President Election Procedure and History
09
ستمبر
عارف علوی نے تیرہویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا
چیف جسٹس ثاقب نثار نے حلف لیا
عارف علوی نے تیرہویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا
چیف جسٹس ثاقب نثار نے حلف لیا
صدارتی
الیکٹورل کالج
صدارتی
الیکشن کیلئے الیکٹرول کالج کی ترتیب کچھ یوں ہے کہ سینیٹ ،قومی اسمبلی اور سب سے
چھوٹی صوبائی اسمبلی کے ہررکن کا ایک، ایک ووٹ تسلیم کیا جاتاہے جبکہ دیگر 3
صوبائی اسمبلیوں کے ووٹ چھوٹی صوبائی اسمبلی کے برابر کر دیئے جاتے ہیں۔
صدارتی
الیکٹورل کالج کے 6 یونٹ ہیں، 3 یونٹ قومی اسمبلی، سینیٹ اور بلوچستان اسمبلی کے
ایک رکن کا ایک صدارتی ووٹ ہے۔ تاہم خیبر پختونخواہ اسمبلی کے 1.90 ارکان سندھ
اسمبلی کے 2.58 ارکان اور پنجاب اسمبلی کے 5.70 ارکان پر مشتمل ایک صدارتی ووٹ
بنتا ہے۔ صدارتی الیکٹورل کالج کے ارکان کی تعداد 1174 ہے۔ مگر صدارتی ووٹوں کی
تعداد 706 بنتی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے 26 جون 2013ء کے ریکارڈ کے مطابق
قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے 66 ارکان کے نتائج کا اعلان نہیں
ہوا ہے یا انتخابات باقی ہیں جو 45 صدارتی ووٹ بنتے ہیں۔
طریقہ
کار
آئین کےآرٹیکل41کےتحت صدرکی ریٹائرمنٹ سے60روزپہلےانتخابات نہیں کرائےجاسکتے ۔
ذرائع
الیکشن کمیشن کے مطابق آرٹیکل 41کےتحت صدارتی مدت ختم ہونےپرموجودہ صدرکےپاس30روز
باقی رہنے چاہئے
صدارتی
انتخاب کے لئے قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کو پولنگ اسٹیشن کا درجہ دیا
جاتا ہے ۔ ارکان اسمبلی کو
بیلٹ پیپر کے حصول کے لئے اسمبلی کا شناختی کارڈ دکھانا ہوگا۔ بیلٹ پیپر پر مخصوص
پنسل سے ہی نشان لگانا لازم ہوتا ہے
قومی
اسمبلی میں ووٹنگ کے لئے چیف الیکشن کمشنر پریذائڈنگ افسر کے فرائض سرانجام دیتے
ہیں ۔ جبکہ صوبائی اسمبلیوں میں متعلقہ
صوبہ کی ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان یا صوبائی الیکشن کمشنر پریزائڈنگ افسر کی حیثیت فرائض انجام دیتے ہیں ۔ ۔
پارلیمنٹ ہاوس اسلام
آباد میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان ووٹ کاسٹ کرتے ہیں ۔ صدارتی انتخابی
قواعد کے مطابق پہلے سینیٹ اور پھر قومی اسمبلی کے ارکان اپنا اپنا ووٹ کاسٹ کرتے
ہیں اس ضمن میں ارکان سینیٹ اور قومی اسمبلی کے نام انگریزی حروف تہجی کی ترتیب سے
پکارے جاتے ہیں ۔ اسی طرح چاروں صوبائی
اسمبلیوں میں بھی انگریزی حروف تہجی کے اعتبار سے ارکان کے نام پکارے جائیں گے ۔
ارکان اپنا سینیٹ یا اسمبلی کا شناختی کارڈ دکھا کر بیلٹ پیپر حاصل کریں گے اور
پھر ووٹ کاسٹ کریں گے ۔
صدارتی انتخاب کے
لئے خفیہ رائے دہی کا طریقہ کار اپنایا جات ہے ۔ اس سلسلے میں ارکان پارلیمنٹ اور
اسمبلیوں کے ارکان کو بیلٹ پیپر کے ساتھ مخصوص پنسل فراہم کی جاتی ہے ۔ اسی پنسل سے ہر رکن اپنے پسندیدہ امیدوار کے
