Earthquack Precautions & History



ملک کے بیشتر شہروں میں شدید زلزلے سے خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔۔ ماہرین کہتے ہیں کہ زلزلے میں گھبرانے کے بجائے احتیاط کا مظاہرہ کرکے بڑے نقصان سے بچا جاسکتا ہے۔۔ اس بارے میں دیکھتے ہیں یہ رپورٹ۔
…………..
زلزلے آنے کے دوران فوری طور پرکسی محفوظ جگہ پرپہنچ جائیں، اس دوران کسی ٹیبل یا پلر کی حفاظتی آڑ میں پناہ لی جا سکتی ہے۔ زلزے کے دوران کھٹرکیوں اور ٹوٹنے والی اشیا سے دور رہنا چاہئے۔۔

زلزلہ آئے تو لفٹ کا استعمال نہ کیا جائے اور اگر ممکن ہو تو بجلی اور گیس کی فراہمی بند کردی جائے ۔

خود کو محفوظ رکھنے کے لئے کھلی جگہ پر آجانا چاہئے، عمارتوں، بجلی کی لائینوں ، درختوں اور ممکنہ طور پر گرجانے والی اشیا سے دور رہیں۔۔

اگر گاڑی چلا رہے ہیں تو رک جائیں اور گاڑی میں ہی رہیں، لیکن گاڑی کسی بجلی کی لائنوں، پل یاانڈر پاس میں نہ روکیں۔ زلزلے کے دوران سر اور آنکھوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کریں ۔۔

زلزلے کے بعد بھی آفٹرشاکس آنے کے امکانات ہوتے ہیں اس لئے مزید جھٹکوں کے لئے ذہنی طور پر تیار رہناچاہئے، الماریاں، درازوں کو بند کردیں تاکہ چیزیں نہ گریں۔۔ اگر کوئی زخمی ہے تو اس کی فوری مدد کرنی چاہئے، زلزلے کے بعد عمارتوں کی دیواروں اور بنیادوں کا معائنہ کرلیں اور فورا عمارت میں داخل نہ ہوں۔۔ اگر عمارت متاثر ہوئی ہے تو گیس بجلی اور پانی وغیرہ کو بند کردیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​۔۔
انیس سو پینتیس میں کوئٹہ اور دوہزار پانچ میں اسلام آباد ، کشمیراور شمالی علاقہ جات کے زلزلے سے ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گئے تھے ۔۔ پاکستان میں زلزلوں کی تاریخ پر ایک نظر
……………


2019
24ستمبر

آزاد کشمیر اور دارالحکومت اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف شہروں شدید زلزلے کے نتیجےمیں خاتون سمیت 40 افراد جاں بحق اور 300 سے زائد زخمی ہوگئے، زخمیوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

زلزلہ پیما مرکز کے مطابق ریکٹر اسکیل پر زلزلے کی شدت 5 اعشاریہ8 ریکارڈ کی گئی ہے، جس کی گہرائی زیرِ زمین 10 کلو میٹر تھی
  آٹھ اکتوبر دوہزار پانچ کو اسلام آباد، کشمیر اور پاکستان کے شمالی علاقوں میں شدید زلزلے نے تباہی مچا دی تھی  جس کی شدت سات اعشاریہ چھ تھی اور اس میں اسی ہزار افراد موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ سنہ دو ہزار دو اور سنہ انیس سو اکیاسی میں بھی کشمیر کے علاقہ میں زلزلے آئے تھے۔ لیکن ان کی شدت کم تھی۔  تیس مئی انیس سو پینتالیس کو کوئٹہ میں آنے والے زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر آٹھ اعشاریہ ایک تھی ۔۔ بیس نومبر سنہ دو ہزار دو کو گلگت میں آنے والے زلزلے سے تئیس افراد ہلاک اور پندرہ ہزار لوگ بے گھر ہوگئے تھے۔ تین نومبر دو ہزار دو کو گلگت اور اسطور  میں آنے والا زلزلہ پشاور، اسلام آباد اور سری نگر تک محسوس کیا گیا تھا ۔ اس سے سترہ افراد ہلاک اور پینسٹھ زخمی ہوگئے تھے جبکہ ہزاروں لوگ بے گھر ہوئے تھے۔

چھبیس جنوری سنہ دو ہزار ایک کو بھارت کے صوبہ گجرات میں آنے والے زلزلے سے جنوبی پاکستان کے علاقے کچھ میں بیس افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
ستائیس فروری انیس سو ستانوے میں بلوچستان میں ہرنائی کے مقام پر ایک بڑی شدت کا زلزلہ آیا جس سے کوئٹہ، ہرنائی اور سبی میں پچاس افراد ہلاک ہوئے۔

