SSP Malir Rao Anwar Encounter Expert
13 جنوری 2018
ایس ایس پی ملیر راو انوار کی شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص
خیلی گوٹھ میں کارروائی ، مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔
ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا
کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے
اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے، تاہم اس وقت نقیب
اللہ کا نام ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
18 جنوری
کراچی
کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں مبینہ پولیس مقابلے پر لواحقین نے سوال کھڑے کردیئے ،
بلاول بھٹو نے وزیرداخلہ کومبینہ پولیس مقابلے کی انکوائری کا حکم دے دیا۔
نقیب
اللہ کے ایک رشتے دار نے بتایا کہ وہ ایک سال قبل جنوبی وزیرستان سے کراچی آیا
تھا، اس کی الآصف اسکوائر پر کپڑے کی دکان تھی اور وہ کسی غیر قانونی سرگرمی میں
ملوث نہیں تھا۔
اس
موقف کے جواب میں ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کا کہنا تھا کہ 'نقیب اللہ نے نسیم
اللہ کے نام سے شناختی کارڈ بنوا رکھا تھا اور وہ پولیس کو مطلوب تھا۔ ان کا کہنا
تھا کہ وہ ڈیرہ اسماعیل خان سے آیا تھا اور حب میں رہائش پذیرتھا۔
راؤ
انوار نے بتایا کہ نقیب اللہ جیل توڑنے، صوبیدارکے قتل اور ایئرپورٹ حملے میں
ملوث تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
19
جنوری
راؤ
انوار کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے، تحقیقاتی کمیٹی نے انکاونٹر اسپیشلسٹ کے
الزامات مسترد کر دیے اور نقیب اللہ محسود کو بے گناہ مان لیا۔ ایس ایس پی نے ڈی
آئی جی سلطان خواجہ پر ہی تحفظات ظاہر کر دیے ، راؤ انوار کہتے ہیں وہ مقابلے کے
بعد پہنچے تھے، سلطان خواجہ نےایس ایچ او شاہ لطیف کو بلا کر کہا تم بیان دو، ہم
تمہیں بچالیں گے۔
نقیب
محسود کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے حوالے سے تحقیقات کرنے والی کمیٹی کے سربراہ
ایڈیشنل آئی جی ثناءاللہ عباسی نے کہا ہے تحقیقات سے متعلق عبوری رپورٹ سندھ
حکومت اور آئی جی سندھ کو ارسال کردی گئی ہے۔
رپورٹ میں راؤ انوار اور دیگر
اہلکاروں کیخلاف مقدمہ درج کرنے سمیت راؤ انوار کو عہدے سے ہٹانے اور گرفتار کرنے
کے ساتھ راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
20
جنوری
آئی جی سندھ نے ایس ایس پی ملیر راوُ انوار کو معطل کردیا
تحقیقاتی کمیٹی نے راوُ انوار کو معطل کرنے کی
شفارش کی تھی
راوُ انوار کے خلاف انکوائری مکمل ہونے پر مزید
کارروائی ہوگی، آئی جی سندھتحقیقاتی کمیٹی کو مقتول نقیب اللہ کےخلاف شواہد نہیں
ملے، ذرائع
راوُ انوار کی جانب سے جس نقیب اللہ کا کرائم
ریکارڈ فراہم کیا گیا وہ کوئی اور ہے، ذرائع
کراچی: امیدہےسپریم کورٹ میرےساتھ انصاف کرےگا،ایس ایس پی
ملیرراؤانوار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عدیل چانڈیو ایس ایس پی
ملیر تعینات
ایس پی انویسٹیگیشن ٹو
ایسٹ الطاف ملک بھی فارغ، عابد قائمخانی نئے ایس پی مقرر،شیراز نظیر ایس ایس پی
سٹی کراچی ،اسد ملہی ایس ایس پی قمبر-شہداد کوٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کراچی: ایس ایس پی راو انوار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی بھی
سفارش کی گئی، ترجمان سندھ پولیس
کراچی: ایس ایس پی ملیر راو انوار اور ایس پی ملک الطاف کو عہدوں سے
ہٹادیا گیا، ترجمان سندھ پولیس
دونوں افسران کو معطل کرنے کیلئے چیف سیکریٹری کو بھی خط لکھ دیا
گیا، ترجمان سندھ پولیس
راو انوار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کیلئے محکمہ داخلہ کو بھی خط
لکھ دیا گیا، ترجمان سندھ پولیس
ایڈشنل آئی جی کراچی کو مقابلے میں شامل پولیس پارٹی کے خلاف سخت
کارروائی کی ہدایت
...................
