Pakistan Election History



پاکستانی انتخابات کی تاريخ، 

پاکستان کی ابتدائی تاريخ ميں ملکی آئين پر عدم اتفاق کا مسئلہ کافی نماياں رہا اور يہی وجہ تھی کہ سن 1947ء ميں پاکستان کے قيام کے بعد سے 1958ء تک عام انتخابات کا انعقاد نہ ہو سکا۔ صوبائی انتخابات البتہ وقت بوقت ہوتے رہے۔
اکتوبر سن 1958 ميں اس وقت کے صدر پاکستان اسکندر مرزا نے مارشل لاء کا اعلان کرتے ہوئے جنرل محمد ايوب خان کو ملکی فوج کا کمانڈر ان چيف اور چيف مارشل لاء ايڈمنسٹريٹر مقرر کيا۔ بعد ازاں اُسی ماہ ستائيس اکتوبر کو ايوب خان نے پاکستان کے دوسرے صدر  کے طور پر حلف اٹھايا۔ پھر مارچ 1962ء ميں نيا آئين تشکيل ديا گيا اور اسی نئے آئين کے تحت ملکی تاريخ کے پہلے عام انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکا۔ واضح رہے کہ پاکستان ميں سن 1962 اور سن 1965 ميں کرائے جانے والے انتخابات ميں عوام نے براہ راست رائے شماری ميں حصہ نہيں ليا بلکہ لوکل گورنمنٹ کے اراکين نے پارليمانوں کے چناؤ ميں حصہ ليا۔

1970 کے انتخابات اور بنگلہ دیش سے علیحدگی

مارچ 1969ء ميں پاکستان ميں دوسری مرتبہ مارشل لاء نافذ کيا گيا اور جنرل آغا محمد يحيیٰ خان نے چيف مارشل لاء ايڈمنسٹريٹر اور ملکی صدر کے طور پر ذمہ دارياں سنبھاليں۔ انہوں نے ايک ليگل فريم ورک آرڈر جاری کيا، جس کے تحت دسمبر 1970ء ميں ملکی تاريخ ميں پہلی مرتبہ براہ راست عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان اليکشنز ميں 63 فيصد پاکستانيوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کيا اور مجموعی طور پر 24 سياسی جماعتوں نے انتخابات ميں حصہ ليا۔ ملک ميں رجسٹرڈ ووٹروں کی کل تعداد 56,941,500 تھی، جن ميں سے 31,211,220 کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا اور 25,730,280 کا تعلق مغربی پاکستان سے۔ ان انتخابات ميں 1,579 اميدواروں نے قومی اسمبلی کی 300 نشستوں کے ليے اليکشن میں حصہ لیا۔ واضح رہے کہ مشرقی پاکستان )موجودہ بنگلہ ديش( ميں سيلابی صورت حال کے باعث اليکشن کچھ تاخير سے ہوئے تھے۔
انتخابات ميں شيخ مجيب الرحمان کی عوامی ليگ قومی اسمبلی ميں سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھری، اس نے قومی اسمبلی کی کل 300 نشستوں ميں سے 160 نشستيں جيتيں تاہم مغربی پاکستان میں عوامی لیگ کی کارکردگی کچھ بھی نہ رہی۔ اس کے برعکس پاکستان پيپلز پارٹی قومی اسمبلی ميں 81 نشستيں جيتنے ميں کامياب رہی اور اس نے مغربی پاکستان کے صوبوں سندھ اور پنجاب ميں بھی بڑے بڑے سیاسی امیدواروں کو شکست سے دوچار کر دیا۔ 1970ء کے انتخابات ميں مذہبی رجحان رکھنے والی جماعتيں کسی حد تک ناکامی سے ہمکنار ہوئیں تھیں۔ انتخابات کے بعد سیاسی حالات ناقابل کنٹرول ہو گئے اور سولہ دسمبر کو سقوطِ ڈھاکا کے بعد بنگلہ دیش معرضِ وجود میں آ گیا۔
مغربی پاکستان میں یحیٰ خان نے اقتدار چھوڑ دیا اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور قائد  ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔


