Senate History
چیرمین سینٹ کی تفصیل
ایوان بالا کا قیام سن 1971 میں کیا گیا ،، تاکہ تمام چھوٹے صوبوں کو بڑے صوبوں کے طرح نمائندگی حاصل ہوسکے،،1973 سے 2018 تک ایوان بالا کے 7 چیئر مین میںتخب ہوئے ۔
1973 کے متفقہ آئین کے نافذ ہونے کے بعد مجلس شوریٰ کے دو ایوان بھی تشکیل دیے گئے۔ یہ دونوں ایوان، ایوان بالایعنی سینیٹ اور ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی کہلاتے ہیں۔
حبیب اللہ خان کو پہلے ملک کے پہلے چئیرمین سینٹ بننے کا اعزاز حاصل ہوا ۔ انہوں نے 6 اگست 1973 سے 4 جوالائی 1977 تک بطور چئیرمین سینٹ اپنی ذمہ داریاں نبھائیں ۔
غلام اسحاق خان 21 مارچ 1985 کودوسرے چئیرمین سینٹ منتخب ہوئے اور 12دسمبر 1988 تک اپنے فرائض چئیرمین کے طور پر ادا کیے ۔
غلام اسحاق خان کے بعد وسیم سجاد تیسر ےچئیرمین سینٹ منتخب ہوئے اور 24 دسمبر 1988سے 12 اکتوبر 1999 تک چئیرمین سینٹ رہے۔
23 مارچ 2003 کو محمد میاں سومرو چوتھے چئیرمین سینٹ منتخب ہوئے اور 11 مارچ 2009 تک اپنی ذمہ داریاں نبھائیں ۔
پیپلز پارٹی کے فاروق ایچ نائیک ایوان بالا کے پانچویں چئیرمین 12 مارچ 2009 کو منتخب ہوئے ۔ اور 12 مارچ 2012 تک چئیرمین رہے ۔
ان کے بعد نیئر حسین بخاری چھٹے چئیرمین سینٹ منتخب ہوئے اور 12 مارچ 2012 سے 11 مارچ 2015 تک اپنی ذمہ داریاں نبھائیں ۔
11 مارچ 2015 کو موجودہ چئیرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے عہدہ سنبھالا جو 11 مارچ 2018 کو ریٹائرڈ ہوگئے ،
12 مارچ
صادق سنجرانی چیرمین ، سلیم مانڈی والا
ڈپٹی چیرمین سینٹ منتخب، حکمراں اتحاد کو شکست، پہلی بار بلوچستان سے سینیٹر منتخب ہوا
سنجرانی کو 57 سلیم مانڈی والا کو 54 ،
مسلم لیگ ن کے ظفرالحق کو 46 اور عثمان کاکڑ کو 44 ووٹ ملے
صادق سنجرانی اور سلیم مانڈی والا پیپپلز پارٹی کے نامزد امیدوار تھے جنہیں پی ٹی آئی کے سنیٹرز نے بھی ووٹ ڈالا
صادق سنجرانی اور سلیم مانڈی والا پیپپلز پارٹی کے نامزد امیدوار تھے جنہیں پی ٹی آئی کے سنیٹرز نے بھی ووٹ ڈالا
52 نو منتخب سینیٹرز نے حلف
اٹھایا
52 ارکان ریٹائر ہوگئے
سردار یعقوب ناصر نے نو منتخب سینیٹرز سے حلف لیا
اسحاق ڈار بیرون ملک ہونے کی وجہ سے حلف نہیں اٹھاسکے
سینٹ انتخابات 03 مارچ 18
سینیٹ انتخابات میں ن لیگ سب سے بڑی جماعت قرار پائی
ن لیگ نے 15 ، پیپلزپارٹی نے 12 اور تحریک انصاف نے 6 نشستیں حاصل کیں
قومی سمیت چاروں صوبائی اسمبلیوں میں سینیٹ انتخابات کے
سلسلے میں پ ۔ 52 نشستوں پر 131 امیدوارں نے حصہ لیا پولنگ بغیر کسی وقفے کے شام 4 بجے تک جاری رہی
کیلئے6امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا ۔
ایم کیوایم کے دونوں گروپ یکجا 5 مشترکہ امیدوار لانے کا فیصلہ کیا
جنرل پر فروغ نسیم ، کامران ٹیسوری ، ٹیکنو کریٹ پر عبدالقادرخانزادہ ، ڈاکٹر
نگہت اقلیتی نشست پر سنجے پروانی کے نام شامل تھے
03 مارچ 2018 کو جیتنے والے سینٹرز کےنام
اسلام آباد سے جنرل نشست پر مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ اسد
جونیجو اور ٹیکنوکریٹ کی نشست پر مشاہد حسین سید کامیاب ہوگئے۔ قومی اسمبلی میں
سینیٹ کیلئے 300ووٹ کاسٹ کیے گئے جس میں 13ووٹ مسترد کر دیے گئے۔ جو ڈبل کراس یا
خالی بیلٹ بکس میں ڈال دیئے گئے تھے۔
سینیٹ
الیکشن کے نتائج ...