21 جنوری
کراچی
کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں مشکوک مقابلہ کر کے نقیب اللہ محسود کو ہلاک کرنے
والی پوری پولیس پارٹی کو معطل کردیا گیا۔ راؤ انوار کو بھی عہدے سے ہٹادیا گیا۔
تحقیقاتی
کمیٹی کے مطابق جس نقیب اللہ پر مقدمات تھے وہ کوئی اور تھا۔آئی جی سندھ کا کہنا
ہے راو انوار کے خلاف قتل کی ایف آئی آر کاٹنے کا فیصلہ تحقیقات کے بعد ہوگا۔
ترجمان
کراچی پولیس کے مطابق قائم مقام کراچی پولیس چیف آفتاب پٹھان نے شاہ لطیف ٹاون
میں مشکوک مقابلہ کرنے والی پوری پولیس پارٹی کو معطل کردیا ہے، معطل ہونے والوں
میں سابق ایس ایچ او امان اللہ مروت بھی شامل ہیں جنہیں جمعہ کو عہدے سے ہٹایا گیا
تھا ۔
معطل
ہونے والے دیگر اہلکاروں میں اے ایس آئی فدا حسین، ہیڈ کانسٹیبل سید صداقت شاہ،
ہیڈ کانسٹیبل محسن عباس، کانسٹیبل راجہ شمیم مختار اور کانسٹیبل رانا
ریاض
احمد شامل ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راوا
نوار تحقیاتی ٹیم کے طلب کرنے پر پیش نہ ہوئے ، کل پیش نہ ہونے پر گرفتار کرلیا
جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
22،نقیب
محسود قتل کیس میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوارکے گھر پر پولیس نے
چھاپامارامگر گھر پر دو پولیس اہل کار کے سوا کوئی موجود نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
22،ایس ایس پی راو انوار کےگرد گھیرا
تنگ سندھ ہائی کورٹ میں راو انوار کے جعلی پولیس مقابلوں کی
تحقیقات کیلئے درخواست دائردرخواست میں ہوم سیکرٹری، آئی جی سندھ، راو انوار دیگراعلی
حکام دیگرکو فریق بنایا گیا ہے
..............
ایف
آئی اے نے سابق ایس ایس پی ملیر راو انوار کی نجی ایئر لائن کے ذریعے دبئی فرار
ہونے کی کوشش ناکام بنادی، مبینہ پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کو ہلاک کرنے
والے راؤ انوار گزشتہ رات کراچی سے اسلام آباد ایئر پورٹ پہنچےتھے ۔
ایف
آئی اے کے مطابق راؤ انوار حکام کو چھٹی کی دستاویزات سے متعلق مطمئن نہ کرسکے،
واضح ہدایات نہ ہونے پر ایف آئی اے نے انہیں حراست میں نہیں لیا گیا اور ایئرپورٹ
سے باہر جانے کی اجازت دے دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
23
جنوری
سپریم کورٹ آف پاکستان نقیب
اللہ محسود قتل کیس کے از خود نوٹس کی سماعت 27 جنوری سے کراچی رجسٹری میں کرے
گی۔عدالت نے سندھ کے آئی جی، ایڈووکیٹ جنرل اور راؤ انور کو عدالت میں پیش
ہونےاور راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
24 جنوری
24،کراچی شاہ لطیف ٹاؤن میں جعلی پولیس مقابلے میں قتل ہونے والے
مقتول نقیب اللہ محسود کا مقدمہ مقتول کے والد کی مدعیت میں درج کرلیا گیا۔۔۔ سچل
تھانے میں درج ہونیوالے مقدمے میں سابق ایسایس پی راؤ انوار اور ان کی ٹیم کو
نامزد کیا گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
26 جنوری
سندھ
پولیس نے نقیب محسود پولیس مقابلہ قتل کیس کی تحقیقاتی کمیٹی کی تفصیلی رپورٹ
سپریم کورٹ میں جمع کرا دی جس میں بتایا گیا ہے کہ نقیب اللہ کو جعلی مقابلے میں
مارا گیا۔
پولیس
ذرائع کےمطابق رپورٹ 15 صفحات پر مشتمل ہے اور اس کے ساتھ دستاویزات بھی منسلک ہیں
۔تحقیقاتی رپورٹ میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار احمد کے خلاف سنگین الزامات
عائد کیے گئے ہیں ۔
رپورٹ کے
مطابق راؤ انوار کی ٹیم نے 2 افراد کو مبینہ رشوت لے کر چھوڑ دیا، جبکہ نقیب کو
مقابلے میں مار دیا ۔چھوڑے گئے 2 افراد کے بیانات بھی رپورٹ کا حصہ بنائے گئے ہیں
۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
27 جنوری
چیف جسٹس کا تین دن کے اندر راو انوار کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم
آپ کتنے روز میں راو انوار کو گرفتار کرینگے ۔چیف جسٹس کا ستفسار
جلد گرفتار کرکے عدالت کے سامنے لائنگے ۔آئی جی سندھ
مجھے ٹائم فریم دیں ۔ایسا نہیں چلے گا ۔چیف جسٹس
تین دن میں ہم راوانوار کو گرفتار کرلینگے ۔آئی جی سندھ
چیف جسٹس پاکستان کی
سربراہی میں نقیب اللہ محسود کی جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت پر از خود نوٹس کیس
کی سماعت کے موقع پرجسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ کیا راؤ انوار عدالت میں
ہیں؟ اس پر آئی جی سندھ نے بتایا کہ وہ مفرور ہیں۔
پختون قومی جرگہ کے
عمائدین سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کے باہر پہنچے ، شرکا نے ہاتھوں میں نقیب
محسود کی حمایت میں بینر اٹھار رکھے ہیں ۔ راوانوار کے خلاف نعرے بازی