1977 کے انتخابات

جنوری سن 1977 ميں وزير اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے قبل از وقت اليکشن کا اعلان کر ديا۔ يوں دو ماہ بعد مارچ ميں اليکشن کرائے گئے، جن ميں 63 فيصد پاکستانيوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کيا۔ ان انتخابات کے ليے رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 30,899,052 تھی۔ انتخابات ميں بھٹو کی پيپلز پارٹی کو شکست سے دوچار کرنے کے ليے کئی چھوٹی و بڑی سياسی جماعتوں نے پاکستان قومی اتحاد (PNA) کے نام سے انتخابی اتحاد قائم کيا۔
نتائج کے مطابق پی پی پی نے 58.1 فيصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی 173 ميں سے 136 سيٹيں جيتيں جبکہ پی اين اے صرف 35.1 فيصد ووٹ اور 36 سيٹيں جيتنے ميں کامياب رہی۔ اس کے علاوہ پی پی پی نے انيس نشستيں بغير کسی مقابلے کے بھی جيتيں۔ پاکستان نيشنل الائنس نے مغربی صوبے بلوچستان ميں جاری ملٹری آپريشن کی سبب وہاں اليکشن ميں حصہ نہيں ليا۔ پاکستان نيشنل الائنس نے اليکشنز ميں دھاندلی کے الزا مات عائد کرتے ہوئے صوبائی انتخابات کا بائيکاٹ کر دیا تھا۔


1988 کے انتخابات

جولائی 1977ء ميں جنرل ضياء الحق نے بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹ ديا اور نوے ایام کے اندر عام انتخابات کا وعدہ کیا۔ بعد میں انتخابات کا وعدہ پورا نہ ہو سکا اور جنرل ضیا کا اقتدار گیارہ برس سے زائد عرصے تک قائم رہا۔ اس دوران چار اپریل سن 1979 میں قتل کے ایک مقدمے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیرمین ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ ایک ریفرنڈم کے ذریعے جنرل ضیا پاکستان کےغ صدر منتخب ہو گئے۔ سن 1985 ميں ضياء الحق نے سیاسی پارٹیوں کے بغیر پارلیمانی الیکشن کا انعقاد کرايا۔ جنرل ضیا الحق کا اقتدار اگست 1988 ميں ايک ہوائی جہاز کے حادثے پر ختم ہوا۔ فوجی صدر اس حادثے میں ہلاک ہو گیا تھا۔

ضياء الحق کی ہلاکت کے بعد قائم مقام صدر غلام اسحاق خان نے پارلیمانی انتخابات کا عمل آگے بڑھایا۔ سابق وزير اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بيٹی بے نظير بھٹو نے ان انتخابات میں شرکت کی۔ نومبر 1988 ميں ہونے والے عام انتخابات ميں پاکستان پيپلز پارٹی فاتح رہی اور بے نظير بھٹو نے پاکستان اور مسلم دنيا کی پہلی خاتون وزير اعظم کا حلف اٹھايا۔ تاہم محض بيس ماہ بعد سن 1990ء ميں صدر غلام اسحاق خان نے کرپشن کے الزامات عائد کرتے ہوئے بے نظير حکومت کو برطرف کر ديا۔
ایم کیوایم نے کراچی اورحیدرآبادسے قومی اسمبلی کی چودہ اورصوبائی کی پچیس نشستیں حاصل کیں یہ کامیابی حاصل کرکے ایم کیوایم نے ملک کے سیاسی حلقوں میں اپنالوہامنوایا۔۔۔اورملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت کے طورپرسامنے آئی 
1990 کے انتخابات

اکتوبر سن 1990 ميں پاکستانی عوام نے دوبارہ پولنگ اسٹيشنز کا رخ کيا اور اس بار پاکستان پيپلز پارٹی کی مرکزی حريف جماعت پاکستان مسلم ليگ  نے اليکشن ميں اکثريت حاصل کرتے ہوئے حکومت قائم کی۔ انتخابات میں اس جماعت کی قیادت میاں محمد نواز شریف کر رہے تھے۔ بعد ازاں وزير اعظم نواز شريف اور صدر غلام اسحاق خان کے درميان تنازعات نے جنم لیا اور  ايک ڈيل کے تحت 1993ء ميں نواز شریف حکومت کی بساط لپیٹ دی گئی۔ اس وقت کے سپریم کورٹ نے نواز شریف کی حکومت کو بحال بھی کر دیا تھا۔

1993 انتخابات
اکتوبر 1993ء ميں ہونے والے پارليمانی انتخابات ميں مقابلہ کافی سخت رہا۔ ان انتخابات ميں پاکستان پيپلز پارٹی قومی اسمبلی کی مجموعی 207 ميں سے 89 نشستيں جيتنے ميں کامياب رہی جبکہ حريف جماعت پاکستان مسلم ليگ  بھی 73 نشستوں پر کامياب رہی۔ اگرچہ پی پی پی زيادہ نشستوں پر کامياب رہی تاہم اس ملنے والے کل ووٹوں کی تعداد پاکستان مسلم ليگ  کو ملنے والے ووٹوں سے کم رہی۔
متحدہ قومی موومنٹ نے قومی اسمبلی کے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تاہم صوبائی کے انتخابات میں حصہ لیا اور اکثریت سے کامیابی حاصل کی 

