امریکا میں پاکستان کے
نئے سفیر ڈاکٹر اسد مجید نے 14 جنوری 2019 کو زمہ داریاں سنبھال لیں
ڈاکٹر اسد مجید سابق وزیر اعظم شاہد
خاقان
عباسی کی جانب سے امریکا میں سفیر مقرر کیے گئے علی جہانگیر صدیقی کے سبکدوش ہو
جانے کے بعد عہدے پر فائز ہوئے
29 مئی 2018 کو علی جہانگیر نے
امریکا میں بطور سفیر زمہ داریاں سنبھال لیں
2014میں ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے ینگ گلوبل لیڈر کااعزاز حاصل کرنےوالےعلی
جہانگیر صدیقی اب امریکا میں پاکستان کے 25ویں سفیر ہوں گے، 8اکتوبر 1948کو
قائداعظم کے قابلِ اعتماد ساتھی مرزاعبدالحسن اصفہانی(1902-1981) اس اہم سفارتی
عہدے پر تعینات ہونےوالےپہلےشخص تھے۔ ایک بنگالی کاروباری خاندان، ایم ایم اصفہانی
لمیٹڈ کے چشم وچراغ عبدالحسن اصفہانی نے 8فروری 1952تک اس عہدےپر تین سال اور چار
ماہ تک خدمات سرانجام دیں۔ انوسٹمنٹ بینکنگ کے ماہر اور وزیراعظم کے معاونِ خصوصی
علی جہانگیر صدیقی امریکا میں تعینات ہونےوالےکم عمرترین سفیر ہیں اور واشنگٹن میں
ملکی سفارتخانےکی باگ دوڑ اب ان کےہاتھ میں ہوگی، یہ سفارتخانہ برطانیہ سےپاکستان
کےآزادی حاصل کرنے کے صرف 14دن بعد 28اگست 1947کو بنایا گیا تھا۔ عبدالحسن اصفہانی
کے علاوہ گزشتہ سات دہائیوں میں کئی نامور بین الاقوامی شہریافتہ پاکستانی کاروباری
شخصیات جیساکہ سید امجد علی وغیرہ بھی اتارچڑھائو کے شکار پاک امریکا تعلقات کو
بہتر بنانے کی جدوجہد کرچکے ہیں۔ چند سابق سفیر بعد میں پاکستانی حکومت میں اہم
عہدوں پر بھی فائز رہے، ان میں سے ایک محمد علی بوگرا بھی ہیں جوملک کےوزیراعظم بھی
رہے۔ یہ عہدہ اتنا اہم ہے کہ جب سکندرمرزا نے انہیں اقتدارسے ہٹایا تو بعد میں
دوبارہ انہیں دنیا کی سپرپاور کیلئے پاکستان کا سفیر منتخب کرلیاگیا۔ اسی طرح
پاکستان ایئرفورس کے سابق سربراہ ایئرچیف مارشل ذوالفقار علی خان اور ملک کے سابق
آرمی چیف جہانگیر کرامت کو بھی قومی تاریخ کےاہم موڑ پر امریکا میں ملکی سفیر تعینات
کیاگیا۔ علی جہانگیر صدیقی سے قبل مندرجہ ذیل خواتین و حضرات امریکا میں پاکستانی
سفارتی مشن کی قیادت کرچکے ہیں: مرزاعبدالحسن اصفہانی (8اکتوبر 1948 سے8فروری
1952)، سابق پاکستانی وزیراعظم محمد علی بوگرا27فروری 1952سے16اپریل 1953)، معروف
پیکجز گروپ کےسید امجدعلی (26ستمبر1953سے 17ستمبر1959) اقتدار سےالگ ہونے کےبعد
دوبارہ محمد علی بوگرا (نومبر1955سےمارچ 1959) سابق وزیرخارجہ عزیزاحمد(23مارچ1959سے
جولائی 1963)، غلام احمد( 19جولائی 1963سے15ستمبر1966) سینئرسفارتکار اور امریکی
وزیرِخارجہ ہنری کسنجر کو چین کے خفیہ دورے میں مدد فراہم کرنےوالے آغا ہلالی(21اکتوبر1966
22 اکتوبر 1971)، میجرجنرل این اے رضا(22اکتوبر1971 سے22اپریل 1972)، وزارتِ خارجہ
کے سفارتکار سلطان محمد خان( 15مئی 1972سے8دسمبر1973) ، سابق وزیرِخارجہ لیفٹیننٹ
جنرل صاحبزادہ یعقوب خان (19دسمبر1973سے 3جنوری 1979) ، دوبارہ سلطان محمد خان
(13جنوری 1979سے 31دسمبر1980)، لیفٹیننٹ جنرل اعجاز عظیم(7جولائی 1981سے5ستمبر
1986) معروف کرکٹ کمنٹیٹر اور دنیا میں طویل عرصے تک سفیر رہنےوالے جمشید مارکر(
17ستمبر1986سے30جون 1989)، ائیرچیف مارشل(ریٹائرڈ) ذوالفقارعلی خان(12جولائی 1989
سے 15ستمبر1990) ، نجم الدین شیخ( 14اکتوبر1990سے 22نومبر1991) ، سیاستدان عابدہ
حسین (26نومبر 1991سے 24اپریل 1993)، صحافی ملیحہ لودھی (21جنوری 1994 سے 30جنوری
1997)، سفارتکار ریاض کھوکھر (12مارچ 1997 سے 7ستمبر1999)، سفارتکار طارق فاطمی(
8ستمبر 1999 سے16دسمبر1999) ، دوبارہ ملیحہ لودھی (17دسمبر1999 سے 4اگست 2002) ،
