Sharif Family NAB Hearing Timeline
سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق
28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب
عدالت میں دائر کیے، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ
سے متعلق ہیں۔
نیب کی جانب سے ایون فیلڈ پراپرٹیز (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف ان کے بچوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا۔
العزیزیہ اسٹیل ملز جدہ اور 15 آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔
نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز اب تک احتساب عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے جس پر عدالت انہیں مفرور قرار دے کر ان کا کیس الگ کرچکی ہے۔
نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں تین ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے ہیں جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس میں نواز شریف کو براہ راست ملزم قرار دیا گیا ہے۔
جب کہ العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ضمنی ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر نامزد ہیں۔
نیب نے ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس 8 ستمبر2017ءکو
دائرکیا،مقدمے کی کل 107 سماعتیں ہوئیں، احتساب عدالت نے فیصلہ 3 جولائی کو محفوظ
کیا تھا۔
ریفرنس میں الزام لگایا گیا کہ نواز شریف نے عوامی عہدے پر
رہتے ہوئے اپنے زیر کفالت بچوں کے نام پر جائیدادیں بنائیں۔
نواز شریف نے اپنی صفائی میں موقف اپنایا کہ جائیدادیں ان
کے مرحوم والد میاں محمد شریف نے براہ راست اپنے پوتوں کو منتقل کیں اور وہ عوامی
عہدے پر فائز ہونے سے پہلے خاندانی کاروبار سے علیحدہ ہوگئے تھے۔
اس ریفرنس میں پہلی سماعت گزشتہ سال 14 ستمبر کو ہوئی
،18گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئےجس میں پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا
بھی شامل تھے ۔
مزید شواہد کے دعوے کے ساتھ نیب نے 22جنوری کو ضمنی ریفرنس
دائر کیا، مقدمے کی کُل107سماعتیں ہوئیں ، نواز شریف کی78 ، مریم نواز 80 اور
کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی 92 پیشیاں ہوئیں ۔
11 جون 2018کو حتمی دلائل کی تاریخ سے ایک دن پہلے نوازشریف کے
وکیل خواجہ حارث کیس سے الگ بھی ہوئے تاہم انہوں نے 19جون کو مقدمے سے دستبرداری
کی درخواست واپس لے لی۔
عدالت نے 3جولائی کو سماعت مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا
،احتساب عدالت نے اس کیس میں حسن اور حسین نواز کو پیش نہ ہونے پر اشتہاری قرار دے
رکھا ہے اور ان کا ٹرائل بھی الگ کر دیا گیا ہے ۔
.....................
19
ستمبر2017
،نیب ریفرنس کیس، احتساب عدالت نےشریف خاندان کو دوبارہ نوٹسز جاری کیے
،نیب ریفرنس کیس، احتساب عدالت نےشریف خاندان کو دوبارہ نوٹسز جاری کیے
26 ستمبر ،نواز شریف احتساب عدالت میں پیش ہوئے، ۔ آئندہ سماعت پر فرد جرم عائد کی جائے
گی۔۔۔۔۔ نوازشریف کے بچوں اور کيپٹن صفدر کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری
بھی جاری۔ دس دس لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم ۔
02 ،اکتوبر، نوازشریف کی احتساب عدالت میں دوسری پیشی ، فردجرم عائد نہ ہوسکی حسن ، حسین ، مریم نوازاور کیپٹن صفدر کی عدم حاضری .
02 ،اکتوبر، نوازشریف کی احتساب عدالت میں دوسری پیشی ، فردجرم عائد نہ ہوسکی حسن ، حسین ، مریم نوازاور کیپٹن صفدر کی عدم حاضری .
نیب عدالت کا چاروں ملزمان کا گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم
05 اکتوبر2017
,سابق وزیر اعظم نوازشریف دس روز پاکستان میں قیام کے بعد لاہور سے لندن کے لیے روانہ ہوگئے
,سابق وزیر اعظم نوازشریف دس روز پاکستان میں قیام کے بعد لاہور سے لندن کے لیے روانہ ہوگئے
08 اکتوبر، مریم نواز اور کیپٹن صفدر لندن سے
وطن واپس پہنچے ۔ کیپٹن صفدر کو اسلام آباد ائرپورٹ سے گرفتار کرلیا گیا
09، اکتوبر،
مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی احتساب عدالت میں پیشی
مریم نواز کو
50 لاکھ روپے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم
کیپٹن ریٹائرڈ صفدر 50
لاکھ روپے ضمانتی مچلکے جمع کرانے پر ضمانت پر رہا ،نوازشریف پر آئندہ سماعت میں عدم پیشی پر
فردجرم عائد کی جائے گی
نیب عدالت نے حسن اور
حسین نواز کو اشتہاری قرار دے دیا
13 اکتوبر،
شریف خاندان کے خلاف ریفرنس کی سماعت وکلاء
گردی کی نذر ہوگئی۔ وکلاء کی ہلڑ بازی کے باعث نواز شریف ۔۔
مریم نواز ۔۔ حسن اور حسین پر آج بھی فرد جرم عائد نہ ہو سکی ۔۔
سماعت بغیر کسی کارروائی کے انیس اکتوبر تک ملتوی کردی گئی ۔ مریم نوازاور کيپٹن صفدردوسری مرتبہ عدالت میں پیش
ہوئے ، ن لیگ کے وکلاء
اور کارکنوں کی بڑی تعداد بھی احتساب عدالت کے باہر پہنچی۔پولیس نے
وکلاء کو جوڈیشل کمپلیکس میں داخلے سے روک دیا جس پر پولیس اور وکلاء کے
درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ کچھ وکلاء ہاتھا پائی میں زخمی بھی ہوئے۔ احتساب
عدالت کے جج محمد بشیر نے کارروائی شروع کی تو ن لیگ لائرز فورم نے ہلڑ بازی کی۔
عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اپنے ساتھ ہوئے ظلم کیخلاف احتساب
عدالت کی کارروائی ملتوی کرنے کا کہہ دیا۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر
سکیورٹی وجوہات کے باعث چیمبر میں چلے گئے۔ سماعت بغیر کسی کارروائی کے انیس
اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔ احتساب عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو واقع کی تحقیقات
اور ذمہ داران کیخلاف جلد از جلد کارروائی کرنے کی ہدایت کردی
نوازشریف پیش نہیں
ہوئے ، انہیں 15 روز کا استتشنی حاصل ہے ، آصف کرمانی
19۔ اکتوبر احتساب عدالت نے
سابق وزیراعظم نوازشریف پردو ۔۔۔ مريم نوازاورکیپٹن ريٹائرڈ
صفدرپرايک ريفرنس ميں فرد جرم عائد کردي ۔ لندن فلیٹس اورالعزیزیہ اسٹیل ملز
ريفرنس ميں فرد جرم عائد کی گئی ۔ ملزموں کا صحت جرم سے انکار ۔۔۔
20،اکتوبر ، ایون
فیلڈ اورعزیزیہ اسٹیل کے بعد نوازشریف پرفلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں
بھی فردجرم عائد ۔ حسن اورحسین نواز مفرورملزم قرار۔نوازشریف کے
خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت چھبيس اکتوبر تک ملتوی
26 اکتوبر، نواز
شریف کے خلاف2ریفرنسز میں قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری
نیب
کی جانب سےملزم کےوارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی استدعا منظور
احتساب
عدالت میں شریف فیملی کے خلاف نیب ریفرنس کی سماعت 3 نومبر تک ملتوی کردی
۔مریم نواز اورکيپٹن صفدر تیسری مرتبہ احتساب
عدالت میں پیش ہوئے
عدالت نے استغاثہ کے دو گواہوں کو طلبی کے
سمن جاری کیے تھے نواز شریف احتساب عدالت میں پیش نہیں ہوئے
نواز شریف کی جانب سے پہلے بھی 15 روز کی
استثنی مانگی گئی۔ مہلت کا وقت 24 اکتوبر کو ختم ہوچکا ہے،نیب پراسیکیٹر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
26 اکتوبر،شریف خاندان کی احتساب عدالت میں
پیشی۔پولیس اہلکاروں نے ن لیگ لائرز ونگ کے وکلا کو کمرہ عدالت میں جانے سے روک
ديا۔۔۔روکے گئے وکلا میں جہانگیر جدون۔ صدیق اعوان۔نصیر بھٹہ۔محمد اسرار۔ میاں
فیصل اور شائستہ ایڈوکیٹ شامل
03،
نومبر2017، نوازشريف احتساب عدالت میں تیسری مرتبہ پیش ہوئے ، مریم نواز اور
کیپٹن صفدر بھی نواز شریف کے ہمراہ احتساب عدالت پہنچے ، نواز شریف کی جانب سے
گرفتاری سے بچنے کیلئےدو ضمانتی مچلکے جمع ۔ میرے پاس ہائیکورٹ کا شارٹ آرڈر
آگیا ہے جس میں تفصیل نہیں ہے۔جج محمد بشير کے ريمارکس
07 نومبر، نوازشریف چوتھی
مرتبہ احتساب عدالت میں پیش ہوئے ، مریم نواز اور کیپٹن صفدر بھی ہمراہ موجود تھے
تینوں ریفرینس
کویکجا کرنے کی درخواست پر فیصلہ کل سنایا جائے گا۔
08 ، نومبر، ،نوازشریف فیملی کے خلاف ریفرینس کیس کی سماعت
نواز شریف پانچویں مرتبہ پیش ہوئے
نیب نے تینوں
ریفرینس کویکجا کرنے کی درخواست مسترد کردی
تینوں ریفرینس میں دوبارہ الگ الگ فرد جرم عائد
لندن فلیٹس، عزیزیہ اسٹیل ، فلیگ شپ انوسٹمنٹ ریفرینسزر
نوازشریف نے چارج شیٹ پر دستخط کردیے
نواز شریف کا صحت جرم انکار،
سماعت
15 نومبر تک ملتوی
پتہ تھا فیصلہ میرے حق میں نہیں آئے گا جج
صاحبان بخض سے بھرے بیٹھے ہیں غصہ الفاظ میں سامنے آگیا، ریفرینسز بدنیتی پر مبنی
ہیں سیاسی انتقام پر بنائے گئے ہیں ، فیئر ٹرائل کےحق سے محروم اور بنیادی حقوق سے
انکار کیا گیا، نواز شریف کی احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو
14
نومبر،نواز شریف نے 3 ریفرنسز یکجا کرنے سے متعلق احتساب عدالت کا فیصلہ
چیلنج
کردیا
نواز
شریف کی ریفرنسز یکجا کرنےسے متعلق درخواست کی سماعت پیر تک ملتوی
اسلام
آباد ہائیکورٹ نے نیب کو نوٹس جاری کردیا
نواز
شریف نے 8نومبر کا احتساب عدالت کا فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا
احتساب
عدالت نے جلد بازی میں فیصلہ دیا اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے تفصیلی فیصلے میں درج
وجوہات کو زیر غور نہیں لایا گیا۔درخواست
احتساب
عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے درخواست آج ہی سماعت کے لئے مقرر کی جائے،
درخواست
اسلام
اباد میں وکیل اعظم تارڑ نے ہاءکورٹ مین درخاوس داءر کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
15 نومبرنوازشریف
فیملی 3 نیب ریفرینس کیس کی سماعت
نواز شریف اور مریم نواز کی استشنی کی درخواست پر فیصلہ
احتساب عدالت نے نواز شریف کی حاضری سے استثنا سے متعلق درخواست
منظور کرلی
، سماعت 22 نومبر تک ملتوی
منظور کرلی
، سماعت 22 نومبر تک ملتوی
نواز شریف کو ایک ہفتے اور مریم نواز کو ایک مہینے کا استشنی دے دیا
گیا
احتساب
عدالت میں آج ایون فیلڈپراپرٹیزاورالعزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی12ویں سماعت ہوئی
فلیگ
شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کی آج13ویں سماعت ہوئی
نوازشریف
چھٹی مرتبہ پیش ہوئے
،مریم
نوازاورکیپٹن(ر)صفدر8 ویں بارعدالت کےروبروپیش ہوئے
عدالت
نے دو گواہوں کو طلب کررکھا ہے
عدالت
نےکمشنران لینڈریونیوجہانگیراحمدکوبیان رکارڈکرانےکیلیےطلب کررکھاہے
ایس
ای سی پی کی افسرسدرہ منصورکوبھی بیان رکارڈکرانےکیلیےطلب کیاگیاہے
نوازشریف
پر19اور20 اکتوبرکو3 ریفرنسزمیں فردجرم عائدکی گئی
8نومبرکونوازشریف
کی5ویں پیشی پردوبارہ فردجرم عائدکی گئی
مریم
نوازاورکیپٹن(ر)صفدرپر19اکتوبرکوفردجرم عائدکی گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نومبر16
،چیف جسٹس نےنواز شریف کی تینوں ریفرنس یکجا کرنے کی درخواست مسترد کردی
،چیف جسٹس نےنواز شریف کی تینوں ریفرنس یکجا کرنے کی درخواست مسترد کردی
نواز
شریف نے تینوں ریفرنسز کو یکجا کرنے سے متعلق درخواست دائر کی تھی
نوازشریف
کی جانب سے خواجہ حارث ایڈووکیٹ پیش ہوئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
22 نومبر، احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف 3ریفرینس کیس کی سماعت
ایون فیلڈ پراپرٹیز اور العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس
کی 13ویں اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کی 14ویں سماعت ہوئی
نواز شریف، مریم نواز
کیپٹن صفدر احتساب عدالت پہنچے
احتساب عدالت کے جج محمد
بشیر نے کیس کی سماعت کی
نوازشریف ساتویں مرتبہ پیش ہوئے
مریم نوازاورکیپٹن(ر)صفدرنویں مرتبہ پیش ہوئے
استغاثہ کے گواہ مظہر رضا بنگش لندن فلیٹس ریفرنس میں بیان رکارڈ
کرایا
العزیزیہ
ملز ریفرنس میں گواہ طیب معظم کا بیان مکمل نہ ہو سکا
استغاثہ
کے مزید2 گواہان عمر دراز اور مختار احمد کو طلبی کے سمن جاری
نوازشریف اور مریم نواز عدالت سے اسشنی کے
باوجود عدالت پہنچے
نوازشریف اور مریم نے نواز نے استشنی کی
درخواستوں میں تاریخ کی تبدیلی کے استدعا کی
نواز شریف اور مریم نواز کی حاضری سے استثنا کی نئی
درخواستوں پر نیب کو
نوٹس
ہل میٹلز اور العزیز یہ ریفرنسسز پر سماعت
27 نومبر کو ہو گی
فلیگ شپ اور ایون فیلڈ ریفرنسسز پر سماعت 28 نومبر کو ہوگی
اسلام
آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اورہل میٹل
ریفرنسز کی سماعت بغیر کارروائی کے کل تک ملتوی کردی گئی۔
کیپٹن
صفدر عدالت پہنچے ،احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کیس کی سماعت کی ۔ آج کی
سماعت میں نواز شریف کے وکلاء کی ٹیم بھی احتساب عدالت میں نہ پہنچ سکی سابق
وزیراعظم نواز شریف کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف
سمیت کسی سے رابطہ نہ ہو سکا، جبکہ راستے بند ہونے کی وجہ سے لاہور سے گواہ بھی
نہیں پہنچ سکا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
28 نومبر،احتساب عدالت میں ہل میٹلز اور العزیز یہ ریفرنسسز کیس
کی سماعت
نواز
شریف اور مریم نواز احتساب عدالت پہنچے
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی غیر حاضری کے سبب
4دسمبر تک ملتوی کردی گئی۔
بہت باتیں کرنی ہیں ایک دو روز ٹہر جائیں نوازشریف کی میڈیا
سے گفتگو
نوازشریف آٹھویں
مرتبہ پیش ہوئے
.................
نومبر28
شریف برادران کے خلاف حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس دوبارہ کھولنے کے سلسلے میں نیب کی اپیل پر سماعت
شریف برادران کے خلاف حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس دوبارہ کھولنے کے سلسلے میں نیب کی اپیل پر سماعت
سپریم
کورٹ نے حدیبیہ ریفرنس سے متعلق تمام ریکارڈ طلب کرلیا۔
جسٹس
مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور مظہر عالم خان پر مشتمل سپریم
کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
سماعت
کے آغاز پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اصل ریفرنس کہاں ہے؟ ان کا
مزید کہنا تھا کہ 'اصل ریفرنس ہمارے لیے متعلقہ ہے'۔
جس
پر نیب پراسیکیوٹر نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ اصل ریفرنس انہیں نہیں مل سکا، ساتھ
ہی ان کا کہنا تھا کہ 'اصل ریفرنس متعلقہ نہیں'۔
جس
پر جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیئے کہ جب ریفرنس ہی سامنے نہیں تو کیا سنیں؟
…………………….
دسمبر، 2017، 04
نیب ریفرنس یکجا کرنے کی درخواست مسترد ، حسین اور حسن اشتہاری قرار ، نیب کورٹ ٹرائل جاری رکھے ، نواز شریف کو ایک ہفتے کا استشنی
نیب ریفرنس یکجا کرنے کی درخواست مسترد ، حسین اور حسن اشتہاری قرار ، نیب کورٹ ٹرائل جاری رکھے ، نواز شریف کو ایک ہفتے کا استشنی
نوازشریف نویں مرتبہ احتساب عدالت پہنچے ۔۔۔مریم نوازگیارہویں مرتبہ احتساب عدالت پہنچیں
مجھے نکالنے والے
جج خود صادق امین نہیں ، انھوں نے طے کرلیا ہے مجھے سزا دینا ہے ، حالات کا مقابلہ
کرونگا، گھبرانے اور ملک چھوڑ کر جانے والا نہیں ،عمران کیس میں
بھی مجھے ہی نااہل کیا جائے گا، نوازشریف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
19 دسمبر 2017
سماعت کے دوران ہِل میٹل سے مریم نواز کے اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی
رقوم کا ریکارڈ جب کہ قطری شہزادے کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کو
لکھے جانے والے خطوط کی کاپیاں بھی عدالت میں پیش کردی گئیں۔
احتساب عدالت نے سابق وزیرِ اعظم نوازشریف کی کریڈٹ انٹریز کا اصل
ریکارڈ طلب کرلیا ہے۔
منگل کو ہونے والی سماعت کے دوران ہِل میٹل سے مریم نواز کے
اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی رقوم کا ریکارڈ جب کہ قطری شہزادے کی جانب سے مشترکہ
تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کو لکھے جانے والے خطوط کی کاپیاں بھی عدالت میں پیش کردی
گئیں۔عدالت نے آئندہ سماعت پر استغاثہ کے دو گواہوں کے طلبی کے سمن جاری کردیے
ہیں۔
پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم نوازشریف اور ان کے اہلِ خانہ کے خلاف
قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر تین ریفرنسز کی سماعت آئندہ سال دوجنوری تک ملتوی کردی گئی ہے۔
منگل کو ہونے والی سماعت پر نواز شریف اپنی صاحبزادی مریم نواز اور
داماد کیپٹن (ر) صفدر حسین کے ہمراہ احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔ نوازشریف کی
احتساب عدالت میں یہ دسویں پیشی تھی جب کہ ان کے خلاف دائر فلیگ شپ
انویسٹمنٹ اور ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنسز کی اب تک 16 سماعتیں
ہوچکی ہیں۔
………………..
نوازشریف کے خلاف تین نیب ریفرنس کی سماعت 09 جنوری 2018،
نواز
شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدرکے خلاف احتساب عدالت میں نیب ریفرنسز کی
سماعت 16جنوری تک ملتوی کردی گئی۔آج غیر حاضر رہنے والے گواہ عمر دراز گوندل سمیت
استغاثہ کے دو گواہ آفاق احمد اور ناصر جونیجوکو بھی آئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔
گواہ سدرہ منصور کا کہنا
تھا کہ ایس ای سی پی میں جوائنٹ رجسٹرارکےطور پرکام کررہی ہوں، تفتیشی افسر کو
نواز شریف، حسن اور حسین نواز کے خلاف ریکارڈ دیااور بیان قلمبند کرایا۔
نوازشریف گیارہویں مرتبہ احتساب عدالت پہنچے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
16
جنوری
سابق وزیر اعظم نواز
شریف کے خلاف احتساب عدالت نےنیب ریفرنسز کی سماعت 23جنوری تک ملتوی کر دی۔ ایون
فیلڈ ریفرنس میں استغاثہ کے تین گواہان کوآئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔
سابق وزیراعظم نواز شریف
احتساب عدالت میں پیش ہوئے، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور کیپٹن رٹائرڈ صفدر بھی
عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت شروع ہوتے ہی فلیگ
شپ ریفرنس میں استغاثہ کے گواہ ایڈیشنل ڈائریکٹر نیب ناصر جنجوعہ نے اپنا بیان
قلمبند کرایا جن پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے جرح مکمل کی۔
ریفرنسز پر سماعت احتساب
عدالت کے جج محمد بشیر نے کی
پرویز رشید، مریم
اورنگزیب، طلال چوہدری بھی کمرہ میں عدالت میں موجود
نواز شریف 12 ، مریم نواز 14جبکہ کیپٹن
ریٹائرڈ صفدر15 مرتبہ عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
............
22 جنوری
اسلام آباد کی احتساب عدالت میں نواز شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈپراپرٹیز ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف سمیت پانچ ملزمان کے خلاف ضمنی ریفرنس دائر کردیا گیاہے۔
ذرائع کے مطابق نیب کی جانب سے ایون فیلڈ پراپرٹیز کا ضمنی ریفرنس
احتساب عدالت میں دائر کیا گیا، جن ملزمان کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا ہے ان میں
نواز شریف، مریم نواز، کیپٹن ریٹائرڈ صفدر، حسن اور حسین نواز شامل ہیں۔
ضمنی ریفرنس میں استغاثہ کے 7 نئے گواہان شامل کیے گئے ہیں۔ دو نئے گواہوں کا تعلق برطانیہ سے ہے۔
ضمنی ریفرنس میں استغاثہ کے 7 نئے گواہان شامل کیے گئے ہیں۔ دو نئے گواہوں کا تعلق برطانیہ سے ہے۔
ذرائع کے مطابق فرانزک ماہررابرٹ ریڈلے اور واجد ضیاء کا ایک قریبی
رشتے دار گواہوں میں شامل ہیں۔ دوگواہوں کا تعلق وزارت اطلاعات، ایک گواہ کا تعلق
نجی ٹی وی چینل جبکہ دو کا تعلق نیب سے ہے۔
نواز
شریف 13 ویں مرتبہ پیش ہوئے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
23 جنوری ،سابق وزیراعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ
صفدر کیخلاف ریفرنس
کی سماعت 30جنوری تک ملتوی کر دی گئی۔
نوازشریف اور دیگرکیخلاف ریفرنس میں 2گواہوں نجی بینک کے آفیسرز
غلام مصطفیٰ اور یاسر شبیر کے بیانات رکارڈ کیےگئے جبکہ تیسرے گواہ آفاق احمد کا
مکمل بیان ریکار ڈ نہیں ہوسکا۔
گواہ آفاق احمد نے کہا کہ سپریم کورٹ سے ابھی تک ریکارڈ موصول نہیں
ہوا۔
سابق وزیراعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر احتساب
عدالت میں جج محمد بشیر سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف تین نیب ریفرنسز کی
سماعت کررہے ہیں۔
العزیزیہ، فلیگ شپ انوسٹمنٹ اور لندن فلیٹس ریفرنس میں نواز شریف14ویں، مریم نواز 16 ویں
اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر 18 ویں مرتبہ احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
30 جنوری
اسلام آباد کی
احتساب عدالت میں نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے خلاف نیب
ریفرنس کی سماعت ہوئی، سماعت میں ایون فیلڈپراپرٹیز سے متعلق نیب کے ضمنی ریفرنس
پر اعتراضات اور دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔
واجد ضیا کے
بھتیجے اورفرانزک ایکسپرٹ کے بیانات پر ضمنی ریفرنس دائرکیا گیا تھا۔
العزیزیہ اسٹیل
ملز ریفرنس میں دفترخارجہ کے ڈائریکٹرآفاق احمد کابیان قلم بند کیا گیاجبکہ نیب
نے اپنے گواہ وقار احمدکو غیر ضروری قرار دے کر ترک کر دیا۔
استغاثہ کے گواہ
آفاق احمدنے بتایا کہ حمدبن جاسم کے سیکرٹری شیخ حامدبن عبدالراشد نےپاکستانی
سفارتخانےکوخط دیا، جو قطری شہزادے کی طرف سے جے آئی ٹی کے سربراہ کو لکھا گیا۔جے
آئی ٹی نے سیزر میمو تیار کیا جس پر انہوں نے دستخط کئے۔
ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس پر نواز شریف کے وکیل کے اعتراضات مسترد
کرتے ہوئے
سماعت دو فروری تک ملتوی کردی
نوازشریف 15 ویں مرتبہ احتساب عدالت پہنچے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
02
فروری 2018 ، نواز شریف ، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے خلاف نیب ریفرینسز کی سماعت
احتساب عدالت میں نواز
شریف اور ان کے بچوں کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس میں غیر ملکی گواہوں کا بیان ویڈیو
لنک کے ذریعے قلمبند کرنے کی نیب کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
نواز شریف اور ان کے
بچوں کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس پر سماعت کے دوران نواز شریف اور مریم نواز کی طرف
سے آج حاضری سے استثناء کی درخواست دائر کی گئی۔
نواز شریف کے وکیل نے
کہا کہ اُن کے موکل کراچی میں مصروفیات کے باعث پیش نہیں ہوسکے، آئندہ سماعت پر
حاضری یقینی بنائیں گے۔
دو گواہوں کا ویڈیو لنک
کےذریعے بیان قلمبند کرنے کیلئے نیب کی درخواست پر بحث کے دوران نیب پراسیکیوٹر
سردار مظفر عباسی کا کہنا تھا کہ گواہ اپنا بیان ریکارڈ کرانے اور شواہد پیش کرنے
کیلئے تیار ہیں، گواہ سیکورٹی خدشات کی بنا پر پاکستان نہیں آنا چاہتے، قانونی
طور پر بھی گواہوں کا بیان قلمبند کرانے کیلئے پاکستان آنا ضروری نہیں۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا
کہ گواہ برطانوی شہری ہیں، پاکستان لانے میں تاخیر اس پر خرچ بھی اٹھانا پڑے گا۔
نوازشریف 16 ویں مرتبہ احتساب عدالت پہنچے
……………….
……………….
06 فروری ، سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحب زادی مریم نواز
اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت
سابق وزیر اعظم نواز شریف کےخلاف 3 نیب ریفرنسز کی سماعت احتساب
عدالت اسلام آباد کے جج محمد بشیرنے کی
سماعت شروع ہوئی تو نامزد تینوں ملزمان کمرہ عدالت میں موجود تھے،
تاہم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث سپریم کورٹ میں مصروفیت کے باعث پیش نہ ہوئے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف آج 16ویں مرتبہ احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔
تینوں ریفرنسز میں مجموعی طور پر 39 میں سے 24 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے جا چکے
ہیں۔
نوازشریف 17 ویں مرتبہ احتساب عدالت پہنچے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فروری ، شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنیسز کیس
کی سماعت 07
نیب
کی جانب سے پیش کیے جانے والے دو گواہان کے بیانات قلمبند وکیل خواجہ حارث نے جرح کی ۔
13 فروری 18
سابق وزیر اعظم نوازشریف کےوکلا کی ہڑتال کے باعث احتساب عدالت
نےنوازشریف،مریم نواز،کیپٹن صفدرکےخلاف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت 15 فروری تک
ملتوی کردی۔
احتساب عدالت نے استغاثہ کے 4 گواہوں کو آج طلب کیا تھا جن کے
بیانات بھی قلمبند نہ ہوسکے۔
آج سابق وزیراعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر
احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔
نوازشریف 18 ویں مرتبہ احتساب عدالت پہنچے
...........
...........
15 فروری ، نوازشریف ،مریم نواز اور کیپٹن صفدرکےخلاف کے خلاف
ریفرنسز کی سماعت
ایون فیلڈ ریفرینس میں 4 گواہوں کے بیانات قلمبند، العزیز، فلیگ شپ
ضمنی ریفرینسز کی نقول نوازشریف کے حوالے کریں
ضمنی
ریفرنسز میں نواز شریف کو براہ راست ملزم قرار دیا اور کہا گیا ہے کہ نواز شریف
تمام اثاثوں کے خود مالک تھے،انہوں نے اثاثے اپنے بچوں کے نام بنا رکھے تھے
اور ان کے بچے نواز شریف کے بے نامی دار تھے۔
ضمنی
ریفرنسز کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف کے سرمائے سے متعلق تحقیقات کیں اور نیب
نے لندن جاکر بھی نواز شریف کے اثاثوں کی تحقیقات کی،وہ اپنے اثاثوں سے متعلق بے
گناہی ثابت کرنے میں ناکام رہے جب کہ انہیں تحقیقات کے لیے بلایا گیا لیکن وہ پیش
نہیں ہوئے۔
سماعت 22 فروری
تک ملتوی کردی گئی۔
نواز شریف مریم صفدر کی حاضری سے استشنی کی درخواستیں بھی مسترد کردی
گئیں ، ٹرائل مکمل ہونے کو ہے حاضری سے استشنی قرار نہیں دیا جاسکتا
نوازشریف 19 ویں مرتبہ احتساب عدالت پہنچے
اب پی سی او ججز ہمیں اخلاقیات کا درس دیں گے ، نواز شریف
ججز کی زبان انکے منصب کی توہین ہے ، عمران کی زبان چیف جسٹس بھی
بولیں تو پھر دونوں میں فرق کیا رہ جاتا ہے ، اب یہ لوگ مجھے پارٹی صدارت سے ہٹانا
چاہتے ہِیں ، مافیا گارڈ ، چور ڈاکو جیسے الفاظ استعمال کرنا کیا ان کے اپنے منصب
کی توہین نہیں ہے پھر گلہ ہم سے ہوتا ہے کہ یہ توہین کررہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
21 فروری 18
سپریم کورٹ نے
انتخابی اصلاحات کیس کا فیصلہ سنا دیا
نوازشریف لیگ کی صدارت سے بھی نااہل بطور پارٹی
صدر تمام فیصلے کالعدم
آرٹیکل 62 اور63 پر پورا نہ اترنے والا شخص پارٹی
کی صدارت نہیں رکھ سکتا پابندی کا اطلاق نااہلی کے دن سے ہوگا، جب تک نااہلی
برقرار رہے گی وہ پارٹی صدر نہیں بن سکتا، الیکشن ایکٹ کیس کا مختصر فیصلہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
22 فروری
نواز شریف کے خلاف دو ضمنی ریفرینسز کیس کی
سماعت احتساب عدالت میں سماعت
2005 میں کیلبری فونٹ موجود تھا ، رسائی صرف ماہرین کو تھی ، برطانوی گواہ آف
شور کمپنیوں نیلسن اور نیسکول کے بارے میں شریف فیملی کے ڈیکلیرشن کی تاریخ
تبدیل کی گئی ، رابرٹ ریڈلے کا ویڈیو بیان
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ
انوسٹمنٹ کے ضمنی ریفرنسز پرنوازشریف کے اعتراضات کے بعد احتساب عدالت نے فیصلہ
محفوظ کرلیا۔
نوازشریف نے ایون فیلڈ ریفرنس میں گواہوں کے بیانات قلم بند کرنے کے
موقع پر حاضری سے استثنا کی درخواست کی جو مسترد کردی گئِ
ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں نواز شریف فیملی کے خلاف نیب ریفرنسز
میں
احتساب عدالت نے سربراہ جے آئی ٹی واجد ضیا کو ریکارڈ سمیت طلب
فرانزک ایکسپرٹ رابرٹ ریڈلے اور راجا اختر کا وڈیو لنک سے بیان
ریکارڈ کیا گیا
پارٹی صدارت سے نا اہلی کے بعد نواز شریف پہلی بار احتساب
عدالت میں پیش
ہوئے ۔۔۔
نوازشریف 20 ویں مرتبہ احتساب عدالت پہنچے
سابق وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ پہلے وزارت عظمیٰ سے ہٹایا،
پھر پارٹی کی صدارت بھی چھین لی۔ یہ فیصلہ میرے لئے غیرمتوقع نہیں ہے۔
احتساب عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے
مسلم لیگ ن کی صدارت سے نااہل قرار دیئے جانے کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے
کہ یہ فیصلے غصے اور بغض میں دیئے جارہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فیصلے نے مقننہ پارلیمنٹ کا اختیار بھی چھین لیا
ہے، انہوں نے کہا کہ 28 جولائی کو بلیک لاء ڈکشنری استعمال کی گئی اور میری
وزارت چھینی گئی جبکہ گزشتہ روز آنے والے فیصلے سے میری پارٹی صدارت بھی چھین لی
گئی۔ میرانام محمد نواز شریف ہےچاہیں تو میرانام بھی چھین لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2018،01
مارچ،
احتساب عدالت میں نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل میل اور فلیگ شپ
احتساب عدالت میں نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل میل اور فلیگ شپ
انویسٹمنٹ ضمنی ریفرینسز کیس کی سماعت
عدالت نے دونوں ریفرنسز میں مجموعی طور پر 8
گواہوں کو بیانات ریکارڈ کرانے کے لیے طلب کیا تھا 5 کے بیانات ریکارڈ کیے گئے
گواہوں کے بیانات کے موقع پر ملزم موجود ہو۔تاہم
احتساب عدالت نے سابق
وزیراعظم نواز شریف کو دوبارہ حاضری سے استثنا دے
دیا۔
نوازشریف 21 ویں مرتبہ احتساب عدالت پہنچے
سابق وزیراعظم نوازشریف کا کہنا ہے وہ عمران خان نہیں کہ کان میں
جھوٹی سچی آواز پڑے اور میڈیا پر بول دیں۔ بنی گالا میں عمران خان کے گھر کے جعلی
سرٹیفکیٹ کا علم ہوا، کسی نتیجے پر پہنچ کر بات کروں گا، تصدیق کیے بغیر بات
کرنے والا نہیں۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر نواز شریف کا کہنا
تھا کہ اُن میں اور عمران خان میں بہت فرق ہے۔ صحافی نے عمران خان کے بیان پر
ردعمل جاننا چاہا تو کہا کہ کیا اب وہ خان کے بیان پر تبصرہ کریں گے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
02 مارچ
احتساب عدالت میں نوازشریف کے خلاف العزیزیہ
اسٹیل میل اور فلیگ شپ
انویسٹمنٹ ضمنی ریفرینسز کیس کی سماعت ، نیب جے
آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا کی پیشی ، دو گواہوں کے بیان
ریکارڈ کیے گئے
نوازشریف اور مریم نواز بھی احتساب عدالت میں پیش
ہوئے۔
تینوں ریفرینسز میں واجد ضیا کا ایک ہی بار بیان
لینے کی درخواست مسترد
سماعت پیر تک ملتوی
نوازشریف 22 ویں مرتبہ احتساب عدالت پہنچے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
05 مارچ،نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف
فلیگ شپ ضمنی ریفرنس کی سماعت 7 مارچ تک ملتوی کردی گئی۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نیب کی جانب سے دائر ضمنی ریفرنس
کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے استغاثہ کے گواہ
راؤ عبدالحنان پر جرح مکمل کی، یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر راؤ عبدالحنان کا بیان
قلمبند کیا گیا تھا اور ان کی جانب سے پیش کردہ دستاویزات کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ
بنایا گیا ہے۔
نوازشریف 23 ویں مرتبہ احتساب عدالت پہنچے
نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کے عوام جان گئے کہ ہمارا بیانیہ
اور اصولی موقف درست ہے،انتخابی نشان چھیننے سے کیا ہمارا نشان مٹادیں گے،تم جتنا
ظلم کرو گے،عوام اتنا ہی ن لیگ کا ساتھ دیں گے۔
احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا
تھا کہ جس کا ایک رکن بھی صوبے میں نہ ہو وہاں امیدوار کھڑا کرے، یہیں سے دھاندلی
لگتی ہے،سینیٹ انتخابات میں جہاں پیسہ چلا اور ووٹ خریدے، اس کا حساب کتاب ہونا
چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
07
مارچ،نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کے
خلاف العزیزیہ ،فلیگ شپ ضمنی ریفرنس کی سماعت ، 4گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئے،
مزید 6 کو طلب کرلیا گیا
نوازشریف 24 ویں مرتبہ احتساب عدالت پہنچے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
07 مارچ
شریف فیملی کے ریفرینسز نمٹانے کی مدت میں 2 ماہ کا اضافہ ، جج کو ملازمت میں توسیع دینے کا حکم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
08 مارچ،احتساب عدالت نواز شریف فیملی کے خلاف
ایون فیلڈ ریفرینس کی سماعت
واجد ضیا تمام دستاویزات کو ایک ایک
کرکے ریکارڈ کا حصہ بنا ئیں ، مکمل
بیان کے لیے 15 مارچ کو دوبارہ طلب کرلیا گیا
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی مدت ملازمت میں
تین سال کی توسیع کا اعلان
نوازشریف 25 ویں مرتبہ احتساب عدالت پہنچے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
14 مارچ، احتساب عدالت میں العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ
انویسٹمنٹ سے متعلق دائر ریفرنسز کی سماعت
احتساب عدالت میں سماعت کے دوران استغاثہ کی گواہ نورین شہزادی کا
بیان قلمبند کیا گیا۔استغاثہ کی گواہ نورین شہزادی کے بیان کے مطابق نواز شریف،حسن
اورحسین نوازکے اکاؤنٹس کی تفصیلات نیب کوفراہم کیں، ڈالر، یورو ، پاؤنڈز اور
روپے سمیت مختلف کرنسی اکاؤنٹ میں تھے۔ خواجہ حارث نے گواہ کی پیش کردہ دستاویزات
پر اعتراض اٹھا دیے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف 26 ویں مرتبہ
احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوئے ہیں۔ نوازشریف کا کہنا ہے کہ کراچی سے آنے والوں
کو بھی صرف سنجرانی کا دربار ہی نظر آیا، بنی گالہ سے آنے والے بھی سنجرانی کے
دربار پر جا کر جھک گئے، کیا خاص وجہ تھی وہ عوام کے سامنے آنی چاہئے۔اسلام آباد
کی احتساب عدالت میں پیشی سے قبل میڈیا سے گفتگو کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
15 مارچ،احتساب عدالت نواز شریف فیملی کے خلاف ایون فیلڈ ریفرینس کیس
کی سماعت ، قطری خط بھی پیش کیا
گیا
آخری گواہ واجد ضیا کو طلب ،عدالت نے نوازشریف اور مریم صفدر کا
حاضری کے بعد جانے کی اجازت دے دی
نوازشریف 27 ویں مرتبہ احتساب عدالت پہنچے
سابق وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ لڑائی
نہیں چاہتا، لیکن آئندہ الیکشن میں کسی قدوس بزنجو کو وزیر اعظم نہیں بننے دوں
گا، موجودہ نظام عدل میں اصلاحات کی ضرورت ہے، جامع نظام عدل لانے کے لئے کام کر
رہے ہیں، انصاف نہ ملنا یا دیر سے ملنا ملک کا بڑا مسئلہ ہے،میں لڑائی کے حق میں
نہیں، چاہتا ہوں کہ ملک آئین اور قانون کے تحت چلے، کوئی بتائے عمران اورزرداری
کو سنجرانی ہائوس کا پتہ کس نے بتایا،بلوچستان حکومت کے معاملے پر محمود اچکزئی کے
بیان کی تحقیقات ہونی چاہئیں،میرا مقدمہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے جس میں مجھ پر
کوئی الزام نہیں تھا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے احتساب عدالت میں صحافیوں سے
غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
16 مارچ
16 مارچ
نوازشریف کے خلاف ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کی ، عدالت میں جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا کا بیان مکمل نہ ہوسکا،
قطری شہزادے کا ایک اور خط پیش عدالت کا لینے
سے انکار
پیش کیا گیا خط پہلے خط سے مختلف تھا
نواز شریف ، مریم نواز اور کیپٹن صفدر پیش ہوئے
نوازشریف 28ویں مرتبہ احتساب عدالت پہنچے
…………..
20 مارچ،نوازشریف کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت جے آئی
ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کا بیان ریکارڈ کیا گیا
نوازشریف کے یواے ای میں ملازمت اقامہ کا
معاہد پیش، کیلبری فونٹ ریکارڈ کا حصہ
نوازشریف 29 ویں مرتبہ احتساب عدالت پہنچے
نواز شریف کا کہنا ہے کہ ہمارےکیس میں کچھ نہیں،پھر بھی کچھ نکالا
جا رہا ہے،ہم کسی سے کوئی توقع نہیں رکھنا چاہتے ۔
احتساب عدالت کے کمرے میں میڈیا سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے نواز
شریف نے کہا کہ جب پرانے ریفرنس میں کچھ نہیں نکلا تو نئے ریفرنس کیوں دائر کیے،
رینٹل پاور اور این آئی سی ایل جیسے کیسز ہیں جن پر کرپشن ثابت ہوئی ہے، ان
ریفرنسز کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مارچ22
،احتساب عدالت میں لندن فلیٹس ریفرینس کیس کی سماعت
،احتساب عدالت میں لندن فلیٹس ریفرینس کیس کی سماعت
نواز شریف نے پیشی کے موقع پر تمام
اداروں کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات ذاتیات پر نہیں ہوں گے،
آئین کی حکمرانی، جمہوریت اور ملکی مفاد پر بات ہوگی۔
نوازشریف کی حاضری سے استشنی کی اپیل مسترد
26 مارچ سے ایک ہفتے کے لیے حاضری سے استشنی مانگا گیا تھا
مریم نواز کی بھی استشنی کی درخواست مسترد
نواز شریف نے اہلیہ کی عیادت کے لیے درخواست
دائر کی تھی
نوازشریف 30 ویں مرتبہ احتساب عدالت پہنچے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
27 مارچ
نواز شریف کی
فیملی کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت
جے آئی ٹی کے سربراہ ایڈ یشنل ڈی جی، ایف آئی اے واجد ضیاء کو
گواہی کے لیے طلب، واجد ضیا نے بیان ریکارڈ کرایا
1993سے 96تک لندن فلیٹس حسین نواز کی ملکیت تھے جب وہ لندن میں پڑھ
رہےتھے، واجد ضیاء
لینڈ رجسٹری رکارڈ کے مطابق نواز شریف نے1993 سے 1996 کتدور فلیٹس
خریدے، واجد ضیاء
ملزمان نے ٹرسٹ ڈیڈ پر اووررائٹنگ کرکے 2004 کو 2006 بنایا ، واجد
ضیاء
مریم،حسین،کیپٹن(ر)صفدر نےجعلی دستاویزات پر دستخط کرکےسپریم کورٹ
میں پیش کیں،واجد ضیاء
پر بیان جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کا
پانچویں سماعت
نواز شریف کےخلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی
نوازشریف 31 ویں مرتبہ احتساب عدالت پہنچے
سابق وزیراعظم نوازشریف نے احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے غیررسمی
گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ
ہم ایمپائر کی انگلی پر نہیں بلکہ انگوٹھے کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں
مارشل لاء کے زمانے کے قوانین کو بیک جنبش قلم ختم ہونا
چاہیے،پرویز مشرف وطن واپسی سے متعلق جھوٹ بولتے ہیں۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شاہد خاقان
عباسی سے نگراں وزیراعظم سے متعلق ایک دوبار بات ہوئی ہے۔ موجودہ اسمبلی کی مدت
میں 2ماہ رہ گئے ہیں ،ووٹ امپائر کی انگلی سے نہیں لوگوں کے انگوٹھوں سے ملیں
گے،جمہوریت کےلیے قیمت اداکی اور ادا کربھی رہاہوں۔انتخابات میں ایک دن اور ایک
گھنٹے کی بھی تاخیر نہیں چاہتے۔سب جانتے ہیں میں سگنل لینے والا بندہ نہیں
نوازشریف نے کہا ہے کہ مجھےپیپلزپارٹی کی حکومت اورحسین حقانی کے
خلاف میموگیٹ کا حصہ نہیں بننا چاہیے تھا،میرےخلاف یلغارکی وجہ میرا آئین اور
قانون کی بالادستی کے لئےکھڑاہونا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
28 مارچ
نواز شریف کےخلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت ، واجد ضیا نے
اپنا بیان ریکارڑ کروایا
احتساب عدالت میں جرح کے دوران پاناما جے آئی
ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے اعتراف کیا ہے کہ نواز شریف کے آف شور کمپنیوں، لندن
فلیٹس، العزیزیہ اسٹیل ملز کی ملکیت کی کوئی دستاویز نہیں ملی۔ واجد ضیاء نے کہا
کہ موساک فونیسکا نے بھی نواز شریف کے ان کمپنیوں کے بینی فیشل اونر ہونے کی کوئی
ایسی معلومات نہیں دی، قطری خط میں بھی ان کا نام نہیں، گلف اسٹیل ملز کی فروخت کی
رقم کے لین دین میں شامل نہیں تھے۔ جس پر نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ واجد ضیاء
رضا کارانہ جواب دے رہے ہیں اسے ریکارڈ کا حصہ بنالیں۔احتساب عدالت کے جج نے کہا
کہ جتنا ہو سکے مختصر جرح کریں، عدالت پہلے ایون فیلڈ ریفرنس کو مکمل کریگی پھر
دیگر ریفرنس سنے گی۔بعدازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت کل تک کیلئے ملتوی کر دی۔ بدھ
کے روز احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ
محمد صفدر کے خلاف ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کی سماعت کی، نواز شریف،مریم نواز
اور کیپٹن صفدر عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
نوازشریف 32 ویں مرتبہ احتساب عدالت پہنچے
احتساب عدالت میں پیشی کے بعد جوڈیشل کمپیلکس کے باہر میڈیا سے بات
کرتے ہوئے نوازشریف نے کہا کہ ہم بھاگنے والے نہیں اور نہ ایسا سوچا، ورنہ اس
مقدمے کے لیے کیوں آتا، میری اہلیہ بیمار ہیں مجھے وہیں رہنا چاہیے، میں گیا اور
پھر واپس آیا، اب جانا چاہتا ہوں لیکن جانے نہیں دیا جارہا۔
انہوں نے کہا کہ آج جو گواہ بھگتا، اسے اسٹار وٹنس کہا گیا، جس
طرح سے آج فیکٹس سامنے آئے ہیں وہ سب نے دیکھ لیا اور سن لیا، گواہ نے ایک ایک
کرکے اپنے الزامات کو دھودیا جو ہمارے خلاف تھے اور ہمارے وکیل صفائی نے ان
الزامات کو دھلوالیا۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد نے کہا کہ اس مقدمے میں کچھ نکلنے کی گنجائش
نہیں، اگر سزا دینا ضروری ہے تو اس مقدمے میں نہیں دی جاسکتی، اس کے باوجود اگر
سزا دینی ہے تو میرا نام ٹیکنا، اے سی ایس، رینٹل پاور، حج اسکینڈل، این ایل سی یا
ای او بی آئی میں ڈال دیں جس میں اربوں کھربوں روپے کھاے گئے۔
نوازشریف نے مزید کہا کہ اگر اس کے ذریعے سزا دینا مقصود ہے تو دے
دیں، میرے کیس میں فراڈ کے سوا کچھ نہیں، یہ فراڈ اسٹیبلش ہوتا جارہاہے اور
عدالت میں ثابت ہورہا ہے، اسٹار گواہ اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد نے چیف جسٹس سے متعلق کہا
کہ جو آپ کا کام نہیں آپ اس طرف نہ جائیں،یہ میرا نکتہ نظر ہے، میں سمجھتا ہوں
کہ چیف جسٹس کو جو کام نہیں کرنا چاہیے وہ نہیں کرنا چاہیے اور جو کرنا چاہیے وہ
میں نے بتادیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
29 مارچ
نواز شریف کےخلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی
سما عت
شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں نوازشریف کے
وکیل خواجہ حارث جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء سے جرح کی واجد ضیاء نے انکشاف کیا
ہے کہ قطری شہزادے کو سوالنامہ بھیجنے کے معاملے پرجے آئی ٹی ممبران میں
اتفاق نہیں ہوا تھا۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس کیس کی سماعت کی
سماعت کے سلسلے میں میاں نوازشریف عدالت میں پیش ہوئے جس کے تھوڑی
دیر بعد ہی عدالت نے انہیں جانے کی اجازت دے دی۔
نوازشریف 33 ویں مرتبہ احتساب عدالت پہنچے
واجد ضیاء نے بتایا کہ حمد بن جاسم کو 13 مئی
2017ء کو پہلا خط لکھا، خواجہ حارث نے سوال کیا کہ اس خط میں آپ نے حمد بن
جاسم کوجے آئی ٹی میٹنگ میں آنے کا کہا؟ خط میں حمد بن جاسم سے سپریم کورٹ کوپہلے
لکھے گئے دوخطوط کی تصدیق کا بھی کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے آج
کے بیان پر وزیراعظم مناسب سمجھیں تو وضاحت طلب کر سکتے ہیں۔
مری سے اسلام آباد آمد کے موقع پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے نواز
شریف نے کہا کہ چیف جسٹس کو ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں جو انہوں نے کی ہیں، وہ
فریادی جیسے الفاظ اور فقرے نہ کہتے تو بہت اچھا ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
30 مارچ
نواز شریف کےخلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی
سما عت
نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر
کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران نواز فیملی کے وکیل خواجہ حارث اور
واجد ضیاء کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ ہم جو کر رہے ہیں یہ کافی مینٹل کام ہے، جس
پر نیب پراسیکیوٹر بولے کہ آپ مینٹل ہو گئے ہیں، آپ کی عمر کا تقاضا ہے۔
خواجہ حارث نے ان سے کہا کہ میں نے آپ کو مینٹل نہیں کہا۔ واجد
ضیاءنے ان سے کہا کہ آپ مجھے ہدایات نہ دیں۔
نوازشریف فیملی کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت اسلام آباد کی
احتساب عدالت میں ہوئی۔
دوران سماعت نواز شریف فیملی کے وکیل خواجہ حارث نے واجد ضیاء پر
جرح کی، کیس کے گواہ واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ جیری فری مین کو
جے آئی ٹی نےمتفقہ رائے سے سوالنامہ بھیجا۔
خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا جے آئی ٹی نے سوالنامہ بھیجنے کا
فیصلہ اتفاق رائے سے کیا تھا؟واجد ضیاء نے جواب دیا کہ جیری فری مین کو سوالنامہ
بھیجنے پر جے آئی ٹی میں اتفاق رائے تھا ، جیری فری مین سے خط وکتابت جے آئی ٹی
نے براہ راست نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ خط و کتابت کے لیے برطانیہ میں سولیسیٹر کی خدمات
حاصل کی گئیں، جے آئی ٹی نےفیصلہ کیا تھا کہ جیری فری مین سے براہِ راست خط و
کتابت نہیں ہوگی۔ گواہ واجد ضیا ء نے مزید کہا کہ حسن نواز کے 2ٹرسٹ ڈیڈ پر 2جنوری
2006ء کو دستخط کی جیری فری مین نے تصدیق کی، جیری فری مین اس ٹرسٹ ڈیڈ پر دستخط
کے گواہ ہیں۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ٹرسٹ ڈیڈ نیلسن اور نیسکول سے متعلق تھی،
ان دونوں ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپیاں جیری فری مین کے آفس میں ہیں۔
نوازشریف 34 ویں مرتبہ احتساب عدالت پہنچے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نواز شریف نے پیشی کے موقع پر صحافیوں سے بات کرتےہوئے کہا
چیف جسٹس کو فریادی والی بات پر قائم رہنا چاہیے تھا، اب وقت اور
حالات وہ نہیں رہے ، احتساب سب کا اور ہرصورت ہوگا، تمام کیس صرف ہمارے فیملی
کاروبار کے ارد گرد گھوم رہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
02 اپریل
نوازشریف اور ان کے بچوں کے خلاف ایون فیلڈریفرنس کی سماعت ہوئی جس میں نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر عدالت میں پیش ہوئے۔
نواز
شریف کے وکیل خواجہ حارث نے پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء پر آج پھر جرح
کی۔
سابق
وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے ایون فیلڈ ریفرنس میں وکیل خواجہ
حارث کا کہنا ہے کہ کیس ایسےنہیں چلتاپہلےواجدضیاءکچھ کہتےہیں،بعدمیں تبدیلیاں
کردیتےہیں۔
واجد
ضیاء نے بتایا کہ گلف اسٹیل کے 75فیصد شیئرز کی فروخت سے متعلق جے آئی ٹی نے
تفتیش نہیں کی۔
خواجہ
حارث نے پوچھا گلف اسٹیل کا نام فروخت کے بعد آہلی اسٹیل مل ہوا، کیا آپ نے اپنی
تفتیش میں ان معاملات کی تصدیق کی تھی؟
واجد
ضیاء جواب دیا کہ سپریم کورٹ میں اس کا جواب دے دیا تھا، جے آئی ٹی رپورٹ کا
والیم یاد نہیں لیکن اس کاجواب درج تھا۔
خواجہ
حارث نے سوال کیا کہ کیا آپ نے تفتیش کی کہ گلف اسٹیل مل قائم بھی ہوئی تھی یا نہیں؟
خواجہ
حارث نے واجد ضیاء سے پوچھا کہ کیا انہوں نےتفتیش کی تھی کہ 1978ء تا 1980ء گلف
اسٹیل مل کی بزنس ٹرانزیکشن ہوئی؟
واجد
ضیاء نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی نے طارق شفیع سے پوچھا تھا لیکن کوئی ایسی چیز
سامنے نہیں آئی، دبئی اتھارٹیز کو ایم ایل اے کے تحت لکھا کہ گلف اسٹیل مل کی
تفصیلات دیں لیکن جواب نہیں آیا۔
خواجہ
حارث نے سوال کیا کہ کیا انہوں نے گلف اسٹیل مل بنانے والے کسی شراکت دار یا فروخت
کنندہ سے رابطہ کیا؟
واجد
ضیاء نے بتایا کہ جے آئی ٹی نے شہباز شریف اور طارق شفیع سے پوچھ گچھ کے لیے
رابطہ کیا، اس کے علاوہ کسی سے رابطہ نہیں کیا گیا۔
نوازشریف 35 ویں مرتبہ احتساب عدالت پہنچے
سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کہتے ہیں کہ مقدمہ چلایا جا رہا ہے، ایک ہی تکرار ہے کہ نواز شریف کو سزا ہو،پوری قوم جان چکی ہے کہ اصل میں کیس ہےکیا ۔
سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کہتے ہیں کہ مقدمہ چلایا جا رہا ہے، ایک ہی تکرار ہے کہ نواز شریف کو سزا ہو،پوری قوم جان چکی ہے کہ اصل میں کیس ہےکیا ۔
نواز شریف احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر عدالت کے باہر
میڈیا سے غیررسمی گفتگو کر رہے تھے۔
اس موقع پر انہوں نے مزید کہا کہ مقدمہ اتنا ہے کہ نواز شریف
اور مسلم لیگ ن2018ء کا الیکشن جیتتے نظر آ رہے ہیں ، چند افراد اسے روکنے میں
لگے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ ن لیگ 2018ءکا الیکشن جیتے۔
نواز شریف کا کہنا ہے کہ یہ سینیٹ کا الیکشن نہیں جسے کوئی
روک سکے، یہ عوامی طوفان ہے، ہم نے بائیکاٹ نہیں کیا، مقدمہ لڑا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سامنے الزامات کا بھانڈا ضرور
پھوٹا ہے، میرے خلاف جے آئی ٹی کی چالاکیوں کا پول کھل گیا ہے۔
سابق وزیر اعظم کا مزید کہنا ہے کہ واجد ضیاء نہیں بتاسکے
کہ کہاں اور کس نے چوری کی، پوری قوم معاملے کی حقیقت جان چکی ہے۔
نواز شریف نے یہ بھی کہا کہ عدالت نے
اقامے اور خیالی تنخواہ پر فیصلہ کیا، چند افراد روکنے میں لگے ہیں، وہ نہیں چاہتے
کہ ن لیگ 2018ء کا الیکشن جیتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
03 اپریل 18
نوازشریف کے خلاف ریفرینس کیس کی سماعت
اسلام آباد کی احتساب عدالت میں نوازشریف ، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت ہوئی جس کے دوران نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء پر آج پھر جرح کی۔
خواجہ حارث نے واجد ضیاء سے پوچھا کہ آپ کے پاس جو جواب آیا اس میں باہمی قانونی معاونت کا حوالہ دیا گیا، کیا یہ درست ہے؟جس پر واجد ضیاء نے بتایا کہ خط کے مطابق یہ بات درست ہے۔
خواجہ حارث نے پوچھا کہ خط میں نہیں لکھاکہ میوچل لیگل ریکویسٹ کےساتھ کوئی دستاویزلگائی گئی ہوں،یہ بات درست ہے کہ درخواست کے ساتھ کوئی کاغذ نہیں لگایا گیا؟
واجد ضیا ء نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی نے ایم ایل اے کے تحت 4 خطوط بھیجے، دو خطوط کا تعلق خریدوفروخت کے معاہدے سے تھا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ لیکن اس میں دبئی کورٹ سسٹم، دبئی کسٹم، سینٹرل بینک کی کوئی دستاویزنہیں لگائی گئی، جوخط لکھا گیا اس پر سوال نمبر23، 4سےمتعلق کوئی دستاویز نہیں لگائی گئی۔
واجد ضیاء نے بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ خط میں تین سوالوں سےمتعلق کوئی دستاویز نہیں لگائیں۔
خواجہ حارث نے جرح کے دوران پوچھا کہ باہمی قانونی مشاورت کے لیے کب اور کتنے خطوط لکھے؟
واجد ضیاء نے بتایا کہ سینٹرل اتھارٹی انٹرنیشنل کوآپریشن ڈپارٹمنٹ وزارت انصاف دبئی کو 7خطوط لکھے، 7میں سے 4خطوط ایک ہی دن بھیجے گئے، باہمی قانونی مشاورت کے تحت لکھے گئے خطوط سے متعلق ریکارڈ سربمہر ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ درست نہیں کہ جےآئی ٹی نے والیم ٹین کو سربمہرحالت میں پیش کیا، جے آئی ٹی کی طرف سے اوپن کورٹ میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی تھی، والیم ٹین کو سیل کرنے کا حکم عدالت میں سنایا گیا تھا،تحریری حکم کا علم نہیں، والیم ٹین کو سربمہر حالت میں نہیں دیکھا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ کیا آپ نے اس بات کی تحقیقات کیں کہ 1978ء میں 75 فیصد شیئرز کی فروخت کے معاہدے کے بعد باقی 25 فیصد شیئرز کا کیا بنا؟
واجد ضیاء کا کہنا ہے کہ اس بات کے جواب کے لیے جے آئی ٹی رپورٹ دیکھنی پڑے گی۔
خواجہ حارث نے پوچھا کہ آپ جے آئی ٹی رپورٹ دیکھ کر بتا دیں۔
واجد ضیاء نے جواب دیا کہ اس بات کا جواب جے آئی ٹی رپورٹ کے صفحہ 37 پر موجود ہے،جے آئی ٹی کے مطابق آہلی اسٹیل ملز کے باقی 25 فیصد
شیئرز 1978 ءسے 1986ء کے دوران فروخت ہوئے۔
ایون فیلڈپراپرٹیزریفرنس کی سماعت کل صبح ساڑھے9بجے تک ملتوی
خراب موسم کے باعث نوازشریف اور مریم نواز لاہور سے اسلام آباد نہ آسکے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
،ایف زیڈ ای کمپنی نوازشریف کی
تنخواہ وصولی کا ثبوت نہیں ، جاد ضیا اعتراف تنخواہ ایک لاکھ تھی کاٹ کر دس ہزار
درہم کس نے لکھا
ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی آج حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرلی۔
نوازشریف کے وکیل کی جانب سے نوازشریف اور مریم نواز کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواستیں پیش کرنے پر احتساب عدالت کے جج جسٹس محمد بشیر نے انہیں ہدایت کی کہ درخواستوں میں ملزمان کی جانب سےپیش نمائندوں کےنام بھی لکھیں۔
ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کی سماعت کے دوران آج بھی گواہ واجد ضیاء پر جرح کی گئی۔
پراسیکیوشن ٹیم کی جانب سے بینک ٹرانزیکشنز سے متعلق رقوم کی منتقلی کا فلو چارٹ وکلائے صفائی کے حوالے کیا گیا۔
مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ یہ وہ والا چارٹ ہے کہ لکھے موسیٰ اور پڑھے خدا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ اس کو پڑھنے کے لیے تو محدب عدسے کی ضرورت
پڑے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوازشریف 42 ویں مرتبہ احتساب عدالت میں پیش ہوئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
24 اپریل
30 اپریل
شیئرز 1978 ءسے 1986ء کے دوران فروخت ہوئے۔
ایون فیلڈپراپرٹیزریفرنس کی سماعت کل صبح ساڑھے9بجے تک ملتوی
خراب موسم کے باعث نوازشریف اور مریم نواز لاہور سے اسلام آباد نہ آسکے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
04 اپریل 18
احتساب عدالت میں ایون فیلڈپراپرٹیزریفرنس کی سماعت
نوازشریف 36 ویں مرتبہ احتساب عدالت پہنچے
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت
کی اس موقع پر نامزد ملزمان سابق وزیراعظم
نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر عدالت میں پیش
ہوئے۔
نوازشریف 36 ویں مرتبہ احتساب عدالت پہنچے
سماعت کے آغاز پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے واجد ضیاء پر جرح کے دوران جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم ٹین سے متعلق استفسار کیا جس پر واجد ضیاء نے بتایا کہ والیم ٹین کی کاپی کے لئے اپلائی کیا تھی اور وہ مل گئی ہے اور سات ایم ایل ایز سے متعلق ریکارڈ مل گیا ہے۔
اس موقع پر پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی نے سات ایم ایل ایز پر خواجہ حارث کے سوال پر اعتراض اٹھایا اور کہا کہ ایک ہی سوال بار بار نہیں پوچھا جاسکتا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ آپ میرا سوال ریکارڈ پر لے آئیں، یہ جواب نہیں دینا چاہتے تو نہ دیں جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سوال بھی ریکارڈ پر نہیں آسکتا۔
خواجہ حارث نے کہا 'نا سوال ریکارڈ پر آسکتا ہے نا جواب، صرف واجد ضیاء کا بیان ریکارڈ پر آسکتا ہے' خواجہ حارث کے جملے پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔
..................