پنجاب
اسمبلی ... ن لیگ کے حمایت یافتہ تمام حمایت امیدوار کامیاب
مسلم
لیگ ن کی حمایت یافتہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی بہن سعدیہ عباسی آزاد پنجاب
سے سینیٹر منتخب ...
مسلم
لیگ ن کے آصف کرمانی آزاد پنجاب کی نشست پر سینٹر منتخب ..
ہارون
اختر جنرل نشست آزاد پنجاب پر سینٹر منتخب
پنجاب
سے اقلیتی نشست پر ن لیگ کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار کامران مائیکل سینیٹر منتخب
پنجاب
سے خواتین کی نشست پر ن لیگ کی حمایت یافتہ نزہت صادق سینیٹر منتخب
پنجاب
سے جنرل نشست پر آزاد امیدوار مصدق ملک کامیاب
پنجاب
سے ٹیکنو کریٹ کی نشستوں پر مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ اسحاق ڈار اور حافظ عبد
الکریم آزاد سینیٹرز منتخب
مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں 12میں سےسینیٹ کی 11نشستوں پر
کامیابی حاصل کی۔ 7میں سے 6جنرل نشستوں پر شاہین بٹ، مصدق ملک ، آصف کرمانی ،
ہارون اختر اور رانا مقبول کامیاب ہوئے ۔ پنجاب سے ٹیکنوکریٹ کی دو نشستوں پر سابق
وزیر خزانہ اسحقٰ ڈار اور حافظ عبدالکریم کامیاب ہوئے ۔ پنجاب میں خواتین کی دونوں
نشستیں بھی مسلم لیگ (ن) کی حمایت یافتہ وزیراعظم کی ہمشیرہ سعدیہ عباسی اور نزہت
صادق نے جیت لیں ۔ پنجاب سے اقلیتی نشست پر مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ کامران
مائیکل کامیاب ہوگئے جبکہ پنجاب سے ایک جنرل نشست تحریک انصاف کے چوہدری سرور نے
حاصل کی
فاٹا
سینیٹ الیکشن نتائج....
فاٹا
کی 4 نشستوں پر ہونے والے انتخاب میں شمیم آفریدی , بلال الرحمان , مرزا آفریدی اور
ہدایت اللہ سینیٹرز منتخب
....