نقیب اللہ قتل کیس کی
سماعت سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سماعت
عدالت نے سندھ کے آئی
جی، ایڈووکیٹ جنرل اور راؤ انور کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا، راو انوار
پیش نہیں ہوئے ۔۔
صاف
پانی کی فراہمی سے متعلق درخواست پر بھی سماعت
چیف
جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
29 جنوری
،نقیب اللہ قتل کیس کی تحقیقات کے لیے قاءم جے
آئی ٹی کے اجلاس ہوا ۔۔۔ ایڈیشنل آءی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی کا کہنا ہے کہ
کوشش ہے کہ راو انوار سپریم کورٹ میں پیش ہوجائیں ۔۔۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ
نے ایس ایس پی راوانوار اور ایس پی ملک الطاف سرور کومعطل کردیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
30 جنوری
چیف
جسٹس کی جانب سے راوانوار کی گرفتاری کے لیے دی جانے والی مہلت ختم ،
27جنوری کو چیف
جسٹس پاکستان نےراؤانوارکی گرفتاری کا حکم دیا تھا
کراچی:چیف جسٹس پاکستان
ثاقب نثار نے نقیب قتل کیس کاازخود نوٹس لیا تھا
گرفتاری کے لیے چاروں
صوبوں کو نوٹسز بھی جاری گئے
گرفتاری کے لیے چھاپے
مارنے والی ٹیموں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا
نقیب الله جعلی مقابلہ
کیس میں حکومت سندھ نے مفرور ایس ایس پی راؤانواراور سابق ایس ایس پی انویسٹی
گیشن ملیر ملک الطاف کومعطل کردیاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
31 جنوری
راو انواز کے ساتھیوں کو شناخت پریڈ کے لیے
پیش کیا گیا
کراچی: نقیب اللہ محسود قتل کیس میں گرفتار
3 پولیس اہلکاروں کو واقعے کے 2 چشم دید گواہوں نے جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر کے روبرو
شناخت کرلیا۔
نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کیس ملوث 6
پولیس اہلکاروں کو 27 جنوری کو حراست میں لیا گیا تھا جن میں سب انسپکٹر محمد یاسین،
اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) فرحت حسین، اے ایس آئی اللہ یار، ہیڈ کانسٹیبل
خضرت حیات، ہیڈ کانسٹیبل محمد اقبال اور کانسٹیبل ارشد علی شامل ہیں۔
جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر کے روبرو نقیب اللہ
محسود قتل کیس میں گرفتار 3 پولیس اہلکاروں محمد اقبال، ارشد علی اور اللہ یار کو
پیش کیا گیا، واقعے کے 2 چشم دید گواہ قاسم اور حضرت علی بھی پیش ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
01فروری
کراچی
میں جعلی پولیس مقابلے میں نوجوان نقیب اللہ محسود کے قتل سے متعلق از خود نوٹس کی
سماعت
نقیب
الله قتل کیس میں سندھ پولیس کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی گئی۔
سندھ
پولیس کی رپورٹ کے مطابق نقیب اللہ محسود کو دو ساتھیوں سمیت 3جنوری کو اٹھایا گیا
، ساتھیوں کو چھوڑدیا گیا،نقیب اللہ محسود کو غیرقانونی حراست میں رکھ کرشدید تشدد
کا نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹ
کے مطابق پولیس افسران نقیب اللہ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بھی منتقل کرتے رہے
اور13جنوری کو بادی النظر میں جعلی مقابلے میں مار دیا گیا ۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہےکہ نقیب اللہ قتل کیس کی انکوائری کمیٹی میں پیش کیا جانےوالا ریکارڈ نقیب اللہ کا نہ تھا، راؤ انوار جان بوجھ کر کمیٹی میں شامل نہ ہوئے اور جعلی دستاویزات پر ملک سے فرار ہونے کی کوشش کی ، راؤ انورکے خلاف ایف آر درج کرلی گئی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہےکہ نقیب اللہ قتل کیس کی انکوائری کمیٹی میں پیش کیا جانےوالا ریکارڈ نقیب اللہ کا نہ تھا، راؤ انوار جان بوجھ کر کمیٹی میں شامل نہ ہوئے اور جعلی دستاویزات پر ملک سے فرار ہونے کی کوشش کی ، راؤ انورکے خلاف ایف آر درج کرلی گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
06 فروری
نقیب کےقتل
کیخلاف اسلام آباد میں دھرنا 6 روز سے جاری ہے اج ڈیڈ لائن ختم ہوجائے گی دھرنے کے
شرکاء نے راؤ انوار کی عدم گرفتاری پرپارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کردیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
08
فروری
،نقیب اللہ محسود کے کراچی میں ماورائے عدالت قتل
کے خلاف اسلام آباد میں دھرنے کے شرکا دو دھڑوں میں بٹ گئے۔اسلام آباد میں نیشنل
پریس کلب کے باہر دھرنا گزشتہ ہفتے سے جاری تھا تاہم منگل کے روز وزیراعظم سے
ملاقات اور پولیس افسر راؤ انوار کی گرفتاری سمیت دیگر مطالبات پر عمل درآمد کی