اقوام متحدہ میں تعینات سابق نمائندہ خصوصی اشرف جہانگیر قاضی (19اگست 2002 سے
6اگست 2004)، سابق آرمی چیف جنرل(ریٹائرڈٌ) جہانگیرکرامت (17 نومبر2004 سے3جون
2006) ، میجرجنرل (ریٹائرڈ) محمد درانی (5جون 2006سے 9مئی 2008)، صحافی اور ماہرِ
تعلیم حسین حقانی (26مئی 2008سے 22نومبر2011)، صحافی سےسیاستدان بننےوالی شیری
رحمان (23نومبر2011سے 14مئی 2013)، سفارتکار جلیل عباس جیلانی (دسمبر2013سے فروری
2017) اور عزیزچوہدری( مارچ 2017سے اب تک)۔ امریکا میں تعینات رہنے والے پاکستانی
سفیروں کی مذکورہ بالا فہرست سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستتان کے تیسرے وزیراعظم محمد
علی بوگرا، سفارتکار محمد خان اور صحافی ملیحہ لودھی نے یہ عہدہ دو دو بار
سنبھالا۔ جہاں تک علی جہانگیر صدیقی کے پروفائل کاتعلق ہےتو نیویارک کے سابق میئر
اور امریکا کے ساتویں امیر ترین شخص مائیکل روبنز بلومبرگ کی فنانشل سروسز، ماس میڈیا
اور سافٹ ویئر کمپنی ’’میسربلومبرگ ایل پی‘‘ لکھتی ہے:’’علی جہانگیرصدیقی نے جے ایس
پرائیوٹ ایکویٹی اور جے ایس پرائیوٹ اکویٹی فنڈ میں بطور چیف انوسٹمنٹ آفیسر اور
مینیجنگ پارٹنرخدمات سرانجام دیں۔ صدیقی نے جے ایس گروپ کےبطور پرنسپل بھی کام کیا۔
انہوں نے کروسبائے کیپٹیل لمیٹڈ(موجودہ ایڈ پارٹنرٹیکنالوجی ہولڈنگز لمیٹیڈ) میں
بطور ایسوسی ایٹ کام کیا۔ وہ ٹیک پیسیفک ڈاٹ کام کے بانی اراکین میں سے ایک ہیں۔
صدیقی نے اہم سرمایہ کاروں کے ساتھ بھی کام کیا۔‘‘ نیویارک میں واقع بلوم برگ جس
کے دنیا بھر میں 192دفاتر اور 19000ملازمین ہیں اور 9ارب ڈالر کی آمدنی ہے، وہ مزید
لکھتا ہے:’’ انھوں نے سب سے پہلے ایڈوانس مائیکروریسرچ (جو 1995میں فروخت ہوئی) میں
کام کیا، جہاں انہوں نے ملٹی کنسول نیٹورک سسٹم تیار کیا۔ انہوں نے ہانگ کانگ میں
کروسبائے کیپیٹل پارٹنر میں بطورڈائریکٹرکام کیا۔ کروس بائے سے قبل وہ ٹیک پیسیفک
کیپیٹل میں ایسوسی ایٹ تھے۔ وہ کئی سال سے امریکا، یورپ اور ایشیاء میں نیا کام
شروع کرنےوالوں کی رہنمائی کررہے ہیں۔ وہ جے ایس پرائیوٹ اکویٹی اور جے ایس پرائیوٹ
اکویٹی فنڈ کے چئیرمین ہیں۔ وہ پاک امریکن فرٹیلائزر لمیٹیڈ کے چیئرمین ہیں۔ وہ
پلانٹ ارابیاڈاٹ کام کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے رکن بھی ہیں۔ یہ عالمی شہرت یافتہ
فنانشل سروسز اور ماس میڈیا فرم مزید کہتی ہیں، ’’ صدیقی صاحب پاکستان میں تیزی سے
ترقی کرتی ہوئی درجنوں پرائیوٹ کمپنیوں کے بورڈز کے رکن ہیں۔ انھوں نے 30اگست
2017تک جہانگیر صدیقی اینڈ کو لمیٹیڈ کے نان ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے طور پر کام کیا۔
انہوں نے ایکیومن فنڈ(پاکستان)، ایکیومن فنڈ انکارپوریشن، ایزگرڈ9 لمیٹیڈ، ائیربلو
لمیٹیڈ اور پاکستان انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل لمیٹیڈ کے ڈائریکٹر کام کررہے ہیں۔
بلومبرگ مزید کہتاہے کہ،’’ انہوں نے ایزگرڈنائن لمیٹیڈ میں بطور ڈائریکٹرکام کیا۔
انہوں نے پاکستان ری انشورنس کمپنی کمپنی لمیٹڈ میں بھی بطور ڈائریکٹر کام کیا۔
2002سے 2003تک وہ پاکستان کے سب سے بڑے پرائیوٹ سیکٹر میوچل فنڈ مینیجر جے ایس اے
بی اے ایم سی او کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر رہے۔ جے ایس گروپ سے پہلے وہ کروس بائے کے
ڈائریکٹر رہے۔ انہوں نے 26اکتوبر 2009 میں لکی سیمنٹ لمیٹیڈ میں بطور ڈائریکٹر
خدمات سرانجام دیں۔ زیدبرآں وہ کئی خیراتی اور ترقیاتی تنظیموں میں بھی شامل ہیں۔
انہوں
نے بی اے معاشیات کارنل یونی ورسٹی سےکیا
بشکریہ صابر شاہ صاحب:
No comments