خیبر پختونخوا میں سینیٹ کی 11نشستوں پر الیکشن ہوا جس میں
تحریک انصاف نے 5، مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے دو دو ، جماعت اسلامی اور جے یو
آئی (ف) نے ایک ایک نشست حاصل کی ۔پاکستان تحریک انصاف کے فیصل جاوید ، اعظم
سواتی ، مہر تاج روغانی ، فدا محمد ، محمد ایوب منتخب ہوگئے ۔ مسلم لیگ (ن)کے پیر
صابر شاہ اور دلاور خان سینیٹر منتخب ہوگئے جبکہ پی پی پی کی روبینہ خالد اور بہرہ
مند تنگی نے کامیابی حاصل کی۔جماعت اسلامی کے محمد عثمان اور جے یو آئی (ف) کے
طلحہ محمود سینیٹر منتخب ہوگئے۔
بلوچستان میں سینٹ انتخابات میں گیارہ نشستوں میں سے چھ آزاد،
پشتونخوا میپ اور نیشنل پارٹی کے دو دو اور جے یو آئی (ف) کا ایک اْمیدوار کامیاب
ہو گیا۔ آزاد کامیاب ہونے والوں میں کہدہ بابر (جنرل)، انوار الحق کاکڑ
(جنرل)،محمد صادق سنجرانی (جنرل)، احمد خان (جنرل)، نصیب اللہ بازئی (ٹینکو کریٹ)
اور ثناء جمالی (خواتین) شامل ہیں جبکہ پشتونخوا میپ دو نشستیں حاصل کرنے میں
کامیابی ہوئی جن میں جنرل نشست پر سردار محمد شفیق ترین اور خواتین کی نشست پر
عابدہ عمر کامیاب ہوئیں ، نیشنل پارٹی کے بھی دو اْمید وار جن میں محمد اکرم نے
جنرل نشست پراور ٹینکوکریٹ کی نشست پر محمد طاہر بزنجو نے میدان مار لیاہے،جمعیت علما
ئے اسلام (ف) مولوی فیض محمد نے جنرل نشست پرکامیابی حاصل ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور
بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کوئی بھی نشست حاصل نہیں کر سکیں۔
سندھ
اسمبلی ... سینیٹ الیکشن نتائج ....
پیپلز
پارٹی کے رضا ربانی , مولا بخش چانڈیو , مصطفی نواز کامیاب
پیپلزپارٹی
کے رضا ربانی کامیاب , پیپلزپارٹی کے امام دین ,خواتین کی نشست پر کرشنا کوہلی اور
قراۃ العین مری کامیاب ہوئیں , پیپلزپارٹی کے سکندر میندھرو بھی
کامیاب،اقلیتی نشست پر پیپلزپارٹی کے لعل دین کامیاب
۔ایم کیوایم کے بیرسٹر فروغ نسیم اور فنکشنل مسلم لیگ کے مظفر
شاہ کامیاب ہوگئے۔ دونوں جماعتوں کو ایک ایک نشت ملی۔
11 مارچ 2018 کو ریٹائرڈ ہونے والے سینٹرز
ایک سو چار نشستوں پر مشتمل ایوانِ بالا کے 11 مارچ کو ریٹائر ہونے والے نصف سینیٹر جو اپنے عہدے کی چھ سال کی مدت پوری ہونے کے بعد ذمہ داریوں سے سبکدوش ہورہے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ
ن کے ایک تہائی یعنی 27 میں سے 9 اراکین مارچ میں اپنی مدت پوری ہونے پر ریٹائر ہو
جائیں گے۔ ان اراکین میں سے 8 کا تعلق پنجاب جبکہ ایک کا خیبرپختونخوا سے ہے۔ مسلم
لیگ ن کے ریٹائر ہونے والے سابق وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار، ذوالفقار کھوسہ، ڈاکٹر