یقین دہانی پر بیشتر مظاہرین اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق کچھ
شرکاء اب بھی پریس کلب کے باہر موجود ہیں جن کا کہنا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس سے نوٹی
فکیشن کے اجراء اور راؤ انوار کی گرفتاری تک دھرنا جاری رکھیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
13 فروری
سپریم کورٹ میں نقیب محسود ازخود
نوٹس کیس کی سماعت ۔
آئی جی سندھ پیش ہوئے
راو انوار کو گرفتار نہ کریں سپریم
کورٹ آنے دیں، چیف جسٹس
راو انوار کیلئے جے آئی ٹی بنا دیتے
ہیں، چیف جسٹس
راو انوار کو کچھ ہوا تو تمام شواہد
ختم ہوجائیں گے، چیف جسٹس
راو انوار نے
مجھے خط لکھا ہے، چیف جسٹس ثاقب نثار
راو انوار نے
آزاد جے آئی ٹی بنانے کی پیشکش کی ہے، چیف جسٹس
راو انوار کہتے
ہیں جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوجاوں گا، چیف جسٹس
نقیب قتل کیس میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثارنے جے آئی ٹی
رپورٹ آنے تک سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو گرفتار نہ کرنے اور سیکیورٹی
فراہم کرنےکا حکم دیتے ہوئے راو انوار کو جمعے کے روز پیش ہونے کا حکم دیا۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے نقیب قتل کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے نقیب قتل کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
عدالتی حکم کےمطابق ،، جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور آئی بی کا
بریگیڈیر لیول کاآفیسر شامل ہوگا جبکہ ایک قابل افسر کاتعین عدالت خود کریگی۔
واضح رہے کہ یکم فروری کو عدالت عظمیٰ نے سندھ پولیس کو مقدمے میں
نامزد سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو 10 دن میں گرفتار کرنے کی مہلت دی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
16 فروری
سپریم کورٹ میں نقیب اللہ کیس کی سماعت راو انوار پیش نہیں ہوئے
راو انوار کو
پیش ہونے کے لیے شفاف موقع دیا تھا ، چیف جسٹس
راو انوار نے پیش نہ ہوکر بڑٰا موقع
گنوا دیا ، چیف جسٹس
تھوڑا انتظار کرلیتے ہیں ، آئی جی اے
ڈی خواجہ
گرفتار کرکے پیش کیا جائے ، حفاظتی ضمانت واپس ، بینک اکاونٹس منجمد
کیے جائیں عدالت سے کوئی نہیں بھاگ سکتا، ایک دن پکڑے جانا ہے ، ریمارکس
23 فروری
نقیب قتل کیس،
راؤ انوار سمیت مفرور پولیس اہلکاروں کو اشتہاری قرار دینے کی تیاری مکمل،،،ملزمان
کی گرفتاری کیلئے نئی حکمت عملی تیار، مفرور ملزمان کو قانون کےشکنجے میں لانے کے
لئے سوشل میڈیا استعمال کرنے کا فیصلہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
05 مارچ
،کراچی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس میں سابق ایس ایس پی راؤ
انوار سمیت15مفرور ملزمان کے وارنٹ جاری کردیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
14
مارچ
سپریم
کورٹ میں نقیب اللہ محسود قتل ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس
پاکستان نے بتایا کہ راؤ انوار کا ایک اور خط آیاہے، کہتے ہیں ان کے بینک
اکاونٹس کھول دیں، معلوم نہیں یہ خط اصلی ہے یا جعلی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
19
مارچ
سپریم کورٹ میں نقیب اللہ کیس کی سماعت
نقیب اللہ کیس کی سماعت
کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگرمعلوم ہوا راؤ انوار کا کوئی سہولت
کار ہے تو سخت کارروائی ہوگی،مفرور ملزم عدالت میں پیش ہوجائے تو بچ جائے گا۔چیف
جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ
نے مختصر سماعت کی
...............
21 مارچ
نقیب اللہ کیس میں مفرور ملزم
سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے، جس کے بعد انہیں
عدالتی حکم پر گرفتار کرلیا گیا۔
سابق ایس ایس پی ملیر کے
پیش ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا اور ان کی
حفاظتی ضمانت منسوخ کردی۔
چیف جسٹس آف پاکستان میاں
ثاقب نثار نے راؤ انوار سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اتنے دن کہاں چھپے تھے،
آپ تو بہادر اور دلیر تھے؟ آپ کو یقین دہانی کرائی تھی پھر بھی آپ نے عدالت پر
اعتماد نہیں کیا۔ عدالتی حکم پر سرنڈر کیا ، راوانوار، کوئی احسان نہیں کررہے ،
ہمیں خط لکھنا اچھی روایت نہیں ، چیف جسٹس
راو انوارسے تفتیش کے لیے سپریم کورٹ نے 5 رکنی جے آئی ٹی
تشکیل دی ہے جس کے سربراہ آفتاب پٹھان ہیں۔
جے
آئی ٹی کے دیگر ارکان میں ولی اللہ دل، آزاد احمد خان، ذوالفقار لاڑک اور ڈاکٹر
رضوان شامل ہیں۔
عدالت