پاکستان پيپلز پارٹی نے کوليشن حکومت قائم کی اور بے نظر بھٹو کو دوسری مرتبہ پاکستان کی وزارت عظمیٰ  کے منصب پر براجمان ہو گئیں۔
1997 کے انتخابات

صدر فاروق احمد خان لغاری نے سن 1996 ميں کرپشن کے الزام پر  بے نظر بھٹو کی حکومت کو برطرف کر دیا۔ بےنظیر بھٹو کو سپریم کورٹ سے ریلیف نہیں مل سکا اور ان کی حکومت بحال کرنے کی اپیل خارج کر دی گئی۔ فروری سن 1997  ميں پاکستانی عوام نے ايک مرتبہ پھر پولنگ اسٹيشنز کا رخ کيا۔ ان انتخابات ميں ووٹر ٹرن آؤٹ صرف 36 فيصد رہا تاہم نواز شريف کی پاکستان مسلم ليگ نے پاکستانی تاريخ ميں پہلی مرتبہ قومی اسمبلی ميں دو تہائی اکثريت حاصل کرتے ہوئے حکومت قائم کی۔ قومی اسمبلی کی کل 207 سيٹوں ميں سے پی ايم ايل نے 137 جيتيں جبکہ پی پی پی اس بار صرف اٹھارہ سيٹيں ہی جيت پائی۔ نواز شريف 
دوسری مرتبہ پاکستانی وزير اعظم بنے۔
متحدہ قومی موومنٹ نے 12  نشستیں حاصل کیں 

2002 کے انتخابات

اکتوبر سن 1999 ميں وزير اعظم نواز شريف کی حکومت کو ڈرامائی انداز ميں اس وقت کے آرمی چيف جنرل پرويز مشرف کے ساتھیوں نے ختم کردیا۔ اس کی وجہ جنرل مشرف کے جہاز کو کراچی لينڈنگ کی اجازت نہ دینے کا الزام لگایا۔ آرمی نے ايک مرتبہ پھر سويلين حکومت ختم کر کے اقتدار سنبھال ليا۔ بعد ازاں جنرل مشرف کی ملٹری ليڈرشپ ميں 2002 ميں عام انتخابات کرائے گئے، جن ميں ستر سے زائد سياسی جماعتوں نے حصہ ليا اور ان انتخابات ميں ووٹر ٹرن آؤٹ قريب 42 فيصد رہا۔ اس دوران میاں نواز شریف اور ان کا خاندان ایک ڈیل کے تحت سعودی عرب مہاجرت کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔
پاکستان مسلم ليگ قائد اعظم گروپ نے قومی اسمبلی کی 342 ميں سے 126 سيٹيں جيتتے ہوئے کوليشن حکومت قائم کی۔ اس بار پی پی پی 81 اور نواز گروپ صرف 19 سيٹيں جيتنے ميں کامياب رہا۔ اس الیکشن میں پہلی مرتبہ پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ سامنے آیا۔
جنرل مشرف نے ريفرنڈم کے ذريعے خود کو صدر منتخب کرا ليا۔

پاکستان میں عام انتخابات 10 اکتوبر 2002ء کو کرائے گئے جن میں قومی اسمبلی پاکستان اور چار صوبائی اسمبلیوں کے اراکین منتخب کیے گئے۔ ان انتخابات کے بھاگ دوڑ میں تقریباَ 70 سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا جن میں 18 سیاسی جماعتوں کو پارلیمان میں نشستیں ملیں۔

مسلم لیگ ق نے 126 ، پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین نے 81، متحدہ مجلس عمل نے 63، پاکستان مسلم لیگ ن نے 19، متحدہ قومی موومنٹ نے 16، مسلم لیگ فنکشنل نے 5 ، قومی وطن پارٹی نے 2،پاکستان تحریک انصاف نے  1 نشست حاصل کرلی 