آصف کرمانی اور کامران مائیکل سر فہرست ہیں ۔
جمیعت علمائے
اسلام ف کے 5 میں سے 3 ریٹائر ہونے والے اراکین میں بلوچستان سے حافظ حمد اللہ اور
مفتی عبدالستار جبکہ خیبر پختونخوا سے محمد طلحہ محمود شامل ہیں ۔
متحدہ قومی
موومنٹ پاکستان کے 50 فیصد اراکین بھی ریٹائر ہو رہے ہیں جس کے بعد ایم کیو ایم سینیٹرز
کی تعداد 8 سے کم ہو کر 4 رہ جائے گی۔
11 مارچ کو ریٹائر
ہونے والے متحدہ سینیٹرز میں بیرسٹر فروغ نسیم، مولانا تنویرالحق تھانوی، کرنل(ر)
سید طاہر حسین مشہدی اور نسرین جلیل شامل ہیں۔
11 مارچ کے بعد
عوامی نیشنل پارٹی کے 6 میں سے 5 اراکین سینیٹ کے رکن نہیں رہیں گے ۔ ان اراکین میں
کے پی سے باز محمد خان، شاہی سید، الیاس احمد بلور،زاہدہ خان جبکہ بلوچستان سے
سردار محمد داؤد خان اچکزئی شامل ہیں۔
پاکستان تحریک
انصاف کے 7میں سے صرف خیبر پختونخوا کے محمد اعظم سواتی ریٹائر ہو رہے ہیں۔
مسلم لیگ ق کے
پنجاب اور اسلام آباد کے 1, 1 منتخب ہونے والے سینیٹرز کامل علی آغا اور مشاہد حسین
سید جبکہ بلوچستان سے 2 سینیٹرز ریٹائر ہو جائیں گے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)
کے دو اراکین سردار اسرار اللہ خان زہری اور نسیمہ احسان جبکہ مسلم لیگ فنکشنل کے
سید مظفر حسین شاہ اپنی مدت پوری کرلیں گے ۔
آزاد اراکین میں
سے آدھے یعنی 10 میں سے 5 ریٹائر ہو جائیں گے۔
جانے والوں میں
فاٹا سے ہدایت اللہ، ہلال الرحمان، ملک نجم الحسن ، محمد صالح شاہ جبکہ پنجاب سے
محمد محسن لغاری سینیٹ کو خیر باد کہہ دیں گے۔
سینٹ الیکشن 2015
پاکستان مسلم لیگ نون
نے عام انتخابات کی طرح سینٹ الیکشن میں بھی میدان مارلیا۔۔
حکمران جماعت نے اسلام
آباد کی دو اور پنجاب کی گیارہ نشستیں جیت کر کلین سوئیپ کردیا۔ نون لیگ نے مجموعی
طور پر سترہ نشستیں جیت کر پہلی پوزیشن حاصل کرلی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی سندھ سے
سات اور خیبر پختونخوا سے ایک نشست حاصل کرکے دوسرے نمبر پر ہے۔۔
چھ سینیٹرز کے ساتھ
تیسرے نمبر پر آگئی ہے پاکستان تحریک انصاف۔۔
کراچی کی نمائندہ جماعت
ایم کیو ایم کے چار امیدواروں نے کامیابیاں حاصل کیں۔۔
نیشنل پارٹی، پختونخوا
میپ نے دو دو نشستیں حاصل کیں۔۔
عوامی نیشنل پارٹی ،
جمعیت علماء اسلام ف بلوچستان نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی کا ایک سینیٹر کامیاب
ہوا۔
خیبر پختونخوا سے
پاکستان تحریک انصاف اور اے این پی نے ایک ایک خواتین کی مخصوص نشست اپنے نام کی۔۔
سینٹ الیکشن میں تین
آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوئے۔۔