نے راو انوار کے بینک اکاونٹ کھولنے کا حکم دیتے ہوئے ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم
دے دیا
رات
گئے راوانوار کو کراچی منتقل کردیا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
22 مارچ
راوانوار کو کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کردیا گیا
نقیب
اللہ محسود قتل کیس،راؤ انوار کا30روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
عدالت
کا راؤ انوار کو 21اپریل کو دوبارہ پیش کرنے کاحکم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راو انواز کی سربراہی میں کیے جانے والے اہم مبینہ مقابلوں کی تفصیل
30 دسمبر 2017
پولیس مقابلہ سپر ہائی وے پر ایوب
گوٹھ میں ہوا۔ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کےمطابق فائرنگ کے تبادلے میں پانچ دہشت
گرد مارےگئے
23 دسمبر 2017
کراچی میں سہراب گوٹھ سے کچھ فاصلے
پر واقع افغان بستی میں پولیس اور دہشت گردوں کے درمیان پیر کی رات کے مبینہ
مقابلے میں 13 دہشت گرد ہلاک ہوئے، جبکہ ایک دہشت گرد کو خودکش جیکٹ کے ہمراہ
گرفتار کرلیا گیا۔سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ملیر راوٴانور کے مطابق، مرنے والے
افراد کا تعلق القاعدہ اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے تھا۔
07 اکتوبر 2017
کراچی میں پولیس مقابلے میں القاعدہ کے 4 مبینہ دہشتگرد ہلاک ہوگئے
۔
ناردرن بائی پاس پر پولیس سے جھڑپ میں 4 دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔
ناردرن بائی پاس پر پولیس سے جھڑپ میں 4 مبینہ دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔ ایس ایس پی ملیر
را ئوانوار کے مطابق تاحال دہشت گردوں کی شناخت نہیں ہوئی تاہم ان کا تعلق کالعدم
تنظیم القاعدہ برصغیر سے تھا اور وہ کسی بڑی کارروائی کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔
02 اکتوبر 2017
کراچی: ایس ایس پی ملیر راؤ
انوار نے مقابلے کے دوران القاعدہ اور داعش کے 5 پانچ دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا
دعویٰ کیا
راؤ انوار کے مطابق کراچی کے علاقے
سچل میں خفیہ اطلاع پر حساس اداروں اور پولیس نے چھاپہ مارا اور علاقے میں موجود
دہشت گردوں کے کمپاؤنڈ کا محاصرہ کیا۔
28، ستمبر 2017
کراچی:
سچل میں پولیس مقابلہ، 6 دہشت گرد ہلاک ، راو انوار
ایس
ایس پی ملیرراو انوار کے مطابق سچل کے علاقے میں پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے دہشت
گردوں کے خلاف آپریشن کیا جس کے دوران مقابلے میں 6 دہشت گرد مارے گئے
فيصل آباد سے تعلق رکھنے والا انجينئر عامر
شريف مارے جانے والوں ميں شامل ۔۔۔ پوليس کے مطابق ڈرون کے ذريعے
دہشتگردي کراسکتا تھا ۔۔ ريموٹ کار بھي بنائي
04 ، ستمبر 2017
کراچی ، سپر ہائی وے پر مبینہ مقابلے میں راوانوار کے ہاتھوں چار
دہشت گرد ہلاک
مبینہ مقابلہ سپر ہائی وے کے قریب کوئٹہ
ٹاؤن میں ہوا پولیس مقابلے میں چار دہشتگرد ہلاک ہو ئے، ایس پی ملیر راو
انوار
ہلاک دہشتگردوں میں کالعدم
تحریک طالبان کمانڈرمولانا فضل اللہ کاکزن کمانڈرخورشید شامل، ایس ایس پی
ملیرراؤانوار
ہلاک دہشتگردپاک فوج کےافسران واہلکاروں کے قتل اور
ملالہ یوسف زئی پر حملے میں بھی ملوث ہیں، ایس ایس پی ملیرراؤانوار
28 اگست 2017
28 اگست 2017
سپرہائي وے کراچي پر ايس ايس پي راؤ انوار کي
سربراہي ميں مبينہ پوليس مقابلہ۔ دو ملزم ہلاک۔ محمود آباد ميں آٹوپارٹس کي دکان
ميں ڈکيتي۔ سي سي ٹي وي ويڈيو حاصل کرلي۔
15 اگست 2017
کراچی کے
علاقے منگھوپیر میں کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ نے مقابلے کے دوران 2 دہشت گردوں کو
ہلاک کردیا جبکہ ان کا ایک ساتھی فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔سی ٹی ڈی پولیس نے
کراچی کے علاقے منگھوپیر میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر کارروائی کی تو
دہشت گردوں نے سامنے فائرنگ شروع کردی
01 اگست 2017
ایس ایس پی ملیر راؤ انور نے شاہ لطیف ٹاؤن
میں پولیس سے مقابلے میں 2 مبینہ دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔
24 جولائی 2017
کراچی کے
علاقہ سچل میں پولیس مقابلہ 4 دہشت گرد مارے گئے ۔
ہلاک دہشت گردوں کے قبضے سے بھاری تعداد میں اسلحہ دستی بم برآمد ۔تفصیلات کے مطابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہلاک دہشت گردوں میں ملا اکبر کمانڈو اور ہمایوں خان شامل ہیں ۔ مزید 2 دہشت گردوں کی شناخت نہیں ہوسکی ہے ۔دہشت گردوں کا تعلق کالعدم القاعدہ سے ہے ۔دہشت گرد ملا اکبر کمانڈو القاعدہ کراچی کا امیر ہے ۔دہشت گردوں کے متعدد ساتھی اندھیرے میں فرار ہوگئے تلاش جاری ہے۔
