Sadiq Sanjrani Timeline




02 اگست 2019
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گئی‘صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ برقرار ‘ قرارداد کے لئے تحریک پیش کی گئی تو اپوزیشن کے 64 ارکان نے نشستوں پر کھڑے ہو کر تحریک کے حق میں رائے دی مگرخفیہ رائے شماری کے دوران ان کی تعداد 50رہ گئی ۔جمعرات کو ایوان بالا میں اپوزیشن کی طرف سے چیئرمین سینیٹ کو ان کے عہدہ سے ہٹانے کی تحریک پر خفیہ رائے شماری ہوئی۔تحریک کی کامیابی کے لئے 103 کے ایوان میں 53 ووٹوں کی ضرورت تھی تاہم تحریک عدم اعتماد کے حق میں 50 ووٹ ڈالے گئے جبکہ قرار داد کی مخالفت میں 45 ووٹ پڑے اور پانچ ووٹ مسترد کر دیئے گئے۔ مسلم لیگ کے 14 سینٹرز کے محرف ہونے کی وجہ سے سنجرانی کامیاب ہوئے 
ایوانِ بالا میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کے خلاف حکومت کی جانب سے جمع کروائی گئی تحریکِ عدم اعتماد بھی ناکام رہی جس کی حمایت میں 32 ووٹ آئے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ اس کٹھ پتلی حکومت کے جمہوریت پر حملے جاری ہیں اور آج سینیٹ میں ایک کھلا حملہ ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کا پارٹی دیکھے گی کہ کون کون سے اراکین دباؤ میں آئے اور ’جنھوں نے ووٹ بیچا ان کو نہیں چھوڑیں گے۔




ووٹنگ سے پہلے صورتحال 

چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کیلئے قرارداد پیش کرنے اور ووٹنگ کیلئے خفیہ رائے شماری 
پہلا ایجنڈا آئٹم چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کی تحریک پیش کرنے کی اجازت ہو گی ۔ 26 ارکان کو اپنی نشست پر کھڑا ہو کر اسکی حمایت میں ووٹ دینا ہو گا ۔ جسکے بعد دوسرے ایجنڈا آئٹم کے تحت چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کی قرارداد پیش ہو گی 
خفیہ رائے شماری کےذریعے چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کی قرارداد پر ووٹنگ ہو گی۔ قرارداد کے حق یا مخالفت میں ووٹ دیکر بیلٹ باکس میں ڈالنا لازمی ہوگا،چیئرمین کو ہٹانے کی قرارداد کے حق میں 53 یا زیادہ ووٹ آنے کی صورت میں چیئرمین سینیٹ کو انکے عہدے سے ہٹا دیا جائیگا، بصورت دیگرچیئرمین سینیٹ اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے ۔ اسکے بعد بطور تیسرےاور چوتھے ایجنڈا آئٹم اسی طریقہ کار کےذریعے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کی تحریک پیش ہوگی اور پھر قرارداد پر خفیہ ووٹنگ ہو گی ۔ سینیٹ میں اسوقت کی پارٹی پوزیشن کے تحت اپوزیشن نشستوں پر 67 سینیٹرز ہیں ۔ تاہم جماعت اسلامی ووٹنگ کا حصہ نہیں بنے گی ۔ اپوزیشن کے پاس 103 کے ایوان میں سے 65 ووٹ ہیں ۔ مسلم لیگ (ن) کیساتھ 30 سینیٹرز ہیں، ان میں 17 مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر جیتے تھے باقی 13 آزاد حیثیت سے جیتے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کیساتھ 21، جے یو آئی( ف) کے 4، اے این پی کا ایک، نیشنل پارٹی کے 5 اور پختوانخوا ملی عوامی پارٹی کیساتھ 4 سینیٹرز ہیں۔ تاہم مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر چوہدری تنویر ملک سے باہر ہیں ۔ اپوزیشن کو توقع ہے کہ اسکے 64 ارکان چیئرمین سینیٹ کیخلاف تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دینگے ۔ دوسری جانب حکومتی بنچز پر 36 سینیٹرز موجود ہیں۔ تحریک انصاف کے 14، ایم کیو ایم کے 5، فاٹا کے 7، مسلم لیگ فنکشنل کاایک، بی این پی مینگل کاایک، اور سینیٹر صادق سنجرانی سمیت بلوچستان عوامی پارٹی کے 8 سینیٹرز ہیں۔تاہم مسلم لیگ فنکشنل اور بی این پی مینگل کا ایک ایک رکن بھی موجود ہے۔ سینیٹ سیکرٹریٹ نے ارکان سینیٹ پر پولنگ بوتھ میں موبائل فون لے جانے پر پابندی عائد کردی ہے۔ سیکرٹری محمد انور کے مطابق تحریک عدم اعتماد کا عمل آج ہی مکمل ہوگا، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کیخلاف ووٹنگ بھی آج ہی ہوگی۔دوسری چیئرمین سینیٹ کیلئے نامزد اپوزیشن کے متفقہ امیدوار میر حاصل بزنجو نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیا ہے۔میر حاصل بزنجو نےصحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں اسی دن ہی جیت گیا تھا جس روز میرا نام چیئرمین سینیٹ کیلئے تجویز کیا گیا تھا، چیئرمین سینیٹ کیلئےمجھے اپوزیشن کے 65 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔حاصل بزنجو نےکہا کہ صادق سنجرانی کیلئے تجویز ہے کہ وہ خود استعفیٰ دیدیں، یہ اُنکے اور ہمارے حق میں بھی بہتر ہے۔جبکہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ نہ دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا چاہتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ غیر جانبدار ہوتے ہیں، دیکھنا چاہتا ہوں کہ ممبران کسٹوڈین آف دی ہائو س کیلئے آزاد فیصلہ کرتے ہیں یا نہیں؟ادھروزیراعظم عمران خان نے تحریک عدم اعتمادکاڈٹ کر مقابلے کا اعلان کردیا اور شبلی فراز کو آزاد سینیٹرز سے رابطے تیز کرنیکی ہدایت کردی ہے۔ حکومتی اور اتحادی سینیٹرز سے ملاقات میں وزیراعظم نے کہا حکومت اور اتحادی صادق سنجرانی کیساتھ ہیں