صدارتی آرڈیننس کےاجراء سے پیدا ہونے والے ابہام
کی وجہ سے فاٹاسے سینیٹرزکے انتخاب کیلئے پولنگ نہ ہوسکی
سینٹ الیکشن 2012
سینیٹ کی چون میں سے
پینتالیس نشستوں پر ووٹنگ ہوئی ۔۔ اور نو سینیٹرز بلا مقابلہ منتخب ہوگئے ۔۔
پیپلز پارٹی ایوان بالا کی
18 نشستوں پر اپنے سینیٹرز منتخب کرا کر پہلے نمبر پر رہی ۔۔
مسلم لیگ ن کے 7 سینیٹرز
منتخب ہوئے ۔۔ اس طرح اس کا دوسرا نمبر رہا ۔۔
عوامی نیشنل پارٹی کے 7
سینیٹرز ایوان بالا میں پہنچنے میں کامیاب رہے ۔۔
متحدہ قومی موومنٹ کے چار
سینیٹرز منتخب ہوئے۔۔
مسلم لیگ ق کے چار
سینیٹرز کامیاب قرار پائے۔۔
جمعیت علمائے اسلام کے
تین سینیٹرز ایوان بالا پہنچ گئے
بلوچستان نیشنل پارٹی کے
بھی دو سینیٹرز کامیاب قرار پائے ۔۔
مسلم لیگ فنکشنل کا ایک
سینیٹر کامیاب رہا ۔۔
5 آزاد امیدوار بھی
سینیٹ پہنچنے میں کامیاب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سینٹ الیکشن 2009
پیپلزپارٹی نے سینٹ میں بھی اکثریت حاصل کرلی ۔
پیپلزپارٹی کے 28، ق لیگ21
، جے یوآئی 10 ن لیگ اور اے این پی کے 7،7 جماعت اسلامی 3 متحدہ 6 اور فاٹا سے 8
سینیٹر منتخب
9 اپوزیشن ارکان اپنی
پارٹیوں سے دغا کرگئے
سینٹ الیکشن 2006
پاکستان مسلم لیگ ق نے 20،
متحدہ مجلس عمل نے 10، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین نے 5 ، آزادامیدوار نے 4
متحدہ قومی موومنٹ 3، مسلم لیگ ن نے 1، پاکستان ملی عوامی پارٹی نے ایک ، پاکستان
پیپلزپارٹی نے 1اور عوامی نیشنل پارٹی نے 1 سیٹ حاصل کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سینٹ
کے الیکشن کا طریقہ کار
۔1)سارے
سینٹ میں 104 ارکان ہوتے ہیں۔
ہر
صوبہ: 23( ٹوٹل ہوئے 23 4= 92 ارکان)
فاٹا:
08
وفاقی
دارالحکومت: 04
ٹوٹل:
104
ہر
صوبے سے 23 ارکان کی ترتیب کچھ یوں ہے:۔
جنرل
سیٹیں: 14
ٹیکنو
کریٹس اور عُلماء: 04
خواتین:
04
اقلیت:
01
وفاق
سے 4 ارکان کی ترتیب کچھ ہوں ہے:۔
جنرل
سیٹیں: 02
ٹیکنو
کریٹس اور عُلماء: 01
خواتین:
01
فاٹا
کے 8 ارکان میں کسی ٹیکنو کریٹ، خواتین یا اقلیت کی سیٹیں نہیں ہیں۔ یہ سارے جنرل
سیٹیں ہیں۔
۔1)
ہر صوبے سے آبادی نہیں بلکہ برابری کی بُنیاد پہ 23 لوگ سینٹ میں جاتے ہیں تاکہ
پنجاب اور بلوچستان کے ارکان کی تعداد میں فرق نہ ہو اور سینٹ میں سارے صوبوں کی یکسا
ں نمائیندگی ہو۔ ان 23 ارکان کو وہاں کی صوبائی اسمبلی کے ارکان منتخب کرتے ہیں۔
۔2)
وفاق کے 4 ارکان کو قومی اسمبلی کے فاٹا کے علاوہ ارکان منتخب کرتے ہیں جبکہ فاٹا
کے ارکان کو قومی اسمبلی کے فاٹا کے 12 ممبران منتخب کرتے ہیں۔
۔(3)
