقوق کا وعدہ کرتے ہیں۔ نیز توہین رسالت کے مقدمات کی تجربہ کار پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں تحقیق کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں توہین رسالت کے مقدمات کئی سالوں تک چلتے رہتے ہیں اور عدلیہ کو چاہیے کہ ان مقدمات کا تیزی سے فیصلہ کرے
کمیشن کا کہنا ہے کہ جن افراد پر توہین رسالت کے مقدمات ہیں انہیں یہ حق دیا جائے کہ ان کی ضمانت ہوسکے اور جو لوگ اس طرح کے مقدمات میں غلط بیانی کرتے ہیں ان کے لیے سزا مقرر کی جائے۔ 
طویل مدتی اقدامات
کمیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت پاکستان پینل کوڈ کے آرٹیکل 295اور298 اے کا خاتمہ کرے جس کے تحت توہین رسالت کو جرم قراردیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے: 'توہین رسالت کے قوانین عالمی انسانی حقوق کے معیار سے متصادم ہیں۔ یہ درست ہےکہ ہرکسی کو حق حاصل ہے کہ توہین کرنے والے کے خلاف آوازاٹھائے لیکن اگر ایسے قوانین بنتے ہیں جو توہین پر سزائیں مقرر کرتے ہیں تو ایک طرح سے یہ مذہبی آزادی اور متعلقہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔'


غازی علم دین شہید 

غازی علم الدین شہید کو 31 اکتوبر 1929 ؁ء کو سینٹرل جیل میانوالی میں پھانسی دی گئی تھی اس کی شہادت کو 88 برس گزر چکے ہیں غازی علم الدین شہید 4 دسمبر 1908 ؁ء کو لاہور میں پیدا ہوئے اور صرف 21 سال کی عمر میں اس خوش نصیب نوجوان نے گستاخانہ کتاب لکھنے والے راجپال کو 6 اپریل 1929 ؁ء کو چھریوں کے پے در پے وار کرکے جہنم واصل کیا تھا جس پر 22 مئی 1929 ؁ء کو سیشن کورٹ لاہور نے غازی علم الدین شہید کو پھانسی کی سزاء سنائی تھی جسے 17 جولائی 1929 ؁ء کو لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے برقرار رکھتے ہوئے غازی علم الدین شہید کو تختہ دار پر لٹکانے کا فیصلہ سنایا تھا جس پر مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا تھا۔

رنگ محل لاہور کے محلہ سریاں والا بازار کے ایک چھوٹے سے گھر میں پیدا ہونے والے غازی علم دین پیشے کے اعتبار سے ترکھان تھے، اوائل عمری ہی میں انہوں نے عملی زندگی کا آغاز کرتے ہوئے لکڑی سے نت نئی اشیاء بنانا شروع کر دیں۔۔۔۔ اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہوئے منفرد فن پارے بنائے۔۔۔ جو آج بھی موجود ہیں۔۔۔
اندرون شہر سادھو تکیہ میں واقع غازی علم دین شہید کے 2 مرلے کے آبائی گھر میں اب ان کی نواسی اپنے بیٹے کے ساتھ رہتی ہے جبکہ ان کے بھائی اور بھتیجے اندرون شہر سے باہر جا بسے ہیں۔۔۔
غازی علم دین نے اپنی جان ناموس رسالت کے لئے قربان کر دی۔۔۔۔ اور رہتی دنیا تک کے لئے امر ہو  گئے۔۔۔ ان کے کیس کا فیصلہ تو انگریز سرکار نے سنا دیا، عاشق رسول نعرہ مستانہ بلند کرتے پھندے پر بھی جھول گیا۔۔ لیکن ان کا کیس ری اوپن کرنے کی درخواست آج تک ہائی کورٹ میں زیر التواء ہے۔۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ﮔﺴﺘﺎﺧﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﻧﺠﺎﻡ....
ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﮯ ﺁﺋﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ....