12 مارچ 2018

کو صادق سنجرانی چیرمین سینٹ اور مانڈی والا ڈپٹی چیرمین سینٹ منتخب ہوئے ، حکمراں اتحاد کو شکست کا سامنا کرنا پڑا
پہلی بار بلوچستان سے کوئی سینیٹر منتخب ہوا، سنجرانی کم عمر چیرمین سینٹ بھی ہیں 
سنجرانی کو 57 سلیم مانڈی والا کو 54 ، مسلم لیگ ن کے ظفرالحق کو 46 اور عثمان کاکڑ کو 44 ووٹ ملے

52 نو منتخب سینیٹرز نے حلف اٹھایا

52 ارکان ریٹائر ہوگئے


سردار یعقوب ناصر نے نو منتخب سینیٹرز سے حلف لیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صادق سنجرانی تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے مشترکہ امیدوار تھے 

سنجرانی چیرمین مانڈی والا ڈپٹی چیرمین پیپلزپاڑی نے سینٹ کے لیے
امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا 

نوازشریف نے چیرمین سینٹ کے لیے رضاربانی کی حمایت کی  ، زرداری نے معزرت کرلی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کا نام ابتدائی طور پر وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی طرف سے 
مشترکہ امیدوار کے طور سامنے آیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے صادق سنجرانی کو جیت پر مبارک باد کی ٹویٹ کی اور اسے وفاق کی جیت قرار دیا۔


............
مریم نواز شریف نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ سینیٹ کے انتخاب میں ملنے والی فتح دراصل ان جماعتوں کی شکست کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی بتائے عمران اورزرداری کو سنجرانی ہائوس کا پتہ کس نے بتایا، نواز شریف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
،چیرمین سینٹ کی کوئی عزت نہیں ، سنجرانی کو ووٹ خرید کر چیرمین بنایا گیا ،یہ شخص سینٹ کے لیے بھی بے عزتی کا باعث ہے ، ہٹا کر متفقہ چیرمین لایا جائے ، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا ننکانہ  میں خطاب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صادق سنجرانی 
صادق سنجرانی کے والد خان محمد آصف سنجرانی ضلع کونسل چاغی کے رکن ہیں جبکہ ایک بھائی رازق سنجرانی سینڈیک میں ڈائریکٹر جبکہ دوسرے بھائی میر محمد سنجرانی بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ثنا اللہ زہری کے مشیر رہ چکے ہیں۔
صادق سنجرانی کا عوامی سیاست سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا بلکہ ان کی پہچان ایک کاروباری شخصیت کی ہے۔ ان کا کاروبار بلوچستان کے علاوہ دبئی میں بھی پھیلا ہوا ہے۔
وہ 1998 میں میاں نواز شریف کے کوآرڈینیٹر رہے، بعد میں دس سال انھوں نے حکومت سے کنارہ کشی اختیار کی۔
جب 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو انھیں یوسف رضا گیلانی کا کوآرڈینیٹر مقرر کیا گیا اور وہ پانچ سال تک اسی منصب پر فائز رہے۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے چیئرمین کے لیے انوارالحق کاکڑ اور صادق سنجرانی کے نام پیش کیے تھے، جن میں سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے صادق سنجرانی کا نام منظور کیا، جس کے بعد ان کی نامزدگی کا اعلان کیا گیا، تاہم مسلم لیگ ن کے سینیٹر مشاہداللہ خان کا کہنا ہے کہ صادق کا نام وہاں سے ہی آیا ہے جہاں سے نام آتے ہیں۔
سینیٹر صادق سنجرانی آصف زرداری سے قریبی تعلقات رکھتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ ان کی ہی ہدایت پر صادق سنجرانی کو یوسف رضا گیلانی کا کوارڈینیٹر مقرر کیا گیا تھا۔




Senate History 
https://rehmankhan8.blogspot.com/2018/02/senate-history.html



Sadiq Sanjrani Timeline Sadiq Sanjrani  Timeline Reviewed by News Archive to Date on July 31, 2019 Rating: 5

No comments