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ مکروہ گیم میں نامی گرامی سیاستدان شامل ہیں، عمران خان نے زرداری کو بیماری قرار دیا اور کہا تھا کہ ہاتھ نہیں ملاؤں گا، سیاستدان کا کوئی اصول اور مؤقف ہونا چاہیے۔
ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کی سماعت کے موقع پر نوازشریف اپنی صاحبزادی مریم نواز کے ہمراہ اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیشی کے لیے پہنچے۔
سماعت سے قبل میڈیا سے غیر رسمی گفتگوکر تے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں حالیہ دنوں میں ہونےوالی تبدیلیاں مشکوک ہیں، چیئرمین سینیٹ مشکوک شخص کو بنا دیا گیا ہے۔
نواز شریف نے مزید کہا کہ عمران خان بتائیں کیا ان کے لوگوں نے ڈپٹی چیئرمین کے لیے تیر کے نشان پر مہر نہیں لگائی، اندر کی کہانی نہیں جانتا لیکن زرداری جو کام کر رہے ہیں وہ شرمناک ہے۔
سابق وزیر اعظم کا مزید کہنا ہے کہ چیف جسٹس سے ملاقات کے حوالے سے وزیراعظم سے بات نہیں ہوئی، ہوئی تو آگاہ کروں گا۔
نوازشریف کا کہنا ہے کہ مجھے بیمار اہلیہ کی عیادت کے لیے جانے کی اجازت نہیں دی گئی، ڈاکٹرز نے کہا تھا کہ مشاورت کے لیے میرا اہلیہ کے پاس ہونا ضروری ہے۔
ایک صحافی نے نواز شریف سے سوال کیا کہ جج صاحب نے کہا تھا آپ کے پاس 5دن تھے آپ جا سکتے تھے، آپ کیوں نہیں گئے؟
جس پر نوازشریف نے جواب دیا کہ لندن جانے اور آنے میں 2دن لگتے ہیں اور ان دنوں ویک اینڈ تھا، وہاں کے ڈاکٹرز ہفتہ اور اتوار کو مشاورت نہیں کرتے۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ابھی تو مجھے بیمار اہلیہ سے ملنے کی بھی اجازت نہیں دی جا رہی،جب ملک سےباہرجاؤں گاتوباہرکی باتیں کریں گے۔
سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی
صاحبزادی مریم نواز کہتی ہیں کہ نیب
عدالت کی تمام کارروائی کو براہِ راست نشر کیا
جائے۔
..............
05 اپریل ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی آج حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرلی۔
نوازشریف کے وکیل کی جانب سے نوازشریف اور مریم نواز کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواستیں پیش کرنے پر احتساب عدالت کے جج جسٹس محمد بشیر نے انہیں ہدایت کی کہ درخواستوں میں ملزمان کی جانب سےپیش نمائندوں کےنام بھی لکھیں۔
ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کی سماعت کے دوران آج بھی گواہ واجد ضیاء پر جرح کی گئی۔
پراسیکیوشن ٹیم کی جانب سے بینک ٹرانزیکشنز سے متعلق رقوم کی منتقلی کا فلو چارٹ وکلائے صفائی کے حوالے کیا گیا۔
مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ یہ وہ والا چارٹ ہے کہ لکھے موسیٰ اور پڑھے خدا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ اس کو پڑھنے کے لیے تو محدب عدسے کی ضرورت
پڑے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
06 اپریل
احتساب عدالت میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کیس کی سماعت
سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کہتے ہیں کہ گزشتہ روزچیف جسٹس پاکستان نے جو باتیں کیں ان کی تائید کرتے ہیں،انہوں نے کل کہا کہ انتخابات ملتوی ہونےکی گنجائش نہیں، مجھے چیف جسٹس پاکستان کی باتیں اچھی لگیں۔
سابق وزیراعظم نوازشریف ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کی سماعت کے سلسلے میں اپنی صاحبزادی مریم نواز کے ساتھ اسلام آباد کی احتساب عدالت آئے
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر علالت کے باعث چھٹی پر ہیں، سابق وزیراعظم کےخلاف ریفرنسزکی سماعت ڈیوٹی جج ملک ارشد نے کی،جس بعد ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کی سماعت 9 اپریل تک ملتوی ہوگئی۔
نوازشریف نے کہا کہ الیکشن کے لیے نیب قوانین معطل کریں ناجائز استعمال ہوسکتا ہے ، آرڈینینس جاری کیا جائے ، چیف جسٹس انتخابات میں سب کے لیے یکساں مواقع یقینی بنائیں ،
نوازشریف نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کیسے بنے، ووٹ بیچے گئے خریدے گئے، کیا کسی نے نوٹس لیا، بلوچستان میں جو کچھ ہوا، اس کا سپریم کورٹ نے نوٹس لیا؟ لینا چاہیے تھا، سپریم کورٹ کو بلوچستان اسمبلی اور سینیٹ انتخابات کے واقعات کا ازخود نوٹس لینا چاہیے، تمام جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کے مساوی مواقع دیے جانے چاہئیں۔
سابق وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ہم نے جج کو لائیو کارروائی دکھانے کا خود کہا اور اپنی بات پر قائم ہیں،ہمارا سیاسی کیریئر گواہ ہے کہ ہم نہ کبھی اپنے مؤقف سے ہٹے نہ کوئی یوٹرن لیا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے جیل میں ڈالنا ہے ڈال دیں، کال دینے کی نوبت آئی تو کال دوں گا، جیل کے اندر ہوں یا باہر ہوں، کال باہر سے بھی آئے گی اور اندر سے بھی آئے گی ، میں جہاں بھی ہوں گا کال دوں گا،سب کہہ رہے ہیں کہ میری آواز پر لبیک کہیں گے، کیا لبیک کہو گے؟
سابق وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ابھی تو زرداری صاحب نے 400،500 ووٹ لیے ہیں، زرداری صاحب چیف منسٹری سے پہلے حلقوں سے ووٹ تو لےلیں،پھر بات کریں گے۔
احتساب عدالت میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کیس کی سماعت
سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کہتے ہیں کہ گزشتہ روزچیف جسٹس پاکستان نے جو باتیں کیں ان کی تائید کرتے ہیں،انہوں نے کل کہا کہ انتخابات ملتوی ہونےکی گنجائش نہیں، مجھے چیف جسٹس پاکستان کی باتیں اچھی لگیں۔
سابق وزیراعظم نوازشریف ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کی سماعت کے سلسلے میں اپنی صاحبزادی مریم نواز کے ساتھ اسلام آباد کی احتساب عدالت آئے
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر علالت کے باعث چھٹی پر ہیں، سابق وزیراعظم کےخلاف ریفرنسزکی سماعت ڈیوٹی جج ملک ارشد نے کی،جس بعد ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کی سماعت 9 اپریل تک ملتوی ہوگئی۔
نوازشریف نے کہا کہ الیکشن کے لیے نیب قوانین معطل کریں ناجائز استعمال ہوسکتا ہے ، آرڈینینس جاری کیا جائے ، چیف جسٹس انتخابات میں سب کے لیے یکساں مواقع یقینی بنائیں ،
نوازشریف نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کیسے بنے، ووٹ بیچے گئے خریدے گئے، کیا کسی نے نوٹس لیا، بلوچستان میں جو کچھ ہوا، اس کا سپریم کورٹ نے نوٹس لیا؟ لینا چاہیے تھا، سپریم کورٹ کو بلوچستان اسمبلی اور سینیٹ انتخابات کے واقعات کا ازخود نوٹس لینا چاہیے، تمام جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کے مساوی مواقع دیے جانے چاہئیں۔
سابق وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ہم نے جج کو لائیو کارروائی دکھانے کا خود کہا اور اپنی بات پر قائم ہیں،ہمارا سیاسی کیریئر گواہ ہے کہ ہم نہ کبھی اپنے مؤقف سے ہٹے نہ کوئی یوٹرن لیا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے جیل میں ڈالنا ہے ڈال دیں، کال دینے کی نوبت آئی تو کال دوں گا، جیل کے اندر ہوں یا باہر ہوں، کال باہر سے بھی آئے گی اور اندر سے بھی آئے گی ، میں جہاں بھی ہوں گا کال دوں گا،سب کہہ رہے ہیں کہ میری آواز پر لبیک کہیں گے، کیا لبیک کہو گے؟
سابق وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ابھی تو زرداری صاحب نے 400،500 ووٹ لیے ہیں، زرداری صاحب چیف منسٹری سے پہلے حلقوں سے ووٹ تو لےلیں،پھر بات کریں گے۔
نوازشریف 37 ویں مرتبہ احتساب عدالت پہنچے
٫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
09 اپریل
احتساب عدالت میں ایون فیلڈ کیس کی سماعت
احتساب عدالت میں ایون فیلڈ کیس کی سماعت
احتساب عدالت میں پیر کو بھی مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف کی فیملی کیخلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت جاری رہی۔ سابق وزیر اعظم اپنی صاحبزادی او ر داماد کے ہمراہ فاضل جج کی آمد سے قبل ہی کمرہ عدالت میں پہنچ گئےتھے، فاضل جج نے ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کا آغاز کیا تو نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء پر آٹھویں روز جرح کا آغاز کیا جو عدالت کا وقت ختم ہونے تک جاری رہی۔
سماعت کے دوران نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی اورنواز شریف کے وکیل خواجہ حارث میں تلخ کلامی ہوئی ، تاہم فاضل جج نے اپنے رویے سے دونوںکو مقدمے کی پیروی پر توجہ دینے کی استدعا کی۔خواجہ حارث نے جرح کے دوران عدالت سے کہا کہ میں نےجوکہا ہے وہ لکھیں، فیصلہ آپ اپنی مرضی سے کریں مگر ریکارڈ خراب نہیں کرنے دوں گا۔ اس موقع پر ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے موقف اختیار کیا کہ اگر وکیل صفائی کو تمام سوالات کی اجازت دیں گے تو جرح پر گیارہ دن اور لگ جائیں گے، وکیل صفائی نے موقف اختیار کیاکہ جرح کرنا میرا حق ہے، اگر جرح سے روکنا ہے تو میں باہر چلا جاتا ہوں ، نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ جرح کے دوران
15مواقع پر خواجہ حارث نے سوالات کو دہرایا،وکیل صفائی جرح مکمل نہیں کرنا چاہ رہے، خواجہ حارث نے کہاکہ سچ اگلوانے کیلئے مختلف طریقوں سے سوالات پوچھنے پڑتے ہیں، ٹرائل کی تاریخ میں پہلی بار سیلف ایڈڈ کی ٹرم استعمال کی جا رہی ہے، واجد ضیاء نے تقریباً 200بار والنٹیئربیان ریکارڈ کرایا، واجد ضیاء نے عدالت سے استدعا کی کہ سیریل نمبر 8کے ساتھ منسلک دستاویزات کو پہلے عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا لیں دستاویزات کوعدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کے بعد وکیل صفائی ان پر سوالات کرلیں وگرنہ میرے لیے یہ کہنا مشکل ہوگا کہ یہ تینوں دستاویزات سیریل نمبر 8کاحصہ ہیں، نیب پراسیکیوٹر نے موقف اختیار کیا کہ سورس دستاویزات عدالتی ریکارڈ پر نہیں لائی جاسکتی ہم بھی ان دستاویزات پر انحصار نہیں کررہے،جب دستاویزات ہیں ہی غیر متعلقہ تو ان پر جرح کیوں کی جارہی ہے؟ وکیل صفائی ان دستاویزات کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے دیں پھر جرح کرلیں
سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ چیف جسٹس زرداری اور عمران کی زبان بول رہے ہیں، پری پول دھاندلی ہورہی ہے، ایسے انتخابی نتائج تسلیم نہیں کرینگے، وزیراعظم سے نگران سیٹ اپ کے حوالے سے مشاورت ہوئی ہے، اس سے زیادہ نہیں بتا سکتا، الیکشن لڑنے کیلئے سب کیلئے یکساں مواقع ہونے چاہئیں، کچھ کیلئے کھلا میدان تو کسی کو بند گلی میں دھکیلا جارہا ہے، یہ قبل از وقت انتخابات دھاندلی ہے، ہم غیر شفاف الیکشن کی طرف جارہے ہیں اور ان الیکشن کے نتائج کو کوئی قبول نہیں کریگا، جو ہوچکا ہے اور جو ہونے والا ہے اگر یہی کچھ ہوگا تو آپ صاف و شفاف الیکشن کو بھول جائیں۔ پیر کو احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ اب یہاں تک بھی کہا جا رہا ہے کہ پنجاب کی کارکردگی بہت خراب اور کمزور ہے، مجھے اس طرح کے الفاظ اور گفتگو کی منطق سمجھ نہیں آتی، سب سے بہتر کارکردگی پاکستان میں کس صوبہ کی ہے، اس کا جواب ایک عام گلی میں جاتا ہوا بندہ بھی بتا دے گا
نوازشریف 38 ویں مرتبہ پیش ہوئے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
10 اپریل 18
احتساب عدالت میں
ایون فیلڈ ریفرینس کیس کی سماعت
دوران سماعت فاضل جج نے خواجہ حارث کو جرح مختصر کرنے کی ہدایت کی۔جس پر خواجہ
حارث نے کہا کہ ایف زیڈای کی دستاویزات نکال دیں تو جرح نہیں کرینگے۔سابق وزیر
اعظم کے وکیل خواجہ حارث نے مسلسل نویں روز بھی استغاثہ کے مرکزی گواہ واجد ضیاء
پر جرح کی، نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی کی طرف سے اعتراض اٹھانے پر
وکیل صفائی نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ وہ بدھ کو جرح مکمل کرنے کی کوشش کریں
گے۔ریفرنس میں نامزد ملزمان نواز شریف،مریم نواز اور کیپٹن صفدر کمرہ عدالت میں
موجود تھے۔نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے جرح کا آغاز آج نویں روز کیپٹل ایف زیڈ
ای سے کیا تو نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ تین
دن سے جس نکتےپر بحث ہو رہی ہے وہ غیرمتعلقہ ہے۔خواجہ حارث نے کہا کہ کیپٹل ایف زیڈ
ای لندن فلیٹس سے متعلق معاملہ ہے، جب شواہد پیش کئے تو اس وقت انہیں خیال کیوں نہیں
آیا۔نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ تین دن سے پہلے سے تسلیم شدہ حقائق پر جرح ہورہی
ہے، اقامہ تسلیم شدہ، تنخواہ تسلیم شدہ ہے لیکن کہتے ہیں وصول نہیں کی، نواز شریف
نے کبھی کیپٹل ایف زیڈ ای کی چیئرمین شپ سے انکار نہیں کیا
سابق وزیر اعظم
نواز شریف نے کہا ہے کہ پارٹی چھوڑ کر جانے والوں پر شاید کچھ وارد ہوا ہے، جو لوگ
چھوڑ کر گئے ان کا تعلق ہماری جماعت سے نہیں تھا۔
نواز شریف
نےاسلام آباد کی احتساب عدالت میں صحافیوں سےغیر رسمی گفتگو میں کہا کہ لودھراں
کے الیکشن میں 180 ڈگری کا ٹرن آیا تھا، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے میری صدارت پر
ووٹ نہیں دیا تھا،یہ لوگ ہماری نظرمیں تھے ، یہلوگ سیاست کوبدنام کرتےہیں،ایسے
لوگوں کا آنا جانا لگا رہتاہے۔
انہوں نے کہا
کہ جنوبی پنجاب میں شہباز شریف نے ریکارڈ ترقیاتی کام کیے، لودھراں کا الیکشن
ہمارے ریکارڈ ترقیاتی کاموں پر اعتماد کا اظہار تھا۔
نوازشریف 39 ویں مرتبہ
پیش ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
11 اپریل 18
احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرینس کیس کی سماعت
شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز
شریف کے وکیل خواجہ حارث کی مسلسل 10 سماعتوں کے بعد جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا
پر جرح مکمل ہوگئی۔ بدھ کواسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج نے ایون فیلڈ ریفرنس
کی سماعت کی ۔ریفرنس میں نامزد ملزمان سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم
نواز اور داماد کیپٹن(ر)صفدربھی عدا لت کے روبرو پیش ہوئے۔ نواز شریف کے وکیل
خواجہ حارث نے مسلسل دسویں روز نیب کے گواہ واجد ضیا سے سوالات پوچھے اور اپنی جرح
مکمل کی۔خواجہ حارث نے واجد ضیا سے جرح کے دوران قطری خط، لندن فلیٹس، گلف اسٹیل
ملز اور نواز شریف کے اقامے سے متعلق مختلف نوعیت کے سوالات پوچھے۔جرح کے دوران کئی
بار خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی
اور واجد ضیا کو سخت سوالات کا بھی سامنا رہا۔ عدالت نے ریفرنس میں نامزد ملزمان
مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے وکیل امجد پرویز کو بھی جرح کے لئے طلب کیا تھا،
دونوں ملزمان کے وکیل نے واجد ضیا پر جرح کا آغاز کیا۔اس سے قبل واجد ضیا نے
مسلسل چھ سماعتوں کے دوران اپنا بیان قلمبند کرایا تھا۔
سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ اڈیالہ جیل
میں تیاریاں پہلے ہی شروع کر دی گئیں، جیل والوں کو کیسے پتا چلا کہ کوئی آ رہا
ہے؟
سابق وزیراعظم نواز شریف نےاحتساب عدالت میں پیشی
کے موقع پرکمرہ عدالت میں صحافیوں سےغیررسمی گفتگو کی ۔دوران گفتگو صحافی نے نواز
شریف سے سوال کیا کہ کسی خاص مہمان کی آمد کے لئےاڈیالہ جیل کی صفائی کی خبریں چل
رہی ہیں؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ اڈیالہ والوں کو کیسے پتہ چلا کہ کوئی آرہا
ہے۔
صحافی نے سوال کیا کہ آپ کے دائیں بائیں بھی وہی
لوگ ہوتے ہیں جو وفاداریاں تبدیل کرتے رہتےہیں جس پر نواز شریف کا کہنا تھا کہ میرے
دائیں بائیں وہ لوگ نہیں بلکہ کمیٹڈ لوگ ہوتے ہیں،ہمارے ساتھ اس وقت وہ لوگ موجود
ہیں جو نسلوں سے مسلم لیگی ہیں۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ نگراں حکومت میں نیب
قوانین کو غیر مؤثر کرنے سے متعلق وزیراعظم سے بات ہوئی ہے، چاہتے ہیں انتخابات میں
حصہ لینے والے امیدواوں پر نیب کا دباؤ نہیں ہونا چاہیے۔
نوازشریف 40 ویں مرتبہ پیش ہوئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
12 اپریل
احتساب عدالت میں نوازشریف،مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدرکے
خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کیس کی سماعت
اسلام آباد کی احتساب عدالت میں نوازشریف،مریم نواز اور کیپٹن
ریٹائرڈ صفدرکے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز کے وکیل امجد پرویز کی واجد
ضیا پر جرح جاریہے۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نیب کی جانب سے دائر
ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کر رہے ہیں ۔ریفرنس میں مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد
صفدر کے وکیل امجد پرویز نیب کے گواہ واجد ضیاء پر جرح کر رہے ہیں۔
واجد ضیاء نے جرح کے دوران کہا کہ جے آئی ٹی نے تفتیش کے شروع میں
فریقین اور درخواست گزار کا ریکارڈ لیا، مریم نواز فریق نمبر 6 اور کیپٹن (ر) صفدر
فریق نمبر 9 تھے۔
مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے سوال کیا کہ 'کیا 2012 کی تحقیقات
کے خط کی تصدیق شدہ کاپی تھی جس پر نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے اعتراض
اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ سوال بنتا نہیں ہے۔
تاہم واجد ضیاء نے بتاتے ہوئے کہا کہ ڈائریکٹرفنانشل انویسٹیگیشن
ایجنسی کے خط کی کاپی اور بی وی آئی کے 2012 کے خط کی کاپی منسلک ہے۔
واجد ضیاء نے کہا کہ 5 مئی 2017 کو سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ جے
آئی ٹی کسی بھی متعلقہ شخص کو بلاسکتی ہے جس پر وکیل امجد پرویز نے کہا کہ پانچ
مئی 2017 کے حکم نامے کی تو میں نے بات ہی نہیں کی۔
مریم نواز کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے نیلسن اور نیسکول کی
ٹرسٹ ڈیڈ تصدیق کے لیے جے آئی ٹی کو نہیں کہا جس پر واجد ضیاء نے کہا کہ یہ درست
نہیں ہے، سپریم کورٹ نے نیلسن اور نیسکول کے اصل بینیفشل مالک کا سوال
خاص طور پر اٹھایا۔
سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا کہنا ہے کہ واجد ضیاء آپ کو
بتاناہوگاجے آئی ٹی میں رکھے گئے لوگ کون تھے؟
احتساب عدالت کے باہر نواز شریف نے میڈیا سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے
مزید کہا کہ تکلیف دہ کہانی ہے، اس کی کھوج لگانی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ بنانے کےلیے 40لوگ تھے، پول کھل
گیا،جے آئی ٹی میں لوگوں کو رکھنے کی منظوری کس نے دی۔
سابق وزیراعظم نے سوال کیا کہ 30تفتیش کار اور عملے کے 10 لوگ کون
تھے ؟غلط فیصلے کےبعد غلط کیس سے حقائق نکل رہے ہیں۔
نواز شریف نے کہا کہ کیس سے بہت سے چھپے حقائق سامنے آ رہے ہیں،
عدالت سے انصاف کی امید تو بہت ہے کیونکہ کیس میں کچھ بھی نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اقامے پر آیا وہ بھی جھوٹ
ثابت ہوا،انویسٹی گیشن کے لیے کن لوگوں کا سہارا لیا گیا۔
سابق وزیراعظم کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو پارٹی چھوڑ کر گئے وہ سونے
جیسے لوگ نہیں تھے، ان کے لیے میرے دل میں کوئی قدر نہیں۔
نوازشریف 41 ویں مرتبہ احتساب عدالت میں پیش ہوئے
...............
16 اپریل
احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرینس کیس
کی سماعت
واجد ضیا سے برٹش ورجن آئی لینڈ کو
لکھا گیا دوسرا خط طلب
بی وی آئی حکام کو 2 ایم ایل اے لکھے ،
حسن نواز نے نیلسن اور نیسکول کے بینیفیشل اونر ہونے کے سوال پر واضح انکار نہیں کیا،
گواہ ، برطانوی حکام نے ایک خط کا جواب نہیں دیا، نوازشریف اور مریم صفدرپیش نہیں
ہوئے ، ایک روز کا اسشنی منظور
.................
23 اپریل 18
احتساب عدالت میں العزیزیہ ریفرینس کیس
کی سماعت
لندن فلیٹس کی آفیشل رجسٹرڈ کاپیاں احتساب عدالت میں پیش
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف، ان کی صاحبزادی
مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی
سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت میں ہونے والی
العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت جے آئی ٹی سربراہ واجدضیاکی عدم حاضری کےباعث
کل تک ملتوی کی گئی۔
ریفرنس میںنیب باہمی معاونت قانون کے تحت حاصل
ہونے والی دستاویزات کو عدالتی ریکارڈکا حصہ بنانے کے لیے مزید ایک اور گواہ ڈی جی
آپریشن نیب ظاہر شاہ کو پیش کرے گی۔
احتساب عدالت نے میاں نواز شریف اور ان کی
صاحبزادی کو گھر جانے کی اجازت دے دی۔
۔۔مارشل لا سے زیادہ پابندیاں لگ رہی ہیں ، موجودہ پارلیمنٹ میں دم
خم نہیں ، چیف جسٹس خود بات کرتے ہیں تو جواب سننے کی بھی ہمت ہونی چاہِے ،
اسپتالوں کے دورے آپ کا کام نہیں ، 5 ججر کو سرخرو کرنے کے لیے مجھے سزا دلوائی
جارہی ہے ،نواز شریف کی پیشی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو
نوازشریف 42 ویں مرتبہ احتساب عدالت میں پیش ہوئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
24 اپریل
احتساب عدالت میں نوازشریف کے خلاف ریفرینس کیس
کی سماعت
۔ منگل کو ایون فیلڈ ریفرنس میں گواہ نیب کے ڈی
جی آپریشنز ظاہر شاہ پر امجد پرویز کی جرح مکمل ہوگئی۔ فلیگ شپ ریفرنس میں گواہ
ظاہر شاہ پر خواجہ حارث نے جرح کی جو آئندہ سماعت پر بھی جاری رکھیں گے۔ گواہ نے
فلیگ شپ ریفرنس سے متعلق کمپنی ہائوس ریکارڈ کی تصدیق شدہ کاپیاں عدالت میں پیش کر
دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
30 اپریل
احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کیس کی سماعت آخری گواہ نیب کے تفتیشی افسر عمران ڈوگر کا بیان قلمبند کیا گیا
احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے میاں نوازشریف کا کہنا تھاکہ جلسہ لہور دا، مجمع پشور دا، ایجنڈا کسی ہور دا، یہ ہے عمران خان کی اصولی سیاست اور اس کی منہ بولتی تصویر، ہم کھوکھلے نعرے پچھلے کئی سال سے سن رہے ہیں لیکن جب واسطہ پڑا تو پتا چلا، جو کچھ خیبرپختونخوا میں کیا دنیا کو پتا لگ گیا، اس کےمقابلے میں جو مرکز اور پنجاب میں ہوا کوئی مقابلہ نہیں۔انہوں نےکہا کہ آج پنجاب دیکھیں، پھر سندھ، کے پی اور بلوچستان دیکھیں، لاہور دیکھیں اور دیگر شہر دیکھیں، دور دور تک کوئی مقابلہ اور موازانہ نظر نہیں آتا، فرق صاف ظاہر ہے، (ن) لیگ جب بھی آئی ہمیشہ ترقی کے ایجنڈے پر عمل کیا، آج ملک میں انفرا اسٹرکچر بن رہا ہے، اسلام آباد میں نیا ائیرپورٹ دیکھ کر دل خوش ہوتا ہے، میں اس کا افتتاح نہیں کرسکا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اس میں ہماری خدمات ہیں، ملک کی ترقی اور خوشحالی ہے۔ نوازشریف نے کہا کہ مجھے اقامے پر اور خواجہ آصف کو بھاری دل سےنااہل کیا گیا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
02 مئِ
احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنیس کیس کی سماعت
نواز شریف نے پبلک عہدہ رکھتے ہوئے لندن میں بے نامی جائیداد بنائی ، مریم ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے ، تفتیشی افسر عمران ڈوگر کا بیان
ملزمان لندن جائیداد کی خریداری کے زرائع بتانے میں ناکام رہے ، مریم ، حسن اور حسین جرم کے ارتکاب میں نوازشریف کے مددگار رہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معزول وزیراعظم نواز شریف اور ان کے تین بچوں مریم، حسین اور حسن کے خلاف تین ریفرنسز کی سماعت کرنے والی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر باقی چھ دنوں میں ان مقدمات کی سماعت مکمل نہیں کر پائیں گے جو سپریم کورٹ کی جانب سے دو ماہ کی توسیع شدہ مدت میں باقی رہ گئے ہیں۔ زیادہ تر امکان یہی ہے کہ مدت میں مزید توسیع کے لئے دوسری بار درخواست دیں گے۔ ابتداء میں 28 جولائی 2017 کے فیصلے کے تحت ریفرنسز کے فیصلوں کے لئے 6 ماہ کی مدت دی گئی تھی۔ بعدازاں اس میں مزید دو ماہ اور سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنس طے کرنے کے لئے تین ماہ کی مدت دی گئی تھی۔ ان مقدمات کی سماعت سے واقف حلقوں کا کہنا ہے کہ سماعت کی تکمیل کے لئے عدالت کو مزید وقت درکار ہوگا۔ نیب کو اپنے گواہوں کی ابھی شہادتیں مکمل کرنا باقی ہیں تب شریف خاندان اپنے دفاع میں شہادتیں پیش کرے گا۔ یہ بھی علم میں نہیں کہ دفاع میں کتنے گواہ پیش کئے جائیں گے لیکن باخبر ذرائع کے مطابق ان کی تعداد درجن بھر ہوگی
04 مئی
............
08 مئی
09 مئی
احتساب
عدالت کے جج محمد بشیرنےسابق وزیر اعظم نواز شر یف کیخلاف العزیزیہ سٹیل ملز
ریفرنس میں مریم صفدر، حسین اور حسن نواز کے سپریم کورٹ میں جمع جے آئی ٹی کو
ریکارڈ کرائے گئےبیانات، قطری شہزادے کا 11 اور 26 جون 2017 کو جے آئی ٹی کو لکھے
گئے خطوط کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بناتے ہوئے سماعت آج صبح 9 بجےتک ملتوی کردی،
العزیزیہ ریفرنس میں واجد ضیاء کا بیان ریکارڈ ، طارق شفیع ، مسٹر آہلی کے درمیان
معاہدہ پیش،بیانات کوریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا ،واجد ضیاء آج بھی اپنا بیان جاری
رکھیں گئے ، جمعرات کو نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ر محمد صفدر عدالت کے روبرو
پیش ہوئے جبکہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاءنے اپنا بیان ریکارڈ کرایا ، سماعت کے
آغاز پر واجد ضیا نے بتایا کہ 20اپریل کوایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے کے
طورپرکام کررہا تھا، 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا
فیصلہ سنایا، عدالت عظمیٰ نے گلف سٹیل کے قیام، فروخت، واجبات سے متعلق سوالات
پوچھے، سرمایہ قطرسے کیسے برطانیہ، سعودی عرب گیا؟ یہ سوال بھی شامل تھا، قطری
شہزادے حماد بن جاسم کا خط افسانہ تھا یا حقیقت ، حسین نوازکی جانب سے والد
کوکروڑوں کے تحائف سے متعلق سوال کئے گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معزول وزیراعظم نواز شریف اور ان کے تین بچوں مریم، حسین اور حسن کے خلاف تین ریفرنسز کی سماعت کرنے والی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر باقی چھ دنوں میں ان مقدمات کی سماعت مکمل نہیں کر پائیں گے جو سپریم کورٹ کی جانب سے دو ماہ کی توسیع شدہ مدت میں باقی رہ گئے ہیں۔ زیادہ تر امکان یہی ہے کہ مدت میں مزید توسیع کے لئے دوسری بار درخواست دیں گے۔ ابتداء میں 28 جولائی 2017 کے فیصلے کے تحت ریفرنسز کے فیصلوں کے لئے 6 ماہ کی مدت دی گئی تھی۔ بعدازاں اس میں مزید دو ماہ اور سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنس طے کرنے کے لئے تین ماہ کی مدت دی گئی تھی۔ ان مقدمات کی سماعت سے واقف حلقوں کا کہنا ہے کہ سماعت کی تکمیل کے لئے عدالت کو مزید وقت درکار ہوگا۔ نیب کو اپنے گواہوں کی ابھی شہادتیں مکمل کرنا باقی ہیں تب شریف خاندان اپنے دفاع میں شہادتیں پیش کرے گا۔ یہ بھی علم میں نہیں کہ دفاع میں کتنے گواہ پیش کئے جائیں گے لیکن باخبر ذرائع کے مطابق ان کی تعداد درجن بھر ہوگی
04 مئی
۔احتساب
عدالت میں شریف خاندان کیخلاف نیب ریفرنس ۔۔وکیل صفائی گواہ عمران ڈوگر پر
جرح مکمل
کسی گوہ نے
نہیں کہا بے نامی جائیداد کے اصل مالک نوازشریف ہیں تفتیشی افسر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنہیں سزا
ملنی چاہیے وہ بری ہورہے ہیں ، جنہیں بری ہونا چاہیے وہ نااہل کردیا گیا، نوازشریف
کی پیشی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
07 مئی 18
احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف نیب
ریفرینس کیس کی سماعت
استغاثہ کے آخری گواہ تفتیشی افسر پر جرح مکمل
نوازشریف
اور مریم نواز کو حاضری سے استشنی دے دیا............
08 مئی
احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف نیب
ریفرینس کیس کی سماعت
احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف
نیب ریفرنسز میں مزید وقت کے لیے سپریم کورٹ کو درخواست دیتے ہوئے کہا ہے کہ تینوں
مقدمات کا فیصلہ ایک ساتھ سنایا جائے گا۔اسلام آباد کی احتساب عدالت میں شریف
خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت ہوئی۔ دوران سماعت احتساب عدالت کے جج محمد
بشیر نے کہا کہ تینوں نیب ریفرنسز پر فیصلہ ایک ساتھ سنایاجائے گا۔ احتساب عدالت
نے نیب ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے مزید وقت مانگ لیا ہے۔ احتساب عدالت نے
سپریم کورٹ کو درخواست دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نیب ریفرنسز کو مکمل کرنے کے
لیے مزید وقت دیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف اسلام آباد کی احتساب عدالت میں دائر مقدمات کی سماعت میں مزید ایک ماہ کی توسیع کر دی
09 مئی
احتساب
عدالت میں العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کیس کی سماعت، واجد ضیا نے اپنا بیان ریکارڈ
کرایا
احتساب
عدالت کے جج محمد بشیرنےسابق وزیر اعظم نواز شر یف کیخلاف العزیزیہ سٹیل ملز
ریفرنس میں مریم صفدر، حسین اور حسن نواز کے سپریم کورٹ میں جمع جے آئی ٹی کو
ریکارڈ کرائے گئےبیانات، قطری شہزادے کا 11 اور 26 جون 2017 کو جے آئی ٹی کو لکھے
گئے خطوط کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بناتے ہوئے سماعت آج صبح 9 بجےتک ملتوی کردی،
العزیزیہ ریفرنس میں واجد ضیاء کا بیان ریکارڈ ، طارق شفیع ، مسٹر آہلی کے درمیان
معاہدہ پیش،بیانات کوریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا ،واجد ضیاء آج بھی اپنا بیان جاری
رکھیں گئے ، جمعرات کو نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ر محمد صفدر عدالت کے روبرو
پیش ہوئے جبکہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاءنے اپنا بیان ریکارڈ کرایا ، سماعت کے
آغاز پر واجد ضیا نے بتایا کہ 20اپریل کوایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے کے
طورپرکام کررہا تھا، 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا
فیصلہ سنایا، عدالت عظمیٰ نے گلف سٹیل کے قیام، فروخت، واجبات سے متعلق سوالات
پوچھے، سرمایہ قطرسے کیسے برطانیہ، سعودی عرب گیا؟ یہ سوال بھی شامل تھا، قطری
شہزادے حماد بن جاسم کا خط افسانہ تھا یا حقیقت ، حسین نوازکی جانب سے والد
کوکروڑوں کے تحائف سے متعلق سوال کئے گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
11 مئی
احتساب عدالت میں العزیزیہ ریفرنس کی سماعت
پاناما جے
آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے مریم نواز کو
جاری کردہ چیکس کی تفصیلات احتساب عدالت میں پیش کردیں۔ جس کے مطابق10مئی 2015سے
31جنوری 2017 کے دوران نواز شریف نے مریم نواز کو40 کروڑ 46لاکھ روپےکے چیکس جاری
کیے۔ جمعہ کو احتساب عدالت میں العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کے دوران نواز شریف عدالت
کے روبرو پیش ہوئے۔ اس موقع پر استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء نے اپنا بیان ریکارڈ
کرایا جو کہ مکمل نہ ہوسکا جس پر فاضل جج محمد بشیر نےسماعت پیر کی صبح ساڑھے نو
بجے تک ملتوی کردی۔ سماعت کے دوران واجد ضیاء نے نواز شریف کی جانب سے مریم نواز
کو جاری چیکوں کی تفصیلات عدالت میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ نواز شریف نے 14اگست
2016کو ایک کروڑ 95لاکھ ، 13جون 2015 کوایک کروڑ 20لاکھ، تین نومبر 2015کو 2کروڑ
88لاکھ، یکم نومبر 2015کو 65لاکھ،10مئی 2015کو دس کروڑ پچاس لاکھ، 21نومبر 2015کو
18لاکھ اور 27 مارچ 2016کو 4کروڑ، 10فروری 2016کو 3کروڑ، 14 فروری2016کو50لاکھ، دس
مئی2016کو3کروڑ 70لاکھ اور 31جنوری 2017کو6کروڑ روپے،28 جون 2015کو 3کروڑ 41لاکھ ،
15مارچ 2015 کو ایک کروڑ تیس لاکھ، چھ فروری 2015کو چھ کروڑ80 لاکھ، 4ستمبر
2015کودو کروڑ 29 لاکھ اور21مئی 2015کو 20 لاکھ روپے کا چیک مریم صفدر کے نام جاری
کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
14 مئی
نواز شریف کےخلاف العزیزیہ فیلڈ ریفرنسزکیس کی
سماعت
سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس میں نیب کے گواہ
واجد ضیاء کا بیان تیسرے روز بھی مکمل نہ ہوسکا اور سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی
گئی۔
احتساب عدالت کے باہر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے سابق
وزیراعظم نواز شریف اپنے بیان پر ڈٹ گئے اور پھر سے وہی سوالات اٹھا دئیے۔ کہا میں
نے پوچھا تھا کہ دہشتگرد 150 لوگوں کو مارنے کیوں گئے تھے مجھے اسکا جواب چاہیے؟۔
میرے بیان میں کونسی غلط چیز ہے بتایا جائے میں نے کہا کیا ہے اس میں کون سی غلط
بات ہے؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
15 مئی
نواز شریف کےخلاف العزیزیہ فیلڈ ریفرنسزکیس کی
سماعت، واجد ضیا کا بیان مکمل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے گزشتہ روز کے
قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے کو مسترد کر دیا،ان کا کہنا ہے کہ یہ اعلامیہ غلط
فہمی پر مبنی ، بڑا خوفناک اور تکلیف دہ ہے۔
نواز شریف اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیشی
کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔
ایک صحافی نے میاں نواز شریف سے سوال کیا کہ 5
سال تک آپ کی حکومت رہی ایک ملک بھی آپ نے دوست نہیں بنایا؟
انہوں نے جواب دیا کہ کوئی ملک ہے جو آج ہمارے
ساتھ کھڑا ہے، آج دنیا میں ہم تنہا ہوگئے ہیں،اتنا پیارا ملک ہے ہمارا، یہ کیا بن
گیا ہے؟
نواز شریف کا کہنا ہے کہ قومی کمیشن بننا چاہیے
تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے،بات ذات کی نہیں پورے ملک کی ہےکہ ملک
کس سمت میں چلا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
16 مئی
احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کیس کی سماعت
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے واجد ضیاء کے بیان پر جرح کی
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے سابق وزیراعظم نواز شریف کیخلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت 21مئی اور ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت جمعہ 18مئی تک ملتوی کردی ہے،ایون فیلڈریفرنس مین عدالت نے ملزمان نوازشریف ،مریم نوازاورکیپٹن صفدر کو 342کے بیان کیلئے 127 سوالات پر مشتمل سوالنامہ فراہم کردیاہے ۔ ملزمان کا بیان کل جمعہ کو ریکارڈ کئے جانیکاامکان ہے۔ بدھ کو نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر عدالت میں پیش ہوئے، اس موقع پر العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے جرح کا آغاز کیا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
16،مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کا کوئی کردار ہے نہ نظریہ‘پی ٹی آئی امپائر کی انگلی کی طرف دیکھنے والی بہتان تراش‘ پگڑی اچھال اور گندی زبان والی پارٹی ہے‘دھرنوں میں عمران خان اور طاہرالقادری کے علاوہ بھی بڑے کردار تھے جنہیں مناسب وقت پر بے نقاب کروں گا‘عمران خان اور طاہر القادری تو مہرے تھے جو انگلیوں کے اشاروں پر ناچ رہے تھے ۔بدھ کو بدھ کو احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے نوازشریف نے کہاکہ تحریک انصاف ایمپائر کی انگلی کی طرف دیکھنے والی پارٹی ہے‘ان کا عوام اور ووٹ کو عزت دو، پر یقین نہیں ہے‘‘انہوں نے کہا کہ اچھا ہوا جو پختونخواہ میں ان کی حکومت تھی‘ پختونخواہ کے عوام نے ان کی تبدیلی دیکھ لی،سب سامنے آ گیا۔ نواز شریف نے کہا کہ ہمارے خلاف دھرنے دلوائے گئے‘ ان دھرنوں میں بڑے بڑے کردار ہیں‘ان دھرنوں میں عمران خان ، طاہرالقادری اور کچھ اور کردار بھی ہیں، گھبرانے والا نہیں‘ وقت
آنے پر ان کرداروں کے نام لوںگا‘ ابھی مناسب وقت نہیں ہے ۔سابق وزیراعظم کا یہ بھی کہناتھاکہ ڈان لیکس کے بعد سینیٹر پرویز رشید سے جب استعفیٰ لیا تو اس وقت کسی اور سے بھی استعفیٰ لینا چاہتا تھا مگر عملدرآمد نہیں کر سکا ‘سوچا ضرور تھا کہ طلب کر کے استعفیٰ لوں مگر بوجہ ایسا نہیں کر سکا کاش یہ کام میرے ہاتھوں ہو جاتا تو سیاست میں ان طاقتوں کے راستے بند ہو جاتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
18 مئی
سوالنامے پر
اعتراض، نواز،مریم،صفدر کو بیان دینے کی آخری مہلت
18 مئی
احتساب
عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کیس کی سماعت
سوالنامے پر
اعتراض، نواز،مریم،صفدر کو بیان دینے کی آخری مہلت
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس کے ملزمان سابق
وزیر اعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو بیان ریکارڈ کرانےکیلئے آخری
مہلت دیتے ہوئے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔ جبکہ العزیزیہ ریفرنس میں واجد
ضیاء کے بیان پر خواجہ حارث منگل کو جرح کرینگے۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث
نےنیب کے سوالنامے پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہاکہ بعض سوال سمجھ میں نہیں آ رہے،
بیان بعد میں قلمبند کیا جائے۔ جس پر ڈپٹی پراسیکوٹر نیب مظفر عباسی نے کہا کہ یہ
عدالت کا وقت ضائع کررہے ہیں۔جمعہ کو ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کی سماعت کے دوران
نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ اس موقع پر نواز
شریف کے وکیل نے نیب کے سوالنامے پر اعترا ضا ت اٹھاتے ہوئے کہاکہ ملزمان کو دیئے
گئے سوالنامے میں بعض سوال ایسے ہیں جو سمجھ میں نہیں آ رہے، ہم چاہتے ہیں کہ ملزمان
کا بیان بعد میں قلمبند کیا جائے، ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی نے
خواجہ حارث کے استدلال کی
مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ حارث کو جو سوالات سمجھ میں آ رہے
ہیں ان سوالا ت پر بیان قلم بند کرا لیں، خواجہ حارث عدالت کا وقت ضائع کر رہے
ہیں، ہم تعاون کر رہے ہیں لیکن وہ ہمارے ساتھ تعاون نہیں کر رہے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
21 مئی
ایونفیلڈ ریفرنس کیس کی سماعت
اس موقع پر نامزد تینوں ملزمان نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن
(ر) صفدر کمرہ عدالت میں موجود رہے۔ احتساب عدالت نے تینوں ملزمان سے 127 سوالات
پر مشتمل سوالنامے کا جواب طلب کیا تھا۔ سماعت شروع ہوئی تو سابق وزیراعظم نواز
شریف نے پہلے سوال میں اپنے عوامی عہدوں کی تفصیلات پڑھ کر سنائیں۔سابق وزیراعظم
نے تقریباً 4 گھنٹے تک اپنا بیان قلمبند کرایا جسکے دوران انہوں نے 127 میں سے 55
سوالات کے جواب دیے
سابق وزیراعظم نواز
شریف نے احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران نے بیان قلمبند
کراتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ نا مناسب اور غیر ضروری تھا، سپر یم کورٹ
کے فیصلے سے فری اور شفاف ٹرائل کا حق متاثر ہوا، جے آئی ٹی ممبران کی سیاسی
وابستگی اور جانبداری ظاہر ہے، جے آئی ٹی میں حساس اداروں کی شمو لیت سے سول
ملٹری تعلقات میں تنائو بڑھا، سپریم کورٹ کی طرف سے جے آئی ٹی کو قانونی
درخواستیں نمٹانے کیلئے دیئے گئے اختیارات اور والیم دس کی خود ساختہ رپورٹ غیر متعلق
ہے،یہ ناقابل قبول شہادت ہے، استغاثہ لندن فلیٹ سے میرا تعلق ثابت کرنے میں بری
طرح ناکام رہا، ان فلیٹس کا مالک ہوں نہ ہی انکی خریداری کے لئے رقم دی، جے آئی
ٹی تفتیش یکطرفہ تھی، مقصد معاونت تھا ریفرنس نہیں، حدیبیہ پیپر ملز کے معاملات
والد دیکھتے تھے، فلیٹس خریداری کا حسین نواز پوچھیں۔ سابق وزیر اعظم نے ایون فیلڈ
ریفرنس میں127 میں سے 55سوالات کے جواب ریکارڈ کرا دیئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
22 مئی
22 مئی
اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف نے ایون
فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں مسلسل دوسرے روز اپنا بیان قلمبند کراتے ہوئے کہا کہ
قطری خاندان کے ساتھ کاروبار میں خود شریک نہیں رہا۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نیب کی جانب سے دائر ریفرنس کی
سماعت کی، اس موقع پر نامزد ملزمان نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر
کمرہ عدالت میں موجود رہے۔
احتساب عدالت نے نواز شریف سے 128 سوالات کے جواب طلب کر رکھے ہیں
اور آج انہوں نے 68 سوالات کے جواب پڑھ کر سنائے جب کہ گزشتہ روز سابق وزیراعظم
نے 55 سوالات کے جواب دیے تھے۔
سابق وزیراعظم نے آج کی سماعت کے دوران قطری شہزادے کے خظ، گلف
اسٹیل ملز، کیپٹل ایف زیڈ ای سمیت دیگر اثاثوں سے متعلق پوچھے گئے سوالات کے جواب
دیے۔
سماعت کے دوران نواز شریف نے اپنا بیان قلمبند کرانے کے دوران قطری
خطوط کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ 'خطوط کی تصدیق خود حمد بن جاسم نے سپریم کورٹ کو
خط لکھ کر کی جب کہ وہ بیان دینے کو بھی تیار تھے لیکن جے آئی ٹی نے ان کا بیان
ریکارڈ نہیں کیا۔
نواز شریف نے کہا کہ واجد ضیا کا سارا بیان رائے پر مبنی تھا
جو جے آئی ٹی نے خود بنایا، جے آئی ٹی کی رائے قابل قبول شہادت نہیں اور واجد ضیاء
کے اخذ کردہ نتائج بھی قابل قبول شہادت نہیں۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ 'قطری خاندان کے ساتھ سرمایہ کاری
اور ایون فیلڈ کی سیٹلمنٹ سے میرا کوئی تعلق نہیں'۔
نواز شریف نے کہا کہ واجد ضیاء کے مطابق حمد بن جاسم میرے کہنے پر
شامل تفتیش نہیں ہوئے جو بھونڈا الزام ہے جب کہ واجد ضیاء نے کہا جے آئی ٹی نے
فیصلہ کیا کہ کسی کو بھی سوالنامہ نہیں بھیجا جائے گا۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ دوران جرح واجد ضیاء نے تسلیم کیا کہ جرمی
فری مین کو سوالنامہ بھجوایا گیا، یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ واجد ضیاء قابل اعتبار
گواہ نہیں، وہ ملزمان کو کیس میں ملوث کرنے کے لئے جعلسازی بھی کر سکتے تھے۔
نواز شریف نے مزید کہا کہ سب گواہ ہیں کہ واجد ضیاء کو مریم نواز
نے ٹرسٹ ڈیڈ دیں، وہ جانبدار، متعصب اور مجھ سے مخالفت رکھتے ہیں'۔
احتساب عدالت کی جانب سے پوچھے گئے سوال 'کیپیٹل ایف زیڈ ای سے
متعلق اصل سرٹیفکیٹ پیش کیا گیا، کیا کہیں گے؟' پر نواز شریف نے کہا کہ یہ
دستاویزات قانون شہادت کے تحت قابل قبول نہیں، واجد ضیا نے بیان رکارڈ کراتے ہوئے
یہ دستاویز مذموم مقاصد کے تحت پیش کیں، اس دستاویز کا عائد کی گئی فرد جرم
سے تعلق نہیں۔
نواز شریف نے کہا کہ کمپنی کے قرض اور لین دین کے معاملات سے بھی
کوئی تعلق نہیں، متحدہ عرب امارات کی وزارت انصاف کا خط کسی ایم ایل اے کے جواب
میں آیا تو معلوم نہیں۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ عرب امارات کی وزارت انصاف کے خط کو
کبھی ریکارڈ پر بطور شواہدنہیں لایا گیا اس لیے اسے بطور شہادت استعمال نہیں کیا
جاسکتا۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ جافزا کے فارم 9 اور ملازمت کا ریکارڈ
قابل قبول شہادت نہیں اور قانون شہادت کہتا ہے کہ اسکرین شاٹ قابل قبول شہادت
نہیں۔
دبئی اسٹیل ملز سے متعلق نواز شریف نے کہا کہ دبئی اسٹیل ملز کی
افتتاحی تقریب میں شرکت کے علاوہ مجھے باقی معاملات کا پتہ نہیں۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ گلف اسٹیل کے 80 فیصد شئیرز کی فروخت 1980
کے معاہدے میں کبھی شامل نہیں رہا اور گلف اسٹیل مل کی فروخت اور ٹرانزیکشن سے
کوئی تعلق نہیں ہے۔
احتساب عدالت کے سوال 'بائیس جون 2012 کا موزیک فونسیکا کے نیلسن
اور نیسکول سے متعلق خط پر کیا کہتے ہیں؟' کا جواب دیتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ
جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا کے پیش کردہ موزیک فونسیکا کے 2012 کے خط کو پرائمری
دستاویز نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ یہ خط مروجہ قوانین کے تحت مصدقہ نہیں، واجد ضیاء
کی دستاویز کا متن شہادت کے طور پر پڑھنا ملزم کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔
نواز شریف نے کہا کہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کے اختر راجا کزن
ہیں جن کا عدالت میں دیا گیا بیان جانبدارانہ تھا۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ جیرمی فری مین کے 5 جنوری 2017 کے خط میں
ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق کی گئی جس نے کومبر گروپ اور نیلسن نیسکول ٹرسٹ کی تصدیق کی۔
نوا زشریف نے کہا 'جیرمی فری مین کے پاس ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپی آفس میں
موجود تھی لیکن اختر راجا اور جے آئی ٹی نے ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپیاں لینے کی کوشش نہیں
کی، اختر راجا کو معلوم ہونا چاہیے کہ فوٹو کاپی پر فرانزک معائنے کا کوئی تصور
موجود نہیں۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ اختر راجا نے جلد بازی میں دستاویزات خود
ساختہ فرانزک ماہر کو ای میل کے ذریعے بھجوائیں اور یہ بھی حقیقت ہے فرانزک ماہر
نے فوٹو کاپی پر معائنے کے لیے ہچکچاہٹ ظاہر کی۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ اختر راجہ نے نیب کی 3رکنی ٹیم کی رابرٹ
ریڈلے سے ڈھائی گھنٹے ملاقات کرائی، رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ کی کوئی حیثیت نہیں، اُس
کے پاس اصل دستاویز ہی نہیں تھی جب کہ سپریم کورٹ میں پہلے جمع کرائی گئی ڈیڈ میں
غلطی سے پہلا صفحہ مکس ہوگیا تھا اور اختر راجا نے اس واضح غلطی کی نشاندہی بھی
نہیں کی۔
حسن اور حسین بالغ ہیں اور اپنے عمل کے خود ذمہ
دار ہیں، نواز شریف
احتساب عدالت کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ یہ
درست ہے کہ حسن اور حسین اس عدالت کی طرف سے اشتہاری قرار دیے گئے اور ان کا
اشتہاری قرار دیا جانا میرے خلاف استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
نواز شریف نے کہا کہ حسن اور حسین بالغ ہیں اور وہ اپنے عمل کے خود
ذمہ دار ہیں۔
نیب پراسیکیوٹر کا بیان قلمبند کیے جانے کے طریقے
پر اعتراض
سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر نے ملزم کے بیان قلمبند کیے جانے کے
طریقے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ 6 دن کی لکھی ہوئی
کہانی پڑھ کر سناتے رہیں، 342 کے بیان کی منشاء یہ ہے کہ ملزم بیان قلمبند کرائے
جس کے دوران قانونی نکات پر وکیل سے مدد لی جاسکتی ہے۔
اس موقع پر جج محمد بشیر نے کہا کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں وہ
بتائیں جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ میرا اعتراض عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا لیا
جائے۔
نواز شریف نے اس موقع پر کہا کہ میں اس بیان پر قائم ہوں، یہ بیان
میں نے خود وکیل خواجہ حارث کی مشاورت سے تیار کیا ہے۔
نواز شریف نے کہا کہ میں زیادہ دیر تک پڑھتا رہوں تو گلے میں مسئلہ
ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ میں نے خواجہ صاحب کو پڑھنے کا کہا، نیب کو اس پر اعتراض
کرنا تھا تو گزشتہ روز کرلیتے۔
نیب پراسیکیوٹر کے اعتراض کے بعد نواز شریف نے خود بیان پڑھنا شروع
کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
23 مئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احتساب
عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت
سابق وزیراعظم کا بیان مکمل ہونے کے بعد مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر اپنا بیان کل قلمبند کرائیں گے۔
سابق وزیراعظم کا بیان مکمل ہونے کے بعد مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر اپنا بیان کل قلمبند کرائیں گے۔
نوازشریف
نے گزشتہ روز 128 سوالوں میں سے 123 کے جوابات دے دیے تھے
احتساب
عدالت میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ ’ مجھے
نکالے جانے کی سب سے بڑی وجہ پرویز مشرف کیخلاف غداری کیس ہے،مشرف غداری کیس قائم
کرتے ہی مشکلات اور دباو بڑھادیا گیا، مجھے دھمکی نما مشورہ دیا گیا کہ بھاری پتھر
اٹھانے کا ارادہ ترک کردو،مجھےبذریعہ زرداری پیغام دیاکہ مشرف کےدوسرےمارشل
لاءکوپارلیمانی توثیق دی جائے،میں نے انکار کر دیا۔یہ ہے میرے اصل جرائم کا خلاصہ۔
انہوں
نے مزید کہا کہ اس طرح کے جرائم اور مجرم پاکستانی تاریخ میں جابجا ملیں گے، کاش
آج آپ یہاں لیاقت علی خان اورذوالفقار علی بھٹو کی روح کوطلب کرسکتے،ان کی روح
سےپوچھ سکتےکہ آپکےساتھ کیا ہوا، کاش آج آپ بے نظیربھٹوکی روح کوطلب کرکے پوچھ
سکتےکہ آپکےساتھ کیا ہوا؟کاش آپ تمام وزراءاعظم کوبلاکرپوچھ سکتےانہیں آئینی
مدت پوری کرنے کیوں نہیں دی گئی؟ کاش آپ سینئر ججز کو بلاکر پوچھ سکتے کہ وہ کیوں
ہرمارشل لاء کو خوش آمدید کہتے رہے،کاش آج آپ ایک زندہ جرنیل کو بلاکر پوچھ
سکتے کہ اس نے آئین کے ساتھ کھلواڑ کیوں کیا ؟
24 مئی
احتساب
عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت مریم نواز نے اپنا بیان
قلمبند کرایا
سابق
وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے ایون فیلڈ ریفرنس میں بیان قلم بند
کراتے ہوئے کہا کہ آئی ایس آئی اورایم آئی افسران کی جے آئی ٹی میں تعیناتی
مناسب نہیں تھی ، ستر سالہ سول ملٹری جھگڑے کا بھی جے آئی ٹی پر اثر پڑا ، عرفان
منگی کی تعیناتی کا کیس سپریم کورٹ میں ابھی تک زیر التوا ہے ،اس کو بھی جے آئی
ٹی میں شامل کر دیا گیا ۔
انہوں
نے کہا کہ سال 2000میں عامر عزیز بطور ڈائریکٹر بینکنگ کام کر رہے تھے ، ان کو
2000میں مشرف حکومت نے ڈیپوٹیشن پر نیب میں تعینات کیا۔
مریم
نواز نے کہا کہ میری اطلاعات کے مطابق بریگیڈیئر نعمان سعید ڈان لیکس کی انکوائری
کمیٹی کا حصہ تھے جس کی وجہ سے سول ملٹری تناؤ میں اضافہ ہو۔
انہوں
نے مزید کہا کہ جے آئی ٹی میں تعیناتی کے وقت نعمان سعید آئی ایس آئی میں نہیں
تھے،ان کو آوٹ سورس کیا گیا کیونکہ ان کی تنخواہ بھی سرکاری ریکارڈ سے ظاہر نہیں
ہوتی ،سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو اختیارات دیے کہ قانونی درخواستوں کو نمٹایا جا
سکے،ایسے اختیارات دینا غیر مناسب اور غیر متعلقہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احتساب عدالت کے باہر صحافی نے نوازشریف سے سوال کیا کہ،ماتحت
ادارے کے جس سربراہ نے آپ کو پیغام پہنچایا اس سے استعفا کیوں نہیں لیا؟
نواز
شریف نے جواب دیا کہ میں نے تحمل ،درگزر،بردباری اور ہمت کا مظاہرہ کیا،میں اس
ادارے کے سربراہ کو برطرف کرسکتا تھا، ملکی مفاد میں برطرف نہیں کیا، درگزرسے کام
لیا۔
انہوں
نے کہا کہ ہر چیز کا ایک وقت ہوتاہے ، کہنے کا،بات کرنے کا، عدالت کے سامنے معاملہ
آیا تو میں نے بتادیا،حقائق تھے ،منظر عام پر آنا چاہیے تھے، ان مسائل نے 70سال
سے ہماری جان نہیں چھوڑی۔
صحافی
نے سوال کیا کہ اگر سر جھکاکے نوکری نہیں کی تو مشاہداللہ اور پرویز رشید سے
استعفا کیوں لیا؟
نوا
زشریف نے جواب دیا کہ مشاہداللہ اور پرویز رشید سے استعفا لینا بھی اس بردباری اور
درگزر کا نتیجہ ہے ۔
انہوں
نے مزید کہا کہخوشگوار حیرت ہوئی کہ گزشتہ روز میڈیا نے ان کا سارا بیان دکھایا،سب
کو کھڑا ہونا پڑے گا، سب کھڑے ہونگے تو سب ممکن ہوگا۔
25 مئی
احتساب عدالت میں نوازشریف
کے خلاف ریفرنیسز کیس کی سماعت ،
احتساب عدالت میں مریم نواز کا بیان دوسرے روز بھی مکمل نہ
ہو سکا، ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں مزید 36 عدالتی سوالوں کے جوابات ریکارڈ
کرائے، 128میں سے 82 سوالات کے جواب قلمبند کیے جاچکے ۔
مریم نواز نے کہا کہ جے آئی ٹی نے ٹرسٹ ڈیڈ کے فرانزک
جائزے کیلئے براہ راست یادفترخارجہ کے ذریعے فرانزک ایکسپرٹ کی خدمات حاصل کرنے کے
بجائے واجد ضیا کے کزن کوئسٹ سالیسٹر اختر راجا کے ذریعے رابرٹ ریڈلے کی خدمات
حاصل کیں تاکہ مرضی کی رپورٹ حاصل کی جا سکے ۔
انہوں نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے نے فوٹوکاپیز کا موازنہ کر کے
جائزہ رپورٹ تیار کی جو فرانزک سائنس کے طے شدہ قوانین اور ضوابط کے خلاف ہے، جس
انداز میں ٹرسٹ ڈیڈ زرابرٹ ریڈلے لیبارٹری کو بھجوائی گئیں اور جے آئی ٹی کو
رپورٹ موصول ہوئی وہ ایک معمہ ہے، انہوں نے جے آئی ٹی کو ٹرسٹ ڈیڈز کی نوٹرائزڈ
تصدیق شدہ کاپیز دی تھیں۔
رابرٹ ریڈلے کی یہ رائے بدنیتی پر مبنی ہے کہ 31جنوری 2007
میں کمرشل دستیابی سے پہلے کیلبری فونٹ کا استعمال ممکن نہ تھا، ریڈلے نے دوران
جرح اعتراف کیا کہ فونٹ 2005 سے دستیاب تھا اور وہ خود بھی ڈاؤن لوڈ کر کے
استعمال کرچکے، رابرٹ ریڈلے نے یہ اعتراف بھی کیا کہ کیلبری فونٹ کے خالق لوکس ڈی
گروٹ کو یہ فونٹ ڈیزائن کرنے پر 2005 میں ایوارڈ دیا گیا۔
مریم نواز نے کہا کہ جیریمی فری مین نے کومبر گروپ ، نیلسن
اور نیسکول سے متعلق دونوں ٹرسٹ ڈیڈ ز کی تصدیق کی اور بتایا کہ اس کے آفس میں
کاپیاں دستیاب ہیں مگر کوئسٹ سالیسٹر اختر راجہ یا نیب کے تفتیشی افسر نے وہ حاصل
کرنے کی کوشش ہی نہ کی۔
احتساب عدالت میں بیان ریکارڈ کراتےہوئے مریم نواز
کاکہناتھاکہ قطری خاندان کے ساتھ کاروبار یا ٹرانزیکشن سے ان کاکوئی تعلق نہیں،
قطری شہزادہ اپنے محل میں بیان قلمبند کرانے کیلئے تیار تھا اور ہر بار سپریم کورٹ
میں پیش کیے گئے اپنے خطوط کی تصدیق بھی کی، گلف اسٹیل کے شیئرز کی فروخت کے
معاہدے کا مجھ سے تعلق نہیں، مریم نواز پیر کو اپنا بیان مکمل کرائیں گی۔
سابق وزیراعظم نواز شریف نے سابق صدر پرویز مشرف
پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پرویز مشرف مکّا دکھاتے تھے، کہتے تھے یہ ہے طاقت
،کہاں گیا وہ مکّا؟
سابق وزیراعظم نواز شریف نے احتساب عدالت میں
صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پرویزمشرف نے 12مئی 2007کو اسلام آباد
جلسے میں کراچی میں آزمائی گئی طاقت کا اظہار مکا دکھا کر کیا اور جب مشرف
پارلیمنٹ میں آئے تو آخر میں مُکا لہرایا ، اگر ان میں طاقت ہے تو بزدلی سے باہر
کیوں بیٹھے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
28 مئی
احتساب عدالت میں نوازشریف کے خلاف ریفرینس کیس کی سماعت
28 مئی
احتساب عدالت میں نوازشریف کے خلاف ریفرینس کیس کی سماعت
مریم نواز کا بیان مکمل ، کبھی لندن فلیٹس کی بینی فشل مالک نہیں رہی ، غیر ملکی گواہ پر جرح سے محروم رکھا گیا، مریم نواز
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ فتح میرے بیانیے اور مؤقف کا نصیب ہوگی، فتح کے علاوہ دوسری منزل ہی کوئی نہیں ہے۔
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ فتح میرے بیانیے اور مؤقف کا نصیب ہوگی، فتح کے علاوہ دوسری منزل ہی کوئی نہیں ہے۔
اسلام
آباد کی احتساب عدالت میں نواز شریف نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے مزید
کہا کہ میرےاٹک قلعہ میں طیارہ ہائی جیک اور اس کیس میں مؤقف ایک ہی ہے، اس وقت
نکالے جانے کی وجوہات بھی یہی تھیں۔ میری نیب اسلام آباد میں 75ویں پیشی
تھی۔ مریم نواز آج بھی چار گھنٹے کٹہرے میں کھڑی رہی ہیں اس سے ایک روز قبل بھی
اتنے ہی گھنٹے کٹہرے میں کھڑے ہو کر بیان ریکارڈ کرایا اس سے پہلے میں بھی کٹہرے
میں کھڑا رہا ،سوچنا چاہیے یہ کیا ماجرا ہے ؟۔ میں نے تو کسی سے میڈل نہیں مانگا ۔
مجھے صرف اس بات پر نکال دیا گیا کہ میں نے اپنے بیٹے سے تنخواہ کیوں نہیں لی اور
مجھے کہا کہ گھر جاو ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
29 مئی
ایون فیلڈ
ریفرنس، کیپٹن صفدر نے بیان قلمبند کرایا
ایون فیلڈ ریفرنس میں
کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے احتساب عدالت کی جانب سے پوچھے گئے 130میں سے 80سوالات کے
جواب ریکارڈکرادیئے ‘کیپٹن (ر) صفدر نے فاضل عدالت کو بتایا ہے کہ مریم نوازکو
نیلسن اور نیسکول کا ٹرسٹی بنایا گیا تھا اور انہوں نے بطور گواہ ٹرسٹ ڈیڈ پر
دستخط کیے تھے۔جے آئی ٹی میں سخت ماحول تھا، جیسے جنگی قیدی بیٹھے ہوں۔ جے آئی
ٹی کو بتادیاتھا وعدہ معاف گواہ نہیں بنو ں گا۔تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کے
جج محمد بشیر نے نیب ریفرنس کی سماعت کی۔ سابق وزیراعظم کے داماد کیپٹن (ر) صفدر
نے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہاکہ میری عمر 55 سال ہے، گزشتہ 10 برسوں سے رکن قومی
اسمبلی ہوں‘مجھے اور میری اہلیہ کو 20 اپریل کے فیصلے میں شامل تفتیش ہونے کی کوئی
ہدایت نہیں تھی ٗپراسیکیوٹر نیب نے کیپٹن (ر) صفدر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ میرے
بس میں نہیں 5، 6 لوگ آپکے پیچھے بھی کھڑے کر دیتا، کتنی ذیادتی ہے آپ اکیلے
کھڑے ہیں۔نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے کیپٹن (ر) صفدر کا بیان انکے وکیل کی جانب
سے لکھوانے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ سوال ملزم سے کیا جائے اور جواب وکیل دے،
تینوں ملزمان کے جوابات ایک جیسے ہیں عدالت کا وقت بچایا جائے۔ جس پر وکیل امجد
پرویز نے کہا جب سوال ایک جیسے ہوں گے تو جواب بھی ایک جیسا ہی آئے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
29 مئی
ایون فیلڈ
ریفرنس، کیپٹن صفدر نے بیان قلمبند کرایا
ایون فیلڈ ریفرنس میں
کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے احتساب عدالت کی جانب سے پوچھے گئے 130میں سے 80سوالات کے
جواب ریکارڈکرادیئے ‘کیپٹن (ر) صفدر نے فاضل عدالت کو بتایا ہے کہ مریم نوازکو
نیلسن اور نیسکول کا ٹرسٹی بنایا گیا تھا اور انہوں نے بطور گواہ ٹرسٹ ڈیڈ پر
دستخط کیے تھے۔جے آئی ٹی میں سخت ماحول تھا، جیسے جنگی قیدی بیٹھے ہوں۔ جے آئی
ٹی کو بتادیاتھا وعدہ معاف گواہ نہیں بنو ں گا۔تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کے
جج محمد بشیر نے نیب ریفرنس کی سماعت کی۔ سابق وزیراعظم کے داماد کیپٹن (ر) صفدر
نے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہاکہ میری عمر 55 سال ہے، گزشتہ 10 برسوں سے رکن قومی
اسمبلی ہوں‘مجھے اور میری اہلیہ کو 20 اپریل کے فیصلے میں شامل تفتیش ہونے کی کوئی
ہدایت نہیں تھی ٗپراسیکیوٹر نیب نے کیپٹن (ر) صفدر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ میرے
بس میں نہیں 5، 6 لوگ آپکے پیچھے بھی کھڑے کر دیتا، کتنی ذیادتی ہے آپ اکیلے
کھڑے ہیں۔نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے کیپٹن (ر) صفدر کا بیان انکے وکیل کی جانب
سے لکھوانے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ سوال ملزم سے کیا جائے اور جواب وکیل دے،
تینوں ملزمان کے جوابات ایک جیسے ہیں عدالت کا وقت بچایا جائے۔ جس پر وکیل امجد
پرویز نے کہا جب سوال ایک جیسے ہوں گے تو جواب بھی ایک جیسا ہی آئے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
30 مئی
نوازشریف کےخلاف ایون فیلڈریفرنس کی سماعت
سابق
وزیراعظم نواز شریف کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر نے اپنا مکمل بیان قلمبند
کرادیاان کا کہنا تھا کہ گلف اسٹیل ملز کے 25 فیصد حصص کی فروخت میں کبھی فریق
نہیں رہا، العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سربراہ جے آئی ٹی واجد ضیا کو کل طلب کر
لیا گیا۔
اسلام
آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نیب کی جانب سے دائر ریفرنس کی سماعت
کی، اس موقع پر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
دوران
سماعت کیپٹن ریٹائرڈ صفدر سے آج 48 سوالات کے جواب دیے جن میں سے بیشتر کے جواب
میں انہوں نے کہا کہ یہ سوالات ان سے متعلق نہیں ہیں۔جبکہ گزشتہ روز انہوں نے 148
میں سے 80 سوالات کے جواب دیے تھے ۔
سماعت
کے دوران بیان قلمبند کراتے ہوئے کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے کہا کہ واجد ضیاء کے پیش
کردہ 12 جون 2012 کا خط میرے متعلق نہیں اور یہ خط فرد جرم قوانین کے مطابق تصدیق
شدہ نہیں۔انہوں نے کہا کہ موزیک فونسیکا کا خط بھی میرے متعلق نہیں، یہ خط پرائمری
دستاویز نہیں جسے شہادت کے طور پر نہیں لیا جا سکتا اور خط کو شہادت کے طور پر
قبول کرنا شفاف ٹرائل منافی ہوگا۔
نوازشریف مریم نواز سمیت ن لیگ کا کوئی رہنما اور کارکن احتساب عدالت
نہیں پہنچا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
31 مئی
31 مئی
احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کیس کی سماعت
استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء پر وکیل صفائی نے جرح کی
اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیشی پر آئے ہوئے نوازشریف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت میں وقفے کے دوران صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کر رہے تھے۔
اس موقع پر ایک صحافی نے ان سے سوال کیا کہ آج تاریخی دن ہے، حکومت نے 5 سال مکمل کر لیے۔
جس پر نواز شریف نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ بہت ہی تاریخی دن ہے،ایسا تاریخی دن کبھی نہیں دیکھا۔
ان کا حکومتی مدت مکمل ہونے پر تبصرہ کرتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ آج 80 کے قریب پیشیاں ہوچکی ہیں، آج کے دن سب کچھ ہی تاریخی ہے۔
صحافی نے مزید سوال کیا کہ کیا عمران خان نے نگراں وزیراعلیٰ پنجاب کی نامزدگی پر یوٹرن نہیں لیا؟ جس پر میاں نوازشریف نے کچھ نہیں کہا صرف مسکرا دیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جون 01
احتساب عدالت میں العزیزیہ اسٹیل مل ریفرینس کی سماعت
نوازشریف اور کیپٹن صفدر پیش ہوئےئے
مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے جمعہ کو دوسرے روز بھی جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء پر العزیزیہ اسٹیل ریفرنس میں جرح جاری رکھی اورعدالت کا وقت ختم ہونے پر سماعت پیر تک ملتوی کردی۔ واجد ضیاء نے کہا کہ نوازشریف گلف اسٹیل کے کاروبار میں شامل رہے ، نہ مالک ہونیکاثبوت ملا،انہوں نے بتایا کہ حسین نواز دراصل نواز شریف کے بے نامی دار ہیں۔ سماعت کے دوران عدالت میں تینوں ملزمان نوازشریف، مریم نوازاور کیپٹن(ر) صفدر موجود تھے جنہیں وقفہ کے دوران فاضل عدالت نے جانے کی اجازت دے دی۔ خواجہ حارث کی جرح کے جواب میں بتایا کہ جے آئی ٹی نے عباس شریف کے خاندان کے کسی فرد یا رابعہ شہباز کو طلب نہیں کیا، ایسے کوئی شواہد بھی نہیں ملے جس سے ظاہر ہوکہ عباس شریف یا رابعہ شریف نے العزیزیہ کے منافع سے حصہ لیا ہو، ایسے شواہد بھی نہیں ملے جس سے ظاہرہوکہ العزیزیہ کے آپریشنل رہنے تک رابعہ شہباز کبھی سعودی عرب گئی ہوں۔ ایف آئی اے کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل واجد ضیاء نے خواجہ حارث کے سوال کے جواب میں بتایا کہ حسین نواز نے جے آئی ٹی میں بیان دیا کہ دادا ابو ضعیف ہوچکے تھے اس لئے العزیزیہ کی ذمہ داری مجھے دی۔ گواہ نے اعتراف کیا کہ نواز شریف کیخلاف العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں ایسی کوئی دستاویزات نہیں ملیں جس سے اس بات کی تصدیق نہیں ہوتی کہ نوازشریف گلف سٹیل کے کاروبار میں کسی بھی طرح شامل رہے یا کسی بھی حیثیت میں گلف سٹیل کا کاروبار سنبھالا، واجد ضیا نے جوا ب دیا کہ جے آئی ٹی کو ایسا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ملا، جس سے ہم یہ جان سکیں کہ نوازشریف کو ہل میٹل کا کاروبار چلانے کی اتھارٹی دی گئی ہو اور ہل میٹل سے نواز شریف کو قرض لینے کا اختیار پر ملاہو جبکہ ایسی کوئی دستاویز بھی نہیں ملی کہ نوازشریف ہل میٹل کی طرف سے مالی اداروں سے ڈیل کرتے ہوں، انہوں نے مزید اعتراف کیا کہ زبانی شواہد بھی نہیں ملے ،جو ظاہر کریں کہ نواز شریف ہل میٹل کی طرف سے ڈیل کرتے ہیں، جے آئی ٹی سربراہ نے مزید بتایا کہ ایسی دستاویزات نہیں ملیں کہ گلف اسٹیل کیلئے قرضہ لیا ہو یا نواز شریف گلف سٹیل کی فروخت میں شامل رہے ہوں۔ خواجہ حارث کے سوال کے جواب میں واجد ضیاء نے بتایا کہ دستاویزات کے مطابق ہل میٹل 2005 میں رجسٹرڈ ہوئی جبکہ ہماری تفتیش کے مطابق بھی یہ 2005 میں ہی رجسٹر ہوئی۔
...................