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ
" ﺍﺑﯽ ﺑﻦ ﺧﻠﻒ "
ﺣﻀﻮﺭ ﷺ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ 
3
ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ رسول ﷺ
" ﺑﺸﺮ ﻣﻨﺎﻓﻖ "
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ رضی اللہ عنہ
ﮐﮯﮨﺎﺗﮭﻮﮞ 
3ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔


ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ
ﺍﺭﻭﮦ ( ﺍﺑﻮ ﻟﮩﺐ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ )
 ﮐﺎ ﻓﺮﺷﺘﮯ ﻧﮯ ﮔﻼ ﮔﮭﻮﻧﭧ ﺩﯾﺎ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ
" ﺍﺑﻮ ﺟﮩﻞ " ﺩﻭ ﻧﻨﮭﮯ ﻣﺠﺎﮨﺪﻭﮞ
ﻣﻌﺎذ ﻭ ﻣﻌﻮﺫ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔
رضی اللہ عنہ

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ
" ﺍﻣﯿﮧ ﺑﻦ ﺧﻠﻒ "
ﺣﻀﺮﺕ ﺑﻼﻝ رضی اللہ عنہ
ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ 
2 ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ
" ﻧﺼﺮ ﺑﻦ ﺣﺎﺭﺙ "
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ رضی اللہ عنہ
ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ
ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔2

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ
" ﻋﺼﻤﺎ ( ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻋﻮﺭﺕ )"
  ﻧﺎﺑﯿﻨﺎ ﺻﺤﺎﺑﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﯿﺮ ﺑﻦ ﻋﺪﯼ
رضی اللہ عنہ
ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ 2 
ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺋﯽ

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ
" ﺍﺑﻮ ﻋﻔﮏ " ﺣﻀﺮﺕ ﺳﺎﻟﻢ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ
رضی اللہ عنہ
ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ 
ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔3

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ
" ﮐﻌﺐ ﺑﻦ ﺍﺷﺮﻑ " ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﻧﺎﺋﻠﮧ
ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ  
ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔3

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ
" ﺍﺑﻮ ﺭﺍﻓﻊ " ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ
رضی اللہ عنہ
ﮐﮯﮨﺎﺗﮭﻮﮞ 
ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔3

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ
 " ﺍﺑﻮﻋﺰﮦ ﺟﻤﻊ " ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﺛﺎﺑﺖ
 رضی اللہ عنہ
  ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ 
ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔3
 
ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ
" ﺣﺎﺭﺙ ﺑﻦ ﻃﻼﻝ "
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ رضی اللہ عنہ
ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ  
ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔8

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ
" ﻋﻘﺒﮧ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻣﻌﯿﻂ "
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ رضی اللہ عنہ
ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ
2ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ
 " ﺍﺑﻦ ﺧﻄﻞ "
 ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﺑﺮﺯﮦ رضی اللہ عنہ
 ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ  
ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔8

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ
" ﺣﻮﯾﺮﺙ ﻧﻘﯿﺪ "
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ رضی اللہ عنہ
ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ 
8ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ
" ﻗﺮﯾﺒﮧ ( ﮔﺴﺘﺎﺥ ﺑﺎﻧﺪﯼ )"
ﻓﺘﺢ ﻣﮑﮧ ﮐﮯ ﻣﻮﻗﻊ ﭘﺮ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺋﯽ۔

1 ﮔﺴﺘﺎﺥ ﺷﺨﺺ ( ﻧﺎﻡ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﻧﮩﯿﮟ ) ﺧﻠﯿﻔﮧﮨﺎﺩﯼ ﻧﮯ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﻭﺍ ﺩﯾﺎ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ
" ﺭﯾﺠﯽ ﻓﺎﻟﮉ ( ﻋﯿﺴﺎﺋﯽ ﮔﻮﺭﻧﺮ )"
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺻﻼﺡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﯾﻮﺑﯽ
ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