جنرل سیٹوں اور ٹیکنو کریٹس کو جنرل سیٹوں کے ارکان منتخب کر تے ہیں جبکہ اقلیت او
رخواتین وہاں کے اقلیتی اور خواتین کی مخصوص سیٹوں والے منتخب کرتے ہیں۔
۔4)
سینٹ کے تقریباً آدھے ارکان کا انتخاب ہر 3 سال بعد ہوتا ہے۔ مثلاًسینٹ کے آخری
انتخابات مارچ 2015 کو ہوئے تھے جن میں سینٹ کے آدھے ممبران ریٹائر ہوئے تھے جنکی
جگہ نئے ممبران نے لی تھی اب ممبران مارچ 2018 تک ممبران ہونگے۔
اب
کے آدھے ریٹائر ہونے والے ممبران وہ ہیں جو مارچ 2012 کو منتخب ہوئے تھے اسلیے
اُنکی 6 سال مدّت مارچ 2018 کو ختم ہوگی۔ اور جو ارکان اب منتخب ہونگے وہ مارچ
2024 تک ممبرز ہونگے۔
۔5)
چونکہ تقریباًآدھے ارکان کا انتخاب ہونا ہے اسلیے ہر صوبائی اسمبلی اس مرتبہ 12،
12 ارکان، وفاق 2 اور فاٹا 4 ارکان منتخب کریگی۔ اب وفاق کا مجھے نہیں معلوم کے 2
ارکان کس کس کٹیگری کے ہونگے کیونکہ کٹیگریز 3 ہیں لیکن منتخب ہونے ہیں 2 ارکان۔ یہ
شائد باری باری پہ ہو۔
اب
آتے ہیں ہر صوبے اور وفاق میں پارٹی پوزیشن کیطرف۔
میں
صوبہ پختونخوا کو بطور ایک مثال پیش کر رہاہوں باقی صوبوں کا حساب کتاب آپ بھی کر
سکتے ہیں ۔
۔1)
صوبه پختونخوا
کل سیٹیں:
124
جنرل
سیٹیں: 99
مخصوص:
25
کل
منتخب ہونے والے سینیٹرز: 12
تو
124 ارکان 12 سینیٹرز کو منتخب کرینگے۔
لیکن
اگر مخصوص ارکان کو جُدا کردیا جائے تو فارمولا یہ بنتا ہے:۔
14.14 =99/7
یعنی
فی جنرل سیٹ کے لیے 14 ارکان کے وؤٹ چاہیے
اور
خواتین کی مخصوص سیٹوں کی کُل تعداد 20 ہیں اس حساب سے خواتین کی دو مخصوص سیٹوں
کو منتخب کرنے لیے فی سینٹ سیٹ 10 خواتین ارکان کے وؤٹ چاہیے۔
کے پی
اسمبلی میں پارٹی پوزیشن:۔
پی ٹی
آئی:56 جن میں خواتین 10 اور اقلیتی رُکن 1 ہے۔
جماعت
اسلامی : 08۔ میرے خیال میں انمیں 1 خاتون کی سیٹ ہے۔
جمہوری
اتحاد: 05
آزاد:
02
کل
حکومتی ارکان : 71
ن-لیگ:
16
فضل
الرحمان: 17
شیرپاؤ
: 10
اے این
پی: 05
پی پی
پی: 05
کُل
اپوزیشن ارکان: 53
مندرجہ
بالافارمولے کے حساب سے حکومتی الائنس کو 12 میں سے 7 سیٹیں مل سکتی ہیں جبکہ اپوزیشن
کو 5۔
پی ٹی
آئی جنرل سیٹوں پہ تقریباً 4، خواتین میں سے 1 اور اقلیتی 1 ممبر بیج سکتی ہے (اگر
کے پی کا ایک اقلیتی رُکن ریٹائر ہو رہا ہو تب) تو پی ٹی آئی کے کُل ملا کے 6
ارکان اور جماعت اسلامی بھی پی ٹی آئی کی مدد سے 1 ممبر کو سینٹ بھیج سکتی ہے۔
اسی
طرح کی حساب کتاب کے آپ وفاق ، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے لیے بھی کر سکتے ہیں۔
فاٹا
کے 4 ارکان سیٹوں کے لیے فی سیٹ دو، دو فاٹا کے ممبران کے وؤٹ چاہیے ہونگے۔
Senate History
Reviewed by News Archive to Date
on
February 23, 2018
Rating:
No comments