04 جون
احتساب عدالت میں نوازشریف کے خلاف نیب ریفرنیسز کی سماعت
شریف فیملی کی گلف اسٹیل کا معاہدہ جعلی تھا، واجد ضیا
ہم اچھی خاصی بجلی چھوڑ کرگئے سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا ،
نوازشریف کی احتساب عدالت کے موقع پر میڈیا سے گفتگو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
05 جون
احتسا ب عدالت میں نوازشریف کے خلاف ریفرینس کیس کی سماعت
اس سوال پر کہ الزام ہے
کہ ریحام خان کی کتاب کے پیچھے ن لیگ ہے تونوازشریف نے جواب دیا کہ اور کچھ نہیں
ملا تو یہ الزام لگا دیا۔
05 جون
احتسا ب عدالت میں نوازشریف کے خلاف ریفرینس کیس کی سماعت 05،
احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی نیب ریفرنسز میں
حتمی دلائل ایک ہی بار سننے کی درخواست مسترد کر تے ہوئے کہا ہے کہ ملزم اس فیصلے
کے خلاف ہائیکورٹ چلے جائیں، اس دوران ہم العزیزیہ ریفرنس میں واجد ضیا کو بلالیتے
ہیں۔ منگل کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کی جس کے
دوران نواز شریف کی جانب سے متفرق درخواست دائر کی گئی۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ ایون فیلڈ ریفرنس کے علاوہ
دیگر 2 ریفرنسز میں واجد ضیا اور تفتیشی افسر کے بیانات مکمل ہونے تک حتمی دلائل
مخر کیے جائیں اور تمام ریفرنسز میں ایک ساتھ حتمی دلائل سنے جائیں۔۔عدالت نے تمام
گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرنے تک نواز شریف کی درخواست مسترد کردی۔فاضل جج محمد
بشیر نے قرار دیا کہ ملزم اس فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ چلے جائیں، اس دوران ہم
العزیزیہ ریفرنس میں واجد ضیا کو بلالیتے ہیں۔
صحافیوں سےغیررسمی گفتگو کے
دوران سابق وزیر اعظم نواز شریف نے شعر سنا ڈالا کہ
جو ٹھوکرنہ کھائےنہیں جیت اس
کی
جوگرکر سنبھل جائےہےجیت اس کی
اسلام آباد کی احتساب عدالت
میں صحافیوں سےغیررسمی گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ ماضی میں بار بار گرے
ہیں سنبھلنا چاہئے،اپنا گھر ٹھیک ہو تو سب ٹھیک ہوتا ہے ۔
ایک سوال کے جواب میں
نوازشریف نے کہا کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی ذمہ دار نگراں حکومت ہے، مسلم لیگ نون کی
حکومت سسٹم میں10ہزارمیگاواٹ کا اضافہ کرکے گئی، حکومت کے اختتام تک کوئی لوڈشیڈنگ
نہیں تھی ،اب اگربجلی پوری نہیں توذمہ دار نگراں حکومت ہے۔
انہوں نے کہا کہ فاٹا جرگے
میں تمام جماعتوں کے لوگ تھے، حکومت دوبارہ ملی تو ضروری اقدامات کریں گے،قومی
کمیشن بنے گا جو حساب کتاب کرے گا۔
ایک صحافی نے سوال کیا کہ ڈی
جی آئی ایس پی آرنےکل سوشل میڈیاسےمتعلق بات کی ، کیاکہیں گے؟؟
نواز شریف نے جواب دیا کہ ڈی
جی آئی ایس پی آرکی پوری پریس کانفرنس نہیں سنی اس لیے وہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔
ایک سوال کے جواب پر سابق
وزیراعظم نے کہا کہ نامزدگی فارم میں معلومات پر اعتراض نہیں، پارلیمنٹ کےقانون
کوسنگل رکنی بنچ کیسےاٹھاکرباہرپھینک دیتاہے۔
نواز شریف کے بیان پر صحافی
نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو معطل کردیا گیاہے۔
نواز شریف نے جواب دیا کہ وہ
بعد کی بات ہے۔
اس سوال پر کہ الزام ہے
کہ ریحام خان کی کتاب کے پیچھے ن لیگ ہے تونوازشریف نے جواب دیا کہ اور کچھ نہیں
ملا تو یہ الزام لگا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
06جون
احتساب
عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنیسز کی سماعت
اس
موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ استثنیٰ کی درخواست پر 11 جون کو بحث کرلی جائے
جس پر عدالت نے فاضل جج محمد بشیر نے کہا کہ نواز شریف پانچ دس منٹ بیٹھ کر جا
سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جون11
06جون
احتساب عدالت میں
نوازشریف فیملی کے خلاف ریفرینسز کیس کی سماعت
نیب کورٹ میں العزیزیہ
اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی، عدالت نے نوازشریف کو نئے وکیل کے لیے ایک
دن کا وقت دے دیا، نوازشریف کا کہنا تھا کہ مجھے مشورے کے لیے کچھ وقت دیا جائے جس
پر جج نے سوال کیا کہ نیا وکیل کریں گے یا خواجہ حارث کو ہی راضی کریں گے؟
خواجہ
حارث نے وکالت نامہ واپس لیا تو سابق وزیراعظم نواز شریف بھی اسلام آباد کی
احتساب عدالت سے چلے گئے۔
اس موقع
پر صحافیوں سے غیر رسمی گفت گو میں انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ سےچھٹیوں کی
درخواست نہیں کی، سپریم کورٹ کے سامنے درخواست کی ہے نہ کروں گا۔
ہفتے اور
اتوار کو بھی کام کرنے کی ڈکٹیشن دی گئِ ، دباو میں کام نہیں کرسکتا ، خواجہ حارث
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے
کہا ہے کہ قبل از وقت انتخابات دھاندلی کا آغاز ہو چکا ہے، ملک میں دھاندلی کی
بحث چلتی رہتی ہے۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت
میں نواز شریف نے صحا فیوں سےغیررسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دھاندلی کاآغاز اس
دن ہوا جب مجھے مسلم لیگ ن کی صدارت سے ہٹایا گیا اور مجھے زندگی بھر کے لئے نااہل
کیا گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
07 جون
احتساب
عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنیسز کی سماعت
شریف
خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس میں قومی احتساب بیوروکے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے
حتمی دلائل کے دوران کہا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف ہی لندن فلیٹس کے اصل مالک
ہیں۔
احتساب
عدالت کے جج محمد بشیر ریفرنس کی سماعت کر رہے ہیں، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد
صفدر آج بھی عدالت کے روبرو پیش نہ ہوئے۔
دوران
سماعت ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نےکہا کہ نواز شریف ہی لندن فلیٹس کے اصل مالک ہیں جب
کہ آف شور کمپنی کے ذریعے اصل ملکیت چھپائی گئی۔
سردار
مظفر عباسی نے کہا کہ قطری شہزادے کا بیان غیر متعلقہ ہے لیکن پھر بھی جےآئی ٹی
نے قطری شہزادے کا بیان ریکارڈ کرنے کی کوشش کی جس کے لیے 24 مئی 2017 کو اسے بیان
ریکارڈ کرانے کے لئے بلایا۔
ڈپٹی
پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ جے آئی ٹی کے نوٹس قطری شہزادے کو موصول ہوئے مگر وہ
پیش نہ ہوئے جب کہ 11 جولائی 2017 کو قطری شہزادے کا دوسرا جواب آیا لیکن پھر اس
نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے سے اجتناب کیا۔
سردار
مظفر عباسی نے دلائل کے دوران کہا کہ 22 جون 2017 کو قطری شہزادے کو پھر بلایا گیا
اور جے آئی ٹی نے کہا آپ نہیں آتے تو ہم دوحا کے پاکستانی سفارخانے میں آجاتے
ہیں۔
ڈپٹی
پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ قطری نے شرائط رکھیں کہ وہ نہ تو پاکستانی سفارت خانے
میں آئیں گے اور نہ عدالت میں پیش ہوں گے جب کہ جرح میں کہا گیا کہ قطری شہزادے
کو دھمکی لگائی گئی، یہ درست نہیں ہے۔
ریفرنس
میں نامزد سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کے وکلا کی جانب
سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواستیں دائر کی گئیں جس میں استدعا کی گئی ہے کہ کلثوم
نواز کی عیادت کے لیے لندن جانا ہے اس لیے 11 تا 15 جون تک حاضری سے استثنیٰ دیا
جائے۔
درخواستوں
کے ساتھ کلثوم نواز کی نئی میڈیکل رپورٹ بھی لگائی گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جون11
اسلام آباد: نیب کورٹ میں العزیزیہ اسٹیل ملز
ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی، عدالت نے نوازشریف کو نئے وکیل کے لیے ایک دن کا وقت
دے دیا، نوازشریف کا کہنا تھا کہ مجھے مشورے کے لیے کچھ وقت دیا جائے جس پر جج نے
سوال کیا کہ نیا وکیل کریں گے یا خواجہ حارث کو ہی راضی کریں گے؟
خواجہ
حارث نے وکالت نامہ واپس لیا تو سابق وزیراعظم نواز شریف بھی اسلام آباد کی
احتساب عدالت سے چلے گئے۔
اس موقع
پر صحافیوں سے غیر رسمی گفت گو میں انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ سےچھٹیوں کی
درخواست نہیں کی، سپریم کورٹ کے سامنے درخواست کی ہے نہ کروں گا۔
ہفتے اور
اتوار کو بھی کام کرنے کی ڈکٹیشن دی گئِ ، دباو میں کام نہیں کرسکتا ، خواجہ حارث
12 جون
العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس اورلندن فلیٹس کیس کی سماعت
نوازشریف اپنےوکیل کےبغیراحتساب عدالت میں پیش ہوئے۔
احتساب عدالت کے جج نے نوازشریف سے پوچھا کہ انہیں دوسراوکیل رکھناہےیاخواجہ حارث کوہی کہاہے؟ ابھی تک خواجہ حارث کی کیس سےدستبرداری کی درخواست منظورنہیں کی۔
نوازشریف نے کہا یہ اتناآسان فیصلہ نہیں،ایک وکیل نےکیس پر9ماہ محنت کی ہے،خواجہ حارث نےسپریم کورٹ میں کہہ دیاتھاہفتہ،اتوارکوکام نہیں کریں گے۔
انہوں نے عدالت میں شکوہ کیا کہ ہم توروزلاہورسےآتےہیں اورسحری کرکےعدالت کیلئےروانہ ہوتےہیں، اس کیس میں سو کے قریب پیشیاں ہو گئی ہیں، اب کیا روزانہ کیس چلاناہے؟ کیاایسی کوئی اورمثال ہے؟
مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے عدالت سے کہا کہ 'میں سمجھتا ہوں کہ اس مرحلے پر نیا وکیل مقرر کرنا ممکن نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہفتے اور اتوار کو یا عدالتی وقت ختم ہونے کے بعد سماعت نہیں ہونی چاہیے، ہم پیر سے جمعہ تک اس عدالت میں پیش ہو رہے ہیں، اس وجہ سے سپریم کورٹ سے میرا ایک کیس عدم پیروی پر خارج ہوگیا جبکہ شرجیل میمن کیس میں ایک ملزم کا وکیل ہوں اور عدالت میں پیش نہ ہونے پر مجھ پر جرمانہ ہوا۔
احتساب عدالت نے نواز شریف کو نیا وکیل مقرر کرنے کے لئے 19 جون تک کا وقت دے دیا۔
…………….
سابق وزیراعظم نوازشریف نےکہاہےکہ چیف جسٹس میرا کیس منگوا کر پھانسی دیدیں یا جیل بھیج دیں، آئین توڑنے والے کو ویلکم کیاجارہاہے اورانکا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنےکی باتیں کی جارہی ہیں،خواجہ حارث کی باتوں سےمتفق ہوں،اس طرح کےحالات میں مقدمہ چلانا فیئر ٹرائل کیخلاف ہے،احتساب عدالت کے جج سے مکالمہ کرتےہوئے نواز شریف نےکہاکہ میرا کیس سپریم کورٹ بھجوادیں ،چیف جسٹس جو چاہیں فیصلہ کرلیں۔
سابق وزیراعظم نوازشریف نےکہاہےکہ چیف جسٹس میرا کیس منگوا کر پھانسی دیدیں یا جیل بھیج دیں، آئین توڑنے والے کو ویلکم کیاجارہاہے اورانکا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنےکی باتیں کی جارہی ہیں،خواجہ حارث کی باتوں سےمتفق ہوں،اس طرح کےحالات میں مقدمہ چلانا فیئر ٹرائل کیخلاف ہے،احتساب عدالت کے جج سے مکالمہ کرتےہوئے نواز شریف نےکہاکہ میرا کیس سپریم کورٹ بھجوادیں ،چیف جسٹس جو چاہیں فیصلہ کرلیں۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ میرا نام ای سی ایل پر ڈالنے کی بات ہورہی ہے، میرانام ای سی ایل میں ڈالنا ہے تو ڈال دیں۔
احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ جس نے ملک کو ایٹمی قوت بنایا اس کا نام ای سی ایل میں ڈالا جارہاہے اورجس نے آئین توڑا اس کو خوش آمدید کہا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر فیئر ٹرائل ہے تو مجھے مرضی کا وکیل رکھنے کا حق حاصل ہے، میرا یہ حق کوئی مجھ سے نہیں چھین سکتا۔
واضح رہے نیب نےنواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کے لیے وزارت داخلہ کو ایک اور خط لکھا ہے، خط میں کیپٹن (ر) صفدر، حسن اور حسین نواز کا نام بھی ای سی
ایل پر ڈالنے کی درخواست کی گئی ہے۔
...................
احتساب
عدالت ، ایون فیلڈ ریفرینس کیس کی سماعت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایل پر ڈالنے کی درخواست کی گئی ہے۔
...................
14 جون
شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرینس کیس کی سماعت
نوازشریف اہل خانہ ہمراہ لندن روانہ ہوگئے حاضری سے استشنی دے دیا گیا
اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی عیادت کے لیے روانہ ہوئے
ایک ہفتے بعد وطن واپسی ہوگی مریم نواز کو ٹوئیٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی عیادت کے لیے روانہ ہوئے
ایک ہفتے بعد وطن واپسی ہوگی مریم نواز کو ٹوئیٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احتساب
عدالت ، ایون فیلڈ ریفرینس کیس کی سماعت 19جون،
نوازشریف اور مریم
نواز لندن میں ہونے کی وجہ سے پیش نہیں ہوئے
سماعت کے دوران
نواز شریف اور مریم نواز کی جانب سے حاضری سے 7 روزہ استثنیٰ کی درخواست دائر کی
گئی، تاہم عدالت نے 4 روز کا استثنیٰ منظور کیا۔
سماعت شروع
ہوئی تو نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث بھی احتساب عدالت پہنچے۔
جج محمد بشیر
نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ کیا وہ اپنی وکالت نامے والی درخواست واپس لے رہے
ہیں؟
ساتھ ہی انہوں
نے ریمارکس دیئے کہ وکالت نامہ واپس لینے والی آپ کی درخواست خارج کر دی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
20 جون
چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں اہم مقدمات کی سماعت کی
15 روز میں آئل ٹینکرشیریں جناح کالونی سے زوالفقار آباد منتقل
کرنے کا حکم چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں اہم مقدمات کی سماعت کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جون21،
احتساب عدالت ، ایون فیلڈ ریفرینس کیس کی سماعت
نوازشریف کے خلاف ریفرینسز کے فیصلے اکھٹے
کرنے پر فیصلہ محفوظ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
25 جون
نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف احتساب ریفرینسز کی سماعت
نواز شریف اور مریم نواز کو تین روز کا استشنی مل گیا
بیگم کلثوم نواز کی میڈیکل رپورٹ پیش ، نیب پراسکیوٹر کا رپورٹ پر اعتراض
جے آئی ٹی رپورٹ ناقابل ثبوت میرے موکل کا لندن فلیٹس سے تعلق نہیں ،
خواجہ حارث
احتساب عدالت میں لندن فلیٹس ریفرنس کی سماعت
نوازشریف اور مریم نواز کو عدالت کی جانب سے دیا گیا تین روز کا استشنی کل ختم ہوگیا تھا
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد سابق وزیر اعظم نواز شریف فیملی کے خلاف احتساب کورٹ اسلام آباد میں جمعرات کو بھی نیب ریفرنسز کی سماعت جاری رہی ۔سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کپٹن (ر) صفدر کے وکیل امجد پرویز نے حتمی دلائل شروع کئے اور کہا کہ اپنے حتمی دلائل تین سے چار روز میں مکمل کر لو ں گا۔خواجہ حارث کی طرح سات دن نہیں لو ں گا ۔ وکلاء صفائی نے نواز شریف اور مریم نواز کی عدالت میں حاضری سے استثنیٰ کی سات دنوں کی درخواست پیش کی جس کے ساتھ پرانی میڈیکل رپورٹ ہی لگائی گئی تھی اور کہا گیا کہ نئی میڈیکل رپورٹ آئندہ سماعت پر عدالت میں جمع کروادیں گے جس پر عدالت نے صرف ایک روز کا استثنیٰ منظور کرلیا اور وکلاء صفائی کو نئی میڈیکل رپورٹ کے ساتھ درخواست دینے کی ہدایت کی ۔مریم نواز کی سات دن کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی۔ عدالت نے نواز شریف اور مریم نواز کو آج کی حاضری سے استثنیٰ دے دیا۔ مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے اپنے حتمی دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ کے ذریعے عدالت عظمی کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
نواز شریف فیملی کے خلاف نیب ریفرینس کیس کی سماعت
25 جون
نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف احتساب ریفرینسز کی سماعت
نواز شریف اور مریم نواز کو تین روز کا استشنی مل گیا
بیگم کلثوم نواز کی میڈیکل رپورٹ پیش ، نیب پراسکیوٹر کا رپورٹ پر اعتراض
جے آئی ٹی رپورٹ ناقابل ثبوت میرے موکل کا لندن فلیٹس سے تعلق نہیں ،
خواجہ حارث
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
26 جون
نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف احتساب ریفرینسز کی سماعت
واجد ضیا تفتیشی افسر کے بیان میں تضاد ریڈلے نے بھی جھوٹ
بولا خواجہ حارث
ایف آئی اے ، بی وی آئی اور فونیکا
کسی نے نہیں کہا نوازشریف نامی دار یا بینیفیشل اونر ہیں ، بی وی آئی خطوط پر مہر
ہے نہ دستخط استغاثہ نے جن شواہد کو نواز
شریف کے خلاف استعمال کیا ان پر جرح کا موقع ملنا چاہیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
27 جون
احتساب
عدالت میں لندن فلیٹس ریفرنس کی سماعت
نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث اپنے دلائل مکمل
کیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
26 جون
نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف احتساب ریفرینسز کی سماعت
واجد ضیا تفتیشی افسر کے بیان میں تضاد ریڈلے نے بھی جھوٹ
بولا خواجہ حارث
ایف آئی اے ، بی وی آئی اور فونیکا
کسی نے نہیں کہا نوازشریف نامی دار یا بینیفیشل اونر ہیں ، بی وی آئی خطوط پر مہر
ہے نہ دستخط استغاثہ نے جن شواہد کو نواز
شریف کے خلاف استعمال کیا ان پر جرح کا موقع ملنا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
27 جون
احتساب
عدالت میں لندن فلیٹس ریفرنس کی سماعت
نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث اپنے دلائل مکمل
کیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
28 جون
احتساب عدالت میں لندن فلیٹس ریفرنس کی سماعت
نوازشریف اور مریم نواز کو عدالت کی جانب سے دیا گیا تین روز کا استشنی کل ختم ہوگیا تھا
مریم نواز کے وکیل امجد پرویز آج حتمی دلائل جاری رکھے
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد سابق وزیر اعظم نواز شریف فیملی کے خلاف احتساب کورٹ اسلام آباد میں جمعرات کو بھی نیب ریفرنسز کی سماعت جاری رہی ۔سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کپٹن (ر) صفدر کے وکیل امجد پرویز نے حتمی دلائل شروع کئے اور کہا کہ اپنے حتمی دلائل تین سے چار روز میں مکمل کر لو ں گا۔خواجہ حارث کی طرح سات دن نہیں لو ں گا ۔ وکلاء صفائی نے نواز شریف اور مریم نواز کی عدالت میں حاضری سے استثنیٰ کی سات دنوں کی درخواست پیش کی جس کے ساتھ پرانی میڈیکل رپورٹ ہی لگائی گئی تھی اور کہا گیا کہ نئی میڈیکل رپورٹ آئندہ سماعت پر عدالت میں جمع کروادیں گے جس پر عدالت نے صرف ایک روز کا استثنیٰ منظور کرلیا اور وکلاء صفائی کو نئی میڈیکل رپورٹ کے ساتھ درخواست دینے کی ہدایت کی ۔مریم نواز کی سات دن کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی۔ عدالت نے نواز شریف اور مریم نواز کو آج کی حاضری سے استثنیٰ دے دیا۔ مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے اپنے حتمی دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ کے ذریعے عدالت عظمی کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
29 جون
احتساب عدالت میں ایون فیڈ ریفرینس کیس کی سماعت
مریم اور کیپٹن صفدر کے وکیل کو حتمی دلائل پیرتک مکمل کرنے کی ہدایت
نیب نے مظہر بنگش کا خط پیش پیش کیا گیا، اسے کون ثابت کرے گا، مریم نواز کے وکیل کا اعتراض، العزیزیہ ریفرینس میں واجد ضیا منگل کو طلب
02 جولائی
نواز شریف فیملی کے خلاف نیب ریفرینس کیس کی سماعت
کلثوم نواز کی میڈیکل رپورٹ پیش، سات روز کی غیرحاضری کی درخواست مسترد، دو دن
کے لیے استشنی منظور، ایون فیلڈ ریفرینس میں مریم
نواز کے وکیل کے حتمی دلائل جاری
29 جون
احتساب عدالت میں ایون فیڈ ریفرینس کیس کی سماعت
مریم اور کیپٹن صفدر کے وکیل کو حتمی دلائل پیرتک مکمل کرنے کی ہدایت
نیب نے مظہر بنگش کا خط پیش پیش کیا گیا، اسے کون ثابت کرے گا، مریم نواز کے وکیل کا اعتراض، العزیزیہ ریفرینس میں واجد ضیا منگل کو طلب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
02 جولائی
نواز شریف فیملی کے خلاف نیب ریفرینس کیس کی سماعت
کلثوم نواز کی میڈیکل رپورٹ پیش، سات روز کی غیرحاضری کی درخواست مسترد، دو دن
کے لیے استشنی منظور، ایون فیلڈ ریفرینس میں مریم
نواز کے وکیل کے حتمی دلائل جاری
…………………
03جولائی 18
نواز شریف فیملی کے خلاف نیب ریفرینس کیس کی سماعت
احتساب عدالت نے لندن فلیٹس کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا،نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر بری ہو نگے یا جیل جائینگے اسکا فیصلہ جمعہ 6جولائی کو ہو گا۔ عدالت نے ملزمان کو جمعے کو پیش ہونے کے نوٹسز جاری کردئیے اور فیصلہ سنائے جانے کے موقع پر حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔قبل ازیں مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے وکیل نے اپنے حتمی دلائل مکمل کئے ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے پورے خاندان کو پھنسانے کا منصوبہ بنا رکھا تھا،ملزمان کے حق میں جانیوالی دستاویزات رپورٹ میں شامل نہیں کیں۔ العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی جرح کے دوران جےآئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے بتایا کہ جے آئی ٹی نے خود سے دستاویزات تیار نہیں کیں،یہ ملزمان نے عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی تھیں۔ احتساب کورٹ اسلام آباد کے جج محمد بشیر نے مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر کے وکیل امجد پرویز کے دلائل مکمل ہونے
کے بعد فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے نواز شریف، مریم نوازاور کیپٹن(ر) صفدر کی طلبی کے نوٹس جاری کردئیے۔ فاضل عدالت نے منگل کے روزوکیل صفائی کے حتمی دلائل کی تکمیل کیلئے سہ پہر پانچ بجے تک عدالت لگائی۔ نوازشریف فیملی کیخلاف ریفرنسز دائر کرکے عدالت عظمیٰ نے احتساب عدالت کو چھ ماہ کا وقت دیا تھا مگر پہلے دو ماہ اور بعد میں ایک ماہ کی مزید مہلت لی گئی جو 9 جولائی کو مکمل ہوگی۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں نوازشریف، ان کے دونوں بیٹے، بیٹی اور داماد ملوث ہیں، ایون فیڈریفرنس کی کل107 سماعتیں ہوئیں، نواز شریف اور مریم نواز78 ، کیپٹن (ر) صفدر 100 سے زائد سماعتوں میں موجود رہے۔ غیرملکی دورہ کی وجہ سے عدالت سے غیرحاضر ہونے پر کیپٹن(ر) صفدر کو ائرپورٹ پر گرفتار بھی کر لیاگیا تھا جس کی عدالت نے ضمانت لے لی تھی، استغاثہ نے 18 گواہ پیش کئے ، لندن سے دو گواہوں کے بیانات ویڈیو لنک پر بھی ریکارڈ کئے گئے نوازشریف کے دونوں بیٹے پیش نہ ہونے کی وجہ سے اشتہاری قرار دئیے جاچکے ہیں جبکہ دیگر دو ریفرنسز میں صرف نواز شریف اور ان کے بیٹے شامل ہیں ،ایون فیلڈ ریفرنس میں استغاثہ کا موقف ہے کہ نواز شریف ہی لندن فلیٹس کے اصل مالک ہیں ،آف شور کمپنی کے ذریعے اصل ملکیت چھپائی گئی،منگل کو احتساب عدالت نے پہلی شفٹ میں العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں جے آئی ٹی سربراہ پر نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کی جرح سنی جبکہ وقفہ کے بعد مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر کے وکیل نے اپنے حتمی دلائل مکمل کئے، کیپٹن صفدر عدالت میں پیش نہ ہوئے وکلاء صفائی نے اُن کی طرف سے ایک دن حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پیش کی۔امجد پرویز ایڈووکیٹ نے اپنے حتمی دلائل میں استفسار کیا کہ جے آئی ٹی نے دفتر خارجہ کو بائی پاس کرکےایم ایل اے کیوں لکھے،ایم ایل اے کے جواب بھی لئے گئے،دفتر خارجہ کو بائی پاس کرکے شفافیت کو ختم کر دیا گیا، فنانشل انوسٹی گیشن ایجنسی خط پر سیل موجود نہیں ، اپنے ملک میں کسی کو بھی خط لکھتے ہوئے فنانشل انوسٹی گیشن ایجنسی اپنی سیل اور مہر استعمال کرتی ہےمگرجے آئی ٹی کو بھیجے گئے خط پر کوئی سیل نہیں ، موزیک فونسیکا خود ایک لاءفرم ہے ، 2012 کے خط کی2017میں تصدیق کروا کے مریم نواز کو کیس سے جوڑ دیا گیا۔ امجد پرویز نے الزام لگایا کہ جے آئی ٹی نے مریم نواز کو کیس سے جوڑ نے کیلئے حربہ استعمال کیا، جے آئی ٹی نے موزیک فونسیکا کو خود خط کیوں نہیں لکھے؟مریم نواز نے ہمیشہ الزامات سے انکار کیا ہے، لہٰذااستغاثہ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی تھی کے وہ اپنے الزام میں شواہد لائے۔ وکیل صفائی نے کہا کہ مریم نواز سپریم کورٹ جے آئی ٹی اور اس عدالت میں بی وی آئی خطوط کی تردید کر چکی ہیں۔ انہوں نے بی وی آئی خطوط کو کبھی تسلیم ہی نہیں کیا،سکینڈ ہینڈ شواہد کو قانون حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے جبکہ احتساب عدالت میں پیش کردہ یہ تھرڈ ہینڈ شواہد ہیں، قانون کیوں اس طرح کے شواہد کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے، یہ بھی بتائوں گا ایف آئی اے بی وی آئی کا ڈائریکٹر کہیں نہیں کہہ رہا کہ مریم نواز بینفشل مالک ہیں۔ وکیل صفائی نے اپنے دلائل میں کہا کہ باہر سے کوئی کاغذ آجائے تو اسے سونے کے پر نہیں لگ جاتے، باہر سے کسی ایجنسی کے بندے کا خط آجائے تو اسے قانون کے مطابق ہی لیا جائے گا، دیکھنا ہوگا ہمارے ملک کا قانون ایسی چیزوں کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ امجد پرویز نے کہا کہ استغاثہ کی طرف سے پیش کیاگیا اے جی آفس کا خط بھی تصدیق شدہ نہیں تھا ، واجد ضیاء کو بھی پتہ نہیں تھا کہ یہ خط والیم چار میں موجود ہے،واجد ضیاء نے یہ کہا ہم سے خط رہ گیا ہے ، 31مئی کی ایم ایل اے کا بی وی آئی حکام نے جواب دینے سے انکار کیا ، یہ حقیقت ابھی تک چھپائی گئی ہے۔ مریم نواز کے وکیل کی جانب سے بھارتی عدالتی فیصلوں کے متعدد حوالےدئیے گئے۔ وکیل صفائی نے کہاکہ واجد ضیاء کے شواہد سنی سنائی بات باتیں ہیں، زبانی باتیں ہی نہیں دستاویزات بھی سنی سنائی ہو سکتی ہیں۔ امجد پرویز نےممبئی کی جسٹس بھاگ وئی کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ جسٹس بھاگ وئی نے ایک دستاویزات کو سنی سنائی دستاویزات قرار دیا۔اس موقع پر فاضل جج نے ریمارکس دئیے کہ آج سارے ہی بھارتی فیصلے لے آئے ہیں جس پر وکیل صفائی نے کہاکہ آخر میں پاکستانی بھی پیش کروں گا، دستاویزات کا ثابت ہونا الگ بات ہے، دستاویزات کے متن کا درست ثابت ہونا ایک الگ بات ہے،قانون کے مطابق بہترین شواہد فراہم کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
04 جولائی 18
احتساب عدالت میں العزیزیہ
ریفرنس کیس کی سماعت
خواجہ حارث کا ڈیوٹی جج کی
سماعت پر اعتراض
ایون فیلڈ کا فیصلہ سنانے کے
بعد جج کو دوسرے کیس نہیں سننا چاہیے ، خواجہ حارث
سماعت 9 جولائِ تک ملتوی
جج فیصہ لکھنے میں مصروف
دوسرے مقدمات ملتوی
۔۔۔۔۔۔۔۔
06 جولائِ
06 جولائِ
احتساب عدالت ایون فیلڈ
ریفرینس کا فیصلہ چند روز کے لیے موخر کرنے کی نوازشریف کی استدعا مسترد کردی
…………………..
ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے کا مکمل
متن
06 جولائی 18
احتساب عدالت اسلام آباد نے مسلم
لیگ(ن) کے قائد سابق وزیراعظم نوازشریف فیملی کیخلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ
سنا دیا ہے ۔ نواز شریف فیملی کیخلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کرنے والی احتساب عدالت
کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم کو مجموعی طورپر11؍سال قید
بامشقت ،8؍ملین پائونڈ (132کروڑ) جرمانہ، صاحبزادی مریم نواز کو مجموعی طور پر
8؍سال قید بامشقت ،دوملین پائونڈ (33کروڑ) جرمانہ(مجموعی طور پر165؍کروڑروپے) جبکہ
سابق وزیر اعظم کے داماد کیپٹن صفدر کو جعلی ڈیڈ میں گواہی دینے کے جرم میں صرف
ایک سال قید کی سزا سنائی ہے ،انہیں جرمانے کی سزانہیں سنائی گئی، لندن میں واقع
نواز شریف فیملی کے لندن فلیٹس بحق سرکار ضبط کرنے ، نواز شریف اسکی بیٹی اور
دامادکو آئندہ دس سال کیلئے نااہل قراردیدیا گیا ہے، فیصلہ سنانے کیلئے فاضل جج
نےپہلے ساڑھے بارہ بجے، پھر اڑھائی بجے، پھر تین بجے اور پھر ساڑھے تین بجے کا وقت
دیا۔احتساب عدالت کے جج نے مسلسل تیسری مرتبہ فیصلہ مؤخر کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے
کہا کہ ʼفوٹو کاپیاں کروانے میں وقت لگ جاتا
ہے، کچھ صفحات آگے پیچھے ہو جاتے ہیں، جن کی ترتیب درست کرنا ہوتی ہے، اسلئے
فیصلہ سنانے میں تاخیرہورہی ہے،ساڑھے تین بجے فاضل عدالت میں صرف فریقین کے وکلا
کو اندر داخل ہونے کی اجازت دی ،جسکے بعد عدالت کی سماعت ایک بار پھر کچھ دیر
کیلئے معطل کر دی گئی
107 سماعتیں ہوئیں نوازشریف 78
اورمریم نواز 80 مرتبہ پیش ہوئیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کی
جانب سے سزا سنائے جانے کے بعدسابق وزیراعظم اور مسلم لیگ نواز کے قائد نواز شریف
نے وطن واپسی کا اعلان کردیا۔لندن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ
اہلیہ کے ہوش میں آتے ہی وطن واپس آجاؤں گااور اپنی جدوجہد جیل سے بھی جاری
رکھوں گا‘عوام باہرنکلیں ‘مجھے اکیلا نہ چھوڑیں‘ سزا عدالت نہیں کہیں اورسے
آئی‘کیامیں سیاست سے بالکل علیحدہ ہوجاؤں‘سزائیں راستہ نہیں روک سکتیں‘ ہر
پاکستانی کے ڈر اورخوف کی زنجیرسے آزادہونے تک جدوجہد جاری رہے گی‘جیل سے بھی
جدوجہد کروں گا‘ آزادی ‘غیرت اور خودداری کا جھنڈاٹھایاہے‘آپ انہیں نشان عبرت
بنادیں جو فیصلوں کو پامال کرتے ہیں ‘مریم بھی وطن واپسی کیلئے بیتاب ہیں‘کون تھے
وہ لوگ جنہوں نے ہمارے لوگوں کی وفاداریاں تبدیل کرائیں ‘ بلوچستان حکومت تبدیل
کی‘جیپ کا نشان الاٹ کیا ‘طیارہ سازش کیس کہاں ہے‘اس جرم نے بھی مٹنا ہے‘جو آج
کسی کے سہارے وزیراعظم بننا چاہتاہے وہ ایک دن پچھتائے
نوازشریف اور مریم نواز نے فیصلی ایون
فیلڈ میں سنا، اہلیہ کو ہوش آنے پر وطن واپس آونگا، نوازشریف
مریم نواز الیکشن الیکشن کے لیے بھی
نااہل قرار دی گئیں
……………
ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے کا مکمل
متن
ریفرنس نمبر 20/2017 (ایون فیلڈ اپارٹمنٹس نمبر 16 ، 16A ، 17 ، 17A)
سرکار بنام
(1) میاں محمد نواز شریف ولد میاں محمد شریف ، عمر 69 سال ، سکنہ شمیم
فارمز ، جاتی امراء ، رائیونڈ لاہور
(2) مریم نواز (مریم صفدر) دختر میاں محمد نواز شریف ، عمر 43 سال ،
سکنہ شمیم فارمز ، جاتی امراء ، رائیونڈ لاہور
(3) کیپٹن (ر) محمد صفدر ولد محمد اسحاق ، عمر تقریباً 54 سال ، سکنہ
سکنہ شمیم فارمز ، جاتی امراء ، رائیونڈ لاہور
(4) حسین نواز شریف ولد میاں محمد نواز شریف ، عمر تقریباً 45 سال ،
سکنہ شمیم فارمز ، جاتی امراء ، رائیونڈ لاہور (مفرور ملزم)
(5) حسن نواز ولد میاں محمد نواز شریف ، عمر تقریباً 41 سال ے سکنہ
شمیم فارمز ، جاتی امراء ، رائیونڈ لاہور (مفرور ملزم)
فیصلہ
استغاثہ کا موقف حسب ذیل ہے
مقدمہ کے حقائق یہ ہیں کہ زیر دفعہ 18(g) اور نیب آرڈیننس 1999 کی دفعہ 24(d) (کو ساتھ ملا کر پڑھا
جائے) کے تحت مندرجہ بالا پانچ ملزمان کے خلاف عبوری ریفرنس دائل کیا گیا۔ ان
ملزمان میں سے دو حسین نواز اور حسن نواز سمن ، وارنٹ کے اجراء کے باوجود عدالت کے
روبرو پیش نہیں ہوئے جس پر انہیں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 87 ، 88 کے تحت اشتہاری
قرار دیا گیا۔ اس حوالے سے تمام تقاضے پورے کرنے کے بعد ان دو ملزمان کو مقدمے میں
مفرور ؍ اشتہاری قرار دیا گیا۔
-2 مبینہ طور پر ’’پانامہ پیپرز‘‘ پانامہ کی لاء فرم موسیک فونسیکا کے
ریکارڈ سے منظر عام پر آئے جن میں میاں نواز شریف ، مریم صفدر (نواز) ، کیپٹن (ر)
محمد صفدر ، حسین نواز اور حسن نواز پر آف شور کمپنیوں کے ساتھ مبینہ تعلق کا
الزام سامنے آیا۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں اٹھایا گیا۔ سپریم کورٹ
میں کیس کی کارروائی کے دوران ملزمان نے اپنے اپنے موقف ، خطوط اور دیگر دستاویزات
پیش کیں۔
-3 معزز عدالت عظمیٰ نے سوالات تیار کئے اور معاملے کی تحقیقات ،
شواہد اکٹھے کرنے کیلئے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی ۔
-4 مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو ایک متفرق درخواست سی ایم اے نمبر 2939 سال
2017ء (آئینی پٹیشن نمبر 29/2016 وغیرہ میں) میں 5 جولائی 2017ء کو تحقیقات سے
متعلق ضابط فوجداری 1898 ، نیب آرڈیننس 1999 ء اور فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی ایکٹ
1975ء کے تحت تمام اختیارات دئیے گئے ۔
-5 جے آئی ٹی نے تحقیقات کے بعد اپنی رپورٹ سپریم کورٹ آف پاکستان
کو 12 والیمز کی صورت میں پیش کی۔
-6 معزز عدالت عظمیٰ نے نیب کو چھ ہفتوں میں ملزمان کے خلاف ایون فیلڈ
فلیٹس نمبر 16 ، 16A ،
17
، 17A واقع ایون فیلڈ
ہائوس ، پارک لین لندن سے متعلق جے آئی ٹی کی جانب سے اکٹھے اور پیش کئے گئے
شواہد کی روشنی میں ریفرنس تیار اور دائر کرنے کا حکم دیا اور یہ بھی ہدایت کی کہ
اگر ایف آئی اے اور نیب کے پاس بھی ان فلیٹس سے متعلق کوئی شواہد ہوں تو انہیں
بھی شامل کیا جائے۔ مدعا علیہ نمبر 1 میاں نواز شریف ، مدعا علیہ نمبر 6 مریم نواز
شریف (مریم صفدر) ، مدعا علیہ 7 حسین نواز شریف ، مدعا علیہ 8 حسن نواز شریف اور
مدعا علیہ 9 کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف ایون فیلڈ فلیٹس نمبر 16 ، 16A ، 17 ، 17A واقع ایون فیلڈ ہائوس ، پارک لین
لندن جائیداد کے سلسلے میں ریفرنس کی تیاری اور دائر کرتے وقت پہلے کی جانیوالی
تحقیقات کے دوران اکٹھے کئے گئے شواہد کو بھی مدنظر رکھا جائے۔
(e) نیب آمدن سے زائد اس جائیداد (فلیٹس) کے حصول کے سلسلے میں
مدعاعلیہ نمبر 1 ، 6 ، 7 ، 8 اور 10 کے ساتھ بالواسطہ یا بلا واسطہ معاونت فراہم
کرنے پر شیخ سعید ، موسیٰ غنی ، کاشف مسعود قاضی ، جاوید کیانی اور سعید احمد سمیت
دیگر تمام افراد کو کارروائی میں شامل کرے گا۔
(f) اگر ملزمان کے خلاف آمدن سے زائد کسی اور جائیداد کا پتہ چلے تو
نیب ان کے خلاف سپلیمنٹری ریفرنس (ریفرنسز) دائر کر سکتا ہے۔
(h) اگر احتساب عدالت ملزمان یا ان کے ایماء پر کسی اور کی جانب سے پیش
کی گئی کسی دستاویز ، معاہدے یا بیان حلفی کو جعلی یا غلط پائے تو متعلقہ افراد کے
خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرے گی۔
-7 اس سے قبل سال 2000ء میں مدعا علیہ 1 اور دیگر کے خلاف انہی
الزامات پر تحقیقات کی گئی تھیں لیکن تازہ تحقیقات سپریم کورٹ کے حکم پر 3 اگست
2017ء کے خط کی بنیاد پر کی گئیں اور نیب لاہور کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد عمران کو
مجاز بنایا گیا۔
-8 یہ بھی الزام لگایا گیا کہ ملزمان کو تحقیقات کے دوران بلایا گیا
لیکن انہوں نے یہ موقف لیا کہ سپریم کورٹ کے 28 جولائی 2017ء کے حکم نامے پر نظر
ثانی کی ایک درخواست دائر کی ہے لہٰذا اس کے فیصلے تک تحقیقات موخر کی جائیں۔
-9 7 نومبر 2017ء کو ایک عبوری ریفرنس دائر کیا گیا جس میں ملزمان پر
دفعات 9(a)(iv)(v) اور (xii) کے تحت کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز ، نیب آرڈیننس 1999ء کی دفعہ 10
(کو منسلکہ شیڈول کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے) کے تحت جرم کے ارتکاب کا الزام لگایا
گیا۔
-10 اس عدالت نے قانون کے مطابق ملزمان کے سمن جاری کئے، دو ملزمان
حسین نواز اور حسن نواز پیش نہ ہوئے جس پر انہیں اشتہاری قرار دیا گیا جبکہ باقی
پیش ہونیوالے تین ملزمان کو ریفرنس ، دستاویزات کی نقول فراہم کی گئیں۔
-11 تینوں ملزمان پر مشترکہ فرد جرم عائد کی گئی بعد میں مدعا علیہ
نمبر 2 اور 3 کی درخواست پر اس میں ترمیم کی گئی۔ ملزمان کے خلاف جو آخری الزام
عائد کیا گیا اس کا متعلقہ حصہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔
’’آپ ملزم میاں محمد نواز شریف عوامی عہدے پر فائز تھے۔ آپ اور آپ
کے اہل خانہ ؍ زیر کفالت افراد ایون فیلڈ مے فیئر جائیداد اپارٹمنٹ نمبر 16 ، 16A ، 17 ، 17A واقع پارک لین لندن کے مالک و قابض ہیں
اور یہ فلیٹس 1993ء سے آپ اور آپ کے اہل خانہ کے قبضہ میں ہیں۔ مذکورہ جائیداد
کی خریداری کے لئے سرمائے کا ذریعہ آف شور کمپنیاں میسرز نیلسن انٹرپرائزز لمیٹڈ
اور میسرز نیسکول لمیٹڈ اور ایون فیلڈ اپارٹمنٹ انہی کمپنیوں کی ملکیت کا جواز
درست نہیں اور ان کمپنیوں کے حصص رکھنے والوں کو مذکورہ جائیداد کے ذریعے شفاف
بنایا گیا۔
آپ ملزم میاں محمد نواز شریف ، مریم نواز اور مفرور ملزمان حسین
نواز اور حسن نواز مذکورہ جائیداد کی خریداری کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے۔
آپ ملزمہ مریم نواز ایون فیلڈ جائیداد کی ملکیت رکھنے ان کمپنیوں
کی بینفشل اونر ہیں۔ کیلبری فونٹ میں جعلی معاہدہ از مورخہ 2 فروری 2016ء پیش
کیاگیا حالانکہ اُس سال میں ایسا فونٹ اس طرح کے معاہدوں کے لئے دستیاب نہیں تھا۔
اس معاہدے پر آپ ملزمہ مریم نواز اور شریک ملزم کیپٹن (ر) محمد صفدر نے بطور گواہ
دستخط کئے۔ یہ معاہدہ پیش کر کے آپ نے تحقیقاتی ایجنسی کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔
آپ ملزمہ مریم نواز شریف نے جان بوجھ کر مذکورہ اثاثوں کی ملکیت
کے بارے میں اصل حقائق اور کمپنیوں کو چھپایا۔ اور آپ سمیت تمام دیگر ملزمان
بشمول اشتہاری قرار دئیے گئے ملزمان دستیاب فنڈز کے ذرائع اور ان کی بیرون ملک
قانونی منتقلی بتانے میں ناکام رہے۔ جس وقت یہ جائیداد خریدی گئی اس وقت مفرور
قرار پانے والے ملزمان کے ذرائع آمدن موجود نہ تھے۔
اس طرح آپ ملزمان میاں محمد نواز شریف ، مریم نواز شریف اور کیپٹن
(ر) محمد صفدر دفعات 9(a)(iv)(v)&(xii) اور نیب آرڈیننس 1999ء کی دفعہ 10
کے تحت قابل سزا جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔
-12 نیب آرڈیننس 1999ء کے ساتھ منسلک شیڈول کی سیریل نمبر 3(a) کے تحت جرم سے متعلق حکم نامہ جاری
کیا گیا ، یہ عدالت فیصلے کے اعلان میں اس جرم کو سنجیدگی سے لے گی۔
-13 ملزمان نے الزامات ماننے سے انکار کیا۔
-14 استغاثہ نے 18 جنوری 2018 کا ریفرنس جو 22 جنوری 2018ء کو دائر کیا
گیا اس میں آٹھ گواہان پیش کئے۔
-15 اس مقدمہ میں کل 18 گواہوں کے بیانات قلمبند کئے گئے۔ 8 مئی 2018ء
کو استغاثہ نے شہادتیں ختم کیں۔
-16 ٹرائل کا سامنا کرنیوالے تینوں ملزمان کے بیانات ضابطہ فوجداری کی
دفعہ 342 کے تحت قلمبند کئے گئے۔انہوں نے اپنے دفاع میں گواہان پیش نہ کرنے کو
ترجیح دی۔ انہوں نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 340(2) کے تحت جرح بھی نہیں کی۔
-17 میں نے دلائل سنے اور ریکارڈ کا جائزہ لیا۔
-18 استغاثہ کی جانب سے درج ذیل شہادتیں پیش کی گئیں۔
گواہ استغاثہ 1 : جوائنٹ رجسٹرار آف کمپنیز کمپنی رجسٹریشن آفس
لاہور ایس ای سی پی مسماۃ سدرہ منصور نے نیب کے خط مورخہ 15 اگست 2017ء جو چیئرمین
ایس ای سی پی کو لکھا گیا تھا ، کی روشنی میں بتایاکہ وہ نیب لاہور کے انوسٹی گیشن
آفیسر کے روبرو 23 اگست 2017ء کو پیش ہوئیں اور ریکارڈ کی مصدقہ نقول پیش کیں۔ یہ
ریکارڈ تفتیشی افسر نے بذریعہ سیزر میمو اپنے قبضہ میں لے لیا اور اس پر انہوں نے
دستخط کئے اور انگوٹھے کا نشان ثبت کیا۔جو ریکارڈ پیش کیا اس کی تفصیل یہ ہے۔
(i)سال 2000 سے 2005ء تک طویل مدتی قرضوں سے متعلق سالانہ آڈٹ
اکائونٹس رپورٹ معہ کورنگ لیٹر مورخہ 18 اگست 2018
(ii) 30جون 2000ء کو اختتام پذیر ہونیوالے مالی سال کے لئے حدیبیہ پیپر
ملز لمیٹڈ کے سالانہ آڈٹ اکائونٹس کی مصدقہ نقول
(iii) 30 جون 2001 ء کو اختتام پذیر ہونیوالے مالی سال کے لئے حدیبیہ پیپر
ملز لمیٹڈ کے سالانہ آڈٹ اکائونٹس کی مصدقہ نقول
(iv) 30 جون 2002ء کو اختتام پذیر ہونیوالے مالی سال کے لئے حدیبیہ پیپر
ملز لمیٹڈ کے سالانہ آڈٹ اکائونٹس کی مصدقہ نقول
(v) 30 جون 2003 ء کو اختتام پذیر ہونیوالے مالی سال کے لئے حدیبیہ پیپر
ملز لمیٹڈ کے سالانہ آڈٹ اکائونٹس کی مصدقہ نقول
(vi) 30 جون 2004ء کو اختتام پذیر ہونیوالے مالی سال کے لئے حدیبیہ پیپر
ملز لمیٹڈ کے سالانہ آڈٹ اکائونٹس کی مصدقہ نقول
(vii) 30 جون 2005 ء کو اختتام پذیر ہونیوالے مالی سال کے لئے حدیبیہ پیپر
ملز لمیٹڈ کے سالانہ آڈٹ اکائونٹس کی مصدقہ نقول
مسماۃ سدرہ منصور اوپر بیان کئے گئے نقول کا اصل ریکارڈ ساتھ لائیں
جو کمپنی نے عدالت کے جائزے کے لئے فراہم کیا تھا (ریکارڈ دیکھ کر واپس کر دیا
گیا)۔ طویل مدتی قرضہ 494,960,000/- روپے تھا۔ اس طویل مدتی قرضے کا سٹیٹس 30 جون
2000ء سے لے کر 30 جون 2005ء تک ایک جیسا رہا۔ تفتیشی افسر نے ضابطہ فوجداری کی
دفعہ 161 کے تحت مسماۃ سدرہ منصور کا بیان بھی قلمبند کیا۔
استغاثہ گواہ 2 : محمد رشید ولد محمد مسکین (کورٹ کلرک) اوور ڈگنم
اینڈ کمپنی ، ماریانہ ہائٹس سیکنڈ فلور 109 ، ایسٹ جناح ایونیو بلیو ایریا اسلام
آباد نے بیان کیا کہ ایک لیٹر بمورخہ 5 ستمبر 2017ء جو نیب لاہور کی طرف سے مسٹر
ریاض سینئر پارٹنر اموور ڈگنم اینڈ کمپنی کو لکھا گیا ، موصول ہوا۔
نیب لاہور سے وصول کیں، کچھ دستاویزات اس خط کے ذریعے طلب کی گئیں
اور وہ 6/9/17کو دستاویزات کے ہمراہ نیب آفس لاہور میں تفتیشی افسر عمران سے ملا
،اس نے اسے لفافے میں بند دستاویزات حوالے کیں ،جس نے لفافہ کھولا تو اس میں سے یہ
دستاویزات نکلیں، اول ،5/9/17کا ایک کورنگ لیٹر ،دوئم ،کوئین بنچ کے حکم کی فوٹو
کاپیاں،جوکہ چار صفحات پرمشتمل تھیں ،سوئم ریفرنس کے صفحہ نمبر 117تا122پر مظہر
خان بنگش کے بیان حلفی کی فوٹو کاپیاں دستیاب ہیں ،پی ڈبلیو3مظہر خان بنگش ایڈوکیت
اور راجہ برکت گلیٹی ایڈوکیٹ سکنہ اسلام آباد نے بتایا کہ میں 30/8/17کو نیب کے
تفتیشی عمران کے سامنے نیب لاہو ر میں پیش ہوا ،،اسے چند دستاویزات دکھائیں،جن میں
کوئین بنچ کے 1999کے حکم کی کاپی سروس بیان حلقفی کی کاپی اور شیزی نقوی کا بیان
حلفی بھی شامل تھا ،وکیل نے بتایا کہ سروس کا بیان حلفی اس سے متعلق تھا ،وہ
OrrDignam & Coکو بھجوایا گیا
تھا ،اس نے کہا کہ اسے نہیں معلوم کہ کمپنی کے مالک نے کیا طریقہ کار اختیارکیا
تھا ،تفتیشی نے اس کا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کا بیان قلمبند کیا تھا ،پی ڈبلیو
4 تھانہ نیب لاہور کے سب انسپکٹر مختار احمد نے بیان کیا کہ اسے تفتیشی نے ریفرنس
نمبر 20/2017میں 5دفعہ طلب کیا تھا اور وہ شمیم فارم رائے ونڈ روڈ جاتی امراء
لاہور گیا ،اس کے پاس میاں نواز شریف ،کیپٹن صفدر ،بی بی مریم ،حسین نواز اور حسن
نواز کے طلبی کے نوٹسز تھے ، جہاںاس کی ملاقات سیکورٹی افسر عطا اللہ کے ساتھ ہوئی
جس نے میاں نواز شریف ،کیپٹن صفدر اوربی بی مریم کے نوٹسز تو وصول کرلئے لیکن حسین
نواز اور حسن نواز کے طلبی کے نوٹسز لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ بیرون ملک
رہتے ہیں، اس نے یہ نوٹسز تفتیشی کو واپس کئے اور تفتیشی نے اس کا ضابطہ فوجداری
کی دفعہ 161 کا بیان قلمبند کیا تھا، پی ڈبلیو5محمد عدیل اختر اسسٹنٹ ڈائریکٹر نیب
لاہور نے بیان کیا کہ میں نے صفحہ نمبر 62اور 111والے میمو ضبط کئے تھے ،اور ان پر
میرے دستخط بھی موجود ہیں، اس نے مزید بتایا کہ وہ23اگست 2017کو محمد عمران کے
سامنے میاںنواز شریف کے خلاف کیس میں شامل تفتیش ہوا ،تو کمپنی کی جوائنٹ رجسٹرار
سدرہ منصور پیش ہوئیں اور حدیبیہ پیپرز ملز کیس کی دستاویزات پیش کیں اور ضبطگی کا
میمو ان کے سامنے تیار کیا گیا ،جس پر انہوںنے ،میں نے اور تفتیشی نے دستخط کئے
تھے ، سدرہ منصور نے جو ریکارڈ پیش کیا تھا وہ 48صفحات پر مشتمل تھا ،تفتیشی نے ان
کا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کا بیان قلمبند کیا تھا ،6/9/17کو
OrrDignam & Co کے کلرک محمد رشید
نے ریکارڈ پیش کیا جس میں کوئین بنچ کا بیان حلفی اور کورنگ لیٹر موجود تھا،تفتیشی
نے ان کی ضبطگی کا میمو تیار کیا اور اس پر اپنے ، محمد رشید کے اور دیگر افراد کے
دستخط لئے تھے ،جبکہ محمد رشید ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کا بیان بھی قلمبند کیا
تھا،پی ڈبلیو6ایدیشنل ڈائریکٹر نیب ہیڈ کوارٹر اسلام آباد شکیل انجم ناگرہ نے
بیان کیا کہ15/8/17کوایڈیشنل ڈائرکیٹر کوآرڈینیشن پراسیکیوشن ونگ نے رجسٹرار
سپریم کورٹ کے نام جے آئی ٹی کی رپورٹ کے والیم 1تا10 کی مصدقہ نقول فراہم کرنے
کے حوالے سے درخواستیں لکھی تھیں،جس پر 17/817کو اسسٹنٹ رجسٹرار محمد مجاہد نے
والیم 1تا9کی تین تین نقول جبکہ والیم 10 کے چار سیٹ فراہم کئے ،انہوںنے ان میں سے
ایک سیٹ تیار کرکے کورنگ لیٹر کے ہمراہ 25/8/17کونیب لاہور میں پیش ہوکر تفتیشی کو
جمع کروایا اور اپنا بیان قلمبند کروایا ،پی ڈبلیو 7اسسٹنٹ ڈائریکٹر نیب لاہور
زوار منظور نے بیان کیا کہ 23اگست 17کو وہ میاں نواز شریف کے خلاف ہونے والی تفتیش
میں تفتیشی کے سامنے پیش ہوا ،تو کمپنی کی جوائنٹ رجسٹرار سدرہ منصور بھی پیش
ہوئیں اور دو صفحات پر مشتمل ایک لیٹر پیش کیا جوکہ مختلف آڈٹ سے متعلق تھا ،یہ
دستاویات تفتیشی نے ضبطگی کے میمو میں شامل کیں اور میں نے بطور گواہ اس پر دستخط
کئے تھے،پی ڈبلیو 8تھانہ نیب کے سب انسپکٹر عمر دراز نے بیان کیا کہ 16/8/17کووہ
طارق شفیع کو طلبی کا نوٹس دینے کے لئے ان کی ماڈل ٹائون کی رہائش پر گیا تو وہاں
پر تعینات ایک سیکورٹی گارڈ عبدالطیف نے بتایا کہ وہ تو اپنے خاندان کے ہمراہ
20/7/17کو بیرون ملک چلے گئے ہیں، اس نے نوٹس لینے سے انکار کردیا تو میں واپس چلا
آیا،اسی روز ہی موسیٰ غنی کی رہائش گلبرگ لاہور گیا تو پویس گارڈ کے انچارج عامر
سے ملاقات ہوئی ،جس نے بتایا کہ یہاں پر اس نام کا کوئی شخص نہٰن رہتا ہے بلکہ یہ
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق دار کی رہائش ہے جوکہ اسلام آباد میں رہتے ہیں، میں وہاں
سے واپس آگیا اورتفتیشی نے میرا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کا بیان بھی قلمبند
کیا ،اس سے قبل ،6/9/17کو تفتیشی عمران کے سامنے پیش ہوا تو OrrDignam & Co کا کلرک محمد رشید پیش ہوا اور اس نے
کورنگ لیٹر کے ساتھ کچھ دستاویزات پیش کیں جن میں کوئین بنچ کے فیصلے کی نقل اور
مظہر رضا خان کے بیان حلفی کی نقول تھیں ،جنہیں ضبطگی میمو میں شامل کیا گیا ،اور
میں نے بطور گواہ اس پر دستخط کئے تھے تفتیشی نے اس موقع پرمحمد رشیدکا ضابطہ
فوجداری کی دفعہ 161 کا بیان بھی قلمبند کیا تھا،پی ڈبلیو 9محمد عبدالواحد خان ڈی
جی، ڈائریکٹوریٹ آف الیکٹرانک میڈیا اینڈ پبلیکشنز زیرو پوائنٹ نے 5/1/18کو بیان
کیا کہ نیب کے دو افسران عمران اور نذیر سلطان ان کے پاس آئے اور انہیں وہ سارا
مواد دکھایا جوکہ میں نے ہی انہیں بھجوایا تھا اور میں نے اس کی تصدیق کی ، اس
مواد میں اول ،ہمارا 26/12/17کا فارورڈنگ لیٹر اور حسن نواز کے ایکسپریس نیوز کو
دیئے گئے انٹرو یو کی سی ڈی اور متن شامل تھا ، دوئم 28/12/17کا لیٹر اور پروگرام
کل تک کی سی ڈی شامل تھی ، سوئم 29/12/17کے لیٹر کے ساتھ حسن نواز اور حسین نواز
کے کیپیٹل ٹالک اور لیکن نامی پروگراموں میں دیئے گئے انٹر ویوز کی سی ڈی اور اس
کا متن شامل تھا اور یہ نیب لاہور کو بھجوائے گئے تھے،چہارم 30/12/17کا فارورڈنگ
لیٹر جس کے ہمراہ میاں نواز شریف کے قوم سے خطاب اور قومی اسمبلی سے خطاب کی دو سی
ڈیز شامل تھیں ،یہ بھی نیب لاہور کو بھجوایا گیا تھا،پنجم ،28/12/17کے دو لیٹر
جوکہ میرے ڈائریکٹر عاصم کچھی نے جیو نیوز اور پی ٹی وی کو پروگراموں کے ویڈیو کلپ
اور متن کے ھوالے سے بھجوائے تھے ،شامل تھے ،ششم 27/12/17کا لیٹر جوکہ ایکسٹرنل
پبلسٹی ونگ نے بی بی سی کے بیورو چیف ہارون الرشید کو بھجوایا تھا ،ہفتم ، نواز
شریف کا قوم سے خطاب کا چار صفحات پر مشتمل متن ،ہشتم، نواز شریف کے قومی اسمبلی
سے خطاب کا متن جوکہ صفحہ نمبر 31تا 36پر ہے ،جس پر وکیل صفائی جے اعتراج کیا تھا
کہ یہ آئین کے آرٹیکل 66کے تحت عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکتا ہے ،تاہم اسے بھی
اوور رول کردیا گیا تھا ۔
9/پروگرام کل تک ایکسپریس نیوز میں حسین نواز شریف کا انٹرویو کا
ترجمہ جو 22صفحات پر مشتمل اور کیس فائل میں شامل ہے پر اعتراض تھا کہ حسین نواز
شریف کبھی اس کیس میں عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے نہ ہی اس میں کیس میں گواہ
ہیں۔اس پر نیب پراسیکیوٹر نے موقف اختیار کیا کہ حسین نواز اس کیس میں اشتہاری ہیں
اور وکیل صفائی نے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔10/کل تک پروگرام کی سی ڈی کے علاوہ
قوم سے خطاب اور قومی اسمبیل میں کی گئی تقریر کی سی ڈیز میں کیس فائل کا حصہ
ہیں۔جس پر ائین کے آرٹیکل66کے تحت اعتراض تھا پر نیب پراسیکیوٹر کا موقف تھا کہ
یہ قابل قبول شواہد ہیں۔تمام چیزیں تفتیشی مقدمہ محمد عمران ڈپٹی ڈائریکٹر نیب
لاہور سے لی گئیں اور اس موقع پر محمد نذیر سلطان اور میں نے دستخط کئے تھے۔گواہ
پی ڈبلیو 10/سید مبشر توقیر شاہ ڈائریکٹر ایکسٹرنل پبلسٹی ونگ انفارمیشن اینڈ براڈ
کاسٹنگ ڈویژن وازارت اطلاعات و نشریات 5جنوری 2018کو ایوان فیلڈ ریفرنس میں شامل
تفتیش ہوئےاور تفتیشی کی طرف سے دکھائے گئی دستاویزات اور آرٹیکلز کی تصدیق کی۔گواہ
11/وقاص احمد سینئر کوارڈینٹر جیو نیوز اسلام آباد آفس نے بتایا کہ 8جنوری2018کو
نیب کی طرف سے ایک لیٹر موصو ل ہوا جس میں کیپیٹل ٹالک اور لیکن پروگراموں کے بارے
معلومات مانگی گئیں تھیں۔انہوں نے شامل تفتیش ہوکر پروگراموں کی ڈی وی ڈی اور
ٹرانسکرائب مواد کی تصدیق کی۔کیپیٹل ٹالک پروگرام کے ٹرانسکرائب صفحات13اور لیکت
پروگرام کے دوصفحات کیس فائل کے ساتھ منسلک ہیں۔گواہ12 /زاور منظور اسسٹنٹ
ڈائریکٹر نیب لاہور جھنوںعبوری ریفرنس میں بیان دیا تھا۔ سپلیمنٹری ریفرنس میں
بیان کے دس جنوری کو تحقیقات کیلئے پیش ہوئے۔ان کی موجودگی میں جیو کے نمائندے
وقاص احمد نے ریکارڈ جمع کرایا۔گواہ گیارہ محمد سلطان نذیر ڈپٹی ڈائریکٹر نیب
لاہور نے بتایا کہ پانچ جنوری کوعبدالوحید خان ڈی جی ڈائریکٹر ایکٹوانک میڈیا اینڈ
پبلیکیشنز نے تین سی ڈیز پیش کیں جو تفتیشی نے قبضہ میں لیں اور کیس فائل کا حصہ
بنایا۔اسی طرح تفتیشی نے تین خطوط بھی ریکارڈ کا حصہ بنائے۔سید مبشر توقیر شاہ نے
ایک سی ڈی اور بارہ صفحات ٹرانسکرائب مواد کے پیش کئے جو ریکارڈ کا حصہ بنائے
گے۔گواہ14/رابرٹ ولیم ریڈلے جو فرانزک اینڈ ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ ہیں اور 1976سے اس
فیلڈ میں کام کررہے ہیں۔جن کی خدمات کوئسٹ سولیسیٹر نے حاصل کیں تھیں۔انہوں
نےدونوں ٹرسٹ ڈیکلریشن،جرمی فری مین کے دستخط سمیت دیگر دستاویزات جو کوئسٹ
سولیسیٹر نے فراہم کیں تھیں کاجائزہ لے کر رپورٹ تیار کی تھی۔اس کے مطابق دونوں
ڈیکلریشن کے دوسرے اور تیسرے صفحات کسی اور دستاویزات کی کاپی ہیں۔جن کو ری پروڈوس
کیا گیا ہے۔اسی طرح دونوں ڈیکلریشن کے صفحات نمبر دو اور تین میں سے یہ بتانا مشکل
ہے کہ اصل کونسے ہیں۔اسی طرح دستخطوں کے ساتھ تاریخ بظاہر2006لگ رہی ہے۔جس کو اوور
رائیٹ کرکے2004کرنے کی کوشش نظر آتی ہے۔6جولائی 2017کو دو رپورٹیں لیبارٹری کےسیل
بند لفافے میں موصول کیں۔جس کی سولیسیٹر نے تصدیق کی۔کہ یہ اصل کی کاپی ہیں۔مچل
لنڈسلے نوٹوی پبلک نے بھی تصدیق کی۔یہ دونوں دستاویزات نیسکول اور نیلسن اور کومبر
ڈیکلیرشن کی کاپیاں تھیں۔جو ریکارڈ کا حصہ ہیں۔رابرٹ ولیم ریڈلے جو فرانزک اینڈ
ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ نے پہلے دیکھی گئی ڈیکلریشن کی کاپیوں اور بعد میں لیارٹری سے
موصول شدہ کاپیوں کے جائزہ کے بعد سامنے آیا کہ گومبر اور نیس کول و نیلسن
ڈیکلریشن کی کاپیوں ے دستخط والے صفحات مختلف پائے گے۔دستاویزات میں استعمال ہونے
والا فائونٹ کیلبری جو ابتداء میں ونڈو وسٹا پروگرام میں تھا۔جو31جنوری2017تک
کمرشل بنیادوں پر دستیاب نہیں تھا۔رابرٹ ولیم ریڈلے جو فرانزک اینڈ ہینڈ رائٹنگ
ایکسپرٹ نے رائے دی کہ لگتا ہے کہ دستاویزات 31جولائی2017کے بعد تیار کی گئیں
ہیں۔ان کا بیان15دسمبر2017کو ریکارڈ کیا گیا۔
استغاثہ کے گواہ نمبر پندرہ اختر ریاض راجہ کوئسٹ سولسٹر لندن نے
بتایا کہ مذکورہ لافرم جو 1994میں قائم ہوئی جے آئی ٹی نے بارہ مئی 2017کو اس فرم
کی قانونی خدمات حاصل کیں، کوئسٹ سولسٹر کی خدمات سپریم کورٹ آف پاکستان میں
زیرسماعت متعدد پٹیشنز کیلئے لی گئیں وہ پٹیشنز جو سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان
کے خاندان کیخلاف زیرسماعت تھیں، اختر ریاض راجہ نے جے آئی ٹی کی ہدایت پر عمل
کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں زیرسماعت مقدمات کے حوالے سے کاغذات کی نقول حاصل کیں ان
دستاویزات میں اسے ایک برطانوی سولسٹر فرم فری مین باکس کا پانچ جنوری 2017کا ایک
خط ملا مذکورہ خط سولسٹر جیریمی فری مین نے لکھا تھا اس خط میں دو ٹرسٹ ڈیکلریشنز
کا حوالہ تھا ایک ٹرسٹ ڈیکلریشن نیسکول اور نیلسن نامی آف شور کمپنی جبکہ دوسرا
کومبر گروپ کے حوالے سے تھا، فری مین نے پانچ جنوری 2017کے خط میں لکھا کہ حسین
نواز شریف چار فروری 2006کو اس کے دفتر آیا اور مذکورہ ڈیکلریشن پر میری موجودگی
میں دستخط کئے جن پر میں نے بطور گواہ دستخط بھی کئے، اس موقع پر وکیل صفائی نے
اعتراض اٹھایا کہ یہ چیز سنی سنائی بات کے زمرے میں آتی ہے کیونکہ فری مین اس
عدالت کے سامنے کبھی بطور گواہ پیش نہیں ہوا (اعتراض مسترد، توجیہہ دلائل میں بیان
کی گئی ہے) فری مین نے تصدیق کی کہ کوئسٹ سولسٹر کی طرف سے بھجوائی جانے والی ٹرسٹ
ڈیکلریشن کی نقل وہی ہے جس پر اس نے دستخط کئے تھے، مذکورہ بالا نقل پر اعتراض
اٹھایا گیا کہ یہ دستاویز اصل کی نقل ہے اور قانون شہادت کے آرٹیکل 8کے تحت مصدقہ
بھی نہیں (اعتراض مسترد، توجیہہ دلائل میں بیان کی گئی ہے) اختر ریاض راجہ کو
دونوں ڈیکلریشن کاغذات کے پلندے میں سے ملے جن کا اس نے بغور جائزہ لیا اور اسی
اثناء میں جے آئی ٹی بھی ان دستاویزات کا جائزہ لے رہی تھی، اختر ریاض راجہ نے
کہا کہ ٹرسٹ ڈیکلریشن میں بہت ساری غلطیاں تھیں اور یہ ڈیکلریشن جعل سازی لگتے
ہیں، وکیل صفائی نے اعتراض اٹھایا کہ یہ گواہ کی رائے ہے جو بطور شہادت قابل قبول
نہیں جس پر گواہ نے کہا کہ جعل سازی اور غلطیاں اتنی زیادہ تھیں جیساکہ یہ کسی
کاغذ کا (فرینکسٹائن ورژن) ہو، جب اختر ریاض راجہ نے یہ فرینکسٹائن جعل سازی
دریافت کرلی تو جے آئی ٹی نے اس سے کہا کہ وہ اس کی تصدیق کیلئے کسی ماہر کی
خدمات حاصل کریں، انہوںنے کہا کہ کوئی بھی عام آدمی ان کاغذات کو دیکھ کر جعلی
ہونے بارے تصدیق کر سکتا ہے لیکن اس کیلئے کسی ماہر کی رائے بھی ضروری ہے، اختر
ریاض راجہ نے پہلے ٹرسٹ ڈیکلریشن کے حوالے سے فری مین باکس نامی قانونی فرم کے
وکیل جیریمی فری مین کو 27جون 2017کو ایک خط لکھا مذکورہ خط اختر ریاض راجہ کو
کیمرے پر دکھایا گیا جب وہ بذریعہ ویڈیو لنک اپنی شہادت قلمبند کروا رہے تھے، لیکن
اس خط کے ساتھ جیریمی فری مین کا خط بھی لف تھا اور دونوں ٹرسٹ ڈیکلریشن بھی ساتھ
تھیں، صفحہ نمبر 106سے لیکر 111تک کی منسلکہ دستاویزات انہی دستاویزات کی نقول
معلوم ہوتی ہیں جو اس کے خط کے ساتھ لف تھیں، اختر ریاض نے جیریمی فری مین کو
مذکورہ خط بذریعہ ای میل بھجوایا جس کا جواب نہ ملنے کی صورت میں اس نے یہ خط کسی
کے ہاتھ بھجوایا اس شخص کے پاس 27جون 2017کی اس ای میل کی کاپی بھی موجود ہے،
29جون 2017کو اختر راجہ کو جیریمی فری مین کی ای میل موصول ہوئی جیریمی فری مین نے
اپنی ای میل میں بیان کیا کہ حسین نواز شریف اصل ٹرسٹ ڈیکلریشن کی دستاویزات کے
ساتھ اس کے دفتر آیا تھا اور یہ وہی دستاویزات ہیں جو اختر راجہ نے 27جون 2017کے
خط کے ساتھ منسلک کی تھیں ان دستاویزات کی نقل والیم چار کے صفحہ 89پر موجود ہیں،
جیریمی فری مین نے اپنے خط میں حسین نواز شریف اور ایک گواہ وقار کے دستخطوں کی نصدیق
کی اس نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ پانچ جنوری 2017کے خط کے مندرجات درست تھے،
29جون 2017کو جب جے آئی ٹی نے اختر راجہ کو کسی ماہر کی خدمات کے حصول کیلئے مجاز
مقرر کیا تو اسی دن اس نے رابرٹ ریڈلے سے رابطہ کیا اور اختر راجہ نے جے آئی ٹی
کو ریڈلے کی خدمات لینے کی سفارش بھی کی اس نے ریڈلے کی قابلیت اور بطور ماہر گواہ
موزونیت کے حوالے سے چھان بین کی تھی، اختر ریاض اور ریڈلے کے درمیان 30جون 2017تک
بات چیت ہوتی رہی اس نے ریڈلے کو نیلسن، نیسکول اور کومبر کمپنیوں کی ڈیکلریشن کی
نقول فراہم کیں جے آئی ٹی سے متعین ہدایات لینے کے بعد اختر ریاض نے ریڈلے کو کام
کے حوالے سے کچھ ہدایات دیں جن کا ذکر اس نے اپنی چار جولائی 2017کی رپورٹ میں
کیا، اس نے جے آئی ٹی کو اپنی پہلی رپورٹ چار جولائی 2017کو فراہم کی، پانچ
جولائی 2017کو جے آئی ٹی نے اسے بتایا کہ وہ اسے ڈیکلریشن کے دو ورژن مزید بھجوا
رہے ہیں مذکورہ ورژن چھ جولائی 2017کو لندن پہنچے یہ ورژن ہیتھرو ایئرپورٹ سے براہ
راست مسٹر ریڈلے کی لیبارٹری تک پہنچائے گئے جن کا جائزہ لینے کے بعد ریڈلے نے
آٹھ جولائی 2017کو دوسری رپورٹ دی دونوں رپورٹس ریڈلے کی لیبارٹری میں سیل کی گئیں
اور ان کو پاکستان پہنچایا گیا، جب دونوں رپورٹس اور ڈیکلریشن کا دوسرا سیٹ سیل کر
کے پاکستان بھجوایا گیا اس وقت ریڈلے اپنی لیبارٹری میں موجود تھا، اختر راجہ نے
التوفیق کمپنی کے حدیبیہ پیپر ملز کے حوالے سے دائر مقدمہ کے بارے میں بھی جے آئی
ٹی کی ہدایت پر کمنٹری لکھی مذکورہ کمنٹری میں جسٹس کوئین بینچ ڈویژن لندن کے
1999کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں شہباز شریف اور شریف فیملی کے دو اور
افراد مدعاعلیہہ تھے، پانچ نومبر 1999کی اس ججمنٹ میں مدعا علیہان کو دو کروڑ
ڈالرز کی ادائیگی کا کہا گیا تھا، اختر ریاض راجہ کی کمنٹری ڈان اخبار میں شائع
ایک آرٹیکل پر مبنی ہے، اختر راجہ کا بیان نیب نے قلمبند نہیں کیا، استغاثہ کے
گواہ نمبر 16واجہ ضیاء نے اپنے بیان میں بتایا کہ 20اپریل 2017کے سپریم کورٹ کے
فیصلے کے وقت وہ ایف آئی اے میں بطور ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل امیگریشن کام کر رہا
تھا سپریم کورٹ نے مذکورہ فیصلے کی رو سے ایک جے آئی ٹی بنائی جس کا اس کو سربراہ
مقرر کیا گیا، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ جے آئی ٹی کا سربراہ ایک
ایسا شخص ہونا چاہئے جس کو وائٹ کالر کرائمز کی تفتیش کا تجربہ ہو، جے آئی ٹی کے
دوسرے ممبران قومی احتساب بیورو، سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، سٹیٹ بینک
آف پاکستان، آئی ایس آئی اور ایم آئی سے لئے گئے تھے، مذکورہ اداروں کے
سربراہان سے کہا گیا کہ وہ اپنے اداروں سے اچھی ساکھ کے حامل افسران تجویز کریں،
واجد ضیاء نے بتایا کہ ایف آئی اے سے تین افسران کا نام تجویز کیا گیا جن میں
حتمی انتخاب میں ان کا نام بھی شامل تھا، جے آئی ٹی کو ان سوالات کے جوالات تلاش
کرنا تھا، گلف سٹیل ملز کس طرح قائم ہوئی، کن وجوہات کی بنا پر اسے فروخت کیا گیا،
اس کے ذمہ واجب الادا قرضہ جات کس طرح اتارے گئے اور اس کی فروخت سے حاصل ہونے
والا پیسہ کہاں گیا، وہ پیسہ جدہ، قطر اور برطانیہ کیسے پہنچا، حسین نواز اور حسن
نواز کے پاس کم عمری میں کیا ایسے ذرائع موجود تھے جن سے وہ لندن میں فلیٹس خرید
سکتے، قطری شہزادے حماد بن جاسم بن جابر الثانی کیا ایک حقیقت ہے یا افسانہ۔ قطریوں
کے ساتھ شیئرز کس طرح فلیٹس کی صورت میں متشکل ہوئے، نیلسن انٹرپرائزز اور نیسکول
لمیٹڈ کا اصل بینی فشل اونر کون ہے، ہل میٹل سٹیبلشمنٹ کس طرح معرض وجود میں آئی،
فلیگ شپ انوسٹمنٹ کمپنیز قائم کرنے کیلئے حسن نواز کے پاس پیسے کہاں سے آئے،
مذکورہ کمپنیوں کے لئے بنیادی سرمایہ کہاں سے آیا اور کس طرح اس نے کروڑوں روپے
کی رقومات نواز شریف کو بطور تحفہ دیں، یہ اصل سوال ہیں جن کا جواب تلاش کرنے کی
ضرورت ہے، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ جے آئی ٹی اس کیس کی تحقیقات
اور شواہد بھی تلاش کرے کہ آیا نواز شریف یا اس کے زیرکفالت بے نامی دار افراد کے
پاس ایسے اثاثے موجود ہیں جو ان کے معلوم ذرائع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے، سپریم
کورٹ نے جے آئی ٹی کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس سے متعلقہ مواد اور شواہد کا جائزہ
بھی لے اگر ایسا کوئی مواد پہلے سے نیب یا ایف آئی اے کے پاس موجود ہے، جس سے یہ
معلوم ہو سکے کہ لندن فلیٹس کن ذرائع سے حاصل کئے گئے، واجد ضیاء نے سپریم کورٹ کے
فیصلے کی مصدقہ نقل پیش کی، سپریم کورٹ نے پانچ 2017کو جے آئی ٹی تشکیل دی جس میں
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گریڈ 21کے افسر عامر عزیز، سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن
کے بلال رسول، قومی احتساب بیورو سے عرفان نعیم منگی، آئی ایس آئی سے بریگیڈیئر
نعمان سعید اور ایم آئی سے بریگیڈیئر کامران خورشید شامل تھے، جبکہ واجد ضیاء اس
کی سربراہی کر رہے تھے، سپریم کورٹ نے تحقیقات کے ضمن میں جے آئی ٹی کو مخصوص
اختیارات بھی دیئے، جے آئی ٹی نے اپنا کام آٹھ مئی 2017کو شروع کیا اور دس والیم
پر مشتمل رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی، جے آئی ٹی نے وہ تمام دستاویزات اکٹھی
کیں جو سپریم کورٹ میں درخواست گزاروں نے پٹیشن نمبر 29کے ساتھ لف کی تھیں، جے
آئی ٹی نے مدعا علیہ کے بیانات اور ان کی طرف سے جمع کروائی گئی دستاویزات بھی
جمع کیں، جے آئی ٹی نے مختلف اداروں جیساکہ سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف
پاکستان، ایف آئی اے، نیب، مختلف بینکس اور دیگر اداروں سے بھی مواد جمع کیا،
دوران تفتیش جے آئی ٹی نے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ اس کیس میں بہت ساری
دستاویزات اور واقعات کا تعلق بیرون ممالک سے ہے، بیرون ممالک سے خط وکتابت کیلئے
جے آئی ٹی کے سربراہ کو نیب آرڈیننس کی سیکشن 21کے اختیارات تفویض کئے گئے اس کے
بعد جے آئی ٹی نے بیرون ممالک سے خط وکتابت کا آغاز کیا جن میں برطانیہ، برٹش
ورژن آئی لینڈ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک شامل تھے، جے آئی ٹی
نے ایسے افراد کے بیانات قلمبند کرنے شروع کئے جو ان واقعات کے ساتھ شناسائی رکھتے
تھے جن میں نواز شریف، شہباز شریف، جے آئی ٹی کا والیم IIگواہوں کے بیانات اورتجزیوں پرمبنی
ہے۔ گواہوں کے بیانات، سمن اور گواہوں کی طرف سے پیش کئے گئے مواد وغیرہ ایک الگ
فولڈر میں رکھے گئے اور سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو پیش کئے گئے۔ عدالت کے حکم پر
انہوں نے والیم نمبر 2,3,4,5,9,9-Aاور 10کے سیٹ سپریم کورٹ سے لاکر پیش کئے۔ آئینی پٹیشن نمبر29اور
سی ایم ایز کے جائزے کے بعد جے آئی ٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ سپریم کورٹ کی طرف سے
ایون فیلڈ اپارٹمنٹس سے متعلق سپریم کورٹ کی طرف سے اٹھایا گیا سوال درحقیقت ایون
فیلڈ اپارٹمنٹس سترہ، سترہ اے، 16 اور 16اے سے متعلق ہے اور پورا کیس کا جواب
دہندہ اور اب اس کا کیس کے ملزم نے مختلف سی ایم ایز کے ذریعے دفاع کیا ہے۔ ان
اپاٹمنٹس کی ملکیت اور تحویل حوالے سے تفصیلات 15نومبر 2017کو پیش کئے گئے سی ایم
اے میں موجود ہیں جو جواب دہندگان نمبر6، 7اور 8 اب ملزمان مریم صفدر، حسین نواز
شریف اور حسن نواز شریف کے ضمنی بیانات پر مشتمل ہے، متذکرہ بالا سی ایم اے میں اس
بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ گلف سٹیل نام کی فیکٹری ملزم کے والد محمد شریف مرحوم
نے 1974 میں قائم کی۔ یہ فیکٹری میاں محمد شفیع مالک کی حیثیت سے چلاتے رہے جبکہ
اس کے اصل مالک محمد شریف تھے۔ بیان میں بتایا گیا کہ گلف سٹیل کے 75فیصد شیئرز
21ملین درہم میں فروخت کر کے یہ رقم بی سی آئی بینک کو قرضے کی واپسی کے لئے ادا
کردی گئی۔ جس کے بعد ملز کے خریدار عبداللہ علی کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کیا گیا جس
کے تحت عبداللہ ایل، ایل مل (سابقہ نام گلف سٹیل) مل کے 75فیصد اور میاں شفیع 25
فیصد شیئرز کے مالک بن گئے۔ 1980میں میاں شفیع نے محمد شریف کی جانب سے یہ 25فیصد
شیئرز بھی 12ملین درہم میں عبداللہ ایل کو فروخت کردیئے یہ رقم قطر کے شاہ خاندان
کے ساتھ سرمایہ کاری میں لگا دی۔ قطری شاہی خاندان نے متذکرہ بالا اپارٹمنٹس نیلسن
اور نیسکول کمپنیوں کے نام پر خریدے تھے اور ملزم میاں محمد نواز شریف کے بیٹوں نے
بنیادی کرائے اور سروسز چارجز کی ادائیگی کے بعد ان اپارٹمنٹس میں رہنا شروع
کردیا۔ 2006 میں حسین نواز شریف اور قطری شاہی خاندان (شہزادہ حماد بن جاسم
الثانی) کے درمیان بیر سر شیئرز کی منتقلی کے معاہدے کے بعد ان اپارٹمنٹس کی ملکیت
تبدیل ہو گئی۔ اور ملزمہ مریم صفدر 2006 میں طے پانے والی ٹرسٹ ڈیڈ کے نتیجے میں
حسین نواز شریف کی ٹرسٹی بینی فشری بن گئیں اس سی ایم اے کے ساتھ کئی دستاویز پیش
کی گئیں۔ سی ایم اے432بنیادی طور پر گلف سٹیل کی فروخت کی منی ٹریل کی تفصیلات
بیان کرتا ہے جو پہلے ہی متذکرہ سی ایم اے اور دیگر دستاویزات میں فراہم کی گئی
ہیں۔ان دستاویزات اور سی ایم اے میں قطر کے شاہی خاندان کے ساتھ سرمایہ کاری،
بیرسر شیئرز کے ذریعے ملکیت کی منتقلی اور منی ٹریل کی منتقلی میں وقفوں کی وضاحت
کی گئی ہے۔ یہ سی ایم اے جواب دہندگان نمبر7اور 8حسین اور حسن نواز نے26جنوری 1917
کو فراہم کیا تھا۔ سی ایم اے نمبر7531والیم نمبر 7531/2017کے صفحات ایک سے 7تک ان
کے اعتراضات کے ساتھ موجود تھے۔ پراسیکیوٹر نے آرٹیکل (3)85قانون شہادت آرٹیکل
88مجریہ 1984 کے تحت یہ اعتراضات رد کر دیئے گواہ نے دستاویزات کا جائزہ اور
مطالعہ کیا۔ (اعتراضات رد کرنے کی وجہ ادھر بیان کی گئی ہے) انہوں نے 12نومبر
2016کو متذکرہ بالا سی ایم اے کے تحت طارق شفیع کے بیان کی تصدیق شدہ کاپی پیش کی
جس کی فوٹو کاپی والیم سی ایم اے نمبر7531 کے صفحات 59 سے 62تک موجود ہے۔ (انہوں
نے یہ تفصیلات بھی اعتراضات کے ساتھ پیش کی ہیں جو پراسیکیوٹر نے رد کر دی ہیں)
طارق شفیع کا بیان حلفی بھی صفحہ 20سے 21تک موجود ہے۔ (انہوں نے بھی یہ بیان
اعتراضات کے ساتھ پیش کیا ہے جسے پراسیکیوٹر نے رد کردیا) ان دو بیان حلفی میں گلف
سٹیل کے قیام 1978اور 1980 میں اس کی فروخت،1980 میں اہل سٹیل کی فروخت اور12ملین
درہم کی قطری خاندان کو منتقلی کی تفصیلات درج ہیں جے آئی ٹی نے ان دو بیان حلفی
کا اپنی رپورٹ میں تفصیل سے ذکر کیا ہے (یہ رپورٹ گلف سٹیل ملز والیم 3کے صفحہ 5
سے21تک موجود ہے) جس میں جے ائی ٹی نے تضادات اور بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی ہے
اور طارق شفیع کی جے آئی ٹی کے روبرو تحقیقات کے دوران بھی یہی تضادات اور بے
قاعدگیاں سامنے آئیں۔سپریم کورٹ نے اپنے سوالات سے ایک میں جے آئی ٹی سے خاص طور
پر یہ سوال کیا کہ گلف سٹیل کیسے قائم ہوئی۔ اس سوال کا جواب بیان حلفی کے
پیرا7میں موجود ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ سٹیل مل زیرو ایکیوٹی اور 100فیصد قرضے
کے ساتھ قائم کی گئی جبکہ متذکرہ بیان حلفی کا پیرا صاف طور پر کہتا ہے کہ ایک اور
شخص محمد حسین جو کہ برطانوی باشندہ ہے اور یو کے میں رہتا ہے اس کا ایک پارٹنر ہے
اور یہ کبھی بھی گلف سٹیل کی سرگرمیوں کا حصہ نہیں رہا طارق شفیع اور دیگر گواہ اس
کی وضاحت کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ اس کاروبار میں کوئی اور ایکیویٹی نہیں تھی
اوروہ اس وقت اس کے ورکنگ پارٹنر نہیں ہیں۔اور یہ کہ گلف سٹیل ملز کے قیام میں ان
کا کیا کردار تھا طارق شفیع اور گواہ حسین سے جے آئی ٹی نے کہا کہ وہ اپنی پوزیشن
واضح کرنے کے لئے بینک قرضہ جیسی ٹھوس دستاویزات پیش کریں جو وہ نہ کر سکے۔ انہوں
نے شیئرز کی فروخت کے معاہدے کی تصدیق شدہ کاپیاں پیش کیں جن کی فوٹو کاپیاں والیم
کے صفحات 20سے 39 تک موجود ہیں۔ سی ایم اے167 تین فریقوں محمد شفیع، اہلی اور بی
سی سی آئی کے مابین ہے جس کے مطابق فروخت سے حاصل ہونے والے تمام 21ملین درہم بی
سی سی آئی کو جائیں گے۔کمپنی کے کل36ملین درہم کے تقریبا شیئرز تھے اور بی سی سی
آئی کو ادائیگی کے بعد بھی گلف سٹیل کے ذمہ 14ملین درہم واجب الادا تھے۔ یہ
ادائیگی طارق شفیع کے ذمہ تھی جوملز چلا رہے تھے جس کے مالک محمد شریف تھے، ان
میں6 ملین درہم بی سی سی آئی کے واجب الادا تھے جبکہ دیگر پانی اور بجلی کے چارجز
کے واجبات کی شکل میں ادا کرنے تھے۔1978 میں طارق شفیع اور عبداللہ اہلی کے درمیان
ہونیوالے پارٹنر شپ معاہدے کے مطابق 25 فیصد شیئر کے مالک طارق شفیع اور بقیہ 75
فیصد شیئر کے مالک عبداللہ اہلی تھے اس معاہدے کی فوٹو کاپیاں والیم سی ایم اے
7531کے صفحات40 سے 51 پر موجود ہیں جبکہ14اپریل 180کو ہونیوالے ایک اور معاہدے کی
کاپیاں صفحات52 سے لیکر 55 تک موجود ہیں، یہ معاہدہ طارق شفیع کے نمائندے شہباز
شریف اور محمد عبداللہ اہلی کے درمیان طے پایا تھا، جب اس بات کی تصدیق مانگی گئی
تو شہباز شریف اور طارق شفیع دونوں نے اس دستاویز پر دستخط کرنے کی صحت سے انکار
کیا۔14اپریل1980کو ہونیوالے اس معاہدے میں اس بات کے واضح وضاحت کی گئی تھی کہ بنک
گارنٹی عبدالرحمٰن اہلی فراہم کرینگے۔
(1) سی ایم اے نمبر432
(2) شیئر سیل
(3) لیٹر آف کریڈٹ کی فوٹو کاپی سی ایم اے432کے صفحات36 سے39 پر موجود
ہیں۔
(4) حماد بن جاسم بن جابر الثانی کے خطہ کی کاپی سی ایم اے نمبر7638 پر
ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
(5) شیخ حماد بن جاسم کا 22 دسمبر 2016کو لکھے گئے خطہ کی کاپی میں سی
ایم اے432کے صفحہ نمبر22پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
14۔
شیخ حماد بن جاسم کی طرف سے لکھے گئے خط کی فوٹو کاپی دیکھی اور واپس کی گئی،
مذکورہ بالا خط وزارت امور خارجہ کو بھیجا گیا اور اس ضمن میں خط سیکرٹری امور
خارجہ کو لکھا گیا (صفحہ 67)EX. PW-16-20، (آفس کاپی دیکھ کر واپس کی گئی)۔
15۔
ڈائریکٹر ایس ایس پی آفاق احمد کی طرف سے لکھے گئے خط کی فوٹو کاپی ایک بند لفافے
میں موصول ہوئی یہ خط بھی دیکھ کر واپس کیا گیا۔
انہوں نے جو خط پیش کیا وہ کھلی ہوئی حالت میں تھا جبکہ فوٹو کاپی
جو خط کی لی گئی وہ بھی پیش کی گئی صفحہ نمبر Ex.Pw 4622-84 (یہ بھی دیکھ کر واپس
کی گئی) ایک بند لفافے کے پہلے صفحے کی فوٹو کاپی جو صفحہ (92)
Ex.pw-16/23 ہے وہ بھی دیکھ کر
واپس کی گئی۔ جے آئی ٹی کے ممبر کی موجودگی میں ایک تصدیق شدہ میمو کی کاپی حوالے
کی گئی۔ اس میمو کے صفحہ 85 والیم نمبر5 کا صفحہ Ex.pw 16-24 ہے، یہ بھی دیکھ کر واپس کی گئی۔
ایک خط جو مورخہ 23-6-207 کو لکھا گیا جس میں جے آئی ٹی چیئرمین
کو آفاق احمد کی طرف سے مخاطب کیا گیا بھی اس کے ساتھ منسلک ہے، جوکہ ایک ڈیلیوری
رپورٹ فیکس ٹرانسمیشن کی ہے اور اس کے ساتھ کوریئرر کی رسید بھی منسلک ہے، یہ بھی
اسی طرح EX.PW 1625 دیکھا گیا، فوٹو کاپی جو عزت مآب شیخ حماد بن جاسم کو
مورخہ22-6-2017 کو بھیجی گئی ان کا حوالہ (Page 74)EX.PW-16/26 ہے (اس کی دفتری نقل بھی دیکھ کر
واپس کی گئی)۔ ایک فوٹو کاپی فیکس رپورٹ کی ہمارے دفتر نے موصول کی جوکہ 22-6-2017
کو لکھے گئے خط کی وصولی کی بابت تھی، جوکہ منسلکہ حوالہ EX.PW-16/25 ہے یہ فیکس رپورٹ
EX.PW-1627 (صفحہ
77) ہے، یہ دراصل فوٹو کاپی کی فوٹو کاپی تھی جو تصدیق شدہ بھی نہیں تھی اس میں نہ
تو گواہوں کے پتے تھے نہ وصول کنندہ کے متعلقہ کاغذات موجود تھے۔