گستاخ رسول ﷺ
" ﯾﻮﻟﻮ ﺟﯿﺌﺲ ﭘﺎﺩﺭﯼ "
ﻓﺮﺯﻧﺪ ﺍﺑﻮ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺍﻧﺪﻟﺲ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ
 " ﺭﺍﺟﭙﺎﻝ "
 ﻏﺎﺯﯼ ﻋﻠﻢ ﺩﯾﻦ ﺷﮩﯿﺪ
 ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ
" ﻧﺘﮭﻮﺭﺍﻡ "
ﻏﺎﺯﯼ ﻋﺒﺪﺍﻟﻘﯿﻮﻡ ﺷﮩﯿﺪ
 ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ
" ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺭﺍﻡ ﮔﻮﭘﺎﻝ "
ﻏﺎﺯﯼ ﻣﺮﯾﺪ ﺣﺴﯿﻦ ﺷﮩﯿﺪ
ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ 
1934 
ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ
" ﭼﺮﻥ ﺩﺍﺱ "
ﻣﯿﺎﮞ ﻣﺤﻤﺪ ﺷﮩﯿﺪ
ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ 
1937 میں 
ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝؐ
" ﺷﺮﺩﮬﺎ ﻧﻨﺪ "
ﻏﺎﺯﯼ ﻗﺎﺿﯽ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺷﯿﺪ
ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ 
1962 
ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ
" ﭼﻨﭽﻞ ﺳﻨﮕﮫ "
ﺻﻮﻓﯽ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺷﮩﯿﺪ
 ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ 
1938
ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ
" ﻣﯿﺠﺮ ﮨﺮﺩﯾﺎﻝ ﺳﻨﮕﮫ "
ﺑﺎﺑﻮ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﺩﯾﻦ ﺷﮩﯿﺪ
ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ 
1962
ﻣﯿﮟﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ
" ﻋﺒﺪﺍﻟﺤﻖ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯽ "
ﺣﺎﺟﯽ ﻣﺤﻤﺪ ﻣﺎﻧﮏ
ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ 
1967 
ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ -

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ
" ﺑﮭﻮﺷﻦ ﻋﺮﻑ ﺑﮭﻮﺷﻮ "
ﺑﺎﺑﺎ ﻋﺒﺪﺍﻟﻤﻨﺎﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ 
1937 
ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ
" ﭼﻮﮨﺪﺭﯼ ﮐﮭﯿﻢ ﭼﻨﺪ "
ﻣﻨﻈﻮﺭ ﺣﺴﯿﻦ ﺷﮩﯿﺪ
ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ 
1941
 ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ
" ﻧﯿﻨﻮ ﻣﮩﺎﺭﺍﺝ "
ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺨﺎﻟﻖ ﻗﺮﯾﺸﯽ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ 
1942
 ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔

ﮔﺴﺘﺎﺥ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ
" ﻟﯿﮑﮭﺮﺍﻡ ﺁﺭﯾﮧ ﺳﻤﺎﺟﯽ "
ﮐﺴﯽ ﻧﺎﻣﻌﻠﻮﻡ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭوں 
 ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ

ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ
" ﻭﯾﺮ ﺑﮭﺎﻥ " ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﻧﺎﻣﻌﻠﻮﻡ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ 
1935 
ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ

گستاخ رسول ﷺ
ایک قادیانی نے نبوت کا دعوی کیا
جسے حال ہی میں
غازی تنویر قادری نے قتل کیا

جنگ یمامہ 
مسیلمہ کذاب کے دعویٰ نبوت کے نتیجے میں لڑی گئی، جہاں 1200 صحابہ کرام کی شہادت ہوئی اور اس فتنے کو مکمل مٹا ڈالا۔
خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیقؓ خطبہ دے رہے تھے:
لوگو! مدینہ میں کوئی مرد نہ رہے،اہل بدر ہوں یا اہل احد سب یمامہ کا رخ کرو"
بھیگتی آنکھوں سے وہ دوبارہ بولے:
مدینہ میں کوئی نہ رہے حتی کہ جنگل کے درندے آئیں اور ابوبکر کو گھسیٹ کر لے جائیں"

صحابہ کرام کہتے ہیں کہ اگر علی المرتضی سیدنا صدیق اکبر کو نہ روکتے تو وہ خود تلوار اٹھا کر یمامہ کا رخ کرتے۔