2008 انتخابات

8 جنوری 2008ء کے انتخابات کے اعلان کے بعد سیاسی جماعتوں نے الیکشن کی تیاریاں شروع کردیں،بے نظیر بھٹو27 دسمبر 2007ء کو لیاقت نیشنل باغ راولپنڈی میں ایک سیاسی ریلی کے دوران فائرنگ وخودکش حملے کے نتیجے میں شہید ہوگئیں۔
بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعدالیکشن کمیشن نے ایک اجلاس بلایا اور اعلان کیا کہ8 جنوری کو الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں۔ انتخابات 18 فرو ری 2008ء کو کرانے کا اعلان کردیا گیا۔
انتخابات کے نتائج کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی نےسب سے زیادہ 122 نشستیں حاصل کیں، پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے92، پاکستان مسلم لیگ (قائداعظم) نے53، ایم کیو ایم نے 25 اور اے این پی نے قومی اسمبلی کی13 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے ان انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔
فروری 2008ء کے الیکشن میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 7کروڑ 99 لاکھ 85ہزار 16 تھی ،ان میں سے 3کروڑ 55لاکھ 18ہزار221 ووٹرز نے اپنا رائے حق دہی استعمال کیا جبکہ 9لاکھ 68ہزار 951ووٹ مسترد کیے گئے، اس طرح ٹرن آؤٹ 44اعشاریہ 4 رہا۔
پیپلز پارٹی نے مرکز میں دوسری جماعتوں اور خاص طور سے مسلم لیگ (ن) کے اشتراک سے حکومت بنائی، تاہم یہ اتحاد زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکا، لیکن متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی کئی سال تک پیپلز پارٹی کے ساتھ رہی جبکہ مسلم لیگ قاف بہت بعد میں حکومت کے ساتھ اتحاد میں شامل ہوئی۔
پرویز مشرف پر عدم اعتماد کے باعث 7 اگست 2008ء کو پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) اس بات پر رضامند ہوگئیں کہ پرویز مشرف سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے اعتمادکا ووٹ کا کہا جائے یا پھر وہ صدارت کا عہدہ چھوڑ دیں
پرویزمشرف کے مواخذے(Impeachment)کی تحریک کے نتیجے میں انتخابات کے 6ماہ بعد 18 اگست 2008ء کو پرویز مشرف صدارت سے مستعفی ہو گئے ۔وہ 20 جون 2001ء کو صدارت کے عہدے پر فائز ہوئے تھے۔پرویزمشرف کے استعفے کے بعدپاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرن (پی پی پی پی) کے آصف علی زرداری کو ملک کا صدر منتخب کر لیا گیا۔
پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں دو وزیر اعظم آئے، یوسف رضا گیلانی کو عدالت کی توہین پر نا اہل قرار دے دیا گیا تھا، دوسرے راجہ پرویز اشرف جن کو یوسف رضا گیلانی کی برطرفی کے بعد وزیر اعظم منتخب کیا گیا۔
ملکی تاریخ میں یہ پہلی منتخب غیر فوجی حکومت تھی جس نے اپنی معیاد پوری کی اور اس دوران کسی قسم کی فوجی مداخلت نہیں ہوئی۔
2013 انتخابات
ملک بھر میں دسویں عام انتخابات کا انعقاد 11 مئی 2013ء کو ہوا، قومی اسمبلی اور چاروں صوبوں پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے لیے ایک ہی روز الیکشن کا انعقاد ہوا۔
یہ الیکشن ایک منتخب جمہوری حکومت کے اپنی مقررہ مدت مکمل کرنے کے بعدپہلے الیکشن تھے۔
انتخابات میں قومی اسمبلی کی کل 342 نشستیں تھیں جبکہ اکثریت حاصل کرنے کے لئے 172 نشستوں کی ضرورت تھی۔
انتخابی نتائج کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن)نے 126 نشستیں، پاکستان پیپلز پارٹی نے 33 جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے 28 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔
دہشت گردی کے واقعات میں 57 افراد جاں بحق ہوئے ۔۔
مسلم لیگ کی عام انتخابات میں 126 نشستیں تھیں تاہم 34 خواتین اور اقلیتوںکی 6سیٹیں ملاکر کل 166ہوگئیں، جبکہ پیپلز پارٹی کی8 خواتین اور ایک اقلیتی سیٹ ملاکر کل 42اور تحریک انصاف کی6 خواتین کی نشستیں اور ایک اقلیتی ملاکر کل 35نشستیں ہوگئیں۔
مسلم لیگ کو 166نشستوں کے باوجود بھی 6 سیٹوں کی ضرورت تھی تاہم بعض آزاد امیداروں کی شمولیت کے باعث مسلم لیگ کی حکومت سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی اور میاں محمد نواز شریف نے 5جون 2013ءکو وزارت عظمیٰ کا منصب تیسری بار سنبھال لیا