ڈی ای ایل کی فوٹو کاپی جو درحقیقت کاغذات کی ٹرانسمیشن سے متعلق
تھی 22-6-17 بھی اس طرح دیکھی گئی اس کا حوالہ نمبر PW-16-B اور صفحہ نمبر73 ہے۔
آفاق احمد کے خط کی نقل جس میں جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کو مخاطب
کیا گیا سربمہر لفافے میں دوحہ میں واقع سفارتخانے کے ذریعے وصول ہوئی، جس میں
تصدیق کی گئی کہ خط مذکورہ عبدالحماد عبدالراشد جو سیکرٹری ہیں شیخ حماد بن جاسم
کے ان کو پہنچا دیا گیا ہے، اس طرح اس کا نمبر EX.PW 16/28 (صفحہ نمبر 69) ہے اسے
بھی دیکھ کر واپس کر دیا گیا۔
فوٹو کاپی جو حماد بن جاسم کے خط کی تھی جس میں جے آئی ٹی سربراہ
کو مخاطب کیا گیا، اس کا حوالہ EX.PW 16/29 اور صفحہ 87 ہے اسے بھی دیکھ کر واپس
کیا گیا۔
دوحہ میں واقع پاکستانی سفارتخانے کے سفارت کار شہزاد کے خط کی
کاپی جس میں ظاہر کیا گیا کہ منسلکہ خط عبدالحماد عبدالراشد کو پہنچا دیا گیا وہ
بھی اسی طرح درج ہوا جس کا حوالہ (16/C) PW صفحہ 86 ہے۔
اسی طرح سفارتکار شہزاد احمد کی طرف سے وزارت خارجہ امور میں سلمان
شریف کو لکھے گئے خط کا حوالہ نمبر EX.PW-130 اور صفحہ نمبر 88 ہے۔
شیخ حماد بن جاسم الثانی کی طرف سے جے آئی کو لکھے گئے خط کا
حوالہ نمبر EX.PW 16/31 صفحہ نمبر 89 ہے، یہ خط ایک اورخط
نمبر EX.PW/1630 سے منسلک تھا۔
چیئرمین جے آئی ٹی واجد ضیاء کے نام لکھے گئے خط کا حوالہ نمبر
EX.PW 16/32 صفحہ 78 ہے جو
آفاق احمد ڈائریکٹر ایس ایس پی نے وزارت خارجہ کے ذریعے لکھا اور ہمارے دوحہ میں
واقع سفارت خانے کے ذریعے وصول ہوا۔ یہ بھی سربمہر خط تھا۔
ایک خط سربراہ جے آئی ٹی نے مورخہ 4-7-2017 کو شیخ حماد بن جاسم
کو لکھا اس کا حوالہ نمبر EX.PW 1633 اور صفحہ (82سے 79) ہے یہ خط بھی
دیکھ کر واپس کر دیا گیا۔ یہ خط وزارت خارجہ امور کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔
شیخ حماد بن جاسم الثانی کے ایک اور لکھے گئے خط مورخہ 6-7-2017 کی
نقل بھی برائے ملاحظہ ہمراہ ریکارڈ ہے جس میں حماد بن جاسم نے جے آئی ٹی کو مخاطب
کیا اس کا حوالہ PW-16D اور صفحہ نمبر 93 ہے یہ خط کورنگ لیٹر کے طور پر موصول ہوا اور ایک
ای میل بھی اس کورنگ لیٹر کے ساتھ ملائی گئی۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے معزز رجسٹرار
کی طرف سے لکھا گیا اصل خط بھی پیش کیا جو کہ ایک سربمہر لفافے میں دیا گیا تھا۔
وہ لفافہ عدالت میں کھولا گیا۔ اس طرح ایک کھلا لفافہ، کورنگ لیٹر اور ایک اور لفافہ
عدالتی کسٹڈی میں محفوظ رکھا گیا، جسے معزز عدالت کے حکم کے مطابق محفوظ رکھا گیا،
اس کا اعلان 28-7-2017 کو کہا گیا۔ یہ لفافہ ایک ٹیپ کے ساتھ بند کیا گیا، یہ
لفافہ ایک عربی اور انگلش میں لکھے گئے خط کو لئے ہوئے ہے، جوکہ 16D کے گواہوں جو انہوں نے دفتر خارجہ کے
ذریعے خطوط وصول کئے ان سے مختلف ہے، اور یہ خط انگریزی متن والا ہے۔ تاہم جب یہ
خط دیکھا گیا تو وہ 16-D سے مختلف تھا۔
گواہوں نے بھی کہا کہ یہ خط اس خط کی طرح ہے جو فائل میں موجود ہے
اس موقع پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ وہ ریکارڈ مرتب کرنے کیلئے ایک درخواست فائل کریں
گے۔ اس موقع پر تمام لفافے دیکھ کر واپس کر دیئے گئے۔ اسی طرح التوفیق کمپنی اور
حدیبیہ پیپر ملز جو کہ حوالہ نمبر PW-16F ہے پر اعتراض ہوا کہ مذکورہ کاغذات شواہد کے مطابق نہیںیہ سب صفحہ
189 سے 191 تک ہے۔ اسی طرح دوسرے ریکارڈ کی نقول منسلکہ صفحہ 211، حدیبیہ پیپرز کے
ریکارڈ کی نقول منسلک ہوئیں جن کا نمبر CMA.432 بطور ریفرنس دستیاب ہے اس کی تصدیق شدہ نقول EX.PW 1634 ہیں جن پر یہ اعتراض درج کیا گیا کہ
یہ دراصل فوٹو کاپیوں کی فوٹو کاپی ہے یہ تصدیق شدہ بھی نہیں ہیں اس لئے یہ غیر
متعلقہ ہیں، اس کے بعد انہوں نے دو تصدیق شدہ نقول فراہم کیں جو ایک آئینی
درخواست نمبر 29.2016 کے دی گئیں جو عدالت عظمیٰ میں دی گئی تھی۔ اسی طرح سی ایم
اے نمبر 753116 جس کا مزید حوالہ EX.PW 16/37 ہے اور EX.PW/ 1638 ہے پیش کی گئی ہیں، جن پر یہ اعتراض
درج کیا گیا مذکورہ تصدیق شدہ کاپیاں ایک کاپی کی فوٹو سٹیٹ ہیں پھر ایک تصدیق شدہ
نقل دفتری بھی فراہم کی گئی۔
رجسٹرار کی ایک نقل بابت ایون فیلڈ پیش کی گئی، یہ فوٹو کاپی پہلے
سے صفحہ نمبر 73 سے صفحہ نمبر 76 سی ایم اے 7531/16 موجود تھی، اس طرح رجسٹرار کی
ایک دفتری نقل مزید بھی پیش کی گئی جو 17 ایون فیلڈ سے ہی متعلق تھی، مذکورہ
دستاویزات کا نمبر EX.PW-1640 صفحہ نمبر 77 اور 78 ہے
مورخہ 317-1995 کے حوالے سے 16-A ایون فیلڈ کی بابت بھی ایک تصدیق شدہ
نقل پیش کی گئی۔ مذکورہ نقل میں EXPW-1642 ہے اور صفحہ نمبر81 سے 82 تک موجود ہے اس کا نمبرCMA7531/16
ہے۔ کمبور کمپنی سے متعلق ایک حلف
نامہ دیا گیا جس کی نقول پیش کی گئیں جو کہ ملزمان مریم نواز اور حسین نواز کے
درمیان تھا جس کا حوالہ EX.PW1643 صفحہ83 سے 86 ہے اس کا حوالہ نمبر بھیCMA7531/16
ہے، اس کی تصدیق شدہ نقول دیکھ کر
واپس کر دی گئیں۔
نیسکول اور نیسلسن سے متعلقہ حلف کی نقول مابین ملزمان مریم نواز
اور حسین نوازEXPW-1614 صفحہ مبر3 تا6،CMA
NO7661/16 پیش کی گئیں، یہ
تصدیق شدہ نقول تھیں، انہوں نے سٹیفن ماورلے سمتھ کی رائے پر مشتمل مصدقہ نقول پیش
کیں جن پر12-1-2017 کی تاریخ درج تھی، اس کی نقول والیم سی ایم اے 432/17صفحہ
نمبر107 موجود ہیں اس ضمن پر اعتراض پر تصدیق شدہ نقول گواہوں کی جانب سے پیش کی
گئیں اور یہ بھی کہا گیا کہ ماہرین کی رسمی رائے کے بغیر یہ ثبوت قابل قبول نہیں
ہیں۔ انہوں نے ماہرین کی رائے زیر غور لائیں۔ ایک میں کہا گیا متین نمبر 1645 پر
ہے اور دوسرے کا صفحہ نمبر 68 سے صفحہ نمبر88 تک ہے جس کا والیم نمبرIV ہے۔ اس کے ساتھ منسلک حوالہ نمبرCMA896/2017
ہے، جوکہ EXPW16/46 پر بھی موجود ہے۔
اس کی تصدیق شدہ نقل دیکھ کر واپس کر دی گئی اور کہا یہ گیا کہ
رسمی شواہد کے بغیر ماہرین کی رائے قابل قبول نہیں ہے۔
انہوں نے قرض کی ضمانت کی دو تصدیق شدہ نقول(DEUTSCHE Bank) کی فراہم کیں جو کہ صفحہ130 تا 132
پر موجود ہیں۔ والیم نمبر سی ایم اے432/2017 اس طرح حوالہ نمبر
EXPW1647 پر ہے اس کی تصدیق
شدہ نقول معائنہ کے بعد واپس کر دی گئیں۔ اس پر اعتراض یکا گیا کہ تصدیق شدہ نقول
جو پیش کی گئیں وہ دراصل فوٹو کاپی پر تصدیق ہے جو کہ قانون شہادت مجریہ 1984 کے
تحت قابل قبول ہیں۔
اس ضمن میں مالیاتی تحقیقاتی ایجنسی کے خط کی نقل بھی پیش کی گئی
جو کہ صفحہ نمبر 8 اور صفحہ نمبر 9 پر دستیاب ہیں ان کا والیم سی ایم اے نمبرA7511
(16) اورEXPW16/48 ہے۔ نقول مصدقہ گواہوں کو واپس کر دی
گئیں۔ اس پر بھی یہ اعتراض ہوا کہ پیش کردہ دستاویزات قانون شہادت مجریہ1984 کے
مطابق قابل قبول نہیں کیونکہ یہ فوٹو کاپی کی تصدیق ہیں۔
اس ضمن میں مالیاتی تحقیقاتی ادارے کا ایک خط نیسکول لمیٹڈ کی بابت
پش کیا گیا۔ جس کی تاریخ 22.6.2012 تھی جس کی نقول صفحہ نمبر 37 والیم سی پی نمبر
292016 ہے جو کہEXPW-16/49 بھی دیکھا جاسکتا ہے، اس کی بابت بھی کہا گیا کہ مذکورہ دستاویزات
قانون شہادت مجریہ84 کے مطابق درست نہیں ہے اس پر گواہوں کو بھی درج نہیں کیا گیا۔
اس ضمن میں ایک خطہ متعلقہ نیلسن انٹرپرائزز پیش کیا گیا جس میں موساک فوبنز المیڈ
کی طرف سے مالیاتی تحقیقاتی ایجنسی کو مخاطب کیا گیا تھا۔ جس پر تاریخ22.6.2012
صفحہ نمبر 38 سی پی نمبر292016 پی ٹیI ہیں جو کہEX-PW-16/50
بھی موجود ہے۔
آئینی پٹیشن نمبر29/2016میں سی ایم اے نمبر394/2017کی تصدیق شدہ
نقول۔ فوٹو کاپیز سی ایم اےکورٹ کے والیم میں دستیاب ہیں ۔ پہلے صفحے پرنوٹ اور سی
ایم اے نمبر کے بغیر اور آخری صفحے پر دستخطوں کے بغیر، جیسا کہ گواہ کی پیش کردہ
مصدقہ نقول سے عیاں ہے۔ ( فاضل درخواست گزار نے عذر پیش کیا کہ اسے آفس کاپی دی
گئی )یہ ہی EXPW-1651ہے۔(اعتراض ہے کہ سی ایم اے ان دلائل پر مشتمل ہے جو ثبوت کے لیے
ناقابل قبول ہیں ) اس نے منروافنانشل سروس لمیٹڈ کو لکھے گئے خط کی مصدقہ نقول کی
کاپی پیش کی جو3دسمبر2005کو سامبا فنانشل گروپ کے اسسٹنٹ جنرل منیجر نے لکھا ،
فوٹو کاپی سی ایم اے نمبر7511/2016 والیم کے صفحہ نمبراٹھارہ پر موجود ہے۔ یہ ہیEX.PW-1652ہے۔(اعتراض کے تحت گواہ نہ ہی منشی
کارکن، گواہ یا مخاطب ہے، دستاویزات کی تصدیق دراصل نقول کی تصدیق ہے، کاغذات کو
1984QSO کی شق89(5) کے تحت
تصدیق نہیں کی گئی ہے۔ اس نے شازی نقوی نامی کے ایفی ڈیوٹ کی مصدقہ نقول پیش کی جس
کی فوٹو کاپیز سی ایم اے نمبر432/2017( صفحہ نمبر75سے77پر موجود ہے ) یہ ہی
EX.PW-16;53ہے( اعتراض کے تحت
کاغذات ایک فوٹو کاپی کی تصدیق ہیں جو ثبوت میں قبول نہیں، گواہ نہ ہی منشی کارکن،
یا کاغذات کا شاہد ہے ) اس نے جرمی فری مین کا خط بھی وصول کیا، یہ خط پہلے ہی
EX.PW-15/1(
سی ایم اے نمبر 432/2017صفحہ نمبر106)میں دکھایا گیا ہے۔ کیو ہولڈنگزلمیٹڈ کی
فنانشل سٹیٹ منٹس کی مصدقہ نقول31 مارچ 2017تک جاری ہیں ۔ یہEX.PW16/54(صفحہ261) پر ہے اعتراض
یہ ہے کہ کاغذات نقول کی تصدیق شدہ کاپی ہیں جو قبول نہیں کیے جا سکتے، یہ غیر
متعلقہ ہیں ) فنانشل سٹیٹ منٹ کی مصدقہ نقول برائے سال 31مارچ2008کیو ہولڈنگز
لمیٹڈ، یہ بھی ex.pw-16 55(صفحہ278) پر ہیں ۔( اعتراض یہ ہے کہ کاغذات نقول کی تصدیق شدہ
کاپی ہیں جو قبول نہیں کیے جا سکتے) گواہ منشی ہے کارکن، گواہ نہ ہی کاغذات کا
عینی شاہد، یہ کاغذات قبول نہیں اور یہ غیر متعلقہ ہیں ۔ فلیگ شپ سیکورٹیز لمیٹڈ
کے 31مارچ2008 تک کے فنانشل سٹیٹ منٹس نوٹس کی مصدقہ نقول، یہ ہی
ex.pw-16/56(صفحہ279)
پر موجودہیں ۔ اعتراض یہ ہے کہ نقول کی تصدیق شدہ کاپی ہے جو ثبوت کے طور قوبل
نہیں کی جا سکتی۔ گواہ منشی ہے کارکن، گواہ نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد، یہ کاغذات
قبول نہیں اور یہ غیر متعلقہ ہیں۔ quint paddingon ltd کی 31 مارچ2008 کی فنانشل سٹیٹ منٹس
( جاری) کی مصدقہ نقول، یہ بھی ex.pw.16/57( صفحہ ۲۸۲) پر بھی ہے۔اس پر
اعتراض یہ ہے کہ کاغذات نقول کی تصدیق شدہ ہیں جو ثبوت کے طورقبول نہیں ، گواہ
منشی ہے کارکن نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد۔یہ کاغذات ناقابل قبول اور غیر متعلقہ
ہیں ۔ کیو ہولڈنگزلمیٹڈ کی فنانشل سٹیٹ منٹس ( جاری)کی مصدقہ نقول31 مارچ 2009، یہ
ہیex.pw16/59(صفحہ291) پر ہے۔اعتراض
یہ ہے کہ نقول کی تصدیق شدہ کاپی ہے جو ثبوت کے طور قبول نہیں کی جا سکتی۔ گواہ
منشی ہے کارکن، گواہ نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد، یہ کاغذات قبول نہیں اور یہ غیر
متعلقہ ہیں ۔فلیگ شپ سیکورٹیز لمیٹڈ کے 31مارچ2009 کے فنانشل سٹیٹ منٹس ( جاری)
نوٹس کی مصدقہ نقول، یہ ہی ex.pw-16/59(صفحہ300) پر موجود ہیں ۔ (اعتراض یہ ہے کہ نقول کی تصدیق شدہ کاپی
ہے جو ثبوت کے طور قبول نہیں کی جا سکتی۔ گواہ منشی ہے نہ کارکن ، نہ ہی کاغذات کا
عینی شاہد، یہ کاغذات قابل قبول نہیں اور غیر متعلق ہیں۔
Quint Paddington Ltdکی 31مارچ2009کی فنانشل سٹیٹ منٹس (
جاری) کی مصدقہ نقول، یہ بھی ex.pw.16/60( صفحہ 302 پر بھی ہے۔ اس پر اعتراض یہ
ہے کہ کاغذات نقول کی تصدیق شدہ ہیں جو ثبوت کے طورقبول نہیں ، گواہ منشی ہے کارکن
نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد۔یہ کاغذات ناقابل قبول اور غیر متعلقہ ہیں۔ کیو
ہولڈنگزلمیٹڈ کی فنانشل سٹیٹ منٹس ( جاری)کی مصدقہ نقول31 مارچ 2010 یہ ہیex.pw16/61)(صفحہ305) پر ہے۔اعتراض
یہ ہے کہ نقول کی تصدیق شدہ کاپی ہے جو ثبوت کے طور قبول نہیں کی جا سکتی۔ گواہ
منشی ہے کارکن، گواہ نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد، یہ کاغذات قبول نہیں اور یہ غیر
متعلقہ ہیں ۔فلیگ شپ سیکورٹیز لمیٹڈ کے 31مارچ 2010تک کے فنانشل سٹیٹ منٹس (
جاری)نوٹس کی مصدقہ نقول، یہ ہی ex.pw-16/62 ۔ یہ ہی صفحہ (311 ) پر موجوو ہےاعتراض یہ ہے کہ نقول کی تصدیق شدہ
کاپی ہے جو ثبوت کے طور قبول نہیں کی جا سکتی۔ گواہ منشی ہے کارکن، گواہ نہ ہی
کاغذات کا عینی شاہد، یہ کاغذات قبول نہیں اور یہ غیر متعلقہ ہیں۔Quint
Paddington Ltdکی 31مار\چ 2010کی
فنانشل سٹیٹ منٹس ( جاری) کی مصدقہ نقول، یہ بھی ex.pw.16/63( صفحہ 313)پر بھی ہے۔
اس پر اعتراض یہ ہے کہ کاغذات نقول کی تصدیق شدہ ہیں جو ثبوت کے طورقبول نہیں ،
گواہ منشی ہے کارکن نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد۔یہ کاغذات ناقابل قبول اور غیر
متعلقہ ہیں۔کیو ہولڈنگزلمیٹڈ کی فنانشل سٹیٹ منٹس ( جاری)کی مصدقہ نقول31 مارچ
2011 یہ ہیex.pw16/64)(صفحہ325) پر ہے۔اعتراض یہ ہے کہ نقول کی تصدیق شدہ کاپی ہے جو ثبوت
کے طور قوبل نہیں کی جا سکتی۔ گواہ منشی ہے کارکن، گواہ نہ ہی کاغذات کا عینی
شاہد، یہ کاغذات قبول نہیں اور یہ غیر متعلقہ ہیں ۔uint Paddington Ltdکی 31مار\چ2012کی فنانشل سٹیٹ منٹس (
جاری) کی مصدقہ نقول، یہ بھی ex.pw16/65(صفحہ 328والیم 7)پر بھی ہے۔ اس پر
اعتراض یہ ہے کہ کاغذات نقول کی تصدیق شدہ ہیں جو ثبوت کے طورقبول نہیں ، گواہ
منشی ہے کارکن نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد۔یہ کاغذات ناقابل قبول اور غیر متعلقہ
ہیں۔کیو ہولڈنگزلمیٹڈ کی فنانشل سٹیٹ منٹس ( جاری)کی مصدقہ نقول31 مارچ 2012 یہ ہیex.pw16/66)(صفحہ339) پر ہے۔اعتراض یہ ہے کہ نقول
کی تصدیق شدہ کاپی ہے جو ثبوت کے طور قبول نہیں کی جا سکتی۔ گواہ منشی ہے کارکن،
گواہ نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد، یہ کاغذات قبول نہیں اور یہ غیر متعلقہ ہیں۔فلیگ
شپ سیکورٹیز لمیٹڈ کے 31مارچ2012تک کے فنانشل سٹیٹ منٹس ( جاری)نوٹس کی مصدقہ
نقول، یہ ہی ex.pw-16/67 ۔ یہ ہی صفحہ (336) پر موجود ہےاعتراض یہ ہے کہ نقول کی تصدیق شدہ
کاپی ہے جو ثبوت کے طور قبول نہیں کی جا سکتی۔ گواہ منشی ہے کارکن، گواہ نہ ہی
کاغذات کا عینی شاہد، یہ کاغذات قبول نہیں اور یہ غیر متعلقہ ہیں۔ چارٹ کی مصدقہ
نقول پیسوں ، فنڈز کا فلو اور کمپنی کے نفع و نقصان وغیرہ کے بارے میں بتاتا ہے۔
جس کی مصدقہ نقول ex.pw16/68(صفحہ400 والیم7) میں ہے ( اصل چارٹ
دکھانے کے بعد واپس کر دیا گیا) اعتراض یہ ہے کہ مبینہ طور پر جے آئی ٹی نے تیار
کیا جو قانون میں قابل قبول نہیں اور یہ تفتیشی رپورٹ کا حصہ ہے۔ یہ ثبوت میں
تسلیم نہیں ، گواہ نے اصل چارٹ جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم سیون میں دکھایا ہے۔ جو
قابل احترام سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔ گواہ سے کہا گیا ہے کہ وہ اسے اسی
سائز میں اس عدالت اور ملزم کو فراہم کرے۔ 28جون2017کو متحدہ عرب امارات سے خط
موصول ہوا، جس کی مصدقہ نقول ex.pw.16/69(صفحہ236اور237 والیم تھری) پر ہیں (
اصل دیکھنے کے بعد واپس کر دیا گیا ) (اس پر اعتراض یہ ہے کہ ملزم کو جو نقول دی
گئی ہیں ان صفحات کا ان کے والیم میں ذکر نہیں ، جو صفحہ نمبر235پر ختم ہو جا تا
ہے، مذکورہ والیم کے انڈیکس میں یہ ذکر نہیں) دریں اثنا یہ کہا گیا کہ اس کی نقول
والیم تھری صفحہ نمبر80اور81 پر دستیاب ہیں ،اس کے جواب میں فاضل وکیل نے اعتراض
نہیں اٹھایا جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا۔ ( مزید اعتراض یہ کہ اس خط کے جواب میں
مبینہ طور پر جو خط ملا ریکارڈ پر موجود نہیں ، اس کی کاپی ملزم کو فراہم نہیں کی
گئی۔ کاغذاتNAO199کی سیکشن 21کی
تعمیل نہیں کرتے۔ مزید براں یہQ.S.O1984کے تحت بھی قابل قبول نہیں۔ اس نے اس خط کا ضمیمہ پیش کیا جس کی
مصدقہ نقول صفحہ118اور121پر موجود ہیں ۔ یہ ہیEX.PW 16/70ہے۔ اعتراض یہ ہے کہ گواہ نہ ہی
لکھنے ولا ہے، نہ ہی خط کا کارپرداز ، یہ خط عربی میں ہے اور اس کی اردو ترجمہ بھی
ریکارڈ میں موجود نہیں ۔ دستاویزاتnao199کی سیکشن21 اور QSO۱1984کے تقاضے کو پورا نہیں کرتے ۔ اس نے
اصل خط عربی میں پیش کیا، انگریزی میں یہ پہلے ہی دکھا دیا گیا تھا، ex.pw17/70پر۔اور عربی کی نقول
ex.pw16/71(صفحہ 78اور79
والیم تھری )اعتراض کے تحت NAO1999کی سیکشن21اورqso1984کے تحت ان کو مہیا نہیں کیا گیا جو لازمی تھے )اس نے رابرٹ ریڈلے
رپورٹ کی نقول فراہم کیں جو پہلے ہی رابرٹ ریڈلے کے بیان میں ex.pw14/1سے4اورex.pw.14/2,ex.pw14/3اورex.pw14/4والیم تھری میں موجود ہیں ،( اصل
دیکھنے کے بعد واپس کر دیا5لائی2017 کوملزمہ مریم صفدر کی طرح اس نے بھی دو ٹرسٹ
ڈیڈز بھی پیش کیے، دعویٰ کی کہ یہ اصل ہیں ، اس کی نقول پہلے ہی
ex.pw14/2۰(صفحہ122 سے127) اورex.pw14/3(صفحہ128تا 131والیم فورجے آئی ٹی
رپورٹ ) اعتراض یہ ہے کہ اس کے اصل ہونے کا دعویٰ کیا گیا افواہ ہے)اس نے12جون
2012کو ڈائریکٹر فنانشل انوسٹی گیشن ایجنسی ان برٹش ورجن آئی لینڈ کی طرف جے آئی
ٹی کو لکھے جانے والے خط کی اصل کاپی بھی پیش کی، جس کی مصدقہ نقلex.pw16/72(
صفحہ 52والیم فور) پر موجود ہے،
مذکورہ خط کے جواب میں جو خط ملا اس کی کاپی ریکارڈ میں موجود نہیں اور یہ ملزم کو
دی بھی نہیں گئی یہ بھی مذکورہ بالا قانون کے تحت قابل قبول نہیں فارم 9jaafzaاور ملازمت کا ریکارڈ کا ضمیمہ
مذکورہ سرٹی فیکیٹ بھی دستیاب ہے یہ صفحات318,316,317پر موجود ہیں ،اعتراض یہ ہے
کہ انہیں پبلک نہیں کیا جا سکتا۔
سیکشن (5) 89کے تحت یہ دستاویزات پراپرچینل کے تحت پیش نہیں کی
جارہیں اور جے آئی ٹی پاکستان کی کسی کورٹ کو ایڈریس نہیںکرتا۔ دستاویزات پر
تاریخ نہیں ہے اور نیب قانون کے سیکشن 21کے تحت حاصل نہیں کیاگیا۔ صفحہ نمبر
313،314،315پر موجود سرٹیفکیٹ کی کاپی کے ساتھ اسکرین شاٹس منسلک ہیں جوکہ
پراسیکیوشن وٹنس 16کو کہاگیا کہ وہ اس کی بہتر کاپی فراہم کرے ۔جے آئی ٹی نے
سپریم کورٹ سے حاصل کردہ دستاویزات کاجائزہ لیا اور اس میں اپنے بیان میں بینک
گارنٹیز کا ذکر کیا اور دستاویزات میں 14اپریل 1980ء کا معاہدہ منسلک کیاگیاہے۔
سپریم کورٹ سے جو دستاویزات لئے گئے ہیں اس میں ایک جامع بیان بھی تھا جس میں
کہاگیاہے کہ معاہدے کے نتیجے میں طارق شفیع کو 12ملین اے ای ڈی دیئے گئے اوراس کے
بعد قطری شہزادے فہد بن جاسم الثانی کو نقد دیئے گئے۔ بیان کے مطابق یہ جو سرمایہ
کاری تھی اس کے ذریعے نہ صرف ایون فیلڈ اپارٹمنٹس خریدے گئے بلکہ العزیزیہ کے نام
سے سعودی عرب میں اسٹیل فیکٹری بھی لگائی گئی اور 8ملین ڈالر التوفیق انویسٹ منٹ
فنڈ کا 8ملین قرضہ ادا کیا گیا جو قطری شہزادے نے اس سرمایہ کاری سے حسن نواز کو
پیسے دیئے اسی سرمایہ کاری سے حسن نواز کو پیسے دیئے اسی سرمایہ کاری سے حسن نواز
نے یو کے میں کمپنیاں بنائیں ۔ یہ جو معاہدہ تھا یہ دستاویزی ثبوت تھا کہ ہالی
اسٹیل سے حاصل کردہ پیسے میں یعنی جو ہالی اسٹیل فروخت کی اس سے حاصل کردہ رقم تھی
اور اس معاہدے پر دبئی کے نوٹری پبلک کے اسٹیمپ موجود ہیں۔ متحدہ عرب امارات سے
ایم ایل اے کے نتیجے میں حاصل کردہ ریسپانس میں کہاگیا کہ دبئی کورٹ کے ریکارڈ میں
معاہدے کو تلاش کیاگیا اس کے بعد انہوں نے تصدیق کی کہ معاہدہ تاریخ 14-4-1980نہیں
ملا اور ہالی اسٹیل مل کے 25%شیئرز بیچنے سے حاصل کردہ بارہ ملین درہم کے حوالے سے
کوئی ٹرانزیکشن نہیں ہوئی ور اس طرح کا کوئی ریکارڈ نہیں ملا کہ نوٹری پبلک نے اس
طرح کے معاہدے کی تصدیق کی ہو اور گواہ نے کہاکہ یہ معاہدہ جھوٹا ہے۔ سپریم کورٹ
سے حاصل کردہ دستاویزات میں ایک دستاویز ہالی اسٹیل مل کے اسکریپ مشینری دبئی سے
سعودی عرب بھیجی گئی اس سے متعلق ہے۔ ایم ایل اے کے نتیجے میں حاصل کردہ ریسپانس
کہتا ہے کہ ان کے ریکارڈ کے مطابق اس طرح کا اسکریپ نہیں بھیجا گیا اورپی ایم اے
432اور 7531 میںموجود جامع بیان کہتا ہے کہ ہالی اسٹیل سے بارہ ملین درہم لئے گئے
جو کہ طارق شفیع نے قطری شہزادے کو دیئے ۔ جے آئی ٹی نے کہا کہ اس سے متعلق
دستاویزی ثبوت نہیں دیئے گئے۔ 1978ء کے معاہدے کے تحت گلف اسٹیل مل کے واجبات میں
سے 21ملین اسٹیل مل کے 75فیصد شیئرز کی فروخت سے پیسے دیئے گئے اور تقریباً 14ملین
کے واجبات طارق شفیع کی ذمہ داری تھی جو کہ میاں شریف کی جانب سے کام کررہا تھا۔
سپریم کورٹ نے ذمہ داریوں سے متعلق استفسار کیا۔ طارق شفیع، ملزمان میاں
محمدنوازشریف، حسین نوازشریف، حسن نوازشریف اورمریم صفدر کی طرف سے کوئی دستاویزات
پیش نہیں کئے گئے کہ یہ ذمہ داریاں کیسے ادا ہوئیں۔ متحدہ عرب امارات کے حکام نے
تصدیق کی کہ طارق شفیع کو بی سی سی آئی کے قرض نادہندگی کے الزام میں سزا ہوئی
طارق شفیع نے یہ قرضہ اسی بینک یعنی بی سی سی آئی سے حاصل کیا جس سے اس نے 1978ء
میں اہلی اسٹیل ملز کے 75فیصد شیئرز کی فروخت سے 6ملین اے ای ڈی حاصل کئے۔ سپریم
کورٹ کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کے جے آئی ٹی نے جواب دیئے۔ میرے اور جے آئی
ٹی کے تمام اراکین کے دستخطوں کو جو والیم 3 کے صفحہ 40 پر ہیں میں پہچانتا ہوں اس
نے جے آئی ٹی کی تفتیشی رپورٹ کا اصل والیم 3 پیش کیا۔
نواز شریف ،مریم نواز اور حسین نواز نے 5نومبر 2016 کو قطری شہزادے
حماد بن جاسم التھانی کا خط جمع کرایااور اسکے بعد ایک اور خط بھی 22 دسمبر کوجمع
کرایا،حسن اور حسین نواز نے جے آئی ٹی رپورٹ کا والیم نمبر فائیو (5) میں مذکورہ
دونوں خطوط کے حوالے سے تضاد پایاجاتاہےاور اعتراض کیا گیا ہے کہ یہ خطوط جے آئی
ٹی کا حصہ نہیں تھےلہذا یہ ثبوت کے طورپر قابل قبول نہیں ہوسکتےیہ اعتراض استغاثہ
کا تھا،طارق شفیع نے قطری شہزادے کو 12 ملین اے ای ڈی ایس نقد دئیے اور رسید نہیں
لی اس پر بھی عدالت نے اعتراض کیا اسے بھی ثبوت کے طورپر قبول نہیں کیا
جاسکتا،عدالت نے قراردیاہےکہ اس حوالے سے ملزمان دستاویزاتی ثبوت پیش کرنے میں
ناکام رہے ۔قطری شہزادے سے 2006 میں ڈیل ہوئی حسین نواز اور قطری شہزادے کے درمیان
، جس کے تحت اس قطری شہزادے نے کمپنی نیسکول اور نیلسن جو کہ ایون فیلڈ اپارٹمنس
کے مالک ہیں کے شیئرز حسین نواز کو دئیے یہ کاٖغذات ثبوت کے طورپر قابل قبول نہیں
کیے جاسکتے کیونکہ1980 میں جو معاہدہ شریف فیملی اور قطری شہزادے کے ساتھ ہوا
تھااس کی کوئی تفصیلات یا دستاویزاتی ثبوت نہیں اور اس کے بعد 2006 میں جو معاہدہ
ہوا ان کے درمیان اس کا بھی کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا جاسکا،سالانہ منافع جوآیا
اور اس کو میاں شریف کی ہدایت پر تقسیم ہوتا رہا اور اس میں حسین نواز کو 4 مرتبہ
ادائیگیاں وصول ہوئیں جس سے یہ سرمایہ کاری برطانیہ میں فلیگ شپ انوسٹمنٹ سمیت
دیگر کمپنیاں قائم کی گئیںتاہم کورٹ نے قرارد یا ہےکہ مذکورہ 4 ادائیگیاں ہوئیں ان
کی کوئی رسید یا ثبوت کورٹ میں پیش نہیں کیا گیااسی طرح مزید 3 ادائیگیاں حسین
نواز نے بھی وصول کیںجس کے زریعے حسین نواز نے العزیزیہ اسٹیل مل سعودی عرب میں
قائم کی لیکن اس حوالے سے بھی کوئی ثبوت نہیں دئیے گئے کہ فنڈز کیسے منتقل ہوئے
ایک اور ادئیگی 2000 میں ال توفیق کمپنی میںسرمایہ کاری کی مد میں 8 ملین ڈالرز
بھی میاں شریف کی ہدایت پر ال توفیق کمپنی کو سرمائے کی بنیاد پر دی ،لمبی مدت
کےلیے لیا گیا قرضہ 8 ملین ڈالرزجو 5جنوری 2000 کو لیا گیا تھا جسے رپورٹ میں ختم
ظاہر کیا گیالیکن یہ بات ثابت نہیں کرسکے کہ قرضے کی رقم کس نے ادا کی لہذا یہ بات
ثابت ہوتی ہے کہ قرضہ کو ختم کرنے کے حوالے سے کوئی ثبوت جے آئی ٹی کو بھی نہیں
دئیے گئےکہ اس قطری شہزادے سے تعلق ثابت نہیں ہوسکاجے آئی ٹی کے مطابق جو شاہی
خاندان کا مذکورہ اپارٹمنٹ سے کوئی تعلق نہیں وہ اس کے مالک نہیں،جے آئی ٹی کی
رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ ال توفیق کمپنی ک اجو معاہدہ ہوا تھا اس معاہدے کے وقت
اپارٹمنٹ کے مالک شریف فیملی کے ممبر ان ہی تھے اور ان میں نواز شریف بھی شامل تھے
اور اس نے بظاہر اپنے بچوں کو شامل کیا تاکہ وہ اس ملکیت کو چھپا سکیں ،عدالت نے
ورک شیٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہاہےکہ دستاویزات پر دستخط نہیں ہیں جو غیر مصدقہ
ہونے کو ظاہرکرتی ہیں ،عدالت نے آبزرو کیا کہ نیلسن اور نیسکول کمپنی کے بیان کے
مطابق حماد بن جسیم کے نمائدے نے حسین نواز کو منتقل کیا تھا لیکن دونوں کمپنیوں
کے شیئرز منتقل کیے گئے ہیں اور 8ملین ڈالرز کے اثاثے کے حوالے سے کوئی رسید یا
دستاویزات نہیں دیے گئے،عدالت نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا ہے کہ جے آئی ٹی نے
قطری شہزادے کا بیان ریکارڈ کرنے کی کوشش کی اور اسے نوٹس بھی جاری کیا جس پر قطری
شہزادے نے جواب دیا اور جے آئی ٹی نے ہرممکن کوشش کی لیکن قطری شہزادے نے تاخیری
حربے استعمال کیے اور پھر بعد میں پاکستان پاکستانی عدالت میں پیش ہونے کے لیے
قانونی نقطے اٹھاتارہااور آخر کار جے آئی ٹی کو بتایاقطری شہزادے نے کہاکہ اگر
اس کے بیان کو ریکارڈ کیا تو اس بات کی ضمانت دی جائے کہ قطری شہزادے کو رٹ میں
نہیں بلایاجائے گا،عدالت نے مزید کہاہےکہ دستیاب ثبوت کی روشنی میں جے آئی ٹی نے
یو اے ای کو بھی خط لکھا اور سپریم کورٹ میں اٹھائے گئے سوالات جو جے آئی ٹی کی
فائنڈنگ ہے اس کا جواب بھی ملزمان نہیں دے سکے،واجد ضیاء نے کہاکہ ہےکہ اپارٹمنٹ
کا قبضہ لینے کے حوالے سے اپنا موقف جمع کرایا اور مختصراً کہا کہ قطری شہزادوں سے
یہ اپارٹمنٹ خریدے ہیں 2006 میں جو ڈیل ہوئی اس کےنتیجے میں کیونکہ کمپنی کے شیئرز
حسین نواز کو منتقل ہوئے اور اس ٹرسٹ شیٹ پر دستخط مریم نواز کے ہیں اور مریم نواز
نے ٹرسٹی کی حیثیت سے دستخط کیے جبکہ حسین نواز جو اسکا بینفیشری کے طورپر جبکہ
کیپٹن صفدر کا گواہ کے طورپر نام ٹرسٹ شیٹ پر درج ہے،جے آئی ٹی نے عدالت کو
بتایاکہ ٹرسٹ شیٹ میں بھی تضاد ہے مذکورہ اپارٹمنٹ کا جب قبضہ لیا تو اس قوت حسین
نواز طالب علم تھا برطانیہ میں اس وقت ،ٹرسٹ شیٹ کے مطابق 1993 سے 1996 تک حسین
نواز تعلیم حاصل کررہا تھا تاہم دستاویزاتی ثبوت اس حوالے سے پیش کرنے میں ناکام
رہے ہیں ۔عدالت نے مذکورہ ٹرسٹ شیٹ کو بوگس قراردیدیا ہے اور اس ٹرسٹ شیٹ کی بنیاد
پر ہی مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سزا سنائی گئی ہے کہ ان دونوں نے نواز شریف کے
ساتھ ملکر یہ جعل سازی کی ہے ۔
دونوں حسن اورحسین اورنوازشریف نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ
اپارٹمنٹ نمبر 16 نوازشریف کے استعمال میں رہا سوائے اس مختصر عرصے کے جب ان کے
والد میاں شریف نے 1990ء میں لندن میں اسے چند ماہ کے لئے استعمال کیا جب وہ وہاں
زیر علاج تھے۔ ملزمان نے مزید کہا ہے کہ اس وقت سے گرائونڈ رینٹ اپارٹمنٹس کے سروس
چارجز دیتے آرہے ہیں۔ جی ایم اے 7531-Aصفحہ 83سے لیکر 86تک ٹرسٹ ڈیڈ سے متعلق دستاویزات ہیں صفحہ نمبر
84,85,86خود ٹرسٹ ڈیڈ ہے ۔جے آئی ٹی کو معلوم ہوا کہ دوسرے اورتیسرے ٹرسٹ ڈیڈ کے
صفحات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور دونوں دوسرے اور تیسرے صفحے پر سالسٹرجیریمی
فری مین کے دستخط کے نیچے تاریخ موجود ہے جس کو تبدیل کیاگیا ہے جس کو ایک دوسرے
کے اوپر لکھنے کی وجہ سے یا تو 2006یا 2004 لگتے ہیں۔ جے آئی ٹی نے آبزور کیا کہ
2006اہم سال تھا اس لئے کہ جو شیئرتھے ان کو 2006 تک کسٹوڈین کے پاس جمع کراناتھا
اورمالک کی تفصیلات بھی دینی تھیں جس کامقصد جو شیئر ہولڈر تھا اس کی شناخت بھی
گمنام نہیں رہنی تھی۔ جے آئی ٹی نے اس سال کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے دو کام
کئے ایک تو جے آئی ٹی نے سالسٹرفرم کے ذریعے فری مین واکس سالسٹر سے ان ڈیڈ سے
متعلق پوچھا ۔فری مین نے کہاکہ انہوں نے اصل دستاویزات دیکھے ہیں جو کہ بالکل جے
آئی ٹی نے دستاویزات دی ہیں اس سے ملتے جلتے ہیں۔جے آئی ٹی نے فیصلہ کیا
دستاویزات کا رابرٹ ریڈلے سے معائنہ کروانے کا فیصلہ کیا ۔ جے آئی ٹی نے رابرٹ
ریڈ لے کی رپورٹ کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ دستاویزات جھوٹے بنائے گئے
ہیں۔جے آئی ٹی نے دستاویزات کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مریم نواز سے
5-7-2017کو سامنے پیش ہو کر ٹرسٹ ڈیڈ کی اصل کاپیاں پیش کرنے کا کہا۔ اس نے پیش ہو
کر دوٹرسٹ ڈیڈ دیں جو کہ اس نے کہاکہ اوریجنل ہیں۔ جے آئی ٹی نے وہ ڈیڈ رابرٹ
ریڈلے کو معائنے کے لئے بھیجیں۔ جے آئی ٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا (رابرٹ ریڈلے کی
رپورٹ کے بعد) کہ ملزمہ مریم نواز نے جھوٹے دستاویزات جمع کرائے ہیں۔ ملزم حسین
نواز، مریم صفدر اورکیپٹن صفدر نے جھوٹے دستاویزات پردستخط کئے اور یہ دستاویزات
سپریم کورٹ میں پیش کئے۔ ملزم حسن نواز نے بھی ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپیاں جمع کرائیں تاکہ
سپریم کورٹ کو گمراہ کرے۔
جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کا کہنا ہے کہ یہ ایک مختصر
فیصلہ ہےجس میں ان سے وقف نامہ یا دیگر متعلقہ دستاویز کے بارے میں نہیں پوچھا گیا
اور مزید کہا کہ برٹش ورجن آئی لینڈ، ویلز اور انگلینڈ کے قوانین میں ایسی کوئی
لازمی شرط نہیں کہ وقف نامہ کا اندراج کیا جائے۔ (اعتراض یہ ہے کہ بیان کا یہ حصہ
ماہر کی رائے پر ایک رائے ہے جو نمایاں طور پر ناقابل قبول ہے۔) ایک اور ماہرانہ
رائے پر پہلے ہی اعتراض کیا جاچکا ہے جو جلد چہارم کے صفحہ 68 سے صفحہ 88 پر موجو
ہے، یہ فیصلہ گلیڈ کوپر کے حوالے سے اور وقف نامہ اور دیگر دستاویز پر غور کرنے کے
بعد تفصیل کے ساتھ دیا گیا۔(اس میں اعتراض اس بات پر ہے کہ گواہ اس حقیقت پر شاہد
نہیں۔) اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ متولی کو درشنی ہنڈی کی صورت میں حصص کو رکھنا
پڑا تاکہ یہ ایک جائز ٹرسٹ بن جائے۔ (اس پر اعتراض یہ ہے کہ گواہ ماہر انہ طور پر
حلفیہ گواہی دے رہا ہے جو اس حوالے سے گواہ ہی نہیں۔) جے آئی ٹی کا کہنا ہے کہ سی
ایم ایز میں سے کسی نے بھی فائل نہیں کیا یا ملزمان مریم صفدر اور حسین نواز میں
سے کسی نے بھی کبھی نہیں کہا کہ مریم صفدر ان حصص کی تنہا مالک ہیں۔ (اس پر اعتراض
یہ ہے کہ گواہ دستاویز کے مندرجات پر حلفیہ شہادت دے رہا ہے، مزید یہ کہ اس نے جے
آئی ٹی کے سامنے ملزم کے بیان کا حوالہ دیا ہے جو کہ نمایاں طور پر ناقابل قبول
ہے۔) گلیڈ کوپر کی دوسری رائے یہ ہے کہ درشنی ہنڈی نے ایک مرتبہ حکام کو رقم بطور
ضمانت رکھوائی تھی جسےختم کردیا گیا۔(اس پر اعتراض یہ ہے کہ گواہ ماہرانہ رائے
دیتے ہوئے حلفیہ شہادت دے رہا ہے جو کہ گواہ نہیں ہے۔) بطور حوالہ دیکھئے سی ایم
اے 895 جلد نمب 7 ے صفحہ 261، 278، 279، 282، 291، 300، 302، 305، 311، 313، 325،
328، 339 اور 336 ، یہ مالی گوشوارے حسن نواز کی کمپنیز کیو ہولڈنگ، فلیگ شپ
سیکیورٹیز اور کوئنٹ پیڈنگٹن کے سال 2007 سے 2012 تک کے ہیں۔ یہ دستاویز اس نقشہ
کی بنیاد ہیں جو پہلے ہی جلد 7 کے صفحہ 400 پر ex.pw-16'68 پر دیا گیا ہے۔ دستاویز سے پتہ چلتا
ہے کہ قرضہ کومبر سے لے کر کیو ہولڈنگ کو دیا گیا تھا جو کہ حسن نواز ہی کی ملکیت
تھی جبکہ 2008 میں مزید قرضہ کوئنٹ پیڈنگٹن کو بھی دیا گیا۔ (اس پر اعتراض یہ ہے
کہ گواہ دستاویز کے مندرجات کیلئے حلفیہ بیان دے رہا ہے جو کہ قابل قبول نہیں۔)
اسی کمپنی یعنی کوئنٹ پیڈنگٹن کو 614000 پائونڈز کا قرضہ کیپٹل ایف زیڈ ای کی جانب
سے دیا گیا جو کہ دبئی میں قائم ہے جہاں کے مالک ملزم حسن نواز ہیں۔
اور جے آئی ٹی کی پیش کردہ دستاویزات کے مطابق ملزم نوازشریف ایک
ملازم ہیں۔ (اعتراض کے تحت کہ گواہ اس حقیقت کا گواہ نہیں کہ وہ دستاویز کے
مندرجات کے مطابق گواہی دے رہا ہے)۔ سی ایم اے7511 میں ایک اور دستاویز کے صفحات 8
اور 9 پر فنانشیل انوسٹی گیشن ٹیم کے ڈائریکٹر ایرل جورج کی جانب سے 12جون 2012ء
کو خط پہلے ہی دکھایا گیا ہے جو منی لانڈرنگ رپورٹنگ آفیسر موسیک فونسیکا اور
کمپنی کو لکھا گیا جس میں نیسکول اور نیلسن کے بارے میں معلومات مانگی گئیں۔
(اعتراض کے تحت انہوں نے اس دستاویز کا مواد پیش کیا جسے نہ تو انہوں نے تحریر کیا
یا مخاطب ہیں۔ شہادت میں بھی یہ قابل قبول نہیں۔ سی پی۔2016ء 29 کے صفحہ۔37 پر
(ایکس پی ڈبلیو۔ 16-491 نیسکول کے بارے میں موسیک فونسیکا کا جواب ہے۔ جبکہ
صفحہ۔38 پر نیلسن کے بارے میں جواب دیا گیا ہے۔ ایم ایل اے کو جواب میں برٹش ورجن
آئی لینڈ کے حکام نے اپنے کورنگ لیٹر پر جواب دیا ہے۔ (اعتراض کے تحت دستاویز این
اے او آرڈیننس 1999 کی دفعہ۔21کے تحت ضرورت پوری نہیں کرتا۔ صفحہ۔52تا 56 فنانشیل
انوسٹی گیشن ایجنسی کا جواب بھی موجود ہے۔ فنانشیل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی
اے) نے نیسکول کے بارے میں موسیک فونسیکا کا 22 جون 2012ء کو جواب ملنے کی تصدیق
کی۔ ریکارڈ کے مطابق کمپنی کی بینی فیشل مالک مریم صفدر ہیں۔ جنہوں نے سرور محل
جدہ کا پتہ دیا۔ یہ بھی بیان کیا گیا کہ ان کے پاس ٹرسٹیز کے نام نہیں ہیں۔ اسی
طرح نیلسن کے بارے میں موسیک فونسیکا کا جواب جس کی ایف آئی اے نے تصدیق کی،
کمپنی کی مالک مریم صفدر ہی ہیں۔ جنہوں نے پتہ سرور محل جدہ کا دیا۔ یہ بھی بتایا
گیا کہ ان کے پاس ٹرسٹیز کے نام نہیں ہیں۔ مورخہ 12جون 2012ء کو فنانشیل انوسٹی
گیشن ٹیم کے خط میں دو قانونی دستاویزات کا حوالہ دیا گیا۔ بی وی آئی انٹی منی
لانڈرنگ ریگولیشنز 2008اور بی وی آئی منی لانڈرنگ اینڈ ٹیررسٹ فنانسنگ کوڈ آف
پریکٹس 2008جس میں صارفین کے لئے تفصیلی طریقہ کار دیا گیا ہے۔ جے آئی ٹی نے آخر
میں کہا کہ مریم صفدر ہی نیسکول اور نیلسن کمپنیوں کی مالک ہیں۔ جن کی ملکیت میں
لندن کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ہیں۔ اس حوالے سے پیش کردہ وقف نامے نہ صرف جعلی ہیں
بلکہ رجسٹرڈ ہیں اور نہ ہی متعلقہ کمپنی کو پیش کئے گئے۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں
متعلقہ سوالات کے جوابات موجود ہیں۔ جے آئی ٹی نے جے آئی ٹی رپورٹ کے حجم
IX-A کا بھی تجزیہ کیا ہے۔ جس میں صفحہ 6
تا 7 حسین نوازشریف کے اثاثے اور ایک خاکہ انکم اور دولت ٹیکس کی بنیاد پر دکھایا
گیا ہے۔ حسن نوازشریف کے انکم اور دولت ٹیکس کا ریکارڈ صفحہ 8 تا 14 ہے اور اس
حوالے سے خاکہ صفحہ 280اور 280-A پر دیا گیا ہے۔ تینوں ملزمان کی اتنی آمدن نہیں تھی کہ وہ 1990 کی
دہائی کے شروع میں ان اپارٹمنٹس کی ملکیت کا جواز دے سکیں۔ 3دسمبر 2005 کو سامبا
کی جانب سے منریوا فنانشیل سروسز کے نام خط مریم صفدر کا تعلق 2006 سے قبل منریوا
سے جوڑتا ہے۔ مذکورہ دستاویز کا اعتراف مریم نے بھی کیا۔ صفحہ ایک تا صفحہ 254 جلد
ایک۔ جلد 10 کو چھوڑ کر جے آئی ٹی رپورٹ کا بیانیہ ہے۔ نیب میں ڈائریکٹر جنرل
آپریشنز ظاہر شاہ جو بین الاقوامی تعاون کے معاملات دیکھتے ہیں ان کا بیان ہے کہ
ایون فیلڈ جائیداد سے متعلق دستاویزات نمائندہ عثمان احمد کے ذریعہ 27 مارچ 2018
کو برطانوی ہائی کمیشن کے ذریعہ موصول ہوئیں۔ جنہوں نے برطانوی سینٹرل اتھارٹی کی
جانب سے دستاویزات حوالے کیں۔ انہوں نے رجسٹر بنام مکان نمبر16-A، 17، 17/4، 17A، 17/5
ایون فیلڈ ہائوس کی سرکاری نقول پیش
کیں۔ انہوں نے 16، 16-A، 17 اور 17-A کے پانی کے بل پیش کئے۔ اسی طرح دیگر دستاویزات بھی دی گئیں۔ نیب
لاہور میں تفتیشی افسر اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد عمران کا بیان ہے کہ اس کیس میں سپریم
کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں مجاز حکام کو نوازشریف، حسن، حسین، مریم اور صفدر کے
خلاف تحقیقات کا 28 جولائی 2017 کو اختیار دیا۔ دوران تحقیقات سپریم کورٹ سے مکمل
تحقیقاتی رپورٹ حاصل کی گئی۔ جلد نمبر ایک اور IX-A ریفرنس کے لازمی جزو ہیں جو ریفرنس
کے ساتھ عدالت میں پیش کئے گئے۔ پاناما کیس کے بارے میں سپریم کورٹ کے پاس موجود
ریکارڈ بھی حاصل کیا گیا۔ ایس ای سی پی کی جوائنٹ رجسٹرار سدرہ منصور 23 اگست
2017کو شامل تفتیش ہوئیں جنہوں نے 2000 تا 2005 حدیبیہ پیپرز ملز کے آڈٹ شدہ
حسابات پیش کئے۔ (پی ڈبلیو۔6) نیب ہیڈکوارٹرز اسلام آباد کے آپریشن ڈویژن میں
ایڈیشنل ڈائریکٹر کوآرڈی نیشن 25 اگست 2017 کو شامل تفتیش ہوئے اور ان کا بیان
ریکارڈ کیا گیا۔ جے آئی ٹی کے سربراہ (پی ڈبلیو۔16) واجد ضیاء نے 30 اگست 2017کو
شامل تفتیش ہو کر اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔ اسی روز مظہر رضا بنگش نے بھی بیان
ریکارڈ کرایا۔ محمد رشید 6 ستمبر 2017 کو شامل تفتیش ہوئے، کوئنز کورٹ لندن کے حکم
کی نقول پیش کیں۔ مظہر رضا خان بنگش کا حلف نامہ پیش کیا۔ موسیٰ غنی، طارق شفیع
اور سب انسپکٹر تھانہ نیب لاہور عمر دراز گوندل کو طلبی کے نوٹس جاری ہوئے۔ 16اگست
2017 کو ان کے بیانات ریکارڈ کئے گئے۔ نوازشریف، حسن نواز، حسین نواز، مریم صفدر
اور کیپٹن (ر) صفدر کو بھی نوٹسز جاری ہوئے جو (پی ڈبلیو۔04) سب انسپکٹر تھانہ نیب
لاہور مختار احمد کے حوالے کئے گئے۔ 18 اگست 2017 کو بیان ریکارڈ کیا گیا۔ مذکورہ
افراد کو طلبی کے نوٹس میں کہہ دیا گیا کہ عدم پیشی کی صورت یہ اخذ کرلیا جائے گا
کہ انہیں اپنے دفاع میں مزید کچھ نہیں کہنا ہے۔ ملزمان تفتیشی کارروائیوں میں شامل
نہیں ہوئے۔ تاہم نوازشریف، مریم اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کی طرف سے ان کے وکیل
امجد پرویز کی طرف سے مجاز نمائندے سلطان کے ذریعہ 22 اگست 2017کو موصول ہوئے۔
مزید یہ کہ دستاویزات ریکارڈ کا حصہ بھی نہیں تھیں۔ جہاں تک تحقیقاتی رپورٹ میں
دستاویزات کے حوالے کا تعلق ہے، یہ ریکارڈ کا حصہ بھی نہیں تھیں اور تین دستاویزات
کا نہیں بلکہ صرف ایک خط کا حوالہ دیا گیا۔ خط کا حوالہ عبوری رپورٹ میں بھی حوالہ
دیا گیا۔ خطوط کی نقول اور دستی تحریری بیان ملزم کے دونوں وکلاء کو فراہم کئے
گئے۔ دونوں خطوط مورخہ 22 اگست 2017 ملزم نوازشریف، مریم اور کیپٹن (ر) صفدر کی
طرف سے ہیں۔ دستی تحریری بیان سلطان محمود خان کا ہے۔ حاصل کردہ مواد جس کا حوالہ
جے آئی ٹی رپورٹ میں ہے۔ انہوں نے 6 ستمبر 2017ء کو عبوری تحقیقاتی رپورٹ تیار
کی۔ مزید کارروائی کے دوران انہوں نے کیس افسر سلطان نذیر کے ساتھ برطانیہ کا دورہ
کیا اور 14 دسمبر 2017کو راجا اختر (پی ڈبلیو۔15) کا بیان ریکارڈ کیا۔ 15 دسمبر
2017 کو پی ڈبلیو۔14 رابرٹ ریڈلے کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔ پی ڈبلیو۔9ڈائریکٹر جنرل
ڈائریکٹوریٹ آف الیکٹرونک میڈیا اینڈ پبلی کیشن سردار عبدالواحد خان شامل تفتیش
ہوئے۔ 5 جنوری 2018 کو انہوں نے نوازشریف کے خطاب اور تقاریر کا ریکارڈ پیش کیا۔
جاوید چوہدری کے ساتھ حسین نواز کا انٹرویو بھی پیش کیا گیا۔ پی ڈبلیو۔10 ڈائریکٹر
ایکسٹرنل پبلسٹی ونگ سید مبشر توقیر شاہ 5 جنوری 2018 کو شامل تفتیش ہوئے۔ انہوں
نے بی بی سی کے پروگرام ’’ہارڈ ٹاک‘‘ میں ملزم حسن نواز کے انٹرویو کا متن پیش
کیا۔ 10 جنوری 2018کو جیو نیوز اسلام آباد کے سینئر کوآرڈینیٹر وقاص احمد نے
شامل تفتیش ہو کر سی ڈیز اور نقول پیش کیں جو مریم نواز کی پروگرام ’’لیکن‘‘ میں
گفتگو اور حسین نواز کے حامد میر کو انٹرویو پر مشتمل تھیں۔ نوازشریف، مریم نواز
صفدر اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو 28 دسمبر 2012 کو دوبارہ طلبی کے نوٹس جاری ہوئے
تاہم ملزمان تفتیشی کارروائی میں شامل نہیں ہوئے۔ ان کے وکیل چوہدری نصیر احمد
بھٹہ کی جانب سے 30 دسمبر 2017 کو خط ملا۔ انہوں نے کیپٹن (ر) محمد صفدر اور مریم
صفدر کی جانب سے دو خطوط پیش کئے (اعتراض کے تحت یہ دستاویزات استغاثہ کو 30 دسمبر
2017 سے دستیاب تھیں اور انہوں نے ضمنی ریفرنس میں ان کو شامل نہیں کیا جو 22
جنوری 2018 کو دائر کیا گیا۔ اب یہ 5 ماہ بعد گواہ کا بیان قلم بند کئے جانے کے
وقت پیش کیا گیا۔
مزید یہ کہ یہ گواہ ان دستاویزات کا نہ ہی کاتب تھا اور نہ ہی
تعمیل کنندہ ، جن دستاویزات کو بطور شہادت دیکھا گیا۔ضابطہ فوجداری کے سیکشن 265-Cکے تحت ملزم کو کوئی نوٹس
نہیں دیا گیا۔(وکیل کے اعتراض کو مسترد کیے جانے کی وجہ بات چیت میں بیان کی
گئی ہے)اوپر بیان کیے گئے حاضری کے نوٹس میں یہ تحریر تھا کہ ان کے حاضر نہ ہونے
کی صورت میں یہ سمجھا جائے گا کہ انہیں اپنے دفاع میں مزید اور کچھ نہیںکہنا۔(قابل
وکیل دفاع اس بات پر بحث کررہے تھے کہ بیان کے اس حصے کا تعلق دستاویز کے متن سے
تھا، مزید یہ کہ دستاویز ریکارڈ کا حصہ بھی نہیں تھااور یہ شہادت اتنی مستحکم
نہیں تھی کہ اس کی بنیاد پر کسی نتیجے پر پہنچا جاتا ، جیسا کہ انہوںنے کہا
تھا)۔اس کے بعد انہوں نے 12جنوری ،2018کو ضمنی تحقیقاتی رپورٹ مرتب کی ، جس میں ان
کے دستخط تھے(ضمنی ریفرنس کے صفحہ 6تا18میں موجود ہے)اور یہ سفارش کی گئی کہ
ملزمان کے خلاف ضمنی ریفرنس دائر کیا جائے۔مجاز اتھارٹی نے ضمنی تحقیقاتی رپورٹ
اور موجود مواد کے تجزیے کے بعد ملزمان کے خلاف 22جنوری 2018کو ضمنی ریفرنس دائر
کیا۔جے آئی ٹی کے دیئے گئے حوالے اور جمع کیے گئے مواد کی بنیاد پر نیب نے بھی
ایم ایل اے کی درخواست پر عمل کیا ، جس کا آغاز جے آئی ٹی نے کیا تھا۔27مارچ
2018کو انہیں ظاہر شاہ(پی ڈبلیو۔17)ڈی جی آپریشن نیب ہیڈ کوارٹر اسلام آباد کی
جانب سے کال موصول ہوئی اور انہوںنے اطلاع دی کہ برطانیہ کی سینٹرل اتھارٹی سے ایم
ایل اے کا جواب موصول ہوچکا ہے۔اگلے روز 28مارچ2018کو وہ ڈی جی آپریشن کے دفتر
گئے اور انہوںنے برطانیہ کی سینٹرل اتھارٹی کی جانب سے موصول شدہ ریکارڈ کی نقول
انہیں دیں تاکہ معاملہ آگے چلایا جاسکے۔اس ریکارڈ میںایون فیلڈ ہائوس لندن کے
فلیٹ نمبر16، 16۔اے، 17 اور 17۔اےکی لینڈ رجسٹریاں،یوٹیلیٹی بلز اور کونسل ٹیکس
موجود تھیںاور ریکارڈ کو اس عدالت کے ریکارڈ میں بذریعہ درخواست پہنچایا
گیا۔جے آئی ٹی رپورٹ میں جے آئی ٹی کی جانب سے جمع کیے گئے اور حوالہ دیئے گئے
مواد کی بنیاد پر تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ ملزم میاں محمد نواز شریف کی
ملکیت میں بحیثیت عوامی عہدیدارایون فیلڈ جائداد تھی اور وہ اس کے مالک تھے۔ان کے
نمبر 16،16۔اے،17،17۔اے ہیں جو کہ آف شور کمپنی جن کا نام نیلسن اور نیسکول اور
جو کہ بےنامی ناموں پر تھیں اور وہ ان جائدادوں کے حصول کے ذرائع بتانے میں
ناکام رہے اور یہ جائدادیں ملزم میاں محمد نواز شریف اور دیگر ملزمان کی ملکیت
میں1993سے ہیں (قابل وکیل دفاع نے اس پر اعتراض کیا کہ ان تمام باتوں کی بنیاد
تحقیقاتی افسر کی رائے پر ہےجو قانون کی نظر میں قابل قبول نہیں ہے۔جبکہ دوسری
جانب قابل وکیل کا کہنا تھا کہ گواہوں کے بیان کے اس حصے کی بنیاد وہ حقائق،
ریکارڈ یا مواد ہے جو تحقیقات کے دوران جمع کیا گیا اور ان کا تجزیہ کیا
گیا)۔(وکیل کے اعتراض کو مسترد کیے جانے کی وجہ بات چیت میں بیان کی گئی
ہے)۔ملزمان حسن نواز شریف، حسین نواز شریف ،مریم صفدر اور کیپٹن محمد صفدر نے متعدد
دستاویزات جمع کرائے ۔ان میں نیلسن اور نیسکول اور کومبر کی ٹرسٹ ڈیڈشامل تھیں جسے
معزز سپریم کورٹ آف پاکستان میںپاناما کیس کی سماعت کے دوران جمع کرایا
گیاجو کہ ملزمان کی ایون فیلڈ جائداد کی ملکیت کے حوالے سے لیے گئے موقف کی تائید
میں تھا۔نیلسن ، نیسکول اورکومبر کی ٹرسٹ ڈیڈ ملزمہ مریم نواز نے بھی جے آئی ٹی
میں اصل پیش کیں ۔تاہم بعد ازاں یہ ٹرسٹ ڈیڈ رابرٹ ریڈلی کی فارینزک رپورٹس کی
بنیاد پر نقلی اور جعلی ثابت ہوئیں ۔قابل وکیل دفاع نے اعتراض کیا کہ یہ شہادت جے
آئی ٹی کے سامنے جو کچھ لایا گیا اس کی شہادت نہیں ہےاور یہاں تک بیان کا
حصہ قابل قبول نہیں ہے۔(وکیل کے اعتراض کو مسترد کیے جانے کی وجہ بات چیت میں بیان
کی گئی ہے)۔ملزمان حسن نواز، حسین نواز ، مریم نواز اور کیپٹن محمد صفدر بحیثیت
بےنامی ملزم میاں محمد نواز شریف کے معاون ومددگار،شریک جرم، سازش میں شامل
اور ان کے ساتھ ملوث تھےاور وہ کرپشن کے جرائم اور کرپٹ اعمال میں این اے
او1999اور اس سے منسلکہ شیڈول کے تحت ملوث پائے گئے (قابل وکیل دفاع نے اعتراض
اٹھایا کہ یہ حصہ تحقیقاتی افسر کی رائے ہے ، جب کہ دوسری جانب قابل وکیل کا کہنا
تھا کہ شہادتی بیان کا یہ حصہ ان حقائق ، ریکارڈ، مواد کی بنیاد پر ہے جسے تحقیقات
کے دوران جمع یا اس کا تجزیہ کیا گیا تھا۔(وکیل کے اعتراض کو مسترد کیے جانے کی
وجہ بات چیت میں بیان کی گئی ہے)۔جے آئی ٹی رپورٹ پر انحصار کرنے کے علاوہ دیگر
پی ڈبلیوز کی جانب سے پہلے سے پیش کردہ دستاویزات پر انحصار کیا گیا ۔اس کے علاوہ
انہوں نے درج ذیل دستاویزات اور مواد پر بھی انحصار کیا۔
1۔خاندانی
اثاثہ جات کے تصفیے کا معاہدہ(عبوری ریفرنس کے والیم IVکے صفحہ 152تا 184تک موجود ہے)جو کہ سابقہ پی ڈبلیو18/12(اعتراض یہ