 نو اگست انیس سو ترانوے کو کوہ ہندوکش سے جنم لینے والے ایک بڑے زلزلے نے وسطی ایشیا سے ملتان تک کے علاقے کو متاثر کیا لیکن اس کا مرکز بہت گہرائی میں تھا جس وجہ سے زندگی زیادہ متاثر نہیں ہوئی۔
اکتیس جنوری انیس سو اکیانوے کو کوہ ہندوکش میں زلزلہ آنے سے افغانستان میں ننگر ہار اور بدخشاں کے علاقوں میں دو سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ پاکستان کے شمالی علاقوں خصوصا چترال میں تین سو سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔

 انتیس جولائی انیس سو پچاسی کو کوہ ہندوکش ہی میں ایک بڑا زلزلہ آیا جس کی شدت سات اعشاریہ ایک تھی جس سے سوات اور چترال کے اضلاع میں پانچ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

تیس دسمبر انیس سو تراسی کو کوہ ہندوکش میں ایک بڑے زلزلہ سے شمالی پاکستان میں چودہ افراد ہلاک ہوئے۔

 بارہ ستمبر انیس سو اکیاسی کو گلگت میں آنے والے ایک بڑے زلزلے سے دوافراد ہلاک اور ڈھائی ہزار سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے۔
ھائیس دسمبر سنہ انیس سو چوہتر میں مالاکنڈ کے شمال مشرق میں آنے والے زلزلے سے پانچ ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے تھے۔


تائیس نومبر انیس سو پینتالیس کو بلوچستان کے ساحل مکران میں جنم لینے والے ایک بڑے زلزلہ سے دو ہزار لوگ ہلاک ہوئے تھے
..................
..................
پاکستان کا دو تہائی رقبہ زلزلے کا سبب بننے والی فالٹ لائنز پر ہے جہاں کسی بھی وقت زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ جبکہ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ فالٹ لائنز کو نظر انداز کرتے ہوئے شہروں میں تعمیرات کرنے کی وجہ سے بڑا جانی اور مالی نقصان ہو سکتا ہے۔
محکمہ موسمیات کے سیسمک نیٹ ورک حکام کے مطابق  پاکستان کے مختلف علاقوں کے نیچے سے گزرنے والی متحرک فالٹ لائنز کو دیکھتے ہوئے ملک کو زلزلے کے اعتبار سے انیس زونز میں تقسیم کیا گیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ انیس میں سے سات ایسے زون ہیں جہاں کسی بھی وقت زلزلے کے شدید جھٹکے آ سکتے ہیں۔ سب سے زیادہ خطرناک زون میں شمالی علاقے، مکران، کوئٹہ ریجن اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے اکثر علاقے شامل ہیں۔ان زونز میں آنے والے بڑے شہروں میں کراچی، پشاور، ایبٹ آباد، کوئٹہ گلگت اور چترال شامل ہیں۔
اس کے علاوہ کم خطرناک زون میں اسلام آباد اور سالٹ رینج کے علاقے آتے ہیں۔
محکمہ موسمیات  کے مطابق پاکستان میں صرف بالائی سندھ اور وسطی پنجاب کے علاقے زلزے کے خطرے سے محفوظ ہیں اور اس کے علاوہ تقریباً سارے ملک کے نیچے سے زلزے کا باعث بننے والی فالٹ لائنز گزرتی ہیں۔
پاکستان چونکہ کوہ ہندو کش کے پہاڑی سلسلے کے قریب ہے جہاں ہر وقت زلزلے کے جھٹکے آتے ہیں اس لیے کم یا درمیانی شدت کا زلزلہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد ملک کے شمال مغربی علاقوں میں کسی وقت بھی آ سکتا ہے۔
پاکستان کے دو تہائی رقبے کے نیچے سے گزرنے والی تمام فالٹ لائنز متحرک ہیں جہاں کم یا درمیانی درجہ کا زلزلہ وقفے وقفے سے آتا رہتا ہے لیکن شدید زلزلہ کبھی کبھار ہی آتا ہے۔
پاکستان جس خطے میں ہے وہاں چند سال کے بعد شدید زلزلہ لازمی آتا ہے جس میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستان کے بڑے شہر خاص طور پر کراچی متحرک فالٹ لائن کے بہت قریب ہے لیکن کراچی سمیت دیگر بڑے شہروں میں بلند و بالا عمارتیں زلزے سے محفوظ نہیں ہیں ۔ اور نہ ہی تعمیر کرتے وقت زلزلے کے خدشہ کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ آج ایک بڑا زلزلہ آیا ہے تو پھر نہیں آئے گا بلکہ یہاں کسی بھی وقت شدید زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے جانے کا امکان رہتا ہے۔


Earthquack Precautions & History Earthquack Precautions & History Reviewed by News Archive to Date on January 30, 2018 Rating: 5

No comments