الیکشن کے بعد ہم عصر سیاسی جماعتوں جن میں پاکستان تحریک انصاف پیش پیش تھی نے ن لیگ پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا۔ ن لیگی حکومت کو ایک سال2 ماہ ہی گزرے تھے کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نےالیکشن میں دھاندلی کا الزام لگاکر آزادی مارچ جسے سونامی مارچ بھی کہا جاتا ہے، کا اعلا ن کردیا۔ آزادی مارچ اسلام آباد میں 14 اگست 2014ء سے شروع ہوا اور 17 دسمبر 2014ء یعنی 4 ماہ سے زائد جاری رہا۔
سن 2016ء میں پاناما لیکس میں وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کے نام سامنے آئے جس پر حزب اختلاف کی جانب سے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ سامنے آیا ۔ معاملہ کسی نتیجے پر نہ پہنچنے پر حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت تحریک انصاف سڑکوں پر نکل آئی اور 2 نومبر کو اسلام آباد کو بند کرنے کا کال سے پہلے پکڑ دھکڑ اور پرتشدد جھڑپوں کے دوران یکم نومبر کو سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے پاناما لیکس کے تحقیقات کے لیے تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینے پر اتفاق کر لیا۔
سپریم کورٹ میں 3 نومبر 2016کو پاناما لیکس میں سامنے آنے والے الزامات کی باقاعدہ سماعت شروع ہوئی۔سماعتوں کا سلسلہ چلتا رہا، 28 جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قراردے کر ان پر پابندی عائد کردی۔
نواز شریف کے بعد مسلم لیگ ن ہی کےشاہد خاقان عباسی یکم اگست 2017ء کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوگئے۔
نوازشریف کے 4 سالہ دور میں سی پیک منصوبہ اور بجلی کے متعدد منصوبے شروع کیے گئے جبکہ پاک فوج کے آپریشنز کے نتیجے میں ملک میں قدرے امن بھی قائم ہوا
الیکشن 2018
قومی اسمبلی ، پی ٹی آئی 116، ن لیگ 64 پی پی 43 نشستوں سے آگے
آزاد امیدوار 14 ایم ایم اے 12 ق لیگ 4 ایم کیوایم 6، بی این پی 3 ، جی ڈی اے 2 
سیٹوں پر کامیاب
4 آزاد اراکین نے پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کردیا
کراچی میں پیپلز پارٹی 3، تحریک انصاف 14 ایم کیوایم نے 4 نشستیں حاصل کیں ۔۔۔۔

پی ٹی آئی نے ملک بھر میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ، پی ٹی اے نے ایک کروڑ 88 لاکھ، ن لیگ نے ایک کروڑ 28 لاکھ ووٹ ، پی پی نے 69 لاکھ ووٹ لیے


ن لیگ مجلس عمل ، پیپلزپارٹی ، ایم کیوایم ، ایم ایم اے اور اے این پی نے نتائج مسترد  کردیے

پی ٹی آئی نے  الیکشن نظام کو درست قرار دیاکامیاب۔۔۔

عمران خان قومی اسمبلی کی 5 نشستوں سے جیت گئے
مولانا فضل الرحمان ، محمود خان اچکزئی ،شاہد خاقان ، سائرہ افضل تارڑ، طارق فضل چوہدری،یوسف رضاگیلانی ، سراج الحق ،خواجہ آصف ،عائشہ گلالئی، چوہدری نثار، خواجہ سعد رفیق کوئی سیٹ نہ جیت سکے

کراچی کی سیاست پر راج کرنے والی جماعت تقسیم در تقسیم ہونے کے نتیجے میں اپنے  سیاسی گڑھ لیاقت آباد ، کورنگی ، نیوکراچی جسے علاقوں سے بھی کامیابی نہ سمیٹ سکی  
2018 کے انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ سندھ بھر سے 6 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکی کراچی سے 4 جبکے اندورن سندھ سے دو نشستوں میں کامیاب ہوئی ایم کیوایم کے مرکز عزیز آباد حلقہ 254 سے بھی تحریک انصاف کے امیدوار محمد اسلم خان جیت گئے ، این اے 240سے اقبال محمد علی خان  کامیاب ہوئے این اے 251 سے امین الحق ، این اے 253 سے اسامہ قادری ، این اے 255 سے خالد مقبول صدیقی نے کامیابی حاصل کی جبکہ فاروق ستار نے دوحلقوں 245 اور 247 انتخاب لڑا دونوں میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا این اے 245 انہیں عامر لیاقت حسین نے شکست دی ، جبکہ پی ایس پی کو کامیابی نہ  مل سکی اور مصطفی کمال ایک بھی نشست حاصل نہ کرسکے



 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Pakistan Election History Pakistan Election History Reviewed by News Archive to Date on July 25, 2018 Rating: 5

No comments