تھا کہ دستاویز نقل ہے ، جب کہ اصل معزز سپریم کورٹ کے پاس موجود نہیں تھی اور یہ
دستاویز گواہ/تحقیقاتی افسر نے نہ ہی موصول کی اور نہ ہی اپنے قبضے میں رکھی۔جب کہ
قابل وکیل کا کہنا تھا کہ یہی مصدقہ نقل ہے جو کہ گواہ نے معزز سپریم کورٹ سے حاصل
ی ہےاور یہی عدالتی سماعت کا حصہ تھا)۔2۔ملزم میاں نواز شریف کے اثاثوں اور قرضوں
کے تجزیے/چارٹ سے جو کہ جے آئی ٹی نے تیار کیا تھاجو کہ والیم IXکے صفحہ 418میں موجود ہے۔(اعتراض یہ
ہے کہ پہلی بات یہ دستاویز گواہ نے تیار نہیں کیا، جب کہ دوسری بات واجد ضیا بطور
جے آئی ٹی سربراہ پیش ہوئے اور انہوںنے کبھی ایسا نہیں کہا کہ یہ دستاویزجے آئی
ٹی نے تیار کیے ہیں ، لہٰذا یہ دستاویز بطور شہادت قابل قبول نہیں ہے)3۔جے آئی ٹی
رپورٹ جو کہ والیم IIIکے صفحہ 01تا40میں موجود ہے۔4۔جے آئی ٹی رپورٹ جو کہ والیم IVکے صفحہ 01سے 36تک میں موجود ہے۔5۔جے
آئی ٹی رپورٹ جو کہ والیم Vکے صفحہ 01سے 24میں موجود ہے۔
قابل وکیل کے دلائل
19۔قابل
وکیل نے استغاثہ کا کیس مکمل کرتے ہوئے منجملہ درج ذیل دلائل دیئے۔
موزاک فونیسکا دنیا کی چوتھی بڑی لاء فرم ہے۔آئی سی آئی جے نے
کچھ معلومات شائع کیں جنہیں پاناما کی لا فرم کے ڈیٹا بیس سے ہیک کیا گیا
تھا۔تقریباًایک کروڑ دس لاکھ دستاویزات ہیک کی گئی تھیں ، جنہیں پاناما پیپرز کہا
جاتا ہے۔اس میں متعدد افراد کے ناموں کا انکشاف ہوا تھا جنہوںنے کئی جگہوں پر
آف شور کمپنیاں قائم کی تھیں۔پاکستان کے اس وقت کے پہلے خاندان کے افراد پر بھی
مبینہ الزام تھا کہ ان کا آف شور کمپنیوں سے تعلق ہے۔شریف خاندان کی ملکیت میں
بھی آف شور کمپنیاں ہیں اور وہ جائداد اثاثے کبھی ظاہر نہیںکیے گئے۔پاناما پیپرز
کے اجرا کے بعد ایون فیلڈ اپارٹمنٹ جس کا ریفرنس معزز سپریم کورٹ میں بھی دائر کیا
گیا تھا ، جو کہ آئینی پٹیشن نمبر 29/2016، 30/2016 اور 03/2017کے تحت تھا۔اس
معاملے کا فیصلہ کرتے وقت پانچ رکنی معزز بینچ نے جو فیصلہ دیا اس میں بینچ کے
معزز تین ارکان نے الزامات پر تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی کی تشکیل کا کہا اور اس
کی تحقیقات 60روز میں مکمل کرنے کا کہا ۔جے آئی ٹی نے اپنی حتمی رپورٹ دس والیم
میں 10جولائی 2017کو جمع کرائی۔جے آئی ٹی کو قانون کے تحت تحقیقات کے لیے وہ تمام
اختیارات دیئے گئے جو کہ ضابطہ فوجداری 1998 اور این اے او 1999 اور وفاقی
تحقیقاتی ایکٹ 1975 میں موجود تھے۔جے آئی ٹی کو معاونت کے لیے مقامی یا غیر ملکی
ماہر کی خدمات بھی حاصل کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی آبزرویشن
تھی کہ بادی النظرمیں یہ مقدمہ ملزم کے خلاف بنایا گیا تھا اور نیب کوہدایت کی گئی
تھی کہ جے آئی ٹی کے جمع کردہ شواہد اور مواد کی بنیاد پر ریفرنس تیار کرے اور
عدالت میں دائر کرے۔مقدمے کا الزام 19اکتوبر 2017 میں عائد کیا گیا اور اس
میں ترمیم 08نومبر 2017 میں کی گئی۔ضمنی ریفرنس یہ تھا کہ ان کے اثاثے معلوم
آمدنی سے ذائد ہیں، جس سے این اے او 1999کے تحت کرپشن اور کرپٹ اعمال ثابت ہوتے
ہیں۔جب اس بات کا اطمینان ہوجائے تو ملزم پر یہ بوجھ منتقل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی
جائداد کے حوالے سے تسلی کرائے ۔اس میں ناکامی کی صورت میں عدالت جرم کے ارتکاب کا
تصور کرے گی۔انہوںنے کیس اتھارٹی پی ایل ڈی 2017 ایس سی 265کا حوالہ دیا اور کہا
کہ فیصلے کے پیرا 10اور 11میں ہے کہ جب یہ الزام عائد کیا جائے کہ عوامی عہدیدار
یا ان کا کوئی رشتہ دار یا بے نامی کسی قسم کے اثاثہ جات کی ملکیت رکھتا ہے یا اس
کے وسائل اس کی معلوم آمدنی سے زائد ہوں تو ا س پر کرپشن کا جرم ثابت ہوتا ہے۔اس
میں مزید کہا گیا کہ استغاثہ ابتدائی بوجھ زائل کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔جس
میں اقرار تھا کہ ملزم نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کا زمینی کرایہ ادا کیا ،جو کہ
مالکان ادا کرتے ہیں۔ضمنی مختصر بیان میںملزم کی جانب سے جو اقدام کیا گیا(فریق
مخالف نمبر 6،7اور 8)وہ یہ تھا کہ محمد شریف ان کے دادا تھے وہ اپنے گھروالوں کے
ہمراہ اتفاق فائونڈری کے مالک تھے ، جسے 02جنوری 1972میں حکومت نے بغیر کسی
ادائیگی کے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔1973میں مرحوم میاں محمد شریف یو
اے ای منتقل ہوئے اور گلف اسٹیل ملز قائم کی وہ یہ کاروبار طارق شفیع کے ذریعے چلا
رہے تھے۔جب کہ محمد حسین کمپنی میں شراکت دار تھے۔کمپنی سے متعلق اسٹیل
فیکٹری دبئی کے مقامی بینک سے قرضہ حاصل کرکے تعمیر کی گئی تھی ۔اس کے لیے پاکستان
سے کوئی رقم منقل نہیں کی گئی۔1978 میں مرحوم میاں محمد شریف نے کمپنی کے
75فیصد شیئرز عبداللہ قید اہلی فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔تاکہ کمپنی کے واجب الادا
قرضہ جات ادا کیے جاسکیں۔اسی طرح 1978میں طارق شفیع نے کمپنی کے 75فیصد شیئرز
فروخت کیے ۔کمپنی کا کاروبار اہلی ملز کمپنی کے نام سے چل رہا تھا ۔1980 میں
میاں محمد شریف نے فیصلہ کیا کہ وہ دبئی کے اسٹیل کے کاروبار سے اپنے آپ کو
علیحدہ کرلیں ، جس پر اہلی کمپنی میں 25فیصد شیئرز عبداللہ قید اہلی کو فروخت
کردیئے گئے ۔اسی سال اس 25فیصد شیئرز کی فروخت سے جو رقم حاصل ہوئی تھی ا سے قطر
کی الثانی خاندان سے رئیل اسٹیٹ کاروبار میں لگادیا گیا۔فلیٹ نمبر 16،16۔اے،
17اور 17۔اےالثانی خاندان نے خریدا تھا اور اس کی ملکیت نیلسن انٹرپرائز لمیٹڈ اور
نیسکول کمپنی کے نام پر محفوظ کرلی گئی۔الثانی خاندان کے مرحوم میاں محمد شریف سے
تعلقات کے باعث انہوں نے اپنی جائداد کے استعمال کی اجازت شریف خاندان کو دی ، جب
کہ اس کے تمام اخراجات الثانی خاندان نے خود برداشت کیے۔10دسمبر 2000 میں پاکستان
سے اپنی جلاوطنی کے بعد مرحوم میاں محمد شریف نے الثانی کو تجویز دی کہ یہ باہمی
کاروبار اور اس سے حاصل منافع ان کے بڑے پوتے فریق مخالف نمبر 7کے لیے ہے۔جب کہ
فریق مخالف نمبر 6اس کا ٹرسٹی ہوگا ، ایسا 2006کی ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق تھا۔قابل وکیل
نے ورجن آئی لینڈ فنانشل انویسٹی گیشن ایجنسی ایکٹ 2003کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ
ایم ایل اے کی معلومات کی درخواست جو کہ ایف آئی اے بی وی آئی کے ذریعے موصول
ہوئی وہ ان قوانین کے تحت مستند ہیں۔رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے بھجوایا گیا ۔جب کہ
بیئرر شیئرسرٹیفکیٹ نے اپنی افادیت بی وی آئی کمپنیز ایکٹ 2004کے سبب کھودی ۔انہوں
نے ایس 69کا حوالہ دیا ، جو کہ تیار ریفرنس کے لیے دوبارہ درج ذیل ہے۔بیئرر شیئرز
کے 69مسئلہ اور رجسٹرڈ شیئرز کی تبدیلی1۔ جہاں کمپنی بیئرر شیئرجاری کرے گی
یاٹریژری شیئرز ٹرانسفرکرے گی تو یہ بیئرر شیئر ہوگا ۔یہ کسی ایسے شخص کو شیئرادا
نہیں کرے گا جو کہ نگہبان کے علاوہ ہوگا اور وہ شیئررکھنے پر رضامند
ہوگا۔2۔کمپنی تبدیل شدہ بیئرر شیئر جو کہ رجسٹرڈ شیئر سے ہوگا ادا نہیں کرے
گا ، کسی ایسے شخص کو جو کہ نگہبان کے علاوہ ہوگا ۔بیئرر شیئرز کی ادائیگی نگہبان
کو ڈویژن کے مطابق ہوگی جو کہ نگہبان کو کمپنی کا شیئر ہولڈر نہیں بنائے
گا۔4۔جہاں کمپنی ایکٹ شق 1اور2کے تحت ہوگا ، وہاں جرم کا ارتکاب ہوگا جس پر جرمانے
کی سزا ہوگی۔بی وی آئی بزنس کمپنیز ایکٹ 2004کا ایس 70بیئرر شیئرز جو نگہبان کے
پاس نہ ہو کو معذور کردیتا ہے۔انہوںنے یہ درخواست کی کہ یہ ظلم تھا کہ اصل مالک کا
نام بیئرر کے ضمن میں افشا ہوگا۔
رجسٹرڈ شیئر ایسا اسٹاک ہے کہ جو مالک کے ہی نام ہو ۔اگر شیر کا
مالک اسے فروخت کردیتا ہے تو نیا مالک اسے اپنے نام اور دیگر ذاتی معلومات پر
رجسٹرڈ کرائے گا ۔بی وی آئی بزنس ایکٹ 2004 کے سیکشن 71 s کے تحت حامل شیئر کا بینفیشل اونر جس
کا اس شیئر میں مفاد ہو اس کا پورا نام اور دیگر معلومات ضروریات کے مطابق فراہم
کرے گا ۔اس وقت جب حامل شیئر ز کو کسی شخص کو دیے جائیں گے ۔ایف آئی اے بی وی
آئی خط کے مطابق مریم صفدر کو نیلسن اور نیسکول لیمیٹڈ کمپنیز میں بینفشل اونر
بتایا گیا ہے ۔ایون فیلڈ اپارٹمنٹس مذکورہ دونوں آف شور کمپنیوں کے نام پر تھے
۔اونر شپ کی اصل شناخت 2006 تک چھپائی گئی کہ جب برٹش ورژن آئی لینڈ قوانین تبدیل
ہوئے اور یہ ممکن نہ رہ سکا کہ بینفشل آنر شپ کی اصل شناخت کو چھپا یا جائے جیسا
کہ مندرجہ بالا قانون میں بتایا گیا ۔پراسیکیوٹر نے اینٹی منی لانڈرنگ قوانین 2008
اور ٹیررسٹ فنانس کوڈ آف پریکٹس 2008 کا بھی حوالہ دیا حامل شیئرسرٹیفکٹ کو
رجسٹرڈ شیئرمیں بدل دیاگیا ۔ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی ملنے والی وضاحت میں لائے گئے
(Exh PW 16/11اورExhPW16/12)حماد بن جاسم بن جابر الثانی کے خط
پر الزام آیا۔Exh PW 16/11کے پیرا 4ایون فیلڈ اپارٹمنٹس سے متعلق ہے جو کہ تیار ریفرنس پر
دوبارہ بنایاگیا ۔ایون فیلڈ ہائوس کے فلیٹ نمبر 17,17-A۔16-16-جائیدادیں ہیں
پارک لین لندن دو آف شور کمپنیوں کی آنر شپ رجسٹرڈ کی گئی ۔جن کے شیئر کے
سرٹیفکٹس اس وقت قطر میں رکھے گئے یہ رئیل اسٹیٹ بزنس کے طریقے سے خریدے گئے تھے
۔یہ خاندان کے تعلق پر بنائے گئے ،میاں محمد شریف اور ان کے خاندان نے جائیدادیں
استعمال کیں جبکہ جائیداد کے تمام اخراجات برداشت کیے ۔جس میں گرائونڈ رینٹ اور
سروس چارجز شامل ہیں ۔مذکورہ حمام بن جاسم جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے لیکن
ان کی طرف سے خط پیش کیاگیا اور انہوں نے مختلف اوقات میں خود کو پیش کرنے سے گریز
کیا ۔انہوں نے والیم -پانچ کے 20 تا 22 کا حوالہ دیا ، جے آئی ٹی کی جانب سے خط
کو فرضی کہاگیا ۔ایم ایل اے کے ذریعے حاصل کی گئی دستاویزات ظاہر شاہ نے پیش کیے
اور اس کے ساتھ پچھلے دستاویزات بھی تھے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اپارٹمنٹس نیلسن
اور نیسکول کمپنیوں نے 01-06-1993کو خریدے تھے ۔فلیٹ نمبر 17 نیسکول نے
23-07-1996کو فلیٹ نمبر 17 aنیسکول لیمیٹڈنے 31-07-1995کو لیاگیا۔بیٹے (شریک ملزم )الزام نمبر
ایک میں مذکورہ سالوں میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں رہتے تھے ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ
مذکورہ اپارٹمنٹس اسی وقت سے ان کی ملکیت تھے ۔بیٹوں کے انٹرویو میں الزام نمبر
ایک میں صاف ہے کہ وہ اپارٹمنٹس ان کے استعمال میں تھے ۔گرائونڈ رینٹ ادا کیا گیا
جو کہ مالک کو ادا کرنا ہوتا ہے ۔ٹرسٹ ڈیڈ بھی جعلی معلوم ہوئی جو کہ کیلبری فونٹ
میں تھا اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سال 2006 میں تیار نہیں کیےگئے تھے ۔رابرٹ
ریڈلے کی ماہرانہ رپورٹ سے پتہ چلا کہ ڈیڈ جھوٹی ہے ۔مذکورہ ماہر کاکہنا تھا کہ
کیلبری فونٹ جنوری 2017سے پہلے کمرشل طور پر دستیاب نہیں تھا ،ٹرسٹ ڈیڈ کے مواد پر
اعتماد پیدا نہیں ہوتا ۔ٹرسٹ ڈیڈ کی ڈیوٹی پرپورٹڈ سیٹلر کے انتقال کے بعد ادا کی
گئی ۔ملزم کی جانب سے اپنے دفاع میں کوئی دستاویز پیش نہیں کی گئی جبکہ ان کے پاس
پراسیکیوشن کیس میں گواہ یا تحریری ثبوت دینے کا موقع تھا ۔ٹرسٹ ڈیڈ اوران پر
دستخظ کی تصدیق کیلئے کوئی گواہ پیش نہیں ہوا ۔مزید کہاگیا کہ اگرجے آئی ٹی قطری
شہزادے کا بیان ریکارڈ نہیں کرسکتی تو پھر ڈیفنس کے پاس موقع ہے کہ دستاویزی ثبوت
کے ساتھ حاضر کرے ۔اسی طرح کمپنیوں سے متعلق ثبوت پیش کرے تاہم یہ مرضی سے نہیں
تھا ۔1993 سے مے فیئر اپارٹمنٹس ملزم کی ملکیت میں تھے اور کیس میں پراسیکیو شن کی
جانب سے پیش دستاویز ات کے مطابق مریم صفدر نیلسن اور نیسکول کی بینفشل اونر ہے
۔یہ بھی شامل ہے کہ ملزم نے سال 1993 سے گرائونڈ رینٹ ادا کیا جو کہ ہمیشہ مالک کی
جانب سے ادا کیا جاتا ہے ۔یہ بھی کہا گیا کہ ملزم میاں نواز شریف ،مریم صفدر،حسن
نوازاور حسین نواز آمدنی کے ذرائع ثابت کرنے میں ناکام رہے ۔مزید یہ کہ مریم نواز
نے اصل حقائق چھپائے اور کیپٹن (ر)صفدر نے جھوٹی ٹرسٹ ڈیڈ پر بطور گواہ دستخط کیے
اور دونوں نے تحقیقاتی ایجنسی اور معزز سپریم کورٹ آف پاکستان کو گمراہ کیاگیا
۔پراسیکیوٹر نے مفرور ملزم حسین نواز کے جے آئی ٹی کو دیاگیا بیان بھی پڑھا جس
میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ مذکورہ فلیٹ میں سال 1993 سے رہ رہے ہیں اور خاندان نے
دیگر فلیٹوں کی ملکیت 1995 اور 1996 میں حاصل کی ۔پراسیکیو ٹر نے مزید کہا کہ قطری
شہزادے کا خط غیر مصدقہ ثابت ہوا ،قطری کو کی گئی سرمایہ کاری کا کوئی دستاویز ی
ثبوت نہیں ہے اور نیلسن انٹر پرائززاور نیسکول لیمیٹڈ کے حامل شیئر زقطر میں نہیں
تھے اور منیورا سروس کے حوالے سال 2006 میں کے گئے ۔اس کا مطلب ہے کہ دونوں
کمپنیاں اور فلیٹس پہلے سے ہی سال 1993 سے شریف فیملی کی ملکیت تھے ۔مزید کہا گیا
کہ حسین نواز کو قطری شہزادے سے منتقلی کا ریکارڈ ہے جیسا کہ جے آئی ٹی کے سامنے
دعویٰ کیاگیا تھا ۔حماد بن جاسم کا بیان غیر متعلقہ ہے ،حتیٰ کہ جے آئی ٹی نے ان
کا بیان ریکارڈ کرنے کی کوشش کی ۔جے آئی ٹی نے حماد بن جاسم کو 24-05-2017اور
22-06-2017کیلئے سمن جاری کیا اور وہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے ۔مزید یہ
کہ جے آئی ٹی نے کہا کہ وہ بیان ریکارڈ کرنے کیلئے دوحا جاسکتے ہیں تاہم انہوں نے
کہا کہ وہ سفارتخانے میں بیان ریکارڈ نہیں کرائینگے اور نہ ہی عدالت میں پیش ہونگے
پراسیکیوٹر نے کہا کہ اگر جے آئی ٹی نے ان کا بیان ریکارڈ نہیں کیا تو وہ دفاع
میں گواہ کے طور پر عدالت کے روبرو پیش ہوسکتے ہیں ۔ملزم کی جانب سے ویڈیو لنک کے
ذریعے ان کے بیان ریکارڈ کی درخواست کی جاسکتی ہے ۔پراسیکیوٹر نے کہا کہ جے آئی
ٹی کے مطابق ان کے لیٹر کی فائنڈنگ محض کہا نی ہے ۔پراسیکیوٹر نے مزید یہ بھی کہا
کہ جے آئی ٹی نے طارق شفیع کے بیان حلفی کا بھی تجزیہ کیا ،تاہم اس میں کہیں بھی
دبئی کورٹ سسٹم میں 1980 میں گلف اسٹریٹ کے 25 فیصد شیئر کے فروخت کا ثبوت نہیں
ملا ۔پراسیکیوٹر نے دلائل دیے کہ PW14،رابرٹ ریڈلے نے ان کی رپورٹ کی تصدیق کی اور اس پر اعتراض نہیں
تھا ۔سامبا بینک کے خط کا تعلق بھی اہم تھا جس سے پتہ چلتا ہے کہ مریم صفدر کا
ماقبل 2006 تعلق تھااور مزید یہ کہ دو پیش کی گئیں ٹرسٹ ڈیڈ ناصرف جعلی بلکہ سمجھ
سے بالا تھیں ۔یہ بھی کہا کہ مفرور ملزم نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں یہ اعتراف کیا
کہ شریعت کے مطابق ان کے والد فلیٹ کے مالک ہیں ۔ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق مریم نواز کے
انتقال کی صورت میں مریم نواز کو حق ہوگا کہ وہ جائیداد کی تقسیم کردیں،جب ٹرسٹ
ڈیڈ کا قانونی اہمیت پر جائزہ لیاگیا تو گیلڈ کوپر کیو سی کی جانب سے قانونی نکتہ
پیش کیا گیا جو کہ انہوں نے شریعت کے مطابق تقسیم کا بغور جائزہ لیا تھا کہ اگر
صرف اس مقصد کیلئے ہے تو اس کیلئے وصیت ہوسکتی ہے ۔دستاویزات میں ملزم نے کچھ پیش
نہیں کیا جبکہ پراسیکیو شن کیس ڈاکو منٹس پر بنایاگیا ۔ڈیفنس وکیل خواجہ حارث کی
جانب سےدلائل کے دوران مندرجہ ذیل پیش کیے گئے ،1جے آئی ٹی کے اختیارات
05-05-2017کو دیے گئے جو مندرجہ ذیل ہیں ۔جے آئی ٹی کو قانون کے مطابق تمام
اختیارات دیے گئے ہیں جو کہ کریمنل کوڈ پروسیجر میں ہیں ۔نیب آرڈیننس 1999اور ایف
آئی اے ایکٹ 1975 میں ہیں۔1S(4)کے مطابق تحقیقات کا مطلب دستاویزات کو جمع کرنا ہے ۔28-07-2017کو
فائنل آرڈر سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نیب کو ہدایت کی گئی کہ احتساب عدالت
راولپنڈی /اسلام آباد کے سامنے جمع مواد کی بنیاد پر ریفرنس دائر کرے ۔اس لیے
تجزیہ ،خیالات ،جے آئی ٹی کی طرف سے نتیجہ دائر کیے گئے ریفرنس کی بنیاد پر نہیں
ہے ۔ان کے پاس 14-06-2017 کا ریفر آرڈر بھی ہے ،پیرا 6 ریکارڈ بیان کے ساتھ پڑھا
گیا ۔موجودہ فیصلہ تفصیلی فیصلے میں ہے۔نظر ثانی اپیل ملزم کی جانب سے فائل کی گئی
،جس کا کچھ حصہ ڈیفنس وکیل نے پیرا 14 میں 15-09-2017کو بنایا۔دلائل دیے کہ ہدایات
غیر مبہم طور پر جے آئی ٹی کی جانب سے مواد جمع کیاگیا،جس کی شہادت ہونا ابھی
باقی ہے ۔ٹرائل کورٹ کسی بھی صورت میں ثبوت کا اندازہ کرے گی جس میں جے آئی ٹی کی
جانب سے جمع شدہ مواد بھی شامل ہوگا ۔ورنہ فیصلے میں تمام آبزرویشنز آزمائشی ہونگی
ٹرائل کورٹ کو اپنے فیصلے میں پابند نہیں کرسکے گی ،ڈیفنس وکیل نے مندرجہ ذیل
اتھارٹیز کا بھی حوالہ دیا ۔1993SCMR550سید سعید محمد شاہ کا عنوان اور ایک دوسرا ورژن پیرا 10 ہے جو
مندرجہ ذیل میں ہے ۔کریمنل پروسیجر کوڈ کا سیکشن 173اس چیپٹر میں انتہائی اہم ہے اور
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سیکشن کے تحت مجسٹریٹ کو پولیس افسر کی جانب سے تحقیقاتی
رپورٹ بھیجی جائے گی ،اس رپورٹ میں پارٹیز کے نام شامل ہونگے ،معلومات کی نوعیت
اور شخصیات کے نام ہونگے ۔ریفرنس راجا محمد افضل چودھری محمد الطاف حسین اور دیگر
کا 1986scmr1736بن سکتا ہے ۔پی
ایل ڈی 2018 سپریم کورٹ 178 کا عنوان ہےصوبہ پنجاب پنجاب پبلک پراسیکیوشن
ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے اور دیگر محمد رفیق اور پیرا13 میں ذیل میں دیے گئے ہیں
۔مذکورہ وکیل نے جے آئی ٹی کی رپورٹ پر اعتبار کیا اور مخصوص پیرا گراف بھی پڑھا
لیکن مذکورہ رپورٹ جے آئی ٹی اراکین کا خیال ہی ہے اور اس پر غور کیا جاسکتا ہے
۔سید سعید محمد شاہ اور دیگر vکے کیس میں ہے ۔ٹرائل کورٹ اس صورت میں اس کو سراہے گی کہ جب قابل
قبول مواد کی حمایت کرے گی ۔کیونکہ عدالت صرف مواد میٹریل کی بنیاد پر فیصلہ کرے
گی اور کسی پولیس افسر کے خیال پر فیصلہ نہیں ہوسکتا چاہے وہ آئی جی پولیس رینک
کا ہو ۔3پی ایل ڈی 2011 سپریم کورٹ 350محمد ارشد اور دیگر کا عنوان ہے جس کا پیرا
35 میں یوں بتایا گیا ۔ہمیں لگتا ہے کہ وقت آگیاہے کہ جب ہمیں خود سے تحقیقات میں
پولیس کے قانونی کردار اور قابل قبول متعلقہ ثبوتوں کی ضرورت ہے ۔4-2003ایم ایل ڈی
676(کراچی )آصف جمیل اور دیگر کیلئے ہے ،جس میں ہے کہ مزید اس طرف اشارہ ملتا ہے
کہ کئی دیگر کیسوں میںدیکھاگیا کہ جب پولیس افسر/تحقیقاتی افسر گواہوں کے بیان
ریکارڈ کرتا ہے تواسے پراسیکیوشن کی جانب سے کسی مقصد کیلئے استعمال نہیں
کیاجاسکتا ۔5-1999P Cr. L J 1198(Lahore)مقبول احمدبنام ایس ایچ او ہیں ،پولیس اسٹیشن چھانگا مانگا ،ضلع
قصور اور دیگر ہیں ۔6-1991M L D 2005(Lahore)ریاست محمد انوربنام ریاست کا عنوان ہے ۔7-2007M L
D372(Karachi)عطااللہ عرف قاسم
اور دیگر بنام ریاست کا عنوان ہے ۔8-1991 P Cr. L J 62
(Peshawar )حاجی محمد جاوید
بنام ریاست اور دیگر دو کا عنوان ہے ۔9-1998 P Cr. L J 56(Lahore)مسعود بیگم بنام محمد معروف اور دیگر
دو کا ہے ۔پیرا 6 ذیل میں ہے ۔ٹرائل میں ثبوت ،یا گواہوں کی صلاحیت فیصلے کیلئے
ثبوت کا معیار اور کوالٹی ایجنسی کی طرف سے ہے یا حقائق کی تہہ تک ثبوت جمع کرنا
ایجنسی کا کام ہے ۔10-P L D 1958(W.P)Lahore 300درگاہی اور دیگر کا بنام ریاست کے
عنوان ہے ۔پیرا 22F &23 Fذیل میں ہیں ۔پیرا 22 میں ہے کہ ہم نے سیشن جج کا فیصلہ بغور پڑھا
ہے اور اس میں کمی دیکھ رہے ہیں ،سیشن جج کو کو لگا کہ اگر وہ اس معاملے میں بے
یارو مدد گار ہیں تو ان کا دماغ تحقیقاتی افسر کے خیال کی طرف جاسکتا ہے ۔جوکہ غیر
متعلقہ تھا اور ایویڈنس ایکٹ کے تحت ناقابل قبول تھا ۔ایک تحقیقاتی افسر کو حق ہے
کہ قصور اور بے گناہی کے خیال پر آسکتا ہے ،وہ ضمانت بھی دے سکتا ہے ۔کورٹ میں
چالان کے بعد کورٹ کا یہ کام ہے کہ ثبوتوں اور گوہی کی بنیاد پر مجرم یا بے گناہی
کو دیکھے ۔تحقیقاتی افسر ان سیکشنز میں واضح کیاگیا کوئی شخص نہیں ہوسکتا اور اس
کا قصور وار یا بے گناہی سے متعلق خیال مخصوص معاملے میں نہیں ہوسکتی ۔مذکورہ سیشن
جج کو یہ ادراک ہو ا کہ تحقیقاتی افسر کا خیال قانونی ثبوت نہیں تھا اور کوئی بھی
عدالت اس کی بنیاد پر فائنڈنگ نہیں دے سکتی ۔ہم نے اس کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ
اس کیس میں تحقیقاتی افسر کو سیشن جج کی جانب سے اجازت دی گئی کہ پبلک پراسیکیوٹر
کے کردار کو قبول کرلے ،کیس کو گواہی کی بنیاد پر بنایاجائے گا اور اسے قانونی
طریقہ کار کے مطابق چلایا جائے گا۔
درگاہی وغیرہ منعم ہوگا PCL1958LHR300 کے پیراگراف 22F اور 23F میں بنایا گیا ہے کہ ہم نے معزز سیشن
جج کے فیصلے کو احتیاط سے پڑھا اور اس کی عملدرآمد سے متعلق رولنگ کو تلاش کرنے
میں بے کار میں کوشش کی ایب رائٹس کی بریت کا حکم عدالتی فیصلہ پر انحصار نہیں
کرتا جو کہ نقاط کہیں کے تھے لیکن معزز سیشن جج بھول گئے کہ انہوں نے اپنی سوچ پر
تفتیشی افسر کو حاوی کرنے دیا اور شہادت کے قانون کے مطابق ہماری آرا غیر ضروری
اور قابل قبول نہیں ہوتی جبکہ جب کوئی تفتیشی افسر کسی ملزم کے گناہگار ہونے اور
بے گناہی سے متعلق اپنی آرا قائم کرتا ہے تو وہ اسے سیکشن B9 ص 2کے تحت اس ملزم کو ضمانت دے سکتا
ہے اسے اس جرم سے ڈسچارج کرسکتا ہے لیکن جب چالان عدالت میں آ جائے تو اس کے بعد
یہ اختیار عدالت کے پاس ہوتا ہےۃ کہ وہ کسی مجرم کی بے گناہی اور گناہگار ہونے سے
متعلق ہو تو وہ مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرے لیکن ہم نے ایسی کوئی سکشین اور عدالتی
فیصلہ نے دیکھا جس میں تفتیشی افسر کی آرا کو تسلیم کیا ہو کسی کی رائے اس وقت تک
قابل قبول نہیں جب تک شہادت ایکٹ کے سیکشن 41-45 میں بیان کئے گئے واقعات سے
مطابقت رکھتی ہو اور تفتیشی افسر وہ بندہ نہیں ہے جو کہ کسی کی بے گناہی اور
گناہگار ہونے سے متعلق حقیقت سے مطابقت رکھتا ہو اور معزز سیشن جج اور نہ .ۜ اس کی
بنیاد پر کوئی فیصلہ دیا جا سکتا ہے۔پیراگراف۔23۔کسی جوڈیشل افسر کو اس بات کی
اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ جوڈیشل مائنڈ کو تفتیشی افسر کی آرا سے منسلک کرے کسی
مجرم کی بے گناہی اور اس کا گناہگار ہونے سے متعلق معاملہ قانون کے مطابق ہی قابل
قبول ہونا چاہئے اور اب یہ انتہائی خطرناک ہوگا کہ پولیس آفیسرز کی رائے پر
انحصار کیا جائے تو اس سے ایسا ہی لگے گا کہ لوگوں کا عدالتوں سے اعتماد متزلزل
ہوا ہے ہمیں عدلیہ کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ صاف شفاف انصاف کیلئے کسی حلف
نامے پر کام کرے اور ہم امید کرتے ہیں کہ مستقبل میں سیشن جز صرف قانون کے مطابق
فیصلے کرسکے۔11۔ الطاف حسین وغیرہ بمع سرکار PLD2000LHR216میں بتایا گیا ہے کہ اگر تفتیشی
آفیسر کی آراء حقیقت سے مطابقت رکھتی ہے تو اسے ایکسپرٹ رائے تصور کرتے ہوئے
حقیقت سے قریب ترین تصور کیا جائے، اس طرح آراء سے کسی مجرم کو سزا نہیں دی جا
سکتی لیکن یہ کیس کو کمزور ضرور کرتی ہے۔ پراسیکیوشن میں چھوٹا سا کریک بھی مجرم
کوفائدہ دیتا ہے اور ملزم کو دی جانیوالی رعایت ہمارے روایتی طریقہ تفتیش کیخلاف
ہے۔12۔رائو عبدالجبار خاں بنام لاہور ہائیکورٹ لاوہر بعنوان PLD2013SC472کے پیرا گراف 4B میں بتایا گیا ہے کہ یہ ایک
سیٹلڈقانون ہے کہ تفتیشی افسر کی کسی مجرم کی بے گناہی اور گناہنگار ہونے سے متعلق
عدالت کو رائے پابند نہیں ہے۔PLD2002LHR261میں لاہور ہائیکورٹ نے بتایا کہ پولیس افسران کی شہادت کو فیصلے کے
وقت دیکھا جائیگا، کسی مجرم کی بے گناہی اور اس کے گناہنگار ہونے سے متعلق رائے
شہادت میں قابل قبول نہیں ہے لیکن یہ اس وقت ہی مانی جا سکتی ہے جب فیصلہ کوئی
فراہم کیا جائے جیسا کہ لاہور ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ نے الطاف حسین وغیرہ بنام
سرکار میں بتایا ہے۔بعنوان حاجی محمد حنیف بنام سرکار PCD 1992 LHR314 کے پیراگراف 25 اور 27 میں بتایا گیا
ہے تفتیشی افسر کا کسی خاص مجرم کی بے گناہی اور اس کے گناہگار ہونے سے متعلق رائے
صرف رائے کا اظہار ہو سکتی ہے جو کہ غیر ضروری اور ناقابل قبول شہادت ہے۔ کیس کے
واقعات سے متعلق کوئی رائے قائم کرنا عدالتی معاملہ ہے جو کہ صرف اور صرف عدالت ہی
کر سکتی ہے اور اگر کوئی گواہ واقعات سے متعلق بتانے کے علاوہ اپنی رائے جو اس نے
3 چیزوں کو محسوس کرتے ہوئے بنائی قانون اس کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی دے سکتا
ہے۔14شاکر بنام سرکار PCD2015 Pesh 157 کے پیراگرف 45 میں بتایا گیا ہے کہ
سیکشن161ض ف 1898کے تحت کسی مجرم یا کسی پراسیکیوشن کے گواہ کے بیان کی کوئی حیثیت
نہیں ہے اور یہ معاون مجرم کے خلاف بھی ثابت نہیں کی جائے گی۔ قانون شہادت آرڈر
1984 کے آرٹیکل 43 کے تحت جب کوئی مجرم کوئی اقبال جرم کرتا ہے تو وہ صرف اقبال
جرم کرنے والے مجرم کے خلاف ہی ثابت ہو سکتا ہے اگر ان کو ایک ساتھ ٹرائل کیا جا
رہا ہو تو لیکن دوسروں کے خلاف صرف Consider کیا جا سکتا ہے۔ 15، اکمل بنام سرکار 1997MLD
1253 کے پیراگراف4 میں بتایا گیا ہے کہ
161 ض ف کے تحت ریکارڈ کیا گیا بیان ناصرف اس کے دینے والے کے خلاف قابل قبول ہے
بلکہ معاون مجرم کے خلاف بھی نہیں کیا جا سکتا۔ 16، محمد احمد بنام سرکار 2010
SCMR 660 کے پیراگراف 37-Qمیں کہا گیا ہے کہ کسی مجرم کو بے
گناہ اور گناہگار ہونے سے متعلق صرف اور صرف عدالت کا اختیار ہے۔ یہ کسی پولیس
ڈیپارٹمنٹ کے ملازم کو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے اگر یہ اختیار پولیس افسران
کو دے دیا جائے تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہونگے۔ سیکشن 155-157 اور 174ضابطہ
فوجداری پولیس آفیسر کو کیس میں صرف اور صرف تفتیش تفتیشی آفیسر کا کام کیس میں
صرف ثبوت اکٹھا کرنا ہیں اور ان ثبوتوں کو عدالت کے حوالے کرنا ہے۔ گزشتہ 110 سال
سے جب سے فوجداری ضابطہ وجود میں آیا ہے کسی تفتیشی افسر کو ایکسپرٹ نہیں تسلیم
کیا گیا کہ وہ کسی مجرم کو بے گناہ اور کسی مجرم کو گناہگار ثابت کر دے۔17،
عبدالحمید وغیرہ بنام سرکار PLD PcrL-T LHR 895 کے پیراگراف 10-A,Bمیں بتایا گیا ہے کہ کیا کسی مجرم کی
بے گناہی اور گناہگار ہونے سے متعلق پولیس افسر کی رائے شہادت بھی قابل قبول ہے؟
تو اس کا جواب بڑا سادہ سا ہے کہ بے گناہی اور گناہگار ہونے سے متعلق پولیس آفیسر
کی رائے قابل قبول نہیں ہے اور عدالت کیس کو قانونی طور پر دستیاب شہادت پر فیصلہ
کرے۔ بعنوان محمد احمد وغیرہ بنام سرکار میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے یہ جائزہ لیا
تھا کہ کسی بھی مجرم کو بے گناہ کرنے اور اسے گناہگار ٹھہرانے کا پورا اختیار
عدالت کا ہے جس کی اجازت کسی طور پر بھی پولیس ملازمین کو نہیں دی جا سکتی۔ 18، 13-Aآغا وزیر عباس وغیرہ بنام سرکار کے
پیراگراف 13-A,B اور 14 میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی فیصلہ مکمل طور پر دستیاب شہادت
کے پرکھنے کی بنیاد پر دیا جائے۔ یہ عدالت کا بندھا ٹکا اصول ہے کہ کسی مجرم کو
بری کرنے کا فیصلہ صرف دستیاب شہادت کو نہ پرکھنے اور نہ دیکھنے پر تبدیل کیا
جائے۔ معزز وکیل استغاثہ یہ ثابت نہیں کر سکے کہ بریت کے فیصلہ سے کسی کے قانونی
ورثاء کو کوئی بیماری ہے۔ 19،13-B، اشتہاری مہرمل جگوانی کی جانب سے چیئرمین نیب کو لکھا گیا خط
قابل قبول شہادت نہیں ہے۔ قانون شہادت آرڈر کے آرٹیکل 43 کے مطابق اسے اقبال جرم
کا بیان نہیں تصور کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس بیان کو آرٹیکل 46 کا بیان مانا
جا سکتا ہے۔ آرٹیکل 43کے مطابق جب کسی کیس میں ایک مجرم سے زیادہ کا اکٹھا ٹرائل
ہو رہا ہو تو ان میں سے کوئی ایک اعتراف جرم کرتا ہے اور وہ ثابت بھی ہو جاتا ہے
تو وہ دوسروں کیخلاف CIRMUTANCUAL شہادت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے
اشتہاری مجرم اورمہرمل جگوانی کی طرف سے بھیجا گیا خط کیس میں بطور اعتراف جرم
نہیں جانے جائیگا اگر وہ ابھی تک اشتہاری ہو اور نہ ہی دوسرے ہمراہی ملزمان کیساتھ
اس کا کیس ملا ہو۔حتیٰ کہ اگر آرٹیکل 48کو صرف پڑھیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ
بیان صرف ان افراد کا ہے جو وفات پا گئے یاجو مل نہیں سکتے یا جن کی تلاش نہیں کی
جا سکتی ہے لیکن اس کیس میں مجرم مہرمل جگوانی زندہ بھی ہے اور انڈیا میں موجود
بھی ہے۔ اس وقت یہ بتانا ضروری ہے کہ کسی مجرم کا اعتراف جرم لینے سے متعلق سیکشن
364,164صفحات میں مکمل پروسیجر دیا گیا ہےجو اس کیس میں نہیں ہے۔مندرجہ بالا خط کو
سیکشن 364,164کے مطابق لئے گئے بیان کے تناظر میں نہیں دیکھا جا سکتا حتیٰ کہ ملزم
کا زبانی بیان بھی اگر اسے تفتیشی افسر کی جانب سے تحریر کیا گیا ہو تو اس کا
پروسیجر بھی اس کیس میں موجود نہیں ہے ۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر انوسٹی گیشن ایف آئی اے
P.W.A.D KHUWJAکی جانب سے دیاگیا
خط کسی بھی بطور شہادت قابل قبول نہیں ہے اور نہ ہی اسےپیش کرنے کا مجاز تھےیہ
مندرجہ بالا دستاویزات جیسا کہ رسید اور لفافہ جو کہ FEDEX OFFICEپاکستان میں موصول ہوا بھارت سے
بھیجا گیا لیکن اس دفتر سے کوئی بھی ا س کی وصولی جرم ثابت نہیں کر پائے۔حتیٰ کہ
اسسٹنٹ ڈائریکٹر FIAکا پتہ بھی اس کے اوپر نہیں لکھا ہوان تھالیکن ریکارڈ دیکھنے پر
پتہ چلتا ہے کہ اس خط کو نوٹری پبلک ممبئی انڈیا نے تصدیق کیا ہوا ہےاور اس کے
دستخط گورنمنٹ مہاراشٹر کے سیکشن افسرہوم ڈیپارٹمنٹ نے ویری فائی کیا ہے۔اب تک یہ
کسی بیرون ملک کا جوڈیشل ریکارڈ نہیں ہے اس لئے اسکا اصل ہونا اور حقیقی ہونا ثابت
نہیں ہو سکتا ہے۔انڈیا میں پاکستان ایمببی نے بھی اسے تصدیق نہیں کیا او ر نہ ہی
کسی پاکستانی ایمبیسی کے ذریعے بھیجا گیا ہے۔اس لئے اسے کسی بھی صورت قابل قبول
دستاویزی شہادت نہیں مانا جا سکتا۔ قابل سماعت ہونے اور دستاویزات کے ثبوت کے
حوالے سے فیصلوں کا حوالہ دیا گیا۔ جو درج ذیل ہیں 1- 2010 سی ایل سی 722 سید
امداد حسین شاہ بنام سید مخدوم حسین رضا کاپیرا 11جی تصدیق شدہ نقل وہ ہے جو پبلک
ریکارڈ کا حصہ ہے اور اس اتھارٹی نے جاری کی جسے رجسٹر یا اصل دستاویز سے موازنہ
کرکے جاری کرنے کا اختیار ہے۔ صرف یہ بات کافی نہیں کہ دستاویز پر نقل کنندہ یا
سیکرٹری یونین کونسل کے دستخط نظر آ رہے ہیں جب تک کہ تصدیق شدہ نقل پیش نہ کی
جائے اور وہ اصل ریکارڈ سے ثابت شدہ نہ ہو۔ محمد اسلم کے کیس 2000ایم ایل ڈی کے
متعلقہ حصے میں کہا گیا ہے۔ فاضل وکیل نے کہا کہ ’’ڈس پلیڈ‘‘ کا لفظ ایک بالکل
مختلف صورتحال کیلئے ہے۔ متاثرہ شخص ضروری نہیں کہ ڈس پلیڈ پرسن ہو۔ مدعا علیہان
کے فاضل وکیل نے یہ موقف اختیار کیا کہ مدعا علیہان نے ترمیم کی درخواست دائر کرتے
ہوئے سرٹیفکیٹس کے قانونی اور اصلی ہونے اور ان کے قبول کئے جانے پر اعتراض کیا
تھا۔ ان کا جواب مورخہ 7نومبر 1992ء صفحہ 182پر ریکارڈ میں ہے۔ فاضل وکیل نے یہ
بھی کہا کہ سرٹیفکیٹ ’’قانون شہادت آرڈر‘‘ 19861 کے آرٹیکلز 87 اور 89 کے مطابق
تصدیق شدہ نہیں تھے اور 1991سی ایل سی صفحہ 1201پر انحصار کیا گیا۔ جہاں قراردیا
گیا کہ دستاویزات کی تصدیق قانون شہادت کی متعلقہ شقوں کے مطابق ہونا ضروری ہے۔
ایسی دستاویز پر انحصار نہیں کیا جا سکتا جو ان کے مطابق تصدیق شدہ نہ ہو۔ پی ایل
ڈی 1962 لاہور 92 پر انحصار کیا گیا جس میں قرار دیا گیا کہ صرف شہادت ایکٹ کی
دفعہ 76 (آرٹیکل 87 قانونی شہادت آرڈر 1984) کے مطابق تصدیق شدہ نقل ہی تصدیق
شدہ نقل مانی جائے گی اور نقل پر صرف نقل کنندہ اور تصدیق کنندہ کے دستخط کافی
ہیں۔ اصل اور درست نقل لکھنا بھی ضروری ہے۔ 2- 1991سی ایل سی 1201 (لاہور) محبوب
علی اور دیگر تمام شریفاں بی بی و دیگر 21 3- پی ایل ڈی1962 (ڈبلیو پی) لاہور
492خضر محمد و دیگر بنام غلام محمد و دیگر 4- فنانشل انوسٹی گیشن ایجنسی ایکٹ 2003
ورجن آئی لینڈ 5- 1995سی ایل سی (153پشاور) جنرل منیجر ایچ بی ایف سی و دیگر بنام
علی رحمٰن پیرا 13جی اور 14میں کہا گیا ہے اس کیس میں دستاویز کے گواہ اور تحریر
کنندہ پر جرح کی گئی لیکن اپیل کنندہ فضل محمود نے دونوں دستاویزات پر اپنے دستخط
سے انکار نہیں کیا قانون شہادت کی دفعہ 3میں لفظ Provedجب دستاویزات کیلئے استعمال کیا جائے
تو اسے اس ایکٹ کے سیکشن 67کے ساتھ پڑھا جائے۔ اس لئے کوئی دستاویز اس وقت تک
ایویڈنس ایکٹ کے مطابق Proved نہیں سمجھی جائے گی۔ جب تک یہ شہادت نہ ہو کہ دستخط واقعی دستاویز
لکھنے والے کے ہی ہیں۔ قانون کی نظر میں دستاویز تصدیق شدہ ہونے کیلئے ضروری ہے کہ
تصدیق کے ساتھ اس کے متعلقہ کے لکھنے کا ثبوت بھی ضروری ہے۔ اس لئے ہماری رائے ہے
کہ تحریر کنندہ اور تصدیق کرنے والے گواہ کی شہادت کے علاوہ تحریر اپنے وا لے اپیل
کنندہ فضل محمود سے بھی پوچھا جائے کہ کیا دستاویزات پر دستخط اسی کے ہیں۔ اگر وہ
لاتعلقی ظاہر کرے تو قانون شہادت پر عمل کرتے ہوئے فضل محمودکے دستخطوں کی تصدیق
کیلئے ایک یا زیادہ طریقے استعمال کئے جائیں گے۔ کسی دستخط یا تحریر کی تصدیق
کیلئے قانون شہادت کا تسلیم شدہ طریق کار درج ذیل ہے۔ (I) اس شخص کو طلب کرکے جس نے دستاویز
لکھی یا اس پر دستخط کئے۔ (II) ااس شخص کو طلب کرکے جس کی موجودگی میں دستاویز لکھی گئی اس پر
دستخط کئے گئے۔ (III) ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ کو طلب کرکے (IV)ایسے شخص کو طلب کرکے جو مذکورہ
دستاویز لکھنے والے یا اس پر دستخط کرنے والے کی تحریر سے واقف ہو۔ (V)
تحریر کرنے یا دستخط کرنے والے کے
تسلیم شدہ دستخط اور تحریر کے عدالت میں متنازعہ تحریر یا دستخط سے موازنہ کرکے (VI)
تحریر کرنے یا دستخط کرنے والے کے اس
بات کے اعتراف کرے۔ (VII) کوئی شخص تصدیق کرے کہ اس نے تحریر کرنے والے کی درخواست پر اس پر
دستخط کئے (IX) کسی دوسری واقعاتی شہادت سے۔ 6۔ 1996سی ایل پی 74(کراچی نیشنل بینک آف پاکستان V) کسی دستاویز کی تصدیق کا طریقہ کار یہ
ہے کہ اول دستاویز کے مسئولات قانون نہیں ہے۔آرٹیکل 72سے 76 کے مطابق پرائمری یا
ثانونی شہادت سے ثابت ہوں۔ دوم یہ کہ دستاویز کے مسثولات کا ثبوت اس کے تعین کرنے
کا ثبوت نہیں ہے۔ ایسے آرٹیکل 76 کے تحت دستخط یا تحریر سے ثابت ہونا چاہئے۔ سوم
یہ کہ کسی دستاویز کا حصہ ہونا قانون شہادت میں رہنے کے طریقہ دے یا دستاویز کے
مشمولات یا ریکارڈ پر موجود دوسری دستاویزوں سے ثابت ہو جو عدالت اپنی صوابدید کے
مطابق کافی سمجھے۔7۔ 2004 کی آر ایل جے 371 (فیڈرل شریعت کورٹ) محمد ارشد نسیم
بنام سٹیٹ پیرا8اے اور بی ہم نے فریقین کے وکلاء کے دلائل کا بغور جائزہ لیا ہے
اور ان کی اعانت سے ریکارڈ کا معائنہ کیا ہے۔ وہ درخواست جس میں مدعی کے خلاف زنا
کا الزام لگایا گیا پیش نہیں کی گئی۔ قانوناً جو شخص کسی دستاویز پر انحصار کرتا
ہے اسے ثابت کرنا اس کا کام ہے۔ قانون شہادت آرڈر1984ء کا آرٹیکل72 کیا ہے کہ
دستاویزات کے مشمولات پرائمری یا سیکنڈری شہادتوں سے ثابت کیے جا سکتے ہیں جبکہ
آرٹیکل73 میں بتایا گیا ہے کہ پرائمری شہادت کا مطلب خود وہ درخواست ہے جو عدالت
کے معائنے کیلئے پیش کی گئی اورآرٹیکل 75 کا تقاضا ہے کہ دستاویز لازماً ثابت کی
جائے ماسوائے ان معاملات میں جن میں سیکنڈری شہادت دی جا سکے یہ نوٹ کی جائے کہ
عدالت کے ریکارڈ یا کہیں اور موجود دستاویزات کا تعلق حقائق کے سلسلے میں جائزہ
لیا جا سکتا ہے لیکن جب تک ان کی تصدیق نہ ہو جائے انہیں شہادت تسلیم نہیں کیا
جاسکتا۔ دستاویزات خود ایسا ثبوت نہیں ہوتیں اور محض عدالت میں پیش کر دینے سے ان
کی مشمولات درست ثابت نہیں ہو جائے ا س لیے و ہ دستاویزات جن پر کوئی فریق انحصار
کر رہا ہے پہلے عدالت میں پیش کی جائیں اور پھر گواہوں کو بلا کر ان کی تصدیق کی
جائے۔ اس سلسلے میں ہماری رائے کو مندرجہ ذیل رپورٹڈ فیصلوں سے تقویت ملی ہے۔(i)عبدالقیوم بنام محمد رفیق2002ء ایس
سی جے300،(ii)محمد اعظم بنام محمد اقبال وغیرہ(iii)فضل محمد بنام مسماۃ چھوہارا
وغیرہ،1992ء ایس سی ایم آر2182، (iv)بشوا ناتھ بنام سچیدہ آنند اے ڈی آر1971ء ایس سی 1983 ممبئی 1
اور (v)راج ولی الدین بنام
جوائنٹ ڈائریکٹر کنسالیڈیشن حکومت بہار سٹیٹ اے آئی آر1989ء پٹنہ66،8۔پی ایل
ڈی2016ء لاہور570 ریحانہ انجم بنام ایڈیشنل سیشن جج پیرا9ایف،کوئی دستاویز بطور
شہادت پیش کرنا، اس کے مشمولات ثابت کرنے سے مختلف بات ہے، کسی دستاویز کے بطور
شہادت قبول کر لینے سے پیش کرنے والا آرٹیکل79 کے تحت اسے ثابت کرنے کی ذمہ داری
سے بری الذمہ نہیں ہو جاتا۔الیکٹرانک ٹرانزیکشنز آرڈیننس 2002کے تحت الیکٹرانیکلی
تیار کردہ دستاویزات پر دستخط کی ضرورت نہیں، کوئی دستاویز پیش کرنا اور دستاویز
کا ثبوت دو الگ الگ باتیں ہیں۔ کوئی دستاویز بطور شہادت پیش کی جا سکتی ہے بشرطیکہ
وہ آرٹیکل 78کے تحت تفصیلی ثابت کی جائے۔ ایسا نہ ہو تو اس پر انحصار نہیں کیا جا
سکتا۔ میڈیکو لیگل رپورٹ یا بنکروپسی رپورٹ لکھنے والے میڈیکل آفیسر کو اس کا ایک
ایک لفظ ثابت کرنا ہوتا ہے کیونکہ دفعہ 510ض ف کے تحت نہیں آتی جس میں کہا گیا ہے
کہ حکومت کے کیمیکل ایگزامینر یا اسسٹنٹ کیمیکل ایگزامینر، چیف کیمسٹ سکیورٹی
پرنٹنگ کارپوریشن لمیٹڈ، کسی سیرولوجسٹ یا حکومت کے مقررکردہ فنگر پرنٹ یا فائر
آرم ایکسپرٹ کی رپورٹس انہیں بلائے بغیر بطور شہادت قبول کی جا سکتی ہیں البتہ عدالت
انصاف کے تقاضے کے تحت ضروری سمجھے تو انہیں بلا بھی سکتی ہے۔ 9۔ پی ایل ڈی
1973سپریم کورٹ 160خان محمد یوسف خاں خٹک بنام ایس ایم ایوب... فارم ای (ایگزیبٹ
پی ای) جو کمپنی نے کمپنیز ایکٹ کی دفعہ 32کے تحت رجسٹرار آف جائنٹ سٹاک کمپنیز
کو جمع کرایا ہے اس میں خان محمد یوسف خٹک کو 31دسمبر 1970کو بھی کمپنی کے
ڈائریکٹرز میں سے ایک ظاہر کیا گیا ہے۔ اس فارم میں یہ سرٹیفکیٹ بھی ہے۔ ’’میں
محمد یوسف خاں خٹک تصدیق کرتا ہوں کہ مندرجہ بالا فہرست اور سمری ان حقائق کو
بالکل درست بیان کرتی ہے جو 31دسمبر 1970کو تھے۔ (دستخط) محمد یوسف خٹک منیجنگ
ڈائریکٹر۔‘‘ جب میں کہتا ہوں کہ دستاویز (پی ای) غیر تصدیق شدہ ہے تو میرے ذہن میں
قانون شہادت کی دفعہ 67ہے، اگر مدعا علیہ کا موقف یہ ہے کہ دستاویز پی ای اور اس
کے ساتھ سرٹیفکیٹ پر اپیل کنندہ نے دستخط کئے تھے تو یہ ثابت کرنا چاہئے تھا کہ دستخط
اپیل کنندہ کے ہی ہیں لیکن اس کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ بنگل فرینڈز اینڈ کمپنی
بنام گور ہنوڈ سہا اینڈ کمپنی کے کیس میں اس عدالت نے یہ نکتہ اس طرح بیان کیا
تھا۔ ’’عدالتی ریکارڈ کی نقول کے سوا کوئی دستاویز دستخط اور تحریر کے ثبوت کے
بغیر بطور شہادت قبول نہ کی جائے‘‘ میرا خیال ہے کہ اگر ایسی دستاویزات کی نقول
ریکارڈ پر لائی جائیں اور ان پر کوئی اعتراض بھی نہ کیا جائے تو انہیں تصدیق کے
بغیر سیکشن 67کے مطابق بطور شہادت قبول نہ کیا جائے۔ اگر نقل کی بجائے اصل فارم ای
پیش کیا گیا ہو جو پرائمری شہادت ہو سکتی ہے تو قبول کیا جا سکتا ہے کہ دستخط اور
تحریر اصلی ہے۔ اسے غلط ثابت کرنا مخالف فریق کی ذمہ داری ہو گی۔ فارم ای لکھنے
والے اور دستخط کرنیوالے پر شک کے پیش نظر یہ ضروری نہیں کہ اس موقف کا جائزہ لیا
جائے کہ اس میں اپیل کنندہ کا یہ اعتراف موجود ہے کہ وہ 31 جنوری 1971تک کے کے
اینڈ کمپنی لمیٹڈ پر منیجنگ ڈائریکٹر رہا تاہم کمپنیز ایکٹ کے سیکشن 32کے تحت
الیکٹرانک ٹربیونل اور ہائی کورٹ نے اس دستاویز پر پورا انحصار کیا ہے۔ ہمارے
روبرو یہ موقف اختیار کیا گیا کہ ایگزیبٹ پی ای ایک جعلی دستاویز ہے جسے چوری چھپے
ریکارڈ میں شامل کیا گیا۔ اسے قانون شہادت کے سیکشن 145کے مطابق قانون شہادت ثابت
نہیں کیا گیا اس لئے اسے اپیل کنندہ کیخلاف استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں تک اس
بات کا تعلق ہے کہ دستاویز کی قانون کے مطابق تصدیق نہیں ہوئی، میں سمجھتا ہوں کہ
واقعی سیکشن 67اور 47پر عمل نہیں کیا گیا۔ یہ درست ہے کہ یہ دستاویز رجسٹرار
جوائنٹ سٹاک کمپنیز پشاور کے ایک افسر نے ٹربیونل میں پیش کی لیکن اپیل کنندہ کی
تحریر اور دستخط کے بارے میں کوئی شہادت ریکارڈ پر موجود نہیں۔ دستاویز پیش کرنے
والے افسر سے اس بارے میں کوئی سوال یا جرح نہیں کی گئی لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس نے
بھی اپیل کنندہ کے تحریر اور دستخط سے واقف ہونے کا کوئی ذکر نہیں کیا، جس تاریخ
کو یہ دستاویز پیش کی گئی اپیل کنندہ خود عدالت میں نہیں تھا اس کا وکیل موجود تھا
تاہم 19فروری 1972کو دلائل مکمل ہونے کے بعد 28فروری 1972کو اپیل کنندہ کی طرف سے
الیکشن ٹربیونل میں ایک درخواست دائر کی گئی جس میں استدعا کی گئی کہ ایگزیبٹ پی
ای کو اس بنیاد پر ریکارڈ سے نکال دیا جائے کہ یہ تصدیق شدہ نہیں اور سی پی سی کے
آرڈر XIII کی پابندی نہیں کی
گئی۔ ٹربیونل نے درخواست مسترد کر دی اور کہا کہ اپیل کنندہ کے فاضل وکیل نے دلائل
کے دوران دستاویز کو تسلیم کیا تھا اور کہا تھا کہ اپیل کنندہ نے اس پر غلطی سے یا
غیر قانونی طور پر دستخط کئے ہوں گے۔ یہ قانون کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ ایک رجسٹرڈ
شدہ ڈیڈ بذاتِ خودکسی ثبوت اوراس کےذریعےلین دین کی اصلیت کے بغیر کوئی حق نہیں
دیتی۔ اسی طرح کوئی تبدیلی جو ریونیوریکارڈ میں کی گئی ہو وہ بھی لین دین کی حقیقت
کو ثابت کرنےکیلئے کافی نہیں ہےیہاں تک کہ لین دین کی حقیقت ثابت ہوجائے۔ اس تجویز
کے ساتھ کوئی اعتراض نہیں ہے کہ دستاویزات پبلک ریکارڈ کاحصہ ہونے کے ناطے ثبوتوں
میں قابلِ قبول ہیں لیکن وہ اپنی طاقت میں اپنی اصلیت اور اس کی تعمیل ثابت نہیں
کرسکتے جس کےبارےمیں وہ ہےحتٰی کہ ان میں کی گئی ٹرانزیکشن کسی آزاداورقابلِ
اعتماد ذریعےسےکی گئی ہو۔ دستاویز کی اصلیت اور حقیقت جانچنےکیلئےقانونی طورپرقابل
ثبوت ہونا چاہیے۔ اس سے قبل ہونے والی قانونی چارہ جوئی کے حوالے سے عدالت میں
زیرسماعت درخواست اور عذربھی مدعی کے خلاف اٹھائے گئے تھے ۔لیکن ہمیں پتہ لگا کہ
ہائی کورٹ نے انھیں اطمنان بخش طریقے سے حل کرلیا کیونکہ یہ کہاگیاتھاکہ استغاثہ
نے جن دستاویزات پرانحصار کیا وہ دھوکے پر مبنی تھے اور لہذا ان کی بنیاد پر حالیہ
مقدمے کو عدالت میں کارروائی سے روکا نہیں جاسکتا یا مدعی کے خلاف عذرعارضی کااصول
اپلائی نہیں ہوسکتا۔ 111992MLD283 (کراچی)،عنوان صدرِ پاکستان بمقابلہ بے نظیر بھٹو: اب یہ مان
لیاگیاہے کہ حتٰی کہ جہاں ثبوتوں میں کوئی دستاویز قبول کیاجاتاہے اور واضح طورپر
دکھایاجاتاہے کہ وہ واقع بذاتِ خود سچائی اور ایمانداری کےمعیارپرپورانہیں اترتا
اگرچہ مواد خودغیرمشروط طورپر ثابت کیاجائےاور وہ سب کچھ ہوگا جو کیس کیلئےضروری
ہے۔ مثال کے طورپر جہاں دستاویز میں کوئی قصہ بیان کیاگیاہو یا کسی تنازع میں
پارٹیوں کیلئے کوئی شرائط بیان کی گئی ہوں جیساکہ کسی معاہدے میں کوئی ڈیڈ یا کوئی
اور باہمی انتظامات کیلئے۔ جب کسی مصنف کے ذریعے کوئی دستاویز پیش کیاجاتاہے یا
کسی اور قابل اجازت طریقے سے اور کارروائی کے دوران دکھایاجاتاہے تو مصنف یا گواہ
جراح کیلئے کھلا ہوتا ہے اور مواد کی درستگی پرجراح کےدوران سوال اٹھائے جاسکتے
ہیں۔ اسی طرح محض یہ حقیقت کہ ایک دستاویز کو ثابت کیاگیاہے اور دکھایاگیاہے اس سے
اس کی مطابقت ثابت نہیں ہوگی کیونکہ مطابقت ایک قانونی چیز ہےجو پیش کیے گئے حقائق
سے سامنے آتی ہے۔ اسی طرح کسی دستاویز کی مطابقت اور ثبوت جب یہ اپنے کردار میں
مختلف چیزیں ہیں اسی دوران عام طورپر اس میں کوئی چیز شامل نہیں ہوتی جس سے ان میں
دونوں کسی ایسےدستاویزاصلیت ثابت کرسکیں جسے الگ طور پر زبانی ثبوت کےذریعےمناسب
طریقے سےپیش کیاگیاہو ۔حتیٰ کہ جہاں کسی بھی قابلِ اجازت طریقے میں کوئی دستاویز مرضی
سےقبول کیاجاتاہے اس کے مواد کی درستگی پر بھی قبولیت لاگو ہوتی ہے۔ تاہم مطابقت
ہمیشہ کیس کےحقائق اورقانونی شرائط کےذریعےہوتی ہے۔ 12. 2017CLC (سندھ (سکھر بنچ) یورس بمقابلہ زاور
حاجی اور 3دیگر پیرے13(سی) اور (ڈی) یہاں دوبارہ پیش کیے جارہے ہیں: قانون شہادت آرڈر1984کا
آرٹیکل 72کہتا ہے کہ کسی دستاویز کامواد کسی پہلے یا دوسرے ثبوت کے ذریعے ثابت
کیاجاسکتاہے۔ قانون شہادت کے آرٹیکل 73میں پرائمری ثبوت کی تعریف کی گئی ہے کہ
دستاویز خود عدالت میں معائنے کیلئے پیش کیےجائیں۔ جبکہ سیکنڈری ثبوت کی تعریف
قانون شہادت کےآرٹیکل 74میں اس طرح کی گئی ہے جس کا مطلب ہے اور اس میں اصل کی
نقول یا اس کا موازنہ شامل ہو۔ (d) قانون شہادت کاآرٹیکل 78 کہتا ہے کہ اگر کسی دستاویز پر دستخط کا
الزام ہو یا مکمل طورپرلکھاگیاہو یا کسی شخص کی جانب سے کچھ حصوں میں لکھا
گیاہوتودستاویز پر دستخط یا لکھائی اسی شخص کی ہونی چاہیے اور اسے ثابت کرناضروری