22 فروری
ہلاک دہشت گردوں کے قبضے سے بھاری تعداد میں اسلحہ دستی بم برآمد ۔تفصیلات کے مطابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہلاک دہشت گردوں میں ملا اکبر کمانڈو اور ہمایوں خان شامل ہیں ۔ مزید 2 دہشت گردوں کی شناخت نہیں ہوسکی ہے ۔دہشت گردوں کا تعلق کالعدم القاعدہ سے ہے ۔دہشت گرد ملا اکبر کمانڈو القاعدہ کراچی کا امیر ہے ۔دہشت گردوں کے متعدد ساتھی اندھیرے میں فرار ہوگئے تلاش جاری ہے۔
22 فروری
کراچی میں ملیر بکرا پیڑی روڈ پر مبینہ
پولیس مقابلہ ۔۔ آٹھ دہشت گرد مارے گئے ۔۔ مقابلے میں کالعدم تنظیم کا
رہنما گل زمان بھی مارا گیا،ایس ایس پی ملیر راؤ انوار
09 فروری 2017
کراچی کے علاقے
سپر ہائی وے پر پولیس سے مقابلے میں 6 مشتبہ دہشت گردوں کی ہلاکت کی اطلاع سامنے
آئی ہے جبکہ مارے گئے ملزمان سے بڑی تعداد میں اسلحہ بھی برآمد کرنے کا دعویٰ کیا
گیا ہے۔
ایس
ایس پی ملیر راؤ انوار کے مطابق 2 دہشت گردوں کی شناخت نور اختر اور نعیم کے نام
سے ہوئی ہے جبکہ مارے گئے دہشت گردوں کا تعلق کالعدم القاعدہ برصغیر سے ہے جو شہر
میں دہشت گردی کا منصوبہ بنا رہے تھے۔
خیال
رہے کہ انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ اے ڈی خواجہ نے سندھ پولیس میں تقرریاں اور
تبادلے کرتے ہوئے 6 جنوری کو 4 ماہ سے معطل راؤ انوار کو دوبارہ
سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) ملیر تعینات کیا تھا۔
31 اکتوبر 2017
سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) ملیر تعینات کیا تھا۔
31 اکتوبر 2017
راو
انواز کراچی کی ملیر عدالت میں پولیس
افسران کے خلاف شہری کے اغوا برائے تاوان کیس میں توہین عدالت کے نوٹس پر پیش ہوئے
ایس
ایس پی ملیر کا چارج ملنے کے بعد راؤ انوار کا یہ پہلا بڑا انکاؤنٹر تھا۔ راؤ
انوار کو 4 ماہ قبل متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رکن سندھ اسمبلی
خواجہ اظہار الحسن کو گرفتار کرنے پر معطل کیا گیا تھا، جنہیں بعد ازاں بحال تو
کردیا گیا تھا مگر کسی عہدے پر تعینات نہیں کیا گیا تھا۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2017 کے ماہ جنوری میں13،فروری میں15،مارچ میں8، اپریل میں 7،مئی میں 4،جون میں 5،جولائی میں 13،اگست میں 5،ستمبر میں 16،اکتوبر میں 21،نومبر میں 16اور دسمبر میں 17افراد مبینہ پولیس مقابلوں میں ہلاک ہوئے۔
کردیا گیا تھا مگر کسی عہدے پر تعینات نہیں کیا گیا تھا۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2017 کے ماہ جنوری میں13،فروری میں15،مارچ میں8، اپریل میں 7،مئی میں 4،جون میں 5،جولائی میں 13،اگست میں 5،ستمبر میں 16،اکتوبر میں 21،نومبر میں 16اور دسمبر میں 17افراد مبینہ پولیس مقابلوں میں ہلاک ہوئے۔
ایس
ایس پی ملیر راؤ انوار اپنے پولیس مقابلوں کے حوالے سے مشہور ہیں، 19
جولائی 2016 کو راؤ انوار نے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں سپر ہائی وے پر قائم کوئٹہ ٹاؤن کے علاقے میں پولیس مقابلے میں کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے 4 'دہشت گردوں' کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
جولائی 2016 کو راؤ انوار نے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں سپر ہائی وے پر قائم کوئٹہ ٹاؤن کے علاقے میں پولیس مقابلے میں کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے 4 'دہشت گردوں' کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
21،اپریل کو ایس ایس پی راؤ انوار نے سپر ہائی وے پر فقیرا گوٹھ میں 3
'دہشت گردوں' کو پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور ان دہشت گردوں
کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے بتایا گیا تھا۔
اسی
ماہ کے آغاز 3 اپریل کو بھی راؤ انوار نے لانڈھی کے علاقے لالاآباد میں ایک مبینہ پولیس
مقابلے میں 4 دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا تاہم حیرت انگیز طور پر مرنے
والے افراد کو ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں.
اس
سے قبل 22 فروری 2016 کو ایک ہی رات کراچی کے مضافاتی علاقوں پپری اور گڈاپ میں 2
مبینہ پولیس مقابلوں میں ایس ایس پی راؤ انوار نے القاعدہ برصغیر اور لشکر
جھنگوی سے تعلق رکھنے والے 12 'عسکریت پسندوں' کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا جبکہ
ان مقابلوں میں حیرت انگیز طور پر پولیس مکمل طور پر محفوظ رہی تھی۔
اس