13 ہزار کے مقابل بنوحنفیہ کے 70000 جنگجو اسلحہ سے لیس کھڑے تھے۔
یہ وہی جنگ تھی جس کے متعلق اہل مدینہ کہتے تھے:
"بخدا ہم نے ایسی جنگ نہ کبھی پہلے لڑی نہ کبھی بعد میں لڑی"
اس سے پہلے جتنی جنگیں ہوئیں بدر احد خندق خیبر موتہ وغیرہ صرف 259 صحابہ کرام شہید ھویے تھے۔ ختم نبوت ﷺ کے دفاع میں 1200صحابہ کٹے جسموں کے ساتھ مقتل میں پڑے تھے۔


انصار کا وہ سردار ثابت بن قیس ہاں وہی جس کی بہادری کے قصے عرب و عجم میں مشہور تھے
اس کی زبان سے جملہ ادا ہوا:
اےالله ! جس کی یہ عبادت کرتے ہیں میں اس سے برأت کا اظہار کرتا ہوں"
چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا جب وہ اکیلا ہزاروں کے لشکر میں گھس گیا اور اس وقت تک لڑتا رہا جب تک اس کے جسم پر کوئی ایسی جگہ نہ بچی جہاں شمشیر و سناں کا زخم نہ لگا ہو۔

عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کا لاڈلا بھائی۔۔۔۔ہاں وہی زید بن خطاب جو اسلام لانے میں صف اول میں شامل تھا اس نے مسلمانوں میں آخری خطبہ دیا:
والله ! میں آج کے دن اس وقت تک کسی سے بات نہ کرونگا جب تک کہ انہیں شکست نہ دے دوں یا شہید نہ کر دیا جاؤں"

وہ بنو حنفیہ کا باغ "حدیقۃ الرحمان" تھا جس میں اتنا خون بہا کہ اسے "حدیقۃ الموت" کہا جانے لگا۔ وہ ایسا باغ تھا جس کی دیواریں مثل قلعہ کے تھیں
کیا عقل یہ سوچ سکتی ہے کہ ہزاروں کا لشکر ہو اور براء بن مالک کہے:
"لوگو! اب ایک ہی راستہ ہے تم مجھے اٹھا کر اس قلعے میں پھینک دو میں تمہارے لئے دروازہ کھولونگا"
اس نے قلعہ کی دیوار پر کھڑے ہو کر منکرین ختم نبوت کے اس لشکر جرار کو دیکھا اور پھر تن تنہا اس قلعے میں چھلانگ لگا دی
قیامت تک جو بھی بہادری کا دعوی کرے گا یہاں وہ بھی سر پکڑ لے گا!!!

ایک اکیلا شخص ہزاروں سے لڑ رہا تھا ہاں اس نے دروازہ بھی کھول دیا اور پھر مسلمانوں نے منکرین ختم نبوت کو کاٹ کر رکھ دیا

......................
خدانخواستہ اگر کوئی شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے کی کوشش کرے تو اس بارے میں قرآن مجید میں کیا ہدایت کی گئی ھے۔

Surat No 73 المزمل : Ayat No 10

وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ وَ اہۡجُرۡہُمۡ ہَجۡرًا جَمِیۡلًا ﴿۱۰﴾

 اور جو باتیں یہ  ( کافر لوگ )  کہتے ہیں ان پر صبر سے کام لو ،  اور خوبصورتی کے ساتھ ان سے کنارہ کرلو ۔   ( ٧ )

Surat No 6 الانعام : Ayat No 33

قَدۡ نَعۡلَمُ  اِنَّہٗ  لَیَحۡزُنُکَ الَّذِیۡ یَقُوۡلُوۡنَ فَاِنَّہُمۡ لَا یُکَذِّبُوۡنَکَ وَ لٰکِنَّ الظّٰلِمِیۡنَ  بِاٰیٰتِ  اللّٰہِ  یَجۡحَدُوۡنَ ﴿۳۳﴾

   ۔   ( اے رسول )  ہمیں خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ جو باتیں کرتے ہیں ان سے تمہیں رنج ہوتا ہے ،  کیونکہ دراصل یہ تمہیں نہیں جھٹلاتے ،  بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں  ( ٩ )