ہے۔ جبکہ قانون شہادت کا آرٹیکل 79 کہتا ہےکہ اگر قانونی طورپر کسی دستاویز کی
تصدیق کی ضرورت ہو تو اسے ثبوت کے طور پر استعما نہیں کیاجاسکتا جب تک کم از کم دو
تصدیق کرنے والے گواہان اس کی تصدیق کیلئے پیش نہ ہوں۔ دوسری جانب قانون شہادت
کاآرٹیکل 80 کہتاہے کہ اگر تصدیق کیلئے کوئی دو گواہان نہ مل سکیں تو یہ ثابت
کرنا ہوگا کہ گواہان یا تو مر گئے ہیں اور یا مل نہیں سکتے اور دستاویز کسی ایسے
شخص کی جانب سے پیش کیاگیاہے جو کہتا ہے کہ اس نے یہ کیاہے۔ یہ بھی جمع کرایاگیا
کہ جرم کی نوعیت کا حوالہ عبوری ریفرنس 9(a)(iv)(v)(xii)
NAO1999 یہاں جمع شدہ
شیڈول کے سیریل نمبر 2 میں دیاگیاہے۔ 9(a)(iv) کے حوالے سے کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ ضمنی ریفرنس میں تبدیلی کا ذکر
کیاجاسکتاہے۔ انہوں نے مندرجہ ذیل ارادے کے ساتھ انتظامیہ سے رجوع کیا ہےکہ
پراسیکوشن پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ 14(c)CrPCکے تحت ملزم پر ثابت کرنے کی ذمہ
داری ڈالنے سے پہلے وہ جرم کے مندرجات ثابت کرے۔ جرم کے مندرجات یہ ہیں:
(i) یہ ثابت ہوناچاہیے کہ ملزم کسی عوامی
عہدے پر تھا۔ (ii) جائیداد کے حصول کے ذرائع اور ان کی نوعیت جو ان کی ملکیت میں پائے
گئے۔ (iii) یہ ثابت کرناہوگا
کہ اس کی آمدنی کے ذرائع کیاتھے یعنی پراسیکیوشن نے مکمل تحقیقات کے بعد پتہ
لگائے۔ (iv) یہ غیرجانبداری
سےثابت کرناہوگاکہ یہ وسائل یا ملزم کی ملکیت میں پائی گئی جائیداد کا اس کی
آمدنی کے ذرائع کے ساتھ مطابقت نہیں ہے۔ 2011SCMR 136 عنوان خالد عزیز بمقابلہ ریاست،اس
میں یہ کہاگیاہے کہ کیس کو ثابت کرنے کیلئے استغاثہ کو جرم کے مندرجات ثابت
کرناضروری ہے، جہاں (1) یہ ثابت کرنا ضروری ہو کہ ملزم کے پاس کوئی عوامی عہدہ
تھا۔ (2) جائیداد کےمالی ذرائع کی نوعیت اور حد جہاں اس کی ملکیت میں پائے گئے ہوں
۔ (3) یہ بھی ثابت کرنا ضروری ہے کہ اس کی آمدنی کے ذرائع کیاتھے یعنی جنھیں
پراسیکیوشن نے مکمل تحقیقات کےبعد پتہ لگائے ہوں۔ (4) یہ غیر جانبداری سےثابت
کرناہوگا کہ ایسے ذرائع یا جائیداد جو ملکیت میں پائی گئی ہووہ اس کی آمدنی سے
مطابقت نہیں رکھتی۔ ایک بار جب یہ چار مندرجات ثابت ہوجائیں تو
(v)(a)9میں بتایاگیا جرم
مکمل ہوجائے گا تو جب تک ایک ملزم ایسے وسائل یاجائیداد کو شمارکرنےکےقابل نہیں
ہوتا۔ لہذا محض ایسے مالی وسائل یا جائیداد کامالک ہونا بذات خود کوئی جرم نہیں
ہے، لیکن ایسے مالی وسائل یا جائیداد کا تسلی بخش شمار نہ ہونا ناکامی ہے جس کی
وجہ سے ملکیت قابل اعتراض اور جرم بنتی ہے۔ اگر وہ واضاحت نہیں کرسکتا جیسا کہ
آرڈیننس کی شق 14(c) میں کہاگیاہے کہ ملزم کرپشن اور بدعنوانی کا مجرم ہے۔ بسوا بھوشن
نائک بمقابلہ ریاست (ائیر1954سپریم کورٹ 350) کا حوالہ دیاجارہاہے جس میں اسی طرح
کی انسداد کرپشن ایکٹ 1947کی تشریح کی گئی تھی۔ اسی طرح کے نظریات فرخ جاوید گھمن
اورریاست مہارشٹرا سپرا کے مقدمات میں بھی پیش کیے گئے تھے۔ لہذا یہ واضح ہے کہ
استغاثہ کوثابت کرناہوتاہے مذکورہ بالاچارمندرجات اور پھر اپنی ملکیت کو ثابت کرنے
کا بوجھ اپیل کرنےوالے پر منتقل ہوجاتاہے جیساکہ آرڈیننس کی شق(c)
14 میں کہاگیاہے۔...قانون نے قومی
احتساب آرڈر 1999کی دفعہ 9اے کی سب دفعہ 5کے تحت جرم کے ارتکاب کا تعین کر دیا ہے
،استغاثہ کو ملزمان کی ملزمان کی آمدنی کے ذرائع کیا ہیں اورایک مخصوص وقت کے
دوران ثابت کرنا تھا کہ یہ اثاثوں کے مطابق ہیں کہ نہیں جس کیلئے استغاثہ کی طرف
سے مناسب تفصیلات مہیا کرنے کے بعد ملزمان کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے اثاثوں کو
قانونی ہونا ثابت کریں جس میں وہ ناکام رہے ،مذید یہ کہ مقدمے میں آمدنی کے ذرائع
کو کبھی بھی سامنے نہیں لایا گیا جس کے بعد یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ملزمان کے
اثاثے غیر قانونی ہیں ۔ بد قسمتی کی بات ہے کہ مذکورہ مقدمے کے تفتیشی افسر سمیت
استغاثہ کے ذمہ دار لوگ اپنی نااہلی کے باعث مقدمہ میں ضروری کام نہ آسکے اور
مقدمے کے قابل اعتراض پہلو کو آشکار نہ کیا ۔ریفرنس کے مطابق ملزم اس کی اہلیہ
اور بیٹوں کے نام اثاثے جن کی مالیت 5کروڑ15لاکھ35ہزار روپے بنتی ہے ذرائع آمدنی
سے مطابقت نہیں رکھتے ،اپیلنٹ کی بیوی اور اس کے بیٹے کو اس مقدمہ میں پھنسایا گیا
،اور اپیلنٹ کی بیوی اور بیٹے کو بے نامی اورتسلیم شدہ جائیداد کیلئے معزز ٹرائل
کورٹ کی طرف سے کبھی نہیں بلایا گیا تاکہ وہ اپنے حوالہ سے ملکیتی ثبوت پیش کر
سکیں یا اپنی جائیداد کے بارے میں ایسے ثبوت پیش کر یں جسے حاصل کرنے کے ان کے پاس
کافی ذرائع ہیں ۔2010ایس سی ایم آرعنوان محمد ہاشم بابربر خلاف ریاست اور دیگر اے
بی اور سی کا حوالہ نیچے دیا گیا ہے کیس کو ثابت کرنے کیلئے استغاثہ کی ذمہ داری
ہے کہ جرم کے مندرجات بھی ثابت کرے ۔1:یہ ثابت کرنا ہوگا ملزم کے پاس کوئی عوامی
عہدہ ہے2:اس کی ملکیت میں پائے گئے مالی وسائل کی نوعیت اور حد3:یہ ثابت کرنا ہوگا
کہ اس کی آمدنی کے ذرائع کیا ہیں4غیر جانبداری سے ثابت کرنا ہوگا کہ وسائل یا
جائیداد جوملزم کی ملکیت میں پائی گئی ہیں اس کی آمدنی سے مطابقت نہیں رکھتی
۔مذکورہ بالا مندرجات ثابت کئے جاتے ہیں تب جرم سیکشن 9اے وی کے تحت مکمل ہوتا ہے
،حتیٰ کہ ملزم ایسے ذرائع اور پراپرٹی کو شمار کرنے کے قابل نہ ہوقانونی طور پر یہ
بھی ثابت شدہ ہے کہ محض کوئی بھی مالی وسائل یا جائیداد کا مالک ہونا بذات خود
کوئی جرم نہیں لیکن مالی وسائل یا جائیدادکا شمار کرنے میں ناکافی قابل اعتراض اور
جرم ہے ۔اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی ملزم یہ ثابت نہیں کر سکتا یعنی آرڈیننس کی
سیکشن 14(سی) کے تحت وہ ملزم کرپشن اور بدعنوانی کا مرتکب ہے ۔ سی بسوا بھوشن
نائیک برخلاف ریاست(اے آئی آر 1954 ایس سی 350) یہ ثبوت جو ریکارڈ میں لائے گئے
یہ آرڈیننس کے سیکشن 14 کے مطابق تھے۔ درخواست گزار کے وکیل نے درخواست گزار کے
جرم کے بارے میں فیصلے کو دیکھتے ہوئے اخراجات کی مد میں محض 14لاکھ روپےکا ذکر
کیا اور وہ کسی ایسے ثبوت کی نشاندہی کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کا ماتحت عدالتوں
نے غلط مفہوم لیا ہو یا ان کی نظر سے اوجھل رہا ہو۔ اس سے درخواست گزارپرآنے والا
بار ثبوت ختم نہیں ہو سکتا۔ مذکورہ بالا رقم کے حوالے سے ذرائع کی وضاحت درخواست
گزار کے وکیل کی طرف سے نہیں کی گئی جس طرح کہ ماتحت عدالتوں کی طرف سے ریکارڈ کئے
گئے جرم کے فیصلے سے واضح ہے۔ یہ قانون کا مسلمہ اصول ہے کہ جائیداد کے قبضہ و
تصرف کو ثابت کرنے کے لئے بار ثبوت استغاثہ پر ہے تاکہ نیب آرڈیننس 1999 کی رو سے
کرپشن کے الزام کو ثابت کرنے کے لئے آمدن کے معلوم ذرائع کا پتہ چلایا جا سکے اور
جب ایک دفعہ یہ بار ثبوت تسلی بخش طریقے سے ڈسچارج ہو جائے تو پھر یہ ملزم پر ڈال
دیا جاتا ہے تاکہ اگر معاملہ کچھ اورہے تو ثابت ہو سکے اور اگر ملزم اپنے حق میں
کچھ ثابت کرنے سے قاصر رہتا ہے تو عدالت جرم کے مفروضہ کا سوال اٹھا سکتی ہے۔ ایس
سی ایم آر 2009کے صفحہ 790پر ’’سید قاسم شاہ بنام سرکار ‘‘ کے کیس میںجو اصول وضع
کیا گیا اس کا خلاصہ درج ذیل ہے: ’’آرڈیننس کے سیکشن 14سی کی رو سے ابتدائی بار
ثبوت ہمیشہ استغاثہ پر ہے۔ یہ اچھی طرح سے بتایا جا چکا ہے کہ الزام کے تمام
لوازمات کو ثابت کرنے کا بوجھ ہمیشہ استغاثے پر ہی ہوتا ہے اور یہ کبھی بھی ملزم
پر نہیں ہوتا جو کہ اس وقت تک معصوم ہے جب تک کہ اس کے خلاف الزام ثابت نہ ہو سکے۔
دوسرے الفاظ میں جب تک ملزم پر لگایا گیا الزام شک کا فائدہ دے کر دھل نہ جائے یہی
کہا جائے گا کہ الزام جھوٹا اور ملزم بے گناہ ہے۔ استغاثہ کو اس لئے کبھی بھی
الزام ثابت کرنے سے چھٹکارا نہیں ہے اور بار ثبوت ملزم پر آتا ہے جب استغاثہ جرم
کا مفروضہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ ‘‘ پی ایل ڈی 2017، لاہور 27، بعنوان
’’بریگیڈیئر (ر) امتیاز احمد بنام سرکار‘‘ کے پیراگراف 19کا خلاصہ یہاں بیان کیا
جاتا ہے۔ ’’مذکورہ ثبوت اور ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ موقف
اختیار کرتے ہوئے جھجک محسوس کر رہے ہیں کہ مذکورہ جائیدادیں صرف اس وجہ سے قبضے
میں نہیں لی جا سکتیں کہ فیصلے وعدہ معاف گواہ کے بیانات پر منحصر تھے جو چیئرمین
نیب کے حکم پر وعدہ معاف گواہ نہیں بنے تھے اور مذکورہ جائیدادوں کے مقدمہ میں
فروخت کنندہ کو پیش نہیں کیا گیا تھا۔ مزید برآں، بے نامی دار ٹرانزیکشنز کے
اجزائے ترکیبی جو ’’مسماۃ زاہدہ ستار بنام وفاق و دیگر‘‘ (پی ایل ڈی 2002 سپریم
کورٹ 408) کے مقدمے میں مذکور اصول قانون میں مقرر کئے گئے ہیں، کو پیش نہ کیا جا
سکا۔ جائیداد کا قبضہ، تحریری لین دین، اور وہ حالات و واقعات جن میں بے نامی دار
ٹرانزیکشنز کی گئیں، کے بارے میں کہا گیا تھا کہ عدالت میں پیش کریں۔‘‘YLR,2016
2547, پیراگراف 11کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
اوپر ذکر کی گئی پراپرٹی کے حوالے سے لگائے گئے الزام کی حمایت میں دیئے گئے ثبوت
کی طرف دھیان دینے سے پہلے یہ ضروری اور فائدہ مند ہے کہ نیب آرڈیننس 1999کے
سیکشن 9اے (وی)کے تحت جرم کو ثابت کرنے کیلئے ضروری اجزائے ترکیبی کا جائزہ لیا
جائے۔ اب تک یہ ایک مسلمہ اصول مانا گیا ہے کہ استغاثے کو اوپر بیان کردہ پینل
کلاز کی روشنی میں ملزم کی سزا ثابت کرنے کیلئے مندرجہ ذیل اجزائے ترکیبی کو سامنے
رکھنا ضروری ہے۔) (1)ملزم کے پاس سرکاری عہدہ ہے (2) اس نے جائیداد بنائی، اپنے
نام کی یا جائیداد کو اپنے تصرف میں لا یا یا اس کا جائیداد میں کوئی مفاد وابستہ
ہے۔ (3) اس کے آمدن کے معلوم ذرائع کیا ہیں۔ (4)ملزم کے پراپرٹی کے قبضے پر
اخراجات کیا آئے۔ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ محض منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی
شکل میں اثاثہ جات اپنے یا اپنے زیر کفالت افراد کے نام پر رکھنا نیب آرڈیننس کے
سیکشن 9کے تحت ملزم کی سزا کے تعین کی ایک وجہ نہیں ہے۔ استغاثہ کو ہمیشہ بھاری
بار ثبوت سے یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ اس طرح سے حاصل کئے گئے اثا ثے ملزم کی آمدن
کے معلوم ذرائع سے موافقت نہیں رکھتے۔2016 پی سی آر ایل 300 بعنوان ’’سردار محمد
نعیم بنام سرکار‘‘ میں ایسا ہی اصول وضع ہوا۔ 2016 پی سی آرایل جے 1343 بعنوان
’’غلام سرور خاں للوانی بنام سرکار‘‘ 2013 پی سی ایل جے 1697 اور 2007 پی سی آر
ایل جے 1972(کراچی) بعنوان ’’محمد اکرم ندیم بنام نیب سندھ‘‘ کا پیرا 9کا خلاصہ
ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ (1) ملزم کے پاس سرکاری عہدہ تھا۔ 2- اس کے زیر قبضہ
جائیداد کے مالی ذرائع کی نوعیت کیا ہے۔ 3- اس کے آمدن کے معلوم ذرائع کیا تھے
یعنی مکمل تحقیقات کے بعد استغاثہ کو کیا علم ہوا۔ (4) ملزم کے زیر قبضہ جائیداد
کے ذرائع آمدن کے ذرائع سے مطابقت نہیں رکھتے۔2007پی سی آر ایل جے 1997 (کراچی)
بعوان ’’محمد ارشاد خان بنام چیئرمین نیب و دو دیگر‘‘۔ 2007 ایم ایل ڈی 910
(کراچی) بعنوان حاکم علی زرداری بنام سرکار حوالہ جات اے بی اور سی کا خلاصہ درج
ذیل ہے:۔ کیس کوثابت کرنے کے لئے استغاثہ کیلئے جرم کے اجزائے ترکیبی کو ثابت کرنا
ضرور ی ہے جو مندرجہ ذیل ہیں :۔ (1) اسے ثابت کرنا ہوگا کہ ملزم کے پاس سرکاری
عہدہ تھا (2) جو جائیداد اس کے پاس ہے اس کے مالی ذرائع کی نوعیت کیا ہے (3) یہ
ثابت کرنا ہوگا کہ آمدن کے معلوم ذرائع کیا ہیں (4) معروضی طور پر ثابت کرنا ہوگا
کہ اس کی جائیداد کے معلوم ذرائع کی آمدن کے معلوم ذرائع سے درست ثابت نہیں رکھے۔
جب یہ چاروں اجزئے بہتر مکمل ہوجائیں تو جرم مکمل ہوجائے گا۔ اس لحاظ سے محض مالی
وسائل سے جائیداد کا کہیں ہونا بذات خود جرم نہیں ہے لیکن اس جائیداد کے تسلی بخش
رکھنے کے ذرائع پیش کرنے میں ناکامی سے اس جائیداد کی ملکیت یا تصرف جرم بن جاتا
ہے اگر ثابت نہ کرسکے آرڈیننس کے سیکشن 14سی کے تحت کرپشن کا جرم تشکیل پاتا ہے
جہاں تک جرم اور آمدن کے معلوم ذرائع کے بارے میں تیسرے اور چوتھے اجزائے ترکیبی
کا تعلق ہے ’’آمدن کےمعلوم ذرائع‘‘کے الفاظ کا مفہوم یہ لیا جانا چاہیئے کہ ان
ذرائع کا استغاثہ کو مکمل تحقیقات کے بعد پتہ چل چکا ہے ۔وہ معاملات قانون شہادت
کے آرٹیکل 122کے تحت خصوصاً ملزم کے علم میں ہیں جو کہتا ہے کہ ’’جب کوئی حقائق
خاص طور پر کسی شخص کے علم میں نہیں ہو تو اس بات کو ثابت کرنے کا بار بھی اسی شخص
کے او پر ہے۔اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ استغاثہ ذرائع آمدن کے بارے میں انکوائری
یا تفتیش نہیں کر سکتا۔آرڈی نینس کی رو سے سرکاری عہدہ دو قسم کا ہوتا ہے:۔سرکاری
ملازم اور دوسرے افراد جن کے پاس سرکاری عہدہ ہو۔ ان دونوں کے معاملات کو الگ الگ
طریقے سے دیکھا جاتا ہے۔اولذکر میں آمدن کے ذرائع تنخواہ تصور ہو گی اور وہ اثاثہ
جات کی سالانہ ڈیکلیریشن میں بیان کرنے کا پابند ہےجس کو متعلقہ ڈیپارٹمنٹ میں جمع
کرایا جاتا ہے۔جبکہ قانون کے مطابق رسید حاصل کی جاتی ہے اس طرح سرکاری ملازم کی
جائیداد یااثاثوں کا ان دستاویزات کو ساتھ رکھتے ہوئے آسانی سے اندازہ لگایا جا
سکتا ہے کہ وہ کتنی ہے۔سرکاری ٗعہدے پرفائز دوسرے افراد کو سرکاری ملازم سے کافی
مختلف ہے کیونکہ ایک مخصوص آدمی کے آمدن کے ذرائع کا انحصار اس کے پیشے کے حوالے
سے طرز زندگی پر ہے لہٰذا ایسے فراد کے حقیقی ذرائع آمدن کو جاننے کیلئے تفصیل
انکوائری کی ضرورت ہوتی ہے۔ مزید برآں، لفظ ’’آمدن‘‘ بھی قانونی لحاظ سے بہت
معنی خیز ہے اس کے معنی Chambers 21st Century Dictionary میں بیان کئے گئے ہیں کہ ’’یہ وہ رقم
ہے جو کچھ وقت کیلئے کام وغیرہ کے عوض پے منٹ یا یہ شیئرز یا سرمایہ کاری کرنے پر
مفاد یااس سےحاصل ہونے والے نفع کے طور پر حاصل کی جاتی ہے‘‘۔ نیب آرڈیننس سیکشن
9 (a)پراسیکیوشن کو
ثابت کرنا ہے i کہ ملزم عوامی عہدہ رکھتاہے،کہ غیر ملکی ذرائع اور پراپرٹی جو اسکے
پاس ہے انکی حد کیا ہے،اسکی ذریعہ معاش کیا ہے،غیرملکی جائیداد جس کا ملزم پر
الزام ہے وہ غیر متناسب تو نہیں ،ایک دفعہ یہ سب چیزیں مل جائیں تو اسکے بعد 9 (a)
سیکشن vکے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے،تاہم
اس وقت تک کہ ملزم جائیداد خریدنے کے اپنے جائز ذرئعے نہ بتا دے جس سے اس نے یہ
خریدی ہوں ،جیسا کہ نیب آرڈننس 14سی کے تحت مہیا کیا جائے،سیکشن میں لفظ مطمعن
استعمال کیا گیا ہے(a) 9سیکشن v میں لفظ مناسب طریقے سے کا ذکر ہے، پی ایل ڈی 2004لاہور 155عنوان
فرخ جاویدگھمن بمقابلہ ریاست 15 ڈی کے تحت دوبارہ تیار کیا۔ آمد ن کے معلوم ذرائع
کا مطلب پراسیکیوشن کو تحقیات کے بعد علم ہو کے اسکے ذرئعے کیا ہیں ،ظاہر ہے اس
بات کی امید نہیں کی جا سکتی کے پراسیکیوشن کو آمد ن کے ساری تفصیلات کا علم
ہو،لیکن کسی کے خلاف قانون کے مطابق الزام لگانا قابل توجہ ہے،پراسیکیوشن نے معلوم
ذریعہ کی تفصیلات دے چکا ، جسکا معقول طور پر جائیداد سے موازنہ کیا جا سکتا
ہے،اور بعد میں کیس میں دیکھا جاتا ہے کہ غیر متناسب ہے تو کیا ریفرنس سے فائل کیا
جا سکتا ہے، ایک عوامی عہدہ رکھنے والے کی تنخواہ اسکے الاونس اور دیگر مراعات
جیساکہ ٹرانسپورٹ وغیر ہ اسکی حقیقی ذریعہ سے ملتے ہیں ، اگر وہ زرعی زمین کا مالک
ہے تو اسکی زرعی آمدن بھی شامل کی جاتی ہے،یہ تحقیق کرنے والے آفیسر کی ذمہ داری
ہے کہ وہ پو ری طرح سے اسکے معلوم ذریعے آمد ن کی تحقیق کرے اور بعد میں ملزم کو
اس حوالے سے پو را موقع دیا جائے،کئی ایک وجوہات کی بنیاد پر یہ تحقیاتی آفیسر
کیلئے زرعی آمد ن کا اندازہ لگانا آسان کام نہیں ہے،پہلا،ہمارےدیہی علاقو ں میں
اسکا حساب کتاب رکھنے کا رواج بہت نایاب ہے،دوسرا یہ لازمی نہیں ہے کہ اسکا ٹیکس
دیا جاتا ہے کہ نہیں ،تیسرا اگر کو ئی دیتا ہے تو لازم نہیںہے کہ و ہ اسکا حساب رکھتاہو،چوتھا
جب ملزم عوامی عہدہ رکھتا ہو تو یہ قانو نی شکنی نہیں ہے کہ وہ انکا حساب نہیں
رکھتا، وہ اس سے متفق ہے کہ گواہوں کے بیانات جو ریکارڈ کیے گئے 161 سی آر پی سی
کے تحت ثبوت کے طور پر استعمال نہیں کے جا سکتے اور نہ ہی انکی طر ف سے پر اکسی
گواہ کا کردار ادا کر سکتا ہے،کو ئی بھی ڈاکومنٹ یہ ثابت نہیں کرتا جب تک قانون کے
مطابق اسکے مواد پر عملدرامد نہ کیا جائے،یہاں کہا جا سکتا ہے کہ ثبوت کو خارج کر
دیا گیا ہے، وہ اور اس پر انحصار کرنے والے یا بے نام داری استعمال کیا گیا ہو ,
پراسکیوشن کسی بھی ملزم کا انحصار ایک نمبر ملزم سے ثابت نہیں کر سکا،بے نام دار
کی تعریف این اے او 1999 میں دی گئی ہے کہ کو ئی بھی ملزم پکڑتا ہے یہ قبضے میں
رکھتاہے کو ئی بھی جائیداد ملزم کی یا اسکی طرف سے مفادات کیلئے ملزم ہے، اثاثے کی
تعریف ایس 5 سی کا مطلب ہے کہ کو ئی بھی خریدی گئی جائیداد جو وہ سنبھلاتاہو براہ
راست یا بلاواسطہ بے نامی رکھتاہے شریک حیات یا رشتے داروں کے نام سے ملک کے اند ر
یا ملک کے باہر ،جس کو وہ قانونی طور پر جائزہ ثابت نہ کر سکے بے نامی اثاثے ہیں
،ڈیفنس کونسل کی طرف سے حوالہ دیا گیا ہے، 2016پی سی آر ایل جے 1343 لاہور غلام
سرور خان لال وانی بمقابلہ ریاست پیرا نمبر25کسی بے نامی ٹرانزیکشن کو ثابت کرنے
کیلئے پر اسکیوٹر کو درج ذیل چیزیں ثابت کرنی ہوں گی جیساکہ پشاور ہائی کورٹ میں
محمد حیات اور دو اور لوگوں کیخلاف بمقابلہ ریاست (پی ایل ڈی 2002پشاور 1آمدان کے
ذریعے پر غور (ب) 2013ء پی سی آر ایل 1607 پشاور، سیدانور بادشاہ،512بنام چیئرمین
نیب یہ بات فاضل عدالت کے مشاہدے میں آئی کہ استغاثہ کی طرف سے تحقیقات یا مقدمے
کی سماعت کے دوران اپیل کنندہ کے ذریعہ آمدن کی تفصیلات فراہم کی گئیں نہ ہی اپیل
کنندہ کے ذرائع آمدن کا تعین کیا گیا تو پھرماہانہ کمیشن ثابت کرنے کیلئے قانون
اب اس بارے میں ساکت ہے، اپیل کنندہ کے ذرائع آمدن کیا تھے یہ ثابت کرنا اب
استغاثہ کی ذمہ داری ہے۔ اس خاص وقت میں اپیل کنندہ کے ذرائع اور جائیداد اس کے
ذرائع آمدن سے کیسے مطابقت نہیں رکھتے تھے کیونکہ کسی منافع بخش ذرائع کا کسی کی
دسترس میں ہونا بذات خود کوئی جرم نہیں، تاہم اس منافع بخش ذرائع آمدن کے
اکائونٹس کے بارے میں تسلی بخش جواب نہ ہونے کی صورت میں اس کی ملکیت قابل اعتراض
ہو جاتی ہے۔ (سی)پی ایل ڈی 2009ء اس سی ایم آر202 احمد ریاض شیخ ودیگر بنام ریاست
پیرا9،لفظ’’بے نامی راء‘‘ کا مطلب ہے کہ ایسا شخص جو کسی دوسرے کی جانب سے ظاہری
طور پر کسی جائیداد کا مالک ہو؟(ڈی)2003ء پی سی آر ایل جے1 محمد حسین بنام ریاست
فیصلے کے پیرا،15کے مطابق لفظ بے نامی راء کسی جائیداد کی کم سے کم ملکیت ظاہر کرا
ہے، وہ شخص جس نے جائیداد خریدی ، اب یہ جائیداد بے نامی راء کے نام پر ہے۔ بے
نامی جائیداد کےتعین کیلئے سپریم کورٹ نے 4ٹیسٹ رکھے ہیں۔ محمد سجاد حسین بنا محمد
حسین کیس1991ء (i)ذرائع پرغور کرنا (ii)کس سے خریدی، خریداری کا معاہدہ اوردیگر دستاویزات
(iii) جائیداد کا حصہ کس کے پاس تھا
(iv)بے نامی رقم،لین دین کی وجوہات یہ
بھی معروف قانون ہے کہ بار ثبوت الزام لگانے والی پارٹی پر ہو گا۔ دفاعی ثبوتوں کی
کمزوری کے باوجود اپیل کنندہ کی ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری کم نہیں ہوگی۔ (ایف)
پی ایل ڈی 2004ء لاہور155 اختر علی بنام جج سپیشل کورٹ (آفینس ان بینکنگ) معلوم
ذرائع آمدن سے مراد وہ ذرائع آمدن ہیں جو استغاثہ نے کسی مقدمے کی تفتیش کے
دوران علم میں آئے۔ استغاثہ کو کیو نکہ ملزم کی آمدن کی تمام تفصیلات معلوم نہیں
ہو سکتیں۔ اس لیے یہ انکوائری آفیسر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملزم کے تمام ممکنہ ذارئع
آمدن کی تحقیقات کرے اور اسے اس سلسلے میں تمام سہولیات فراہم کی جائیں۔ وہ مطمئن
ہیں کہ ملزم کے ذرائع آمدن کے بارے میں مکمل تحقیقات نہیں کی گئیں، مختلف چارٹس
پیش نہیں کیے جاسکتے۔ پیش کیے گئے ایک چارٹ(ای ایس ایچ ، پی ڈبلیو18.13) کے بارے
میں واضح نہیں کہ یہ کس نے تیار کیا۔ یہ کسی اور ریکارڈ کی معلومات پرمبنی ہے اور
اس کا اس ریفرنس سے کوئی تعلق نہیں ہے اس چارٹ کو پیش کرنے والا اس مقدمے میں گواہ
بھی نہیں ہے۔ تفتیش میں بھی ایک غلطی یہ ہے کہ انہوں نے فری مین باکس سے رابطہ
کرنے کی کوشش نہیں کی حالانکہ اس یکس کے انکوائری آفیسرز نے متعدد بار لندن اور
برطانیہ کے دورے کئے جبکہ اس نے وضاحت پیش کی کہ اس نے ایسا کرنا ضروری نہیں
سمجھا۔ انکوائری آفیسر کا خیال درست نہیں۔ اس نے مندرجہ ذیل حکام سے رابطہ کرنے
کا کہا۔ (1) پی ایل ای 2018ایس سی178 (ب) 1986 ایس سی ایم آر 1763 (س) 2011 پی سی
آر ایل جے 2010-885 ایس سی ایم آر 660 کو 1992 لاہور 324 انکوائری آفیسر ماہر
نہیں ہے (ر) پی ایل ڈی 2000 لاہور 2016 (ای) پی ایل ڈی 1998 لاہور300 (الف)1998 پی
سی آر ایل جے 58 پر تنقید۔
عدالت میں بطورگواہ یا ثبوت پیش کرے اور عدالت میں آنے والے
گواہوں کے بیانات ریکارڈکرے تاہم مندرجہ بالا شہادت کے ضمن میں عدالت میں وہ کسی
کے نعم البدل نہیں ہونگے۔ وہ کسی ایسی دستاویزکو ثابت نہیں کرسکتا جس کا وہ
خودتحریر کردہ نہ ہو۔
فوجداری مقدمات میں دفاع(PLD 2011 SC 554pg 576
para17)
انصاف کے تقاضوں کی صحیح معنوں میں تکمیل کے لئے عدالتوں کا
چنداصولوں پر چلنا لازمی ہوتا ہے‘ جیسے کہ ملزم کو تب تک بے گناہ تصورکیاجائے جب
تک اس پر جرم ثابت نہ ہو۔ وکیل صفائی کئی درخواستیں لاسکتا ہے‘ اور اگر تمام غلط
بھی ہوں تب بھی پراسیکیوشن(استغاثہ) کی ذمہ دار ی ہے کہ اپناکیس ثابت کرنے کی
بھرپورکوشش کرے‘ ایک انگریزی محاورہ ہے کہ یہ اچھاہے کہ دس گناہگار بچ جائیں مگر
ایک بے گناہ کو سزا نہ ہو(ولیم بلیک سٹون )
مجسم مجرم کی تشریح(PLD 1995 SC1)
اگر کسی بھی قانونی شق کی دو وضاحتیں ہوں تو اس وضاحت کواختیار
کرنا ہوگا جو ملزم کے لئے فائدہ مند ہو۔
دستاویزا ت کے مندرجات کا ثبوت(PLD 1988 Karachi 131)
ہم یہ نکتہ اٹھا سکتے ہیں کہ تحریر کنندہ کے دستاویز پر دستخط
اورمندرجات کی درستگی ثابت کرنے میں بڑافرق ہے‘موخرالذکر کو لکھاری کو جانچے
بغیرثابت نہیں کیاجاسکتا ‘لکھاری کی غیرموجودگی ‘ موت یا کسی دوسری قابل یقین وجہ
کی صورت میں ایسا فرد جو دستاویز کی تیاری میں اس کامعاون رہا ہو یا اس کے مندرجات
کی درستگی کے حوالے سے معاون سے تصدیق کی جاسکتی ہے۔
(2010) 4 Supreme court cases 491 India
قراردیا جاتا ہے کہ عدالت میں محض دستاویزات جمع کرنا یا دکھانا اس
کے مندرجات کا ثبوت نہیں۔
Notice U/S 19 OF NAO 1999
PLD 2012 SC 903قومی احتساب بیورو کی ذمہ داریاں
قومی احتساب بیورو کی ذمہ داری ہے کہ کسی فرد کو سمن بھیجنے سے قبل
اس کے خلاف شواہد کی شناخت کرے اوراس بات کی چھان پھٹک کرے کہ آیاایسی اطلاعات
اورنیب کی انکوائری میں کوئی نزدیکی ہے(pg. 914)
PLD 2007 Karachi 469
اس لئے کسی کو طلب کرتے وقت نوٹس میں حقائق ‘نکتے اورالزامات
اورملزم کانام لکھا جائے تاکہ وہ ایسی معلومات مہیا کرسکے‘ اگر کوئی مطلوبہ
معلومات مہیا کرے جس سے مقصدپورا ہوسکے تو اس فرد کو بذات خودحاضری سے استثنیٰ
حاصل ہوگا۔ اور اسے تنگ نہیں کیا جائے گا‘ اس کو تمام سہولتیں دی جائیں‘ اسے مختصر
وقت میں چھوڑا جائے‘ اسے بلاوجہ تحویل میں نہیں رکھا جائے‘ علاوہ ازیں ابتدائی
مراحل میں اسے بذات خودحاضر ہوکر اطلاعات دینے پر مجبورنہیں کیاجائے گا۔ اس کا
مطلب یہ نہیں کہ اتھارٹی کے پاس اسے بلانے کا اختیار نہیں ‘ اتھارٹی سیکشن 24-A کے تحت ناگزیر صورت میں اسے بلا سکتی
ہے‘ ایسے اختیارات شفاف اور انصاف کے تقاضوں کوپورا کرتے ہوئے استعمال کرنے ہونگے
اور ایسے حکم کے اجرا کی وجوہات دینی ہونگی۔ ایسے کسی حکم کی کاپی مقدمے کی ڈائری
میں دستیا ب ہونی چاہئے۔ڈیفنس کونسل نے اپنے دلائل میں درج ذیل نکات پر زوردیا
ہے۔سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کے باوجود استغاثہ اس کیس میں کوئی ایک بھی شرط پوری
کرنے میں ناکام رہا۔ مزید برآں دونوں تفتیشوں میں ذرائع آمدن کے حوالے سے
تحقیقات نہیں کی گئیں۔ اگر یہ تصوربھی کیا جائے کہ میاں نوازشریف فلیٹس کے مالک
ہیں‘ یہ تب تک جرم نہیں جب تک استغاثہ اپنےکیس سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق قائم
نہیں کرتا۔کمپنی کے سرمایہ ایف زیڈ ای کا ایون فیلڈ پراپرٹی سے کوئی تعلق نہیں پھر
بھی پی وی ڈبلیو واجدضیاء جس نے لندن فلیٹس کے استعمال بارے جھوٹ بولا اسے بطور
ثبوت پیش کیا‘ یہ نکتہ بھی اٹھا یا گیا کہ اس مقدمے میں معلوم آمدن کے ذرائع کے
بارے میں کوئی معلومات اکٹھی نہیں کی گئیں مزید یہ کہ واجد ضیاء کے بیان میں بے
شمار تضادات ہیں۔ جی آئی ٹی کے بیانات مقدمے میں بطور ثبوت پیش نہیں کئے جاسکتے۔
ملزم کا بیان صرف اس صورت میں تسلیم ہوگا اگر ان کامشترکہ ٹرائل کیاگیا ہو جس میں
انہیں نے اعتراف کیا ہو۔ ڈیفنس کونسل کے مطابق نواز شریف نے کبھی یہ نہیں کہا کہ
لندن فلیٹس کبھی ان کی ملکیت رہے۔ نہ کبھی حسن نوازنے یہ بیان دیا کہ ملزم
نوازشریف ان فلیٹس کے مالک رہے یا ان میں رہائش پذیررہے۔ بی وی آئی سے موصولہ
دستاویزات کے مطابق نوازشریف 16 Aاور17اے فلیٹوں کے مالک نہیں۔ پراسکیوشن کے پاس کوئی گواہ نہیں کہ
نوازشریف Neilson اور Nescoll آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں۔یہ استغاثہ پر لازم تھاکہ ذرائع آمدن
اورٹرانزیکشن ثابت کرتا تاکہ اس کی بے نامی پراپرٹی کی ملکیت ظاہر کی جاسکتی ‘
مزیدیہ نیب کے پاس ٹرانزیکشن کے حوالے سے کوئی ثبوت ہوتا ‘ واجدضیاء نے یہ بھی
تسلیم کیا کہ جے آئی ٹی نےایسی کوئی دستاویز وصول نہیں کی جس کی بنیادپریہ بات
کہی جائے کہ نوازشریف مذکورہ کمپنیوں کے مالک ہیں‘ واجد ضیاء نے یہ بھی مانا کہ
کسی بھی گواہ نےآف شورکمپنیوں کے بارے میں بیان نہیں دیا۔سدرہ منصور نے تسلیم کیا
کہ اس کے پاس نوازشریف کی فلیٹوں کی ملکیت کے بارے میں کوئی معلومات نہیں۔استغاثہ
یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ کونسا جواب ایم ایل اے دستاویزات بارے اس نے وصول
کیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ نیب مقدمات میں انوسٹی گیشن ایک اہم ذمہ داری ہے لیکن اس
کیس میں وہ نہیں نبھائی گئی۔ مزید یہ کہ نیب کے پاس کوئی شواہد نہیں کہ بے نامی
پرپراپرٹی ملزم نوازشریف کے بیٹوں کی ہے۔تفتیشی آفیسر اورنیب حکام نے لندن کا دورہ
کیا لیکن وہ وہاں پر ایسے کسی بھی متعلقہ گواہ کی تفتیش کرنے میں ناکام رہے ہیں جس
میں لائرنس ریڈلی جیسے اہم گواہ تھے جنہوں نے کہا ہے کہ انہوں نے 1993 میں شریف
خاندان کی ہدایت پر کوئی بھی فلیٹس نہیں خریدے۔اسی طرح نیب حکام نے جیری فری مین
سے بھی تفتیش نہیں کی جنہوں نے کہا تھا کہ ٹرسٹ ڈیڈ Trust Deedانکی موجودگی میں دستخط کی گئی تھی۔
اس سلسلے میں میاں نواز شریف کومجرم ثابت کرنے کے لئے کوششیں کی گئیں جس میں
التوفیق کے فیصلے کی روشنی میں بتایا گیا کہ شریف خاندان کے ہی فیلٹس زیر ملکیت
ہیں۔ایسی تمام دستاویزات جو واجدضیاء نے پیش کیں جس میں قطری شہزادےکے خط،گلف سٹیل
مل کی خریدوفروخت اورطارق شریف کی طرف سےدیئے گئے بیان حلفی وغیرہ قابل قبول
نہیںتھے جس کوبطورثبوت کے طورپر پیش کیا جاتا۔ان دستاویزات کو نہ ہی اصل اور نہ ہی
فوٹوکاپی کی شکل میں بطورگواہی حوالہ کے طورپر پیش کیا گیا۔اسی طرح پراسیکیوشن کی
جانب سےایکسپرٹ Opinionکے طورپر پیش کیا گیا جوکہ متعلقہ گواہی کے زمرے میں نہیں
آتا۔میاں نواز شریف کی فیلیٹس کی ملکیت کے حوالے سے پراسکیوشن کی طرف سے جمع کردہ
شہادتوں پرمختلف سی ایم ایز کی طرف سے اعتراضات بھی اٹھائے گئے ،قانونی نقطہ نظر
کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے سی ایم ایز کی تصدیق بھی نہیں کی گئی
ہے۔گلف سٹیل ملزدوبئی کی فروختگی کے حوالےسےہونے والے معاہدے اورطارق شریف کی طرف
سے پیش کردہ بیان حلفی اوردیگردستاویزات جس میںمیاں نواز شریف کی مداخلت اورلین
دین کے بارے میں بھی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔قانون کے مطابق تمام شہادتیں فوٹوکاپیز
کی شکل میں پیش کی گئی ہیں جومبینہ طورپر قابل قبول نہیں ہیں۔ اسی طرح شیزی نیکوی
کےبیان حلفی اورالتوفیق کےSettlementپیپرزمیں جوکہ
پراسکیوشن نے پیش کیا ہے میں بھی ملزم نوازشریف کا ذکرنہیں ہے۔ مریم صفدر اورکیپٹن
(ر) صفدر کی جانب سے انکے وکیل امجد پرویز کے دیئے گئے دلائل 1۔سریم کورٹ آف
پاکستان کی طرف سے ملزمہ مریم صفدر اور کیپٹن (ر) صفدرکو جے آئی ٹی کے سامنے پیش
ہونے کا بھی نہیںکہا گیا اور نہ ہی سپریم کورٹ کی جانب سے 13صفحات کے سوالات میں
ان دونوں کا ذکرکیا گیاہے۔ملزمان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست
دائرکی گئی ہے۔جائنٹ ایوسٹی گیشن ٹیمJIT کو اختیارنہیں دیا گیا کہ وہ وکلاء
کی خدمات لے سکے لیکن ابھی تک ماہرین کے مطابق جے آئی ٹی نے کویسٹ وکلاء کی خدمات
حاصل کی ہیں۔PW-15اورPW-16کے سوالات پروکیل اخترراجہ کے ساتھ
کسی بھی قسم کی فیس اورخدمات کے حصول کا معاہدہ کیا گیاہے۔اس کا کیس میں دلچسپی اس
حوالے سے تھی کہ وہ جے آئی ٹی کے سربراہ کے رشتہ دارتھے۔ملزمہ مریم صفدرجوکہ کسی
بھی حکومتی عہدیدار نہیں رہی ہیں اس لئے نیب کے قوانین ان پر خلاف استعمال نہیں
کئے گئے،موجودہ مقدمہ ثبوتوں پر نہیںبلکہخیالات پر تیار کیا گیا ہے۔یہ ایک
کمزورثبوتوں کا مقدمہ ہے جس میں ملکیت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کی مثالوں
کی روشنی میںجس میںاپنے ذرائع آمد ن سے ہٹ کراثاثے بنانے کے جرم کےبارے میںذکرکیا
گیا ہے اس کیس میں مطابقت نہیں رکھتے۔قانون میں یہ بھی واضح ہے کہ ملزم کومحض
مفروضوں پر مجرم نہیں قراردیا جاسکتا ہے۔انہوں نےوکیل دفاع خواجہ حارس کےایم ایل
اے کےحوالے سے پیش کردہ جوابات پربھی اپنے دلائل دیئے۔انہوں نے کہا کہ رابرٹ ریڈلی
Fontکے ماہرنہیں ہیںان کی رپورٹ کو سپورٹ
حاصل نہیں ہے۔انہوں نے ٹرسٹ ڈیڈ کے حوالے سے Fontکی قسم کے بارے میں کوذکرنہیں کیا
ہے۔اگر وہ Fontکے ماہر ہوتے تو وہ پہلی بارڈیڈ کا معائنہ بند آنکھوں سے نہ
کرتے۔انہوں نے وکیل دفاع خواجہ حارس پر بھی دلائل دیئے جس میں نیب کی طرف سے ملزم
کے نام پر NAO 1999کے سیکشن19کے تحت نوٹس جاری کیا گیا۔انہوں نے تفتیشی آفیسرکی جانب
سے پیش کردہ دستاویزات پر قانونی اورحقائق پر مبنی اعتراضات اٹھاتے ہوئےعدم
اطمینان کا اظہارکیاجس میں نوازشریف کے خلاف کیس بنایا جائے۔ جب رکاوٹوں
کوعبورنہیں کیا جاتایعنی نوازشریف اوراسکے ذرائع کوپیش نہ کیا جائے۔ ملزمہ مریم
صفدر کریمنل ایکٹ کے تحت کسی بھی طورپر ذمہ دارنہیں ہیں۔ یہ کیس ملزمہ مریم صفدر
اورکیپٹن (ر) صفدر کے خلاف شہادتوں پر مبنی نہیں ہے۔حکام نے پیش کردہ دلائل کے حق
میں مختلف پوائنٹس پیش کئے ہیں۔معروف وکیل دفاع خواجہ حارس کے پیش کردہ دلائل سے
مطابقت رکھتے ہیں۔رولنگ کے دوران وکیل دفاع کے دلائل کو وضاحت کے طورپر متعلقہ وقت
میں دلائل کے طورپر پیش کیا جائے گاجوکہ قابل ذکرثبوت ہے۔PLJ 196
sc appellate jurisdictionعنوان محمد اسارف
خان ترین بمقابلہ سٹیٹ پیراEکے ہی ہیں جوپیش کئے جاتے ہیں۔ماہروکیل برائے اپیل کنندہ کے مزید
دلائل ہیں کہ پہلی رپورٹ نمبر14کینٹ پولیس سٹیشن جس میں اپیل کنندہ نے کمانچے سے
فائرنگ کی جوکہ 38بور کا پستول ہےجسے ایس ایس پی فیاض خان نے برآمد کیا
ہے،ڈرائیورمحمد یونس،ایس ایچ اوصادق حسین اورریکوری میموEX-PW
12/1شامل ہیں۔جس کے جواب میںماہر وکیل کے
دلائل یہ ہیںکہ جان بچانے کے لئے اسلحے کا غلط استعمال جائزنہیں۔محمد گل کے کیس
میں بھی ایف آئی آر میں بندوق کو بطورگن اورطماچے کو بطورریوالور ذکرکیا گیا
ہے۔اپیل کنندہ کے ماہروکیل کی طرف سے عدالت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ مختلف اخبارات
کی اخباری تراشوں کو بھی زیرغورلایا جائے۔اخباری تراشے بطورگواہی کے طورقانون کی
لوازمات پورے نہیں کرتے۔خاص طورپر کریمنل کے مقدمات میں ایسے اخباری تراشےنہ ہی
پراسکیوشن اور نہ ہی ڈیفنس کے حق میں مددگارثابت ہوتے ہیں PLD 1961(w.p) Karachiعنوان میسرزبالاگموالہ کنٹون گننگ
اینڈپریسنگ فیکٹری،کراچی بمقابلہ لالچند پارٹFکودوبارہ پیش کیا جاتاہے:ہمارے نقطہ
نظر میں ماہرسب جج اخبارات میں آنے والے ایسے مواد سے مطمئن نہیں ہیں جوکہ ثبوت
کے بنادستاویزات میں ذرائع کے طورپر پیش کئے گئے ہیں۔PLD
2007 Karachi 448 بعنوان عارف
ہاشوانی اور3دیگربمقابلہ صدرالدین ہاشوانی اور3دیگر۔پیرBکودوبارہ پیش کیا جاتا
ہے۔آٹیکل70میں آرڈیننس2002کے مطابق اگرکسی بھی پارٹی کے الیکٹرانک معلومات سے
انکارکیا جائے تواس صورت میں دستاویزات کو ثابت کیا جاتاہے۔ جیساکہ
آرڈیننس2002میں الیکٹرانک معلومات کو قابل قبول نہ جاناجائے توایسی صورت میں ان
معلومات کو بطور آواز ،ویڈیو کے طورپر جاناجاتاہے۔قانون شہادت کی روشنی میں جہاں
آرڈر1984میں بتایاگیا ہے کہ سی ڈی ڈاکومنٹس کاریکار بطورشہادت تسلیم نہیں کیا
جاتاہےاور اس حوالے سے قانون سازی میں بھی ذکرنہیں ہے ۔اگر قانون شہادت آرڈ1984میں
الیکڑانک ٹرانزیکشن آرڈیننس2002میں ترامیم لائی جائیں توالیکٹرانک کی پیش کردہ
معلومات اور دستاویزات بطورگواہی قابل قبول ہونگی۔میری رائے ہے کہ آڈیو،ویڈیو
اورسی ڈیز کی دیگرشہادتیں قابل قبول ہیںتاہم اس کی تصدیق اورمخالف پارٹی کی طرف سے
اس کے حقیقی ہونے سے انکارپر تنازعہ کا سبب بن سکتاہے۔1985 SCMR 359بعنوان محمد افضل ذل اللہ، شفیع
الرحمان اورمیاں برحان الدین خان،جے جے چوہدری عبدالحمید بمقابلہ ڈپٹی کمشنر
اور دیگر وغیرہ کو دوبارہ پیش کیا جاتاہے:ان تما م حقائق کی روشنی میںہیڈرائٹنگ کے
ماہر کی نقطہ نظرکو قابل غور کولایا جائے گا۔جتنے بھی شواہد عدالت میں جمع کئے گئے
ہیں یہ ان سب میں سب سے زیادہ غیر تسلی بخش رہیں یہ اتنے کمزور اور خستہ حال ہیں
کہ ہمارے قانون میں اس کو قبول نہیں کیا جا سکتا شہادت کے اس نقطہ نظر سے یہ ایک
عام اور دہرایا ہوا عمل ہے کہ ایک نتیجہ اخذ کرنے کے لئے صرف ایکسپرٹ رائے پر
انحصار نہ کیا جائے صرف ہاتھ کی لکھائی کا موازنہ کرنے سے نتیجہ غیر فیصلہ کن ہوگا
اور صرف ٹھوس ثبوت کے ساتھ ضمیم کےطور پر استعمال ہونا چاہیے۔فیصلہ کے پرا گراف (D)
اور پیرا گراف (E)9 کو دوبارہ نیچے لکھا گیا ہے ( جعفر
عالم کے کیس میں چوہدری بمقابلہ ریاست )ہاتھ کی لکھائی کے ماہرین کی رائے میں
غلطیاں ہو سکتی ہیں اور ہر ایک بہت کمزور شہادت ہے ۔ ماہر کی رائے ضروری طور پر
دھوکہ دہی ثابت نہیں کرتی یہ مکمل طور پر ثابت نہیں کرتی کہ جس آدمی کے دستخط ہیں
لیکن اس کی ظاہری افادیت کمزور ہے اس کیس میں خطاطی کے ماہر خود بھی 100 فیصد یقین
نہیں رکھتا کہ چیک میں ظاہر شدہ خطاطی اور دستخط دعویدار کے ہی ہیں ۔اگلا نقطہ جو
معین الحق نے اٹھایا کہ نتیجہ اس کیس میں خطاطی کے ماہر کی رائے پر قائم کیا گیا
تھا جو کہ ایک کمزور اور ماہر ہے اور جس کی گواہی بھی اسی طرح کمزور ہے یہ تسلیم
کیا جاتا ہے کہ خطاطی کے ماہر کی رائے غلطیوں سے پاک نہیں ہو سکتی۔اس سے شہادت کی
اہمیت کافی کم ہوگئی ہے دھونک سنگھ ٹھاکر بمقابلہ ریاست گجرات کے کیس میں صورت حال
یہ ہےکہ سارہ فیصلہ ماہر اچاریہ کی شہادت پر منحصر ہے عدالت کو پتہ چلا ہے کہ اچار
یہ (ماہر ) نے ان افراد کے بارےمیں بھی رائے دی ہے کہ جنہوں نے تسلیم کیا ہے کہ
ادائیگی کے لئے کئے گئے دستخط جعلی ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی صورت حال ہے کیونکہ جب
شہادتوں نے خود کہا قسم اٹھا کر کہ یہ دستخط ان کے ہیں تو پھر ماہر کیسے کہہ سکتا
ہے کہ یہ دستخط جعلی ہیں اس وجہ سے ماہر کی رائے پر مکمل اعتماد نہیں کیا جا سکتا
ہے ایک دفعہ جب یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اپیل کنندہ نے دھوکہ دہی نہیں کی اور جس پر
حکومت کا سارا کیس پر منحصر ہے پھر کوئی قانونی شہادت نہیں ،کہ یا الزام ثابت کرے
یا دھوکہ دہی یہی نقطہ خاص طور پر اٹھایا گیا عدالت کے سامنے اس طرح کوئی ثبوت
نہیں ملتا اس طرح یہ بات بالکل عیاں ہے کہ عدالت کیس کی مہارت سے مکمل طور پر
مطمئن ہونا چاہیے کہ وہ خطاطی کا بہترین ماہر ہونا چاہیے اور پتہ ہونا چاہیے کہ
ایک خاص خطاطی کسی کی ہے یانہیں جیسے ماہر کی خطاطی غیر تسلی بخش ہے عدالت کے لئے،
عدالت یہ غیر محفوظ تصور کرتی ہے کہ صرف ایک ماہر کی شہادت پر فیصلہ کیا
جائے۔2001ء YIR 448لاہور خواجہ اعجاز احمد اور دیگر بمقابلہ ڈی آر او اور دیگر کے
کیس کے پیرا 9‘ 12اور 13کے مطابق مقامی اخبارات میں جب یہ رپورٹ شائع ہوئی تو کیس
کے حوالے سے کوئی بھی ثبوت نہیں دیا گیا نہ ہی کوئی ایسے شواہد ہیں جن سے معلومات
حاصل کی جا سکیں‘ اخبارات میں متعلقہ شخص کے حوالے سے نہ کوئی بیان آیا اور
نہ ہی کوئی ایسا بیان حلفی اس حوالے سے ہے‘ اخبارات میں شائع رپورٹ ریکارڈ پر ہے
اب یہ واضح ہے کہ اخبارات کے تراشے یا اور اخبارات میں شائع شدہ کوئی بھی مضمون کو
ممکنہ طور پر ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے نہ ہی قبول کیا جا سکتا ہے ‘ عبد
الولی خان کے کیس پی ایل ڈی 1976ایس سی 57میں سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ ہم اٹارنی
جنرل سے متفق ہیں جنہوں نے امریکن قانون کے والیو 29کو پڑھا ‘ دوسرے ایڈیشن
کے صفحہ 989کے مطابق یہ بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اخبارات میں شائع
شدہ رپورٹ یا کسی پروگرام (ایونٹ ) کے حوالے سے شائع رپورٹ کی اہمیت نہیں‘ اخباری
رپورٹس یا تراشوں کو اس وقت پیش کیا جا سکتا ہے کہ جہاں پر ایسا واقعہ ہوا ہو یا
مقامی لوگوں کا انٹرسٹ ہو یا پوری کمیونٹی کی جانب سے ہو ‘ اس کے علاوہ کسی چشم
دید گواہ کا بیان جو کہ اخبار میں شائع ہوا ہوں وہ اگر موجود نہ ہو تو وہ پیش کیا
جا سکتا ہے ‘ اپیکس کورٹ نے مزید قرار دیا کہ اخباری تراشوں یا رپورٹ کو ثبوت کے
طور پر پیش کیا جا سکتا ہے اور امریکی عدالتوں میں ایسا اکثر ہو چکا ہے ‘ کوئی
کاروباری ریکارڈ یا کسی حادثے کی دستاویزات نہ ہوں لیکن کیونکہ اخباری رپورٹس
واقعے کے حوالے سے قابل اعتماد ہو سکتی ہے تو اس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے ‘ شیر
محمد بمقابلہ دی کرائون پی ایل ڈی 1949لاہور 511کے کیس میں اخباری رپورٹ کو قبول
کرلیا گیا تھا جو کہ مقامی روزنامہ میں شائع ہوئی تھی اس موقع پر قرار دیا گیا کہ
اگر ایک شخص اس کا فائدہ نہ لے کہ اس پر جو الزامات کے حوالے سے اخبارات میں رپورٹ
شائع ہوئی ہے اور کوئی شکایت بھی نہ کر تو شائع شدہ رپورٹ اس کے خلاف استعمال ہو
سکتی ہے ۔جہاں تک وڈیو فلم کا سوال ہے اس میں کچھ نہیں کہ وہ کسنے مہیا کی ہیں
یہاں پر عبد الولی خان اور مملکت کے کیس کا حوالہ دونگا کہ جس میں ثبوت تب تک نہیں
مانے گئے جب تک تصاویر ریکارڈ کرنے والے افسر کو پیش نہیں کیا گیا ۔کیس عدالت میں
چلالی گئی اور متعلقہ افسر نے اوازوں کی نشاندہی کی ایسے شخص کی عدالت میں پیش اور
اس کی افادیت کے بارے میں کیا گیا جائے جس کو کوئی جانتا ہی نہیں وڈیو فلم جس کو
(او آر) افسر نے دیکھا کوئی قانونی شہادت نہیں تھی اور اس طرح اس پر انحصار نہیں
کیا جاسکتا ۔جہاں تک تصاویر کا تعلق ہے اس کا بھی پتہ نہیں چلتا کہ اس کی اصل
(Negatines)کہاں ہیں تصاویر
کس نے لی اور کس نے صاف کی اس طرح یہ تصاویر بھی شہادت کے طورپر قبول نہیں کی
جاسکتی کیونکہ نہیں پتہ کہ فوٹو گرافرکون تھا اور تصویریں صاف کرنے والا کون تھا
۔پی ایل ڈی 2016 لاہور 570 ج شاہد حمید ریحانہ انجم بمقابلہ ایڈیشنل سیشن جج ایک
دستاویز کی پیشی اور ایک دستاویزی ثبوت 2 مختلف چیزیں ہیں ایک دستاویز ایک ثبوت کے
طور پر پیش کی جا سکتی ہے یہ ثبوت بن بھی سکتا ہے آرٹیکل 78 کے تحت اگر ایک
دستاویز پر ایک فریق انحصار کرتا ہے او رعدالت میں دیکھایا جاتا ہے لیکن ثابت نہیں
کر سکتا لہٰذا اس پر عدالت انحصار نہیں کر سکتی قانون کے مطابق ایک میڈیکل (طبعی )
افسرکی لکھی ہوئی رپورٹ کا ہر نقطہ دستاویزات کی ہر بات کو ثابت کرنا چاہیے کوڈ
510 کے تحت ایک رپورٹ چاہیے وہ انگوٹوں کے نشانات یا بندوقوں کے ماہرین کسی بھی
معاملے میں چھان بین کے لئے جمع کئے گئے ثابت کرنا چاہیے اور یہ مبہم نہیں ہونے
چاہیے عدالت ایسے شخص کو گواہ بنائے بغیر ایسے آدمی کو پکڑ کر اس کی ماہرانہ رائے
معلوم کر سکتی ہے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے جو شخص یہ رپورٹ بناتا ہو ڈی
ڈبلیو دفعہ 510 کے کسی بھی درج بند ی میں نہیں آتا پٹیشنز اپنی حدود میں رہ کر
دوسرے سے سوال کر سکتا ہے اس طرح کہ اس کی گواہی کی اصلیت کو جانچا جا سکے ڈیفنس
وٹنس کے لئے یہ ممکن نہ ہوگا کہ عدالت اس کی شہادت کو جانچ سکے۔1995ء ایس سی ایم
آر 1621 سپریم کورٹ آف پاکستان ملک خدا بخش بمقابلہ ریاست ، پرا گراف 11 یہاں
دوبارہ پیش کیا جاتا ہے یہ دیکھنا ہوگا کہ نصیر بیگم بمقابلہ سائیں عدالت نے دیکھا
کہ شہادتی ایکٹ اس نتیجے پر نہیں پہنچتی لہٰذا ایک فیصلہ ایک سول کورٹ جس طرح ایم
منیر نے قانون شہادت میں لکھا ’’ یہ قابل قبول نہیں ہے مجرمانہ کارروائی میں کہ
شہادت میں سچائی اور حقائق کی تہہ تک پہنچاجائے ایک مجرمانہ کیس میں یہ عدالت
کااستحقاق ہے کہ وہ مشتبہ شخص کی غلطی کا تعین کرے عدالت میں اس کیس میں جمع کئے
گئے ثبوتوں پر فیصلہ کیا جائے ۔ایس این گپتا کے کیس میں دکن ہائی کورٹ نے فیصلہ
دیا کہ بری کرنے کا فیصلہ ایک مجرمانہ کیس میں اس پر انحصار کرتا ہے کہ غلطی ثابت
نہیں کی گئی ہے اور اس طرح اس قسم کی شہادت کو سچ نہیں مانا گیا ۔یہ نصیر بیگم
ورسیس سیان سپریم کورٹ فیصلے کے مطابق جس میں صفحہ585پر یہ قرار دیا گیا ہے
"اس پیٹیشن کی سپورٹ میں کونسل نے کہا ہے کہ سول کورٹ کے فیصلے کو دیکھا جائے
ہم اس فیصلے پر متفق نہیں ہے کیونکہ جیسا کہ پرائوی کونسل نے کمار گپتا رامن رائے
بمقابلہ اتل سنگھ میں نکتہ اٹھایا ہے کہ ؒ۔۔ ۔ ۔ جو حقائق پیش کئے گئے وہ ایویڈنس
ایکٹ کے مطابق نیہں اسی لئے سول کورٹ کا فیصلہ جس کی طرف ایم منیر نے اشارہ کیا ہے
کہ فوجداری مقدمات میں قابل قبول نہیں ۔فوجداری مقدمات میں عدالتیں قصوروار کو
نامزد ٹھہراتی ہیں ریکارڈ بتاتا ہے کہ انوسٹی گیشن کے دوران پیٹیشنر نے سی سی ٹی
وی فوٹیج کو مہیا کرنے کی کوشش کی اس میں کوئی شبہ نٓہیں کہ عدالت حکم /1984/164کے
تحت سی سی ٹی فوٹیج مہیا کرنے کی اجازت دے سکتی ہے لیکن 1984میں جاری حکم کے تحت
ہی ایسا کرسکتی ہے ۔سی سی ٹی وی کا فوٹیج کو عدالت میں ایک ثبوت کے طور پر کافی
نہیں ہیں جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ یہ جائزہیں۔ ایسے فوٹیجز کی جائز ہونے کو
ثابت کرنے کیلئے یہ ڈیفنس اور پراسکیوشن کی ذمہ داری ہے کہ اس شخص کا مشاہد ہ
کرےجس سے سی سی ٹی وی سسٹم سے یہ فوٹیج تیار کی ہوں لہذا ملزم کو مزید شواہد اور
ثبوت پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسے آرڈر 1984کے دفعات کے ساتھ سختی سے ثابت کرے۔
اور یہ محض آرٹکل 79آف دی آرڈر 1984تک محدود نہیں ہے۔ 216YLR254ٹائٹل محمد اقبال احمد vsدی سٹیٹ پیرا11،13،14کو دوبارہ پیش
کیاجاتا ہے۔ پی 11:اس جائیدار کے کیس کے حوالے سےسیکشن نو) a)(v) آف NAO1999کے تحت یہ ضروری اورفائدہ مند ہے کہ
اس جرم کو ثابت کرنے کیلئے تمام ضروری جواز کا مشاہد ہ کیا جائے ۔ ملزم کے بارے میں
ضروری ہے کہ معلوم کیاجائے کہ وہ ایک پبلک آفس ہولڈر ہے۔ اس نے جائیداد جمع کی
اور اسکی جائیدار اس کے ٹائٹل سے ہے۔ اس کے ظاہری ذرائع آمدن کیا ہیں اور جو
اخراجات ملزم نے خرچ کیے ۔ یہ ظاہر ہے کہ محض اثاثہ جات کا رکھنا جووہ اپنے نام پر
ٹرانسفارمر یا شفٹ کرسکتا ہو یا کسی اور کے نام کرسکتا ہو ، سے وہ مجرم نہیں
ٹھہرتا جیسا کہ سیکشن نو(اے)(v)آف NAO1999بھی یہی کہتا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے غنی الرحمان vsنیب اور دیگر کے کیس میں
)PLD2011SC1144) میں مندرجہ ذیل
اصول وضع کیے تھے۔ 6۔ اب قانون وضع ہوچکا ہے کہ اس جرم کو سیکشن 9(a)(v)آف دی نیب آرڈی نیشن 1999کے تحت
لیکن وکیل دفاع اس بات کو ثابت کرنے میں ناکام رہا جو قانون شہادت کے آرٹیکل
79,78 اور 80 کے مطابق ہےلہٰذا آرٹیکل 84 کے تحت ماہرانہ موقف پیش کیا جائے اور
یہی کچھ انگوٹھے کے نشان بارے ہے ۔ تاہم حقائق دفاع کے دعوئوں کے برعکس ہیں جو
متنازعہ فروختگی سے متعلق ہیں ۔ لہٰذا فائل میں موجود ثبوت بھی کسی اہمیت کے حامل
نہیں اور نہ ہی پیش کردہ ثبوت اس قابل ہیں کہ ان پر غور کیا جا سکے۔ جب کوئی ایک