سے پہلے ایس ایس پی راؤ انوار نے 27 جنوری 2016 کو صفورا گوٹھ میں خفیہ اطلاع پر
کی جانے والے کارروائی میں 4 مبینہ عسکریت پسند ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا اور ہلاک
افراد کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے بتایا، تاہم اس شوٹ آؤٹ
میں بھی کسی اہلکار کو خراش تک نہیں آئی۔
13 جون 2015 کو بھی ایس ایس پی راؤ انوار نے ملیر کینٹ گیٹ نمبر 5 کے قریب
ایک کار اور ایک موٹر سائیکل پر سوار 4 افراد کا انکاؤنٹر کیا تھا، ان افراد کے
حوالے سے پولیس افسر نے دعویٰ کیا کہ یہ چاروں افراد ان کی جاسوسی کر رہے تھے،
ہلاک ہونے والوں کو دہشت گرد اور کالعدم تنظیم کا کارکن بتایا گیا تھا۔
2 مئی 2015 کو راؤ انوار نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے قافلے پر ملیر میں لنک
روڈ کے قریب دستی بموں سے حملہ کیا گیا، ان دستی بم حملوں میں راؤ انوار اور ان کے
قافلے میں سوار تمام اہلکار مکمل طور پر محفوظ رہے جبکہ ایس ایس پی کی قیادت میں
اہلکاروں نے 5 'حملہ آوروں' کو ہلاک کر دیا تھا۔
18
اپریل 2015
پولیس حکام کے مطابق یہ کارروائی سنیچر کو سہراب گوٹھ کے علاقے
گلشنِ سعدی ٹاؤن میں کی گئی۔
ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے مطابق پولیس نے خفیہ اطلاعات پر یہ
آپریشن کیا جس میں 250 سے زیادہ اہلکاروں نے حصہ لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والے چھ افراد کا تعلق کالعدم تحریکِ
طالبان پاکستان کے ملا فضل اللہ گروپ سے ہے۔
راؤ انوار نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ مرنے والوں میں اس گروپ کا ایک
اہم کمانڈر احمد بھی شامل ہے جو وزیرستان میں ہونے والے ڈرون حملے میں زخمی ہوا
تھا۔
12
فروری 2015
سہراب
گوٹھ میں پولیس نے مقابلے کے دوران متعدد وارداتوں میں ملوث اہم دہشت گردوں کو
ہلاک کر دیا۔تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں پولیس نے مقابلے کے
بعد دو دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ایس ایس پی ملیر راﺅ انوار کا کہنا تھا کہ
ہلاک ہونے والے دہشت گرد غیر ملکی تھے جبکہ ان کا گروہ 10 سے 12 افراد پر مشتمل
ہے۔راﺅ انوار نے مزید بتایا کہ ہلاک ہونے والے دہشت گرد تخریب کاری ، اغواءبرائے
تاوان سمیت متعدد وارداتوں میں ملوث تھے
2014 میں 26 اکتوبر کو اسٹیل ٹاؤن میں ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی
قیادت میں پولیس نے ایک مبینہ مقابلے کے دوران 9 افراد کو ہلاک کیا، ان ہلاک افراد
کو القاعدہ اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا دہشت گرد بتایا، جبکہ
اس مقابلے میں بھی پولیس اہلکار مکمل طور پر محفوظ رہے تھے۔
16 جولائی 2014
کراچی کے علاقے
گلشن بونیر میں پولیس اور ممنوعہ تحریک طالبان کے دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کے
تبادلے میں 5 دہشت گرد ہلاک ہوگئے، پولیس نے بھاری تعداد میں اسلحہ،گولہ بارود سمیت
دہشت گردی میں استعمال ہونے والے آلات برآمد کرنے کا دعویٰ بھی کیا ہے
کراچی میں اس سے قبل بھی
ماورائے عدالت قتل کی شکایات سامنے آتی رہی ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن کے اعداد و
شمار کے مطابق گذشتہ سالہ 146 افراد مبینہ طور پر پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے
والے اداروں کے اہلکاروں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ ان میں سے 140 ہلاکتوں کے پولیس
مقابلوں میں دعوے کیے گئے ہیں۔
.............
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیران کن طور پرراؤ انوار نے جتنے پولیس مقابلے کیے،ان میں 90فیصد مبینہ دہشت گرد مار دیئے گئے، پولیس پارٹی کو خراش تک نہ آئی۔
مبینہ پولیس مقابلوں میں دہشت گردوں سے بھاری اسلحہ برآمدگی کے دعوے بھی کیے گئے جس کا کبھی فرانزک ٹیسٹ نہیں کیا گیا، مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سےراؤ انور کےمقابلوں کو جعلی قراردیا گیا،اختیارات سے تجاوز کرنے پر انہیں کئی بار توہین عدالت کےنوٹس بھی جاری کیے گئے،تحقیقاتی کمیٹیاں بنیںمگرراؤ انور کا کوئی کچھ بھی نہ بگاڑ سکا۔
انیس سو بیاسی میں اے ایس آئی بھرتی ہونےوالے راؤ انوار سابق صدر آصف علی زرداری کے خاص آدمی سمجھے جاتےہیں اوراسی بنا پر وہ گریڈ 18 کے افسر ہونے کے باوجود گریڈ 19کی پوسٹ پربراجمان رہے ۔
پولیس میں افسران کےتقرر وتبادلے معمول ہیں مگر راؤ انوار کئی سالوں سے اپنےپسندیدہ ضلع ملیر میں تعینات رہے، ان پر دو بار مبینہ خود کش حملے بھی ہوئے ہیں مگر وہ بچ گئے، کئی بار معطل بھی ہوئے اور کچھ وقت کے بعد وہ پھربحال کردئیے گئے،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سندھ پولیس کے متنازع ایس ایس پی راؤ