Surat No 33 الاحزاب : Ayat No 48

وَ لَا تُطِعِ  الۡکٰفِرِیۡنَ وَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ دَعۡ  اَذٰىہُمۡ  وَ  تَوَکَّلۡ  عَلَی اللّٰہِ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ  وَکِیۡلًا ﴿۴۸﴾

 اور کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانو اور ان کی طرف سے جو تکلیف پہنچے اس کی پروا نہ کرو ،  اور اللہ پر بھروسہ رکھو اور اللہ رکھوالا بننے کے لیے کافی ہے ۔
Surat No 16  النحل: Ayat No 127

وَ اصۡبِرۡ وَ مَا صَبۡرُکَ  اِلَّا بِاللّٰہِ وَ لَا تَحۡزَنۡ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا تَکُ فِیۡ  ضَیۡقٍ مِّمَّا یَمۡکُرُوۡنَ ﴿۱۲۷﴾

 اور  (  اے پیغمبر )  تم صبر سے کام لو ،  اور تمہار صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے ۔  اور ان  ( کافروں )  پر صدمہ نہ کرو ،  اور جو مکاریاں یہ لوگ کر رہے ہیں ان کی وجہ سے تنگ دل نہ ہو ۔

Surat No 16 : Ayat No 128

اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّ الَّذِیۡنَ ہُمۡ مُّحۡسِنُوۡنَ ﴿۱۲۸﴾٪                  22

 یقین رکھو کہ اللہ ان لوگوں کا ساتھی ہے جو تقوی اختیار کرتے ہیں اور جو احسان پر عمل پیرا ہیں ۔   ( ٥٣ )
Surat No 13 الرعد : Ayat No 32

وَ لَقَدِ اسۡتُہۡزِئَ  بِرُسُلٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ فَاَمۡلَیۡتُ لِلَّذِیۡنَ  کَفَرُوۡا ثُمَّ   اَخَذۡتُہُمۡ ۟ فَکَیۡفَ کَانَ عِقَابِ ﴿۳۲﴾

 اور  ( اے پیغمبر )  حقیقت یہ ہے کہ تم سے پہلے پیغمبروں کا بھی مذاق اڑایا گیا تھا ،  اور ایسے کافروں کو بھی میں نے مہلت دی تھی مگر کچھ وقت کے بعد میں نے ان کو گرفت میں لے لیا ،  اب دیکھ لو کہ میرا عذاب کیسا تھا؟

Surat No 15 الحجر : Ayat No 11

وَ مَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ  اِلَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ ﴿۱۱﴾

 اور ان کے پاس کوئی رسول ایسا نہیں آتا تھا جس کا وہ مذاق نہ اڑاتے ہوں ۔
Surat No 15 : Ayat No 97

وَ لَقَدۡ نَعۡلَمُ اَنَّکَ یَضِیۡقُ صَدۡرُکَ بِمَا یَقُوۡلُوۡنَ ﴿ۙ۹۷﴾

 یقینا ہم جانتے ہیں کہ جو باتیں یہ بناتے ہیں ،  ان سے تمہارا دل تنگ ہوتا ہے ۔
Surat No 15 : Ayat No 98

فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ وَ کُنۡ مِّنَ السّٰجِدِیۡنَ ﴿ۙ۹۸﴾

 تو  ( اس کا علاج یہ ہے کہ )  تم اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو ،  اور سجد
مزید پڑھیے
http://raahedaleel.blogspot.com/2013/09/blog-post_13.html

قران کے بارے میں اہم معلومات 
https://rehmankhan8.blogspot.com/2018/08/quran-information.html

حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہہ وسلم کی ولادت سے وصال تک واقعات پر مختصر نظرکے لیے دیکھیے
https://rehmankhan8.blogspot.com/2017/05/blog-post.html


اسلامی مہینے کے حساب سے اہم دن 

https://rehmankhan8.blogspot.com/2017/09/islamic-important-days.html?q=islamic

Toheen Risalat توہین رسالت Toheen Risalat توہین رسالت Reviewed by News Archive to Date on October 31, 2018 Rating: 5

No comments