فریق ثبوت پیش کرنے میں ناکام ہو جائے تو اسے کوئی فائدہ نہیں دیا جا سکتا ، اس
حوالہ سے سید عمر شاہ بنام بشیر احمد کیس دیکھا جا سکتا ہے ۔ آرٹیکل 61 ,ہینڈ
رائٹنگ ماہر کی رائے ، سکوپ <=ہینڈ رائٹنگ ماہر کے ثبوت اور رائے کو ہمیشہ ایک کمزور ثبوت تصور
کیا جائے گا۔حتیٰ کہ زبردست زبانی و تحریری اور واقعاتی ثبوتوں کے باوجود ہینڈ
رائٹنگ ماہر کی رائے باطل قرار دی جائے گی۔پی ایل ڈی 2005 کوئٹہ : اشفاق خالد بنام
سرکار ،پیراگراف 33 ، ا یم این او پی 358 اور 37 یو کو یوں پڑھا جائے۔’’ جہاں تک
ہینڈ رائٹنگ ماہر کی رپورٹ کا تعلق ہے تو یہ ناقابل یقین ہے ، سپریم کورٹ نے 1985ء
میں اپنی ایک رپورٹ ایس سی ایم آرصفحہ 359 میں کہا ہے کہ ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ کی
رائے کو حتمی حیثیت حاصل نہیں۔ اس حوالہ سے عدالت نے اپنی آبزرویشن میں کہا ہے کہ
’’ عدالت میں جمع کردہ ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹس کی ہر قسم کی رائے اب تک غیر اطمینان
بخش رہی ہیں ۔ ایسے ثبوت اس قدر کمزور اور ناقص تھے کہ ان کو عدالتی نظام میں جگہ
دینا ممکن نہیں، عدالتیں صرف ان پر اعتماد نہیں کر سکتیں ۔ اسی طرح 1947ءاے آئی
آر صفحہ 180 کے مطابق ’’ ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ کی رائے سے ملکیت خطرہ میں پڑ جاتی
ہے ۔’’ڈی ڈبلیو 22 کے تناظر میں آخری گواہی ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ کی ہونی چاہیے ،
ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ کے ثبوتوں کو متنازعہ دستاویزات میں الگ رکھا جائے ، میں ان
کو قبول کرنے میں وقت اور جھجھک محسوس کررہا ہوں ۔ مسٹر وسیم نے متعدد اتھارٹیز
اور کتب سے اس حوالہ سے جو رائے دی ہے میں شعوری طور پر کہتا ہوں کہ یہ بہت خطرناک
ہے ۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ یہ ماہر کسی ایک فریق کے حق میں جس نے انہیں بلایا
ہوںفائدہ دے سکتے ہیں ۔ یہاں ہم ایک فیصلہ پی ایل ڈی 1958ء لاہور صفحہ 447 کا
حوالہ دے سکتے ہیں ۔’’ ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ کی رائے کو بڑی احتیاط سے لیا جائے
چاہیے وہ ایک غیر جانبدار ماہر ہی کیوں نہ ہو ، کیونکہ وہ ماہر غیر شعوری ہر اس
ایک فریق کو فائدہ پہنچا سکتا ہے جس نے اسے بلایا ہو۔ صرف ان حقائق کو دیکھتے ہوئے
کہ ایک ماہر کہے کہ دستاویز ایک خاص شخص نے لکھی ہے اس کو حتمی نہ مانا جائے بلکہ
عدالت فیصلہ دینے سے پہلے تمام ثبوتوں کو متعلقہ نکتہ پر دیکھے اور ان کی جانچ کرے
۔اسی فیصلہ میں مزید کہا گیا کہ ’’ ایک ماہر کی رائے قابل قبول ہے اسے ناقابل یقین
نہ تصور کیا جائے ، ایسے حالات اور واقعات ہو سکتے ہیں لہٰذا ایک ماہر کے بیان کی
درستگی کو جانچا جائے‘‘ملکیت سے متعلق فیصلہ جو 1969ء میں ہوا پی سی آر ایل ہے
صفحہ 259،جب ہینڈ رائٹنگ ماہر کی رائے پر بحث ہوئی تو ’’ ایک ہینڈ رائٹنگ ماہر کی
رائے پر سوال اٹھ سکتے ہیں ۔تحریر اور دستخط ناقابل یقین ہیں لیکن ان میں غلطی
ممکن ہے ایک ماہر سے بھول ہو سکتی ہے کہ مذکورہ تحریر اور دستخط اسی شخص کے نہیں
جس کی تحریر اور دستخط صاف ہیں ۔بہر حال تحریر اور دستخط ایک ثبوت ہو سکتے ہیں
لیکن ان کی حیثیت خاطر خواہ نہیں۔‘‘35-s ، عدالت اپنے طور اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ ماہر تحریر کی رائے کو
قبول کرتے ، حقائق اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جیسے کہ پی ایل ڈی 1966 ء ،
ڈھاکہ ، صفحہ 444 میں ہے اسے دوبارہ بیان کرتی ہے ۔’’ سیکشن کا مطالعہ کرتے ہوئے
،یہ عدالت ہے جس نے ماہر کی رائے کو متعلقہ بنانا ہے عدالت اسے یکسر مسترد یا
منسوخ نہیں کر سکتی ۔ عدالت ایک ماہر تحریر کو مدد کے لئے بلا سکتی ہے ۔ ایک کیس
میں جہاں تاثر بالکل واضح ہو عدالت خود اپنے طور فیصلہ کیوں نہیں کرتی؟37 یو ۔دو
مختلف ہینڈ رائٹنگ یا دستخوں کا جائزہ لیتے ہوئے ایک ماہر تحر یر سے کہا جائے کہ
وہ دونوں تحریر وں یا دستخطوں کو دیکھے اور ان کا موازانہ کرے کہ قلم کیسے پکڑا
گیا؟قلم کا دبائو کیا تھا ؟ لکھنے کی رفتار ، الفاظ کا حجم ، الفاظ کی ترتیب اور
تمام الفاظ میں فاصلہ وغیرہ کیا تھا؟ اسی طرح اصول ’’ اصل اصل جیسا ہے ‘‘ کی بنیاد
کو بھی دیکھا جائے ۔ اسی طرح نمونہ کی تحریر کے لئے اس شخص کو بالکل ویسا ہی کاغذ
، سیاہی اور لکھنے کے آلات دیئے جائیں جس کی تحریر درکار ہے ۔ اگر متنازعہ تحریر
پنسل سے لکھی گئی ہے تو پنسل میں تحریر کا نمونہ لیا جائے ۔ اگر بال پین کی تحریر
ہے تو اسی میں لی جائے ۔( ’’ ہارڈلیس متنازعہ دستاویزات ، ہینڈ رائٹنگ اور انگوٹھے
کی چھاپ کی شناخت ‘‘ جو ٹی جے گجر نے دہرائے تھرڈ ایڈیشن 1983)2010ء پی سی آرایل
جے 1832 ۔ میر فیاض احمد بنام سرکار، پارس نمبر 19,20,21A کو دہرایا جاتا ہے ۔19۔عبدالرشید کیس
( سپرا ) یہ دیکھا گیا ہے کہ جیسا کہ کوئی اپیل کنندہ اپنی صفائی میں ان الزامات
کا ثبوت نہیں دے سکا جو اس کے خلاف ہیں تو یہ اس کے خلاف جائیں گے۔پی ۔20۔آخری
قاضی نسیم احمد کیس میں اپیل کنندہ کو انسداد بدعنوانی کے سیکشن 5سی کے تحت ،
سرکاری ملازم ہونے کے ناطے ملزم ناجائز ذرائع سے اپنے نام پر اور اپنے زیر کفالت
والدہ اور چھوٹے بھائی کےنام پر جائیدادیں خریدیں ۔ عدالت نے ہر جائیداد کاجائزہ
لیاور اس نتیجہ پر پہنچی کہ الزام ثابت نہیں ہوتا۔ ماہر تحریر کی رائے پر عدالت نے
آبزرویشن دی کہ ثبوتوں کی عدم موجودگی میں ایک ماہر تحریر کی رائے بھی کافی نہیں
کہ اپیل کنندہ نے دستاویزات میں کوئی جعل سازی اور چھیڑ چھاڑ کی ہے ۔پی ڈی 21 ۔
مندرجہ بالا مقدمہ کو دیکھتے ہوئے قانورن اس حوالہ سے واضح ہے کہ ایک ماہر تحریر
کی رائے محض رائے ہی ہے اس لئے صرف رائے پر حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی ۔پی
ایل ڈی 2014 سپریم کورٹ 696 لینڈ ایکوزیشن کلکٹر سرگودھا بنام محمد سلطان وغیرہ ،
پیرا 5 ڈی اور 6 بی پڑھا جا سکتا ہے ۔5D۔قانون شہادت حکم 1984 جس میں آرٹیکل 59 شامل ہے ، یہ بات واضح ہے
کہ ایک گواہ کی رائے اسی وقت اہمیت کی حامل ہوگی اگر وہ مذکورہ آرٹیکل کے تحت
مخصوص میدان میں ماہر بھی ہے ۔ علاوہ ازیں رائے دینے کے مقصد کی خاطر گواہ نے پہلے
کسی ماہر سے رائے لی ہو یا اس کی تعلیمی قابلیت یا تجربہ اسے حاصل ہو ۔ اگر ایسا
کچھ نہیں تو یہ رائے محض رائے ہوگی اور اسے ثبوت کی حیثیت نہیں ہوگی۔B-6موجودہ کیس میں عدالت میں ایک ایسا
شخص آیا ہے جو ماہر نہیں ہے ۔پی ایل ڈی 1993، سپریم کورٹ 88، اٹالا نسٹک سٹیمر
سپلائی کمپنی بنام ایم وی ٹائٹس ودیگر ، ہیرا 13دوبارہ دیا جاتا ہے ۔’’ دونوں
فریقوں میں تنازعہ غیر ملکی قانون کے ثبوتوں کے حوالے سے ہے ۔ثبوتوں کے حوالے سے
سیکشن 38قانون شہادت اور آرٹیکل 52کو دیکھتے ہوئے یہ کافی ہوگا ۔52۔ کتاب قانون
کے تحت بیانات میں تعلق :۔ جب عدالت کوئی رائے قائم کرے جیسا کہ کسی ملک کا قانون
ہو یا ایسا بیان ہو جو اس ملک کی حکومت کی اجازت سے قانون کی کسی کتاب میں چھپا یا
شائع ہوا ہوں ۔تو اس قانون کو متعلقہ مانا جائے گا ، مندرجہ بالا آرٹیکل کے سرسری
مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ غیر ملکی قانون کو اس ملک کی حکومت کی اجازت شائع کی
گئی کتاب سے ثابت کیا جاسکتا ہے ۔اسی طرح یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ قانون شہادت کے
آرٹیکل 59کے تحت ایک ماہر کابھی تجزیہ کیاجاسکتا ہے ۔مزید کہا گیا ہے کہ برطانیہ
ملکی قوانین کو ماہرین کے ثبوتوں سے ثابت کیاجاتا ہے ۔پی ایل ڈی 1972سپریم کورٹ
25، مسماۃ خیر النساء اور 6دیگر بنام ملک محمد اسحاق اور دیگر میں یہ کہا گیا کہ
تحریری بیانات کو کیسز میں اس شخص کے بغیر نہیں لیا جاسکتا جس کاعدالت میں ٹرائل
نہیں کیا گیا ۔صرف تصدیق شدہ ہو تاہم اس تحریری بیان کو ثبوت پر کے طور پر کیس میں
پیش نہیں کیا جا سکتا ‘ اس فیصلے کیلئے جے بی روس اینڈ کو وی سی آر سریون اور
دیگر ( ائر 1917CAL269(2))
اور محمد صدیقی بمقابلہ پھوپندرا
نارائن روئے چوہدری سے مدد لی گئی ہے ۔پی ایل ڈی 1962ء ڈھاکہ 643اس کیس میں
بھی ایسے ہی ہوا ’’ کیس خارج کرنے کیلئے تصدیق ضروری ہے ‘ اگر نہیں روکا گیا تو
جھوٹ ہوگا ‘ قانون سازی کبھی مکمل نہیں ہو گی کہ مدعی کی جانب سے تصدیق شدہ تحریر
بیان کو مخالف کیخلاف بطور ثبوت تصور کیا جائے ‘قانون کے سیکشن 191اور 193میں جو
الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ان کے مطابق تصدیق شدہ تحریر بیان کو ثبوت کے طور پر
نہیں لیا جا سکتا تاہم سیکشن 191کو ایک خاص مقصد کیلئے نافذ کیاگیا ہے ۔2016ء ای
سی ایم آر 274سپریم کورٹ آف پاکستان عظیم خان اور دیگر بمقابلہ مجاہد خان اور
دیگر (جے) پینل کوڈ (XLV of 1960)سیکشن 365اے اور 302(بی ) انسداد
دہشت گردی ایکٹ 1997ء ‘ کریمنل پروسیجر کوڈ (V of 1998) اغواءبرائے تاون قتل ثبوتوں کا
دوبارہ جائزہ مقتول کی شناخت کیلئے ہڈیوں کا حصول ہڈیوں کی ڈی این اے رپورٹ یہ سب
کچھ ثبوت کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی سزا دینے کیلئے کافی ثبوت ہیں‘
اس کے علاوہ اگر موجودہ کیس میں ڈی این اے رپورٹ کو بطور ثبوت پیش کرکے اس پر
انحصار کر دیا جائے تو یہ بھی ملزم کو سزا دینے کیلئے کافی نہیں ہو گا‘ جب ثبوت کے
انبار بھی لگا دئیے جائیں پھر بھی ملزم کو سزا دینے کیلئے ڈی این اے رپورٹ پر
انحصار کرنا کافی نہیں ہوگا‘ یہاں غیر جانبداری اور مکمل شفافیت ظاہر کر نا ہوگی
‘ مجسٹریٹ یا ان جیسی غیر جانبدارانہ اتھارٹی رکھنے والے حکام کی موجودگی میں
مقتول کے جسم کے جو نمونے حاصل کرکے لیبارٹری بھجوائے گئے ہیں اور جائے وقوعہ سے
بھی قتل کے حوالے سے ثبوت اکٹھے کرکے لیبارٹری بھجوائے گئے ہیں انہیں محفوظ کرنا
ہو گا لیکن اس کیس میں ان تمام امور کو نظر انداز کیا گیا ‘ سپریم کورٹ نے ایک طرف
ملزم کو جرم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے اس پر ذمہ داری عائد کی اور اسے سزائے موت
سنائی ۔پی ایل جے 2002 لاہور 454 : مقرب حسین بوساطت قانونی نمائندگان اور دیگر
بنام پیر زادہ محمد رفیق بوساطت قانونی نمائندگان ، پیرا 8A,7,4 اور 10c کو دوبارہ لیا جاتا ہے پی 4 ۔ اپیل
کنندہ نے کرایہ کے بارےمیں 13 جنوری 1962ء کے حکم پر تکیہ کیا دستاویزات کی غیر
تصدیق شدہ نقول دیں ۔پی7 ۔ دستاویزات کے تحت جواب دہندہ کو اجازت ملی کہ بنگلہ کے
سامنے پلاٹ پر کوارٹر بنا سکے درحقیقت اس سے اپیل کنندہ کو پوزیشن سی ملا۔پی 8 اے
۔ میں یہ کہوں گا کہ مذکرہ دستاویزات کے سرسری مطالعہ سے یہ تاثر ملا ہے کہ ان غیر
تصدیق شدہ دستاویزات پر بجا اعتراض اٹھایا گیا کہ اپیل کنندہ بیان ڈی ڈبلیو 3 تھا
۔ میرے ذہن کے مطابق یہ دستاویزات قانون شہادت حکم کے تحت قابل قبول نہیں ۔ ڈی
ڈبلیو 3 کے تحت یہ دستاویزات غیر تصدیق شدہ نقل کی آگے نقل تھی ۔ یہ بھی قابل
قبول نہیں ۔بی 10 ۔ میں قانونی مشیر سے متفق ہوں کہ مذکورہ 2۔ دستاویزات ثبوتوں کے
طور پر ہر قابل قبول ہیں ۔اورنہ ہی تصدیق کیا گیا ہےیہ تمام داخلے محض عدالتی
کارروائی کے حوالے سے ہیں اورنہ ہی اسے بطور داخلہ موجودہ کیس میں استعمال کیا
جائےجوکہ ثبوتوں کی روشنی میں اسکے اپنے میرٹ پر ہو نے کا ریکار ڈ کیا جائے۔2016SCMR2084بعنوان اسفندیار اوردیگر بمقابلہ
کامران اوردیگر وغیرہریکارڈ کے مطابق درخواست گزار نے دوران تفتیش سی سی ٹی وی کی
فوٹیج پیش کیںجس کودرخواست گزارنے تفتیش آفیسر کے سامنے پیش کیا۔عدالتی سماعت کے
دوران انہیں عدالت کے سامنے پیش کرنے کے لئے اجازت لی گئی لیکن آرڈر1984کی روشنی
میں پیش کرنے کو کہا گیا۔مخالف پارٹی کو موقع فراہم کیا گیا کہ وہ مذکورہ فوٹیج کا
جائزہ لے۔تمام جائزہ لینے کے بعد عدالت نے بتایاکہ عدالت سی سی ٹی وی فوٹیج پر
بطورثبوت بھروسہ نہیں کرسکتی۔لہٰذاعدالت کے فیصلے میں آرڈر1984کے مطابق کیس کے
ثبوت پیش کئے جائیںجوکہ آرٹیکل 79تک محدود نہیں ہونے چاہیے۔2011 clj
233 Peshawarبعنوان مسزنشاتا
بمقابلہ مسلم خان عرف مصلی وغیرہ Para 11 Bکودوبارہ پیش کیا جاتاہے۔مسز نشاط ،مدعی مقدمہ اورعبدالحکیم وغیرہ
کے دستخط کے حوالے سے جائزہ لیا گیا ہے جس میں ACW-3کے ثبوت پر بتایا گیا ہے کہ انگوٹھوں
کے نشانات بھی مسزنشاط سے مطابقت رکھتے ہیں۔لہٰذایہ ثبوت کے طور قابل غورنہیں لائے
جاتے جوکہ کمزورتصورکئے جاتے ہیں۔مگرمدعا علیہ قرآن شہادت کے آرٹیکل 8اور9پر
پورانہیں اترتے اور اسکی تعمیل میں ناکام ہوئے ہیں۔لہٰذا انگوٹھوں کے نشانات بھی
اس سیل ڈیڈ کو متنازعہ بنادیتے ہیں۔ مذکورہ کیس میں بھی ایکسپرٹ رائے کو بھی ثبوت
کے طورپرکمزورتصورکیا جاتا ہے۔جب پارٹی اپنے کیس کو ثابت کرنے میں ناکام ہوجائے
توایسی صورت میں بھی Expert Opinionکوترجیح دی جاتی ہے جوکہ ثبوت کا
کمزورذریعہ تصورکیا جاتاہے۔ جیساکہ سید محمد عمر شاہ بمقابلہ بشیراحمد کے کیس میں
بتایا گیا ہے کہ آرٹیکل 61کے مطابق Hand writingکی ماہر ین کے رائے کو بھی ثبوت کے
طورپر کمزورتصورکیا جاتاہے،بیشترزبانی،دستاویزی اوردیگرحقائق پرمبنی ثبوت ہونے کے باوجوداس
پر ایسے ثبوتوں پر ترجیح نہیں دی جاتی۔PLD 2005 Quetta عنوان اشفاق خالد بمقابلہ سٹیٹ
پیرا33 کودوبارہ پیش کیا جاتاہے:جہاں تک Handwritingکے ماہر کا تعلق ہے ۔1985میںSCMR کاسپریم کورٹ میں کیس رپورٹ ہواجسکے
پیج359میں بتایا گیا کہ Handwritingایکسپرٹ کی رائے کو فائنل تصورنہیں
کیا جاتاہے۔اس حوالے سے متعلقہ آبزویشن دوبارہ پیش کی جاتی ہیں۔ہینڈرائیٹنگ کی
رائے، ایکسپرٹ ہینڈرائٹنگ کی رائےاورتمام قسم کے شواہد جو عدالت میں جمع کیے گئے
غیرتسلی بخش تھے۔ یہ شواہد اتنے کمزور اورپرانے تھے کہ جسے قانونی نظام میں پیش کرنے
کے قابل نہیں ۔عدالتیں محض ایکسپرٹ رائے پر انحصار نہیں کرتیں ۔
AIR1947 oudh page 180کے فیصلے کے مطابق
جج نے بتایا تھا کہ ہینڈ رائیٹنگ ایکسپرٹ کی رائے پر انحصار کرنا خطرناک ہوسکتا
ہے۔DW 22کے سلسلے میں
آخری گواہ ہ پر غور کیاجاسکتا ہے میری خواہش ہے کہ کہوں کہ ہینڈ رائیٹنگ ایکسپرٹ
کی جانب سے متنازعہ دستاویزکے حوالے سے پیش کی گئیں ثبوت کافی نہیں۔ میں اسے منظور
کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہوں۔ مسٹر وسیم نے رائے کا اظہار کیا مختلف کتابوں
میں ہینڈرائیٹنگ ایکسپرٹ کی شواہد کے حوالے سے ۔ لہذا میں مکمل طور پر حوش وہواس
میں کہتا ہوں کہ ایسے گواہوں کے شواہد پر انحصار کرنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
کیونکہ بعض اوقات ایک ماہر مختلف کیسز میں تعصب پسند ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں ہم
پی ایل ڈی 1958لاہور پیج 447کے فیصلہ کا حوالہ دے سکتے ہیں، ہینڈنگ رائیٹنگ
ایکسپرٹ کی رائےسے متعلق احتیاط برتنا چاہیے تاہم ایک ایکسپرٹ جانبدار بھی ہوسکتا
ہے لہذا اس حوالے سے کورٹ کو تمام پہلوئوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ اسی طرح کے ایک
اور فیصلے میں بتایا گیا کہ ایک ماہر کی رائے قابل قبول ہے لیکن اس پر فیصلہ نہیں
کیاجاسکتا ۔ لہذا وہاں کچھ شواہد ہونے چاہیے تاکہ ان بیانات کی تدرستگی کا جائزہ
لیاجاسکے۔ 1969 ء کے‘ پی سی آر ایل جے‘ کی ملکیت کے حوالے سے فیصلے میں
ہاتھ کی لکھائی کے ماہر کی رائے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا جس کے مطابق ’’ہاتھ کی
لکھائی اور دستخط کے حوالے سے ماہرکی رائے ہے کہ لکھائی اور دستخط قابل یقین نہیں
تاہم ان میں ردوبدل ہو سکتا ہے اور ماہر اسے جعلی ثابت نہیں کر سکتا جب تک لکھنے
والے اور دستخط کرنے والے کی لکھائی اور دستخط صاف نہ ہوں جس کیلئے لکھائی اور
دستخط کا ایک متن بھی دیکھنا ہوگا لیکن ایسے عمل کی قانون حیثیت انتہائی کمزور
ہوتی ہے‘‘۔اسی طرح لکھائی کے ماہر کی رائے پر غور کرنے کے بعد حالات و واقعات کے
تحت عدالت آزادانہ طور پر اس نتیجے پر پہنچتی ہے جبکہ ڈی ایل ڈی ڈھاکہ کے
1966ء کے ایک کیس کے فیصلے کے صفحہ نمبر 444 کے مطابق ’’قانون کے مطالعہ سے
یہ واضح ہوتا ہے کہ عدالت کسی ماہر کی رائے کو مان سکتی ہے لیکن عدالت کی یہ ڈیوٹی
بھی نہیں کہ وہ ان سب کو ہی منسوخ یا مسترد کر دے‘ عدالت حتمی فیصلے کے نتیجے
پر پہنچنے کیلئے کسی ماہر کو اپنی رائے دینے کیلئے بلا سکتی ہے تاہم اس کیس میں
نقوش صاف ظاہر ہیں ‘ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ عدالت کسی ماہر کی رائے کے بغیر ازخود
آزادانہ طور پر کسی نتیجے پر پہنچ سکتی ہے ‘‘۔دو مختلف لکھائیوںاور دسختطوں کے
موازنہ کریں تو لکھائی کے ماہر تو لکھائیوں اور دستخطوں کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ
لینا ہے جیسے کہ پین کا پکڑنا‘ پین کا پریشر‘ لچکداری‘ سپیڈ ‘سائز‘ سپیس ‘ لائن کی
کوالٹی ‘ریدھم اور لمحات ‘ تمام الفاظ ‘ سیاہی اور لکھنے کے آلات کا جائزہ
لینا ہوتا ہے‘ اسی طرح لکھائی کے اصولوں کے موازنہ سے قبل اس کو دیکھا جاتا ہے‘
دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے کہ کسی بھی شخص سے اس کی لکھائی یا دستخط کے حوالے سے
موازنہ کیلئے نمونے ایک جیسے لئے جائیں‘ ممکن ہو تو ایک ہی قسم کی سیاہی
‘ ایک ہی قسم کے لکھائی کے آلات ‘ اگر پینسل کے ساتھ لکھا گیا ہے تو پینسل
کا نمونہ لیا جائے اگر بال پین ہو تو بال پین کا ۔2016ء پی سی آر ایل جے
1343لاہور غلام سرور خان لالوانی بمقابلہ ریاست کیس کے پیرا 20ڈی کے مطابق
’’استغاثہ کیلئے ضرور ہے کہ و ہ تمام ثبوت اکٹھے کرے کہ جس اثاثوں سے پلاٹ خریدا
گیا ہے اس کیلئے وسائل کہاں سے آئے تاہم ایسے کوئی ثبوت اکٹھے نہیں کئے گئے ۔پی
ایل ڈی 2002ء پشاور 118محمد حیات خان سمیت دو دیگر افراد بمقابلہ ریاست کیس کے
پیرا 81کے مطابق ’’ اگر ہم کسی ڈکشنری سے ’’ڈیپنڈنٹ ‘‘ لفظ کا مطلب حاصل کر لیں تو
اس کا مطلب یہی ہے کہ ایک شخص معاشی طور پر کسی دوسرے شخص پر انحصار کر رہا ہے اور
اسےگزر بسر کیلئے معاشی طور پر اس شخص سے تحفظ ملے ‘‘پی ایل ڈی 1993سپریم کورٹ
88ایٹلانٹک سٹیمرز سپلائی کمپنی بمقابلہ ایم وی ٹائٹسی و دیگر کیس کے پیرا13جی کے
مطابق اوپر والے مضمون کے متن کے مطالعہ سے اشارہ ملتا ہے کہ کسی بھی بیرونی ملک
کے قانون کے مطابق ایک شخص کسی کتاب کی چھپائی اس ملک کے قانون کے تحت کر سکتا ہے
اور یہی ’’ قانون شہادت ‘‘ کے آرٹیکل 59سے بھی ثابت ہے کہ غیر ملک کے قانون
پر ماہر کی رائے درست ہے تاہم ایک ماہر چانچ پڑتال بھی کر سکتا ہے‘‘۔پی ایل ڈی
1972ء سپریم کورٹ 25مسز خیر النساء اور دیگر 6افراد بمقابلہ ملک محمد اسحاق و
دیگر افراد ’’ عدالت میں دائر کردہ کسی شخص کے تحریر بیان کو اسی شخص کے بغیر کیس
میں پیش نہیں کیا جا سکتا ‘ تحریر بیان حلفیہ طور پر نہ ہو اور اس کی صرف تصدیق
ہوئی ہو تو یہ کسی بھی کیس میں شہادت کے طور پر پیش نہیں ہو گا‘ اس فیصلے کیلئے جے
بی روس اینڈ کمپنی سی آر سریون اور دیگر کے کیس سے مدد لی گئی ‘‘ ۔2010ء سی آر
ایل جے 1832کراچی میر فیاض احمد بمقابلہ ریاست کیس کے پیرا 21کے مطابق ’’مذکورہ
کیس کے مطالعہ سے اشارہ ملتا ہے کہ قانون بڑا واضح ہے کہ لکھائی کے ماہر کی
رائےکیا ہے ‘ صرف رائے ہے تاہم مبینہ ہاتھ کی لکھائی یا دستخط کے حوالے سے کسی بھی
نتیجے پر پہنچے کیلئے یہ رائے کافی نہیں ہو گی ‘ماہر کی رائے کی حیثیت سے معمولی ہے
تاہم سزا کا تعلق ماہر کی رائے سے نہیں ہو گا ‘‘۔پی ایل ڈی 2005ء کراچی
443منصور احمد قریشی بمقابلہ ریاست کیس کے پیرا 141کے مطابق ’’جہاں متعلقہ سزا کے
ساتھ نیا جرم سرزد ہو جائے یا پہلے سے ہوئے جرائم پر نئی سزا دی جائے یہ ترمیم شدہ
قانون کے تحت یہ سزا قابل عمل نہیں ہوگی‘‘۔پی ایل ڈی 2010ء سپریم کورٹ 1109بینک
آف پنجاب و دیگر بمقابلہ حارث سٹیل انڈسٹریز (پرائیویٹ ) لمیٹڈ کیس کے پیرا 30ای
کے مطابق ’’ایماندارانہ تحقیقات ہوں اور غیر جانبداری کے بغیر اس تحقیقات کے
منصفانہ ہونے کی گارنٹی بھی ہو تو تحقیقاتی افسر صرف ایک مریض اور الجھن کا شکار
ہو گا ‘‘۔ثبوتوں کے انبار اور ملزم کی جانب سے صفائی 2007ء ایم ایل ڈی 210کراچی
حاکم علی زرداری بمقابلہ ریاست کیس کے آخری پیرا کے صفحہ نمبر 923کے مطابق
’’ثبوتوں کے انبار کے سلسلے میں عام قانون کے مطابق ملزم اس وقت تک معصوم ہے جب تک
جرم ثابت نہ ہو اور جرم ثابت کرنا ہمیشہ استغاثہ کا کام ہے تاہم اسی آرڈیننس کے
سیکشن 14(سی ) جو کہ عام قانون سے ہی لیا گیا ہے کے مطابق کرپشن کے ممکنہ امکانات
یا کرپٹ کاموں کو واضح کرنا ہوگا‘ اگر کوئی ملزم یا کوئی بھی شخص غیر ملکی سرمائے
یا زمین کے حوالے سے چھوٹے سے سرمائے کیلئے کمائی کا ذریعہ بتانے میں عدالت کو
مطمئن نہ کر سکے توکمائی کے ذرائع کے ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری ملزم پر ڈالنے
کیلئے قانون خاموش ہے تاہم ہمیشہ ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری ملزم پر ہونی چاہیے
‘ قانون کے مطابق ایسے کیسز میں استغاثہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملزم کیخلاف
ثبوت فراہم کرکے عدالت کو مطمئن کرے کہ ملزم کے کمائی کے ذرائع کیا ہیں‘ اس نے
کیسے زمین یا غیر ملکی سرمایہ حاصل کیا‘ عدالت کو ضرورت ہے کہ تصور کرے کہ قانون
کے سیکشن 14(سی) کے تحت فراہم کردہ ثبوتوں کے تحت ملزم نے جرم کیا ہے‘ استغاثہ
کیلئے ضرورت ہے کہ وہ پہلے ملزم کے اثاثوں اور کمائی کے درمیان فرق واضح کرے لیکن
جہاں ملزم اس حوالے سے مطمئن نہ کر سکے تو ثبوت کی ذمہ داری ملزم پر ہرگزنہیں ڈالی
جا سکتی ہے وہ ثبوت لا کر مطمئن کرے‘ رامیشور پرساد اُدھاپیا بمقابلہ حکومت بہار
ریفرنس (ائر 1971ایس سی 2474) کے مطابق ملزم کی جانب ثبوت فراہم کرنے کی حدتک یہ
کہ ملزم پر ضروری نہیں کہ اس پر جو الزامات ہیں وہ اسی کے ثبوت بھی فراہم کرےاور
نہ ہی وہ اس کا ذمہ دار ہے تاہم پراسکیوشن کا کام ہے کہ وہ ثبوت فراہم کرے جو ملزم
پر الزام ہے تاہم جب ملزم کیخلاف الزامات کی تحقیقات کے دوران مندرجہ بالااصولوں
کو بھی مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور اگر ملزم اس قابل ہو کہ وہ حالات بیان کرکے
عدالت کو مطمئن کر سکے تو یہ کافی ہو گا اور ملزم پرثبوت لانے کا سلسلہ ختم کر دیا
جائے ۔ثبوت کے معیار کی تین اقسا م ہیں I۔ ثبوتوں کے پیش نظر امکانات کی برابری
II۔
ممکنہ حد تک کسی شک پر ثبوت معیاری اور واضح ثبوت پر قائل کر نا سیکشن
14(سی) کے مطالعہ کے مطابق9(اے) (V) کے جرم میں معیاری ثبوت ضروری ہیں ۔2009ء کے ایس سی ایم آر
790کو یہاں پیش کیا جا سکتا ہے جہاں یہ ہوا ‘ اگر این اے او کو استعمال نہ کیا جا
سکے تو ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ دار ملزم پر نہیں بلکہ استغاثہ پر ہو گی اور ثبوت
فراہم کرنے کی ذمہ داری خاص ثبوت کے بغیر کبھی بھی عائد نہیں ہوگی ۔2010ء ایس سی
ایم آر 1697ء
محمد ہاشم بابر بمقابلہ ریاست و دیگر کے کیس کے مطابق ’’یہاں یہ
اضافہ کرنا ضرور ی ہے کہ کسی کیس کو ثابت کرنے کی ذمہ داری اور استغاثہ کے الزامات
یا جرم کو ثابت کرنے کیلئے مندرجہ ذیل امور ہونگے ۔
(V)یہ ثابت کرنا ضرور ہے کہ ملزم کے پاس کسی بھی قسم کا حکومتی عہدہ
تھا ۔
(VI)غیر ملکی سرمایہ یا زمین کے حوالے سے مکمل معلومات فراہم کرنا ضرور
ہے ۔
(VII) یہ بھی ثابت کرنا ہو گا کہ ملزم کے کمائی کے ذرائع کیا ہیں ۔
(VIII) یہ بھی ثابت کرنا ضرور ی ہے کہ سرمایہ یا زمین ملزم کے قبضے سے ملی
ہے اور وہ سرمایہ بھی واضح نہیں ہے ۔
اگرپہلے سے جرم ثابت ہو جائے اور قانون کے سیکشن 9(اے) (وی) کے
مطابق مکمل ہو جب تک ملزم سرمایہ یا زمین ثابت نہ کر سکے لیکن قانون میں یہ بھی
واضح ہے کہ کسی سرمائے پر زمین پر صرف قبضہ کوئی جرم نہیں لیکن اس سرمائے یا زمین
کے حصول کیلئے استعمال ہونے والے سرمائے یا ذرائع آمدن کے حوالے سے مطمئن نہ
کرسکنے کی صورت میں اس سرمائے یا زمین پر سوالات اٹھیں گے اور ملزم ثابت نہ کر سکے
تو یہ ایک جرم ضرور ہوگا ‘ قانون کے سیکشن 14(سی ) کے ملزم جس ملزم پر کرپشن
اور کرپٹ کام کرنے کے الزامات ہوں تو اسے ثابت بھی کرنا ہوگا‘ بصوابوشان نائیک
بمقابلہ سرکاری (ائر 1954ایس سی 350) کیس کو دیکھیں کہ یہاں قانون کے سیشن 14کے
تحت ریکارڈ سے ثبوت لا کر پیش کئے گئے اور اگر کونسل ثبوتوں میں کسی ایک صفحہ یا
سیکشن پر یہ ثابت کردے کہ یہ پڑھنے کے قابل نہیں یا صحیح طریقے سے اس کی چھپائی
نہیں ہوئی یا عدالت اس کو پڑھ ہی نہ سکے تو تو پٹیشنرکی جانب سے خرچ کردہ 14لاکھ روپے
ختم نہیںہونگے ‘ یہ بھی قانون سے ہی واضح ہے کہ ثبوت فراہم کرنے کے حوالے سے
ذمہ دار استغاثہ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ ملزم پر ثابت کریں کہ یہ سرمایہ یا زمین
اسی کی ہے یا نہیں‘ اور یہ اس نے کس سرمائے سے کیسے حاصل کئے ہیں‘ اور نیب قانون
1999ء کے مطابق استغاثہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ثابت کرے کہ اس سرمائے یا زمین
کو حاصل کرنے میں کرپشن ہوئی ہے یا نہیں ‘ اگر استغاثہ اس میں ناکام رہے تو یہ ذمہ
داری ملزم پر بھی عائد ہوگی کہ وہ ثابت کرے اور مطمئن کرے کہ سرمایہ کہاں سے آیا
‘ عدالت احتساب بھی کر سکتی ہے ۔
فاضل جج نے سپریم کورٹ کے فیصلے ایس سی ایم آر 790 /سال2009
بعنوان ’’سید قاسم شاہ بنام سرکار ‘‘کا حوالہ دیتے ہوئےکہا کہ اگرچہ دفعہ 14(سی)
نیب آرڈیننس میں موجود ہے مگر اس کے باوجود ابتدائی بارثبوت ہمیشہ استغاثہ پر
ہوتاہے کہ وہ جرم ثابت کرے اور جب تک ابتدائی بار ثبوت درست طور پر ڈسچارج نہ کیا
جائے اس وقت تک ملزم کے حق میں بے گناہی کا ٹھوس یقین موجود رہتا ہے اور تمام
حالات میں استغاثہ کسی طور ملزم کا جرم ثابت کرنے سے بری الذمہ نہ ہو سکتا ہے۔
مزید فاضل جج نے 2010ء وائی ایل آرصفحہ 230کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہر کیس کے
اپنے واقعات اور پس منظر ہے اور کسی کیس کے واقعات آنکھ بند کر کے دوسرے کیس پر
منطبق نہ کئے جا سکتے ہیں۔ فاضل عدالت عظمیٰ و عدالت عالیہ کے نظائر کے پس منظر
میں فاضل جج نے ریفرنس کا پس منظر بیان کرتے ہوئے فیصلے میں یہ بھی تحریر کیا کہ
سال 2016ء میں صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم نے ’’موزیک فونسیکا‘‘ جو کہ پاناما
ملک میں ایک لا فرم ہے کا ڈیٹا ہیک کیا اور اس کو شائع کر دیا جس میں ان تمام
لوگوں کے نام موجود تھے جنہوں نے بین الاقوامی کمپنیوں سے روابط استوار کئے ہوئے
تھے اور ٹیکس سے بچنے کیلئے اور اپنی دولت کو چھپانے کیلئے انویسٹمنٹ کی ہوئی تھی
اور مزید یہ کہ ان کا سب سے بڑا مقصد کالے دھن کو سفید کرنا تھا۔پاناما پیپرزکے
شائع ہونے کے بعد فاضل عدالت عظمیٰ نے معاملے کا جائزہ لیا اور ملزمان فاضل عدالت
عظمیٰ کی تمام کارروائی میں شامل ہوئے ابتدائی طور پر فاضل عدالت عظمیٰ نے تین دو
کے تناسب سے فیصلہ 20اپریل 2017ء کودیااور نیب کو تفتیش کرنے کیلئے ہدایت دی اور
اس بارے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی گئی اور اس بابت وضاحت دی گئی کہ اس میں
ایف آئی اے کا سینئر آفیسر نمائندہ نیب ، ایس ای سی پی کا نامزد، سٹیٹ بینک کا
نامزد کردہ ممبر، آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سینئر افسران شامل ہونگے۔ تفتیشی
ٹیم کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس امر کا تفصیلی جائزہ لے کر آیا ملزم نواز شریف یا
اس کے بچوں یا بے نامی دارنے اپنے وسائل اور آمدن سے زائد اثاثہ جات حاصل کئے تھے
تمام ملزمان کو تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی گئی اور تفتیشی ٹیم کو
اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ ایف آئی اے اور نیب سے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس یا دیگر
اثاثہ جات اور آمدن کی بابت کوئی بھی ریکارڈ حاصل کر سکتی تھی‘ فاضل عدالت عظمیٰ
کی ہدایت پر تحقیقاتی ٹیم واجد ضیاء پی ایس پی ، بریگیڈئیر(ر) محمد نعمان سعید
نمائندہ آئی ایس آئی، بریگیڈئیر کا مران خورشید ممبر ملٹری انٹیلی جنس عامر عزیز
ایگزیکٹو ڈائریکٹر سٹیٹ بینک آف پاکستان، بلال رسول ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایس ای سی
پی اور عرفان نعیم منگی ڈائریکٹر نیب پر مشتمل تھی۔ تحقیقاتی ٹیم کو مندرجہ ذیل
واقعات پر تفتیش کرنے کی ہدایت کی گئی کہ گلف سٹیل ملز کیسے بنی ؟اور کب فروخت
ہوئی، اس کی ذمہ داریوں کا کیا بنا؟ اس کی قیمت وصول شدہ کہاں استعمال ہوئی ، جدہ
، قطر اور انگلینڈ کیسے پہنچی؟ کیا ملزمان حسن اور حسین نواز کے پاس 90ء کی دہائی
کے اوائل میں اتنے اثاثہ جات موجود تھے کہ وہ فلیٹ خرید سکیں؟ کیا حماد بن جاسم بن
جبر الثانی کے خطوط حقائق پر مبنی تھے؟ حصص کو کیسے فروخت کر کے ان سے فلیٹ کی
خریداری کی گئی؟ درحقیقت نیلسن انٹرپرائز لمیٹڈ اور نسکول لمیٹڈ کا مفاد اٹھانے
والا اصل کون ہے؟ ھل میٹل کب اور کیسے وجود میں آئی؟ ، مدعا علیہ نمبر 8نے کب اور
کیسے کمپنیاں بنائیں اور ان کمپنیوں کیلئے پیسہ کہاں سے آیا؟ اور مزید یہ کہ حسین
نواز نے کس طرح ملزم نواز شریف کو کروڑوں روپے گفٹ کئے؟ تحقیقاتی ٹیم نے 16جولائی
2017ء کو دس جلدوں پر مشتمل اپنی رپورٹ پیش کی فاضل عدالت عظمیٰ نے مورخہ 28جولائی
2017 کو نیب کو ریفرنس تیار کر کے تحقیقاتی ٹیم کے جمع شدہ مواد پر مبنی نیب عدالت
میں داخل کرنے کی ہدایت کی جنکی بنیاد پر ایون فیلڈ فلیٹس عزیز یہ سٹیل کمپنی اور
دیگر کمپنیوں کی بابت ریفرنس دائر کئے گئے فیصلے میں فرد جرم کی بابت تفصیل بیان
کی گئی جس میں مرکزی ملزم میاں نواز شریف کو اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے موردالزام
ٹھہرایا گیا کہ وہ اپارٹمنٹ نمبر16اے، 17اور 17اے سے پارک لین لندن کے مالک تھے
اور یہ کہ یہ فلیٹس نیلسن انٹرپرائزز لمیٹڈ اور نیسکال لمٹیڈ کے ملکیت تھے اور
مزید انکو ہدایت کی گئی کہ انکی خرید قانونی طور پر کرنے کے وسائل انکے پاس نہ
تھے۔ مزید یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ اپنے وسائل ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ کس
طرح انہوں نے یہ اپارٹمنٹس خرید کئے تمام ملزمان نے فرد جرم کی صحت سے انکار کیا‘
فاضل عدالت نے نیب آرڈیننس 1999کی دفعہ 9کا حوالہ دیتے ہوئے اس امر کی وضاحت کی
کہ ہر وہ شخص جو کہ اپنے یا اپنے زیر کفالت افراد کے نام پر اپنے وسائل اور آمدن
سے زائد اثاثہ جات حاصل کرے تو وہ دفعہ 9اے آرڈیننس کے تحت جرم کا مرتکب ہو گا۔
مزید دفعہ 14(سی) آرڈیننس ہذا کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ ہر شخص جس کے اثاثہ
جات اس کی آمدن سے زائد ہیں اگر اس کی وصاحت نہ کر سکے تو وہ جرم کا مرتکب تصور
ہو گا۔ آرٹیکل 122اور 129قانون شہادت آرڈر 1984کا مزیدحوالہ دیتے ہوئے فاضل جج
نے تحریر کیا کہ جب کوئی خاص واقعہ کسی شحص کے علم میں ہو تو پھر اس واقعہ کے ثابت
کرنے کا بار ثبوت اسی شخص پر ہو گا اپنے فیصلے میں فاضل جج نے بار ثبوت کے معیار
کی بابت تحریر کیا کہ بار ثبوت تین قسم کا ہوتاہے جس میں (i)حقائق زیادہ واضح ہوں یا
(ii)جرم کو بلا شک و شبہ ثابت کیا جائے
یا(iii)درمیانی راستہ یہ
ہے کہ حقائق واضح ہوں اور مثبت شہادت موجود ہو ، فاضل جج نے 2007 ایم ایل ڈی
کراچی صفحہ 210’’حاکم علی زرداری بنام سرکار‘‘210ایس سی ایم آر 1697’’محمد ہاشم
بابر بنام سرکار ‘‘کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ کسی بھی شحص کو جرم ثابت کرنے
کیلئے ضروری ہے کہ پہلے یہ ثابت کیا جائے کہ وہ کسی سرکاری منصب پر فائز تھا، اس
کے معلوم ذرائع آمدن کیا تھے اور مزید یہ کہ اس کے اثاثہ جات اس کے معلوم ذرائع
آمدن سے مطابقت نہ رکھتے تھے‘ فاضل جج نے آرٹیکل (4)2قانون شہادت آرڈر کا حوالہ
بھی دیا کہ شہادت دراصل واقعات ہوتے ہیں جو کہ صفحہ مثل پر آ جائیں تو یہ واقعات
شہادت سے زیادہ وسعت رکھتے ہیں ملزمان حسن نواز اور حسین نواز نے واضح موقف اختیار
کیا کہ اپارٹمنٹس نیلسن انٹر پرائزز کے ملکیت تھے اور یہ کہ ان کمپنیوں کے حصص قطر
کی شاہی فیملی نے ایک معاہدے کے تحت انکے حوالے کئے۔استغاثہ کی جانب سے واجد ضیاء
دوران شہادت بطور گواہ نمبر 16 پیش ہوئے اور انہوں نے کہا کہ انہوں نے انگلینڈ،
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں خطوط تحریر کئے اور وہاں سے اپارٹمنٹس کی بابت
تفصیلات حاصل کیں۔ مزید برآں ظاہر شاہ ڈائریکٹر جنرل آپریشن نیب استغاثہ کے گواہ
نمبر 17 پیش ہوئے اور انہوں نے وہ دستاویزات پیش کیں جو کہ عثمان نامی شخص نے
حوالے کی تھیں اگرچہ فاضل جج نے فیصلے میں یہ تحریر کیا کہ ملزمان کی جانب سے اس
امر پر اعتراض اٹھایا گیا تھا کہ دستاویزات پیش کردہ قابل ادخال شہادت نہ تھیں
کیونکہ نہ تو عثمان نامی شخص پیش ہوا نہ ہی دستاویزات پیش کردہ کسی بھی ادارے کی
تصدیق شدہ تھیں تاہم فاضل جج نے اعتراضات اس بنیاد پر مسترد کئے کہ چونکہ استغاثہ
کا گواہ نمبر 17 اعلیٰ عہدے پر فائز سرکاری ملازم تھے اور انہوں نے برحلف بیان دیا
تھا لہٰذا ان سے جھوٹ کی توقع نہ کی جا سکتی تھی۔ مزید برآں فاضل جج نے دفعہ 21
(بی) نیب آرڈیننس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی دستاویز جو کہ کسی غیر ملک
سے پاکستان منتقل ہو دوران شہادت پیش کی جا سکتی ہے لہٰذا اعتراضات ملزمان مسترد
کر دیئے گئے۔ دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے فاضل جج نے لکھا کہ فلیٹ نمبر 16، 31
جولائی 1995ء کو نیلسن انٹرپرائزز لمیٹڈ کی ملکیت تھا جبکہ فلیٹ نمبر 16 اسے بھی
تاریخ مذکورہ پر اسی کمپنی کی ملکیت تھا جبکہ فلیٹ نمبر 17 مورخہ یکم جون 1993ء
اور فلیٹ نمبر 17 اسے 23 جولائی 1996ء کو نیلسن کمپنی کی ملکیت میں آیا دیگر
دستاویزات جو کہ استغاثہ کے گواہ نمبر 16 نے پیش کی لیکن ان سب کا حوالہ دیتے ہوئے
فاضل جج نے اپارٹمنٹس کی ملکیت کے بارے میں صفحہ نمبر 152 پر بتایا کہ یہ کس کی
ملکیت تھیں اور مزید یہ لکھا کہ یہ نیلسن انٹرپرائزز کی ملکیت 1993ء اور 1996ء میں
مکمل طور پر بن گئیں۔ واجدضیاء کے بیان کا مزید حوالہ دیتے ہوئے فاضل جج نے ایف
آئی اے کے جاری کردہ ایک خط کا حوالہ دیا جو کہ بطور استغاثہ کے ثبوت نمبر 48 پیش
کیا گیا۔ واجد ضیاء نے دوران شہادت ایف آئی اے کے خط مورخہ 12 جون 2012ء کا حوالہ
دیا جو کہ موزیک فونیسکا سے متعلق تھا اور فرم مذکورہ سے اس امر کی وضاحت طلب کی
گئی تھی کہ نیلسن کمپنی کا اصل مفاد اٹھانے والا کون تھا اور یہ کہ اس فرم نے یہ
تحریر کیا کہ مریم صفدر نیلسن کمپنی کی مفاد کنندہ تھیں، مختلف اعتراضات ملزمان کی
جانب سے اٹھائے گئے مگر فاضل جج نے ان کو مسترد کر دیا۔ فیصلے میں اس امر کی وضاحت
کی گئی کہ استغاثہ کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات کی تردید میں کوئی ثبوت یا
دستاویز پیش نہ کر سکیں اور یہ کہ دستاویزات ازاں استغاثہ ملزمہ مریم صفدر کے جرم
کو ثابت کرنے کے لئے کافی تھا۔ فاضل جج نے واضح طور پر تحریر کیا کہ غیر ملکی
کمپنیاں جنت میں بنائی گئی تھیں تاکہ اس کے پیچھے چھپائے جا سکیں اور یہ کہ ان سے
پردہ ہٹانا بہت مشکل تھا۔ مزید برآں فاضل جج نے اسسٹنٹ جنرل منیجر سامبا جو کہ
مناروا کا ایک فنانشل گروپ ہے کے خط مورخہ 3 دسمبر 2005ء کا حوالہ دیتے ہوئے کہا
کہ اس خط کی رو سے مریم صفدر ان کی کسٹمر تھیں اور اس نے سرور پیلس جدہ کا ایڈریس
دیا تھا اور مزید یہ کہ خط مذکور ملزمہ کی گناہگاری مکمل طور پر ثابت کرتا تھا۔
فاضل جج نے گواہ نمبر 16 کی جانب سے پیش کردہ تیتمہ بیانات ملزمان کا حوالہ بھی
دیا جن کے مطابق گلف سٹیل فیکٹری ملزم نواز شریف کے والد محمد شریف نے 1974ء میں
بنائی جس کو طارق شفیع ظاہری طور پر چلاتا تھا۔ اصل مالک محمد شریف اور مزید یہ کہ
اس کمپنی کے 75 فیصد حصص 21 ملین ابوظہبی درہم کے عوض فروخت کئے گئے جو کہ بی سی
سی آئی کو اپنے قرض کی واپسی کے لئے دیئے گئے اور مزید یہ کہ ایک دیگر معاہدہ
عبداللہ آہلی کے ساتھ کیا گیا جو کہ 75 فیصد کا مالک بنا جبکہ طارق شفیع 25 فیصد
کا مالک بنا اور ایک نئی کمپنی آہلی سٹیل ملز کے نام سے قائم کی گئی۔ 1980میں
طارق شفیع نے محمد شریف کی ایماء پر 12ملین درہم کے عوـض 25فیصد حصص فروحت کئے جو
کہ قطر رائل فیملی میں انویسٹ کئے گئے اور یہ کہ رائل فیملی قطر نے نیلسن کمپنی کے
نام پر اپارٹمنٹس خریدے جن میں ملزمان حسین اور حسن نواز رہائش پذیر رہے ۔سال
2006میں حسین نواز اور قطر کے رائل شہزادے کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کی رو سے
وہ اپارٹمنٹس کا مالک بن گیا اور اس کا طریقہ کار یہ بنا رکھا گیا کہ حسین نواز
کمپنی کے شیئر کا مالک بنایا گیا۔ فاضل جج نے تیتمہ بیان پر اٹھائے گئے اعتراضات
ملزمان جو کہ اس بنیاد پر کئے گئے تھے کہ گواہ استغاثہ نمبر 16دستاویز کا تحریر
کنندہ نہ تھا کہ قانون شہادت کے آرٹیکل نمبر 76کا حوالہ دیکر مسترد کر دیا اور
تحریر فرما کر بطور ثانوی ثبوت دستاویز مذکور قابل ادخال شہادت ہیں۔ فاضل جج نے
آرٹیکل 89اور 77کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ ثانوی شہادت قابل ادخال شہادت تھیں
اور اس کے لئے اس دستاویز کو پیش کرایا جانا ضروری نہ تھا ۔ فاصل عدالت نے حسین
نواز کے اس موقف کہ 12ملین درہم قطر شاہی فیملی میں انویسٹ کئے گئے کو بعیدازقیاس
تصور کرتے ہوئے مسترد کر دیا۔ فیصلے میں یہ بھی تحریر کیا گیا کہ تحقیقاتی ٹیم نے
حماد بن حاثم التہانی جو کہ قطر کی شاہی فیملی کا فرد ہے کا بیان ریکارڈ کرنے کی
کوشش کی لیکن اس نے تعاون نہ کیا اور چونکہ ملزم نے بھی کوئی تحرک نہ کیا لہذا
استـغاثہ جرم ثابت کرنے میں کامیاب رہا۔ فیصلے میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی بابت
پیش کردہ سی ڈی/ڈی وی ڈی کا ذکر کیا گیا جو کہ مختلف انٹرویوز کی بابت تھیں جن میں
اپارٹمنٹس کی بابت مختلف موقف اختیار کئے گئے تھے اور جو سوالات ملزمان سے انکی
بابت کئے گئے انکے جوابات کا حوالہ بھی فیصلے میں دیا گیا جس میں ملزم نواز شریف
واضح طور پر سی ڈی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے دبئی فیکٹری کی کسی بھی
ڈیل میں شرکت نہ کی اور انہوں نے قوم سے اپنے خطاب میں کبھی بھی اپارٹمنٹس کی
ملکیت تسلیم نہ کی تھی اور یہ کہ ملزم نے نیسکال اور نیلسن کمپنی کی ملکیت سے بھی
مکمل طور پر انکار کیا۔حسین نواز کے انٹرویوز کی بابت ملزم نوازشریف سے مختلف
سوالات کئے گئے تاہم انہوں نے صریحاََ انکار کرتے ہوئے کہاکہ ان چیزوں کاان سے
کوئی تعلق نہ تھا اورکسی طورپر کمپنیوں اورانکی جائیداد کی خریداری میں شریک نہ رہے
۔ فاضل جج نے اس امر کی بھی وضاحت دی کہ ملزم نے یہ کہاتھاکہ تمام کمپنیاں حسین
نواز اورآف شور کمپنی سینکال کی ملکیت تھیں جبکہ ملزم نوازشریف کاان سے کوئی تعلق
نہ تھا ۔ فاضل جج نے یہ بھی تحریرکیاکہ مریم صفدر ،حسین نواز اورحسن نواز کی
جائیداد کی تفصیلات جوکہ تحقیقاتی ٹیم نے پیش کیں انکے انکم ٹیکس اورویلتھ ٹیکس
بیان سے مطابقت نہ رکھتی تھیں ۔فاضل جج نے برٹش ورجن آئی لینڈ کے قوانین کاحوالہ
دیتے ہوئے کہاکہ انٹرنیشنل بزنس کمپنیز ایکٹ 1984ء کی روسے کوئی بھی شخص مفاد
اٹھانے والی مالکانہ حیثیت میں جائیداد رکھ سکتا تھا اوراس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ
جوبھی قابض ہے وہ مالک ہے فاضل جج نے تحریر کیا کہ 2006ء میں قوانین تبدیل ہوئے
جسکی وجہ سے حصص کو رجسٹر کرایاگیا اورمریم صفدر انکی مفاد گریندہ بنی ۔فاضل جج نے
التوفیق کی کارروائی کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ مفاد گریندہ کی حیثیت کوثابت کرنابہت
مشکل تھا ۔فاضل جج نے تحریر کیا کہ اگرچہ ملزم نواز شریف نے اپنے آپ کو تمام
جائیداد ہائے سے لاتعلق ظاہر کیا مگر شہادت سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ چونکہ حسن نواز
نے مختلف کمپنیوں کے نام پر قرضے حاصل کئے جن میں ملزم نواز شریف ملازم تھا لہٰذا
محض ملزم کے بیان کی روشنی میں اس کو بری الذمہ قرار نہ دیا جا سکتا ہے۔ فاضل جج
نے اس امر کا بھی حوالہ دیا کہ ملزم نے سوال نامے کا جواب جو کہ نیب کی طرف سے
جاری کیا گیا تھا داخل نہ کیا تھا اور حسین نواز، مریم نواز اور حسن نواز کی عمریں
1993ء میں بالتریب 18,20 اور 16 سال تھیں اور جو کہ طالب علم تھے وہ اپارٹمنٹس
خرید نہ سکتے تھے اور چونکہ ملزم نواز شریف خریداری کے ٹائم کے دوران وزیراعلیٰ
اور وزیراعظم رہے لہٰذا وہ جرم میں ملوث تھے اور اس طور جرم ثابت ہو چکا تھا۔ فاضل
جج نے اس امر پر زور دیا کہ 1993-95-96ء میں ملزم کے بچے اس پوزیشن میں نہ تھے کہ
وہ جائیداد خرید کر سکیں لہٰذا ملزم ہی ذمہ دار تھا۔ فاضل جج نے مشترکہ تحقیقاتی
ٹیم کی جانب سے پیش کردہ دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ استغاثہ نے مکمل طور
پر جرم ثابت کر دیا تھا فاضل جج نے تحریر کیا کہ چونکہ ملزم نواز شریف اقتدار میں
تھے لہٰذا اس کا ناجائز فائدہ ان کے بچوں نے اٹھایا اور اس طور ملزم کا جرم ثابت
ہو گیا تھا اور مریم صفدر کا حوالہ دیتے ہوئے فاضل جج نے تحریر کیا کہ جو
دستاویزات انہوں نے پیش کیں وہ بوگس تھیں اور اس طور وہ جائیداد کو چھپانے میں ذمہ
دار تھیں ان حالات وواقعات کی روشنی میں ملزم نواز شریف کو دس سال قید بامشقت اور
8 ملین پائونڈ جرمانے کی سزا جبکہ ملزمہ مریم صفدر کو 7 سال قید بامشقت اور دو
ملین پائونڈ جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ محمد صفدر ملزم کے حوالے سے تحریر کیا گیا
چونکہ وہ جرم کی سازش میں شریک ہے لہٰذا ان کو ایک سال قید بامشقت کی سزا دی گئی
اور جائیداد ہائے بحق سرکار ضبط کرنے کا حکم بھی جاری کیا گیا۔ مزید برآں ملزمان
کو دس سال تک الیکشن لڑنے سے بھی نااہل قرار دے دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
10 جولائی
شریف خاندان کے خلاف العزیزیہ اورفلیگ شپ ریفرنسزکی سماعت کے لئےاحتساب عدالت کوڈیڑھ ماہ کامزیدوقت مل گیا ۔
شریف خاندان کے خلاف العزیزیہ اورفلیگ شپ ریفرنسزکی سماعت کے لئےاحتساب عدالت کوڈیڑھ ماہ کامزیدوقت مل گیا ۔
سپریم کورٹ میںاحتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی
درخواست پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل دو رکنی بنچ نے
سماعت کی۔
جج محمد بشیر نے ریفرنسز کے لئے 4 ہفتوں کا وقت
مانگا تھا۔
خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تینوں
ریفرنسز میں شواہد اور گواہان ایک جیسے ہیں، انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جج دیگر
ریفرنسز نہیں سن سکتا، جج صاحب ایون فیلڈ ریفرنس کافیصلہ دےچکے،تینوں ریفرنسز میں
بہت سی چیزیں مشترک ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پہلے بھی درخواست کی تھی کہ
تینوں ریفرنسز کا ایک فیصلہ ہونا چاہیے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریماکس دیئے کہ فلیگ شپ
ریفرنس میں ٹرانزیکشنز ایک دوسرے سے نہیں ملتیں،فلیگ شپ اور العزیزیہ کیسز بھی
ملتے جلتے نہیں ہیں۔
سپریم کورٹ نے احتساب عدالت اسلام آباد کو
6ہفتوں کا وقت دے دیا اور کہا کہ اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنس بھی 6 ہفتوں میں مکمل
کرنا ہوگا۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 10 جون کو سماعت کے
دوران احتساب عدالت کو شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز پر ایک ماہ میں (10 جولائی
تک) فیصلہ سنانے کا حکم دیا تھا۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے دی گئی مدت آج ختم
ہوگئی، تاہم اب تک صرف ایک (ایون فیلڈ پراپرٹیز) ریفرنس کا فیصلہ ہی سنایا جاچکا
ہے، جبکہ العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس ابھی زیرِ سماعت ہیں،
یہی وجہ ہے کہ احتساب عدالت کی جانب سے مدت سماعت میں توسیع کی درخواست دائر کی
گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
12 جولائی
12 جولائی
احتساب عدالت نے نواز شریف کی العزیزیہ ملز ریفرنس کی سماعت
دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواست خارج کرتے ہوئے سماعت منگل تک کیلئے ملتوی
کردی۔
احتساب عدالت نے العزیزیہ ریفرنس منتقل کرنے کی درخواست کی
سماعت کرتے ہوئے جج نے ریمارکس دیئے کہ ریفرنس منتقل کرنے کا اختیار ہائیکورٹ کے پاس
ہے، فرد جرم عائد ہونے کے بعد میں خود ریفرنس منتقل نہیں کر سکتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Sharif Family NAB Hearing Timeline
Reviewed by News Archive to Date
on
April 02, 2018
Rating:
No comments