انواردو ماہ تک روپوش رہنے کے بعد سامنے اچانک سامنے آئے تو بالا ٓخر عدالتی حکم
پر انہیں گرفتار کرلیا گیا،سندھ پولیس میں من چاہے عہدے پر نوکری کرکے سیکڑوں افراد کو مبینہ مقابلوں میں ہلاک کرنے
والے ایس ایس پی راؤ انوار کے ستاری ماضی
میں بھی کئی بار گردش میں آئے مگر راؤ انوار ہر بار بچ نکلنے میں کامیاب رہے،راؤ
انوار نے ایک معمولی کلرک سے ایس ایس پی تک کا سفر کیسے طے کیا
انیس سو اکیاسی میں ایس پی کیماڑی کے
پاس بطور کلرک بھرتی ہونے والے راؤ انوار
نے ایک سال بعد سندھ پولیس میں اے ایس آئی
کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی ۔۔۔ترقی کے خواہشمند راؤ انوار پر قسمت کی دیوی مہربان رہی۔۔۔ راؤ انوار شروع سے ہی اعلیٰ شخصیات
سے تعلقات استوار کرنے کےبھی
ماہر رہے۔۔۔سب انسپکٹر کے عہدے پر
ترقی پاتے ہی راؤ انوار کو پہلی مرتبہ
بطور ایس ایچ او نارتھ ناظم آباد تعینات کیا گیا تو پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے
نوجوانوں کی گرفتاری اور رہائی کا معاملہ پی پی قیادت اور راؤ انوار کے مابین قربتوں
کا سبب بن گیا۔۔۔
راؤ انوار کی تعیناتی بطور ایس ایچ او ائیر پورٹ ہوئی تو
اس دوران وہ سابق وزیر اعظم پاکستان
محترمہ بے نظیر بھٹو کے بھی منظور نظر ہوگئے۔۔۔راؤ انوار نے ایم کیو ایم کے خلاف شروع ہونے والے آپریشن میں نصیر اللہ بابر کے ساتھ مل کر بڑھ
چڑھ کر حصہ لیا جبکہ بدنام زمانہ گینگسٹرفاروق دادا اور جاوید مائیکل کو مقابلے میں
ہلاک کرنے کے علاوہ بانی ایم کیو ایم کے
بھتیجے کے قتل میں بھی راؤ انوار کو ملوث قرار دیا جاتا ہے۔۔۔
ایم کیو ایم کادور اقتدار آیا تو راؤ
انوار نے بھی جان بچانے کیلئے دیگر صوبوں
کارخ کیا۔۔۔راؤانوارنے اسلام آباد میں طویل عرصہ قیام کیا اس کے علاوہ
ملتان،سیٹیلائٹ ٹاؤن کوئٹہ اور خضدار بلوچستان میں بھی ان کی پوسٹنگ رہی۔۔۔سال دوہزار آٹھ میں پیپلز پارٹی کا اقتدار آیا تو راؤ انوار نے ایک
مرتبہ پھر کراچی کا رخ کیا۔۔۔راؤ انوار کے
پیپلز پارٹی کےکوچیئر مین سابق صدر آصف علی زرداری سے بھی قریبی مراسم ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہیں کراچی آتے ہیں ڈی ایس پی گڈاپ تعینات کیا گیا۔۔۔
راؤ انوار کو ایس پی کے عہدے پر ترقی
ملی تو انہیں گریڈ اٹھارہ کا افسر ہونے کے باوجود گریڈ انیس
کے عہدے پر تعینات کیا گیا۔۔۔سونے کی چڑیا سمجھے جانے والے کراچی کے ضلع ملیر میں
گذشتہ دس برس تک راؤ انوار ایس ایس پی کے عہدے پر براجمان رہے۔۔۔راؤ انوار کو دو
مرتبہ ہائی کورٹ اور دو مرتبہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عہدے سے ہٹایا بھی گیا مگر
راؤ انوار کے ذاتی تعلقات اور سیاسی اثرورسوخ
نے انہیں ایک مرتبہ پھر ایس ایس پی ملیر کاعہدہ دلوادیا۔۔۔
سال دوہزار گیارہ سے دوہزار سترہ تک راؤ انوار اور ان کی ٹیم کے
ہاتھوں سیکڑوں افراد مبینہ پولیس مقابلوں میں مارے جاچکے ہیں۔۔۔ راؤ انوار کی جانب
سے کئے گٗئے نوے فیصد پولیس مقابلوں میں
کسی پولیس اہلکار کو خراش تک نہ آئی ۔۔۔راؤ انوار نے پکڑے گئے اور مارے
گئے دہشتگردوں کے قبضے سے بھاری ہتھیار برآمد کرنے کے دعوے بھی کئی بار کئے مگر
کبھی اسلحے فارنزک نہیں کرایاگیا۔۔۔ بطور ایس ایس پی ملیر سندھ پولیس میں کام کرنے والے اراؤ انوارکے
پچاس کروڑ سے زائد کے اثاثے اور بیرون ملک جائیداد بھی ہے مگر یہ اثاثے کس طرح
بنائے گئے کبھی کسی ادارے کو تحقیقات کا خیال
تک نہ آیا ۔۔۔راؤ انوارماضی میں بھی اپنے ہی محکمے کی پالیسیوں کو کئی بار نظر
انداز کرتے رہے ہیں۔۔۔دس برس سے ضلع ملیر پر مسلط رہنے والے راؤ انوار نے رواں برس
13جنوری کو حواریوں کے ساتھ مل کر
کراچی میں نقیب اللہ محسود نامی نوجوان کو جعلی مقابلے میں ہلاک کیا
تو سوشل میڈیا سے راؤ انوار کے خلاف صدائے بغاوت بلند ہوگئی۔۔۔اپنے
ہی محکمے کے افسران نے راؤ انوار کو قصور وار قرار دیا تو راؤ انوار گرفتاری کے خوف سے بھاگ نکلے۔۔۔۔ دوماہ تک
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے چیلنج بنے رہنے والے راؤ انوار ایک مرتبہ پھر
قانون کی گرفت میں تو آگئے ہیں مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بار بھی راؤ انوار
کوسزا مل پائے گی یا ماضی کی طرح راؤ انوار ایک مرتبہ پھر بچ نکلنے میں کامیاب
ہوجائیں گے۔۔۔
SSP Malir Rao Anwar Encounter Expert
Reviewed by News Archive to Date
on
January 20, 2018
Rating:
No comments