نام کے سامنے خالی خانے میں کراس کا نشان لگاتا ہے ۔ بیلٹ پیپرز پرامیدواروں کے نام اردو حروف تہجی
کی ترتیب سے درج ہوتے ہیں ۔
انتخابی
عمل مکمل ہونے کے فوری بعد امیدواروں کے پولنگ ایجنٹس کی موجودگی میں اسمبلی ہال
میں ہی ووٹوں کی گنتی کی جاتی ہے ۔ چاروں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی ہال مین
ہونے والی پولنگ کی گنتی مکمل ہونے کے بعد چیف الیکشن کمشنر انتخابی نتیجہ کا
اعلان کرتے ہیں ۔
2018 کے
صدارتی انتخاب
04ستمبر
کو صدر کے عہدے کے لیے انتخاب کے لیے ووٹنگ ہوئی ،قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی
اسمبلیوں کے ارکان صدارتی انتخابات میں ووٹنگ میں حصہ لیا ۔
تحریک انصاف
اور اتحادی جماعتوں کے صدارتی امیدوار ڈاکٹر عارف علوی 353 ووٹوں کی واضح اکثریت
سے13 ویں صدر مملکت منتخب ہو گئے۔ ان کے مدمقابل مسلم لیگ (ن)، متحدہ مجلس عمل
سمیت دیگر اتحادی جماعتوں کے امیدوار مولانا فضل الرحمان185ووٹ لیکر دوسرے جبکہ
پیپلز پارٹی کے امیدوار اعتزاز احسن 124ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔صدر مملکت
کا انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوا
اپوزیشن کے
درمیان اتحاد نہ ہونے کا فائدہ پی ٹی آئی کے امیدوار عارف علوی کو ہوا، مسلم لیگ ن
کو اعتزاز احسن پر اعتراض تھا جبکہ پیپلزپارٹی نے مشترکہ اپوزیشن کے امیدوار
مولانا فضل الرحمان کی حمایت نہیں کی
۔اسمبلیاں موجودنہ ہونےکےباعث60روزمیں صدرکاانتخاب کراناممکن نہیں
ہوسکا جبکہ صدر کا انتخاب ریٹائرمنٹ سے ایک ماہ پہلے کروانا بھی ممکن نہ ہوسکا۔
الیکشن
کمیشن کے مطابق نئی اسمبلیاں 10 اگست تک فعال نہیں ہوسکیں گی،صدارتی انتخاب 8 اگست
کو ہونا تھا ،
صدارتی
الیکشن میں صوبوں کو یکساں اہمیت دی جاتی ہے ، اس وقت سب سے چھوٹی بلوچستان اسمبلی
کے ارکان کی تعداد 65 ہے، اس طرح دیگر 3 صوبائی اسمبلیوں کو بھی صدارتی الیکشن میں
65/65 ووٹ ملیں گے، اس کے لئے ہر صوبائی اسمبلی کے کل ارکان کو 65 سے تقسیم کر کے
جو نمبر نکلتا ہے، اتنے ارکان کو ملا کر ایک ووٹ تسلیم کیا جاتا ہے، جیسے پنجاب
اسمبلی کے کل ارکان ہیں 371 ہے جنہیں 65 سےتقسیم کیا تو عدد 5.70نکلتا ہے، یعنی
پنجاب اسمبلی میں 5.70 ارکان کا ایک ووٹ بنا۔
اسی
طرح سندھ اسمبلی میں کل 168 ارکان کو 65 سے تقسیم کیا تو 2.58 ارکان کا ایک ووٹ
بنتا ہے، کے پی کے اسمبلی میں کل ارکان 124 کو 65 سے تقسیم کیا تو 1.90 ارکان کا
ایک ووٹ ہوا اور سب سے کم ارکان کی تعداد بلوچستان اسمبلی کی ہے جس کے 65 ارکان
میں سے ہر ایک کا ایک ووٹ بنتا ہے کیوں کہ جب 65 کو 65 سے تقسیم دیں گے تو اس کا
ایک ووٹ بننے گا۔
اس
طرح قومی اسمبلی کے 342، سینیٹ کے 104 اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے 65×4 ارکان کا
مجموعہ 706 نکلتا ہے جو الیکٹورل کالج کا مجموعی نمبر ہے۔
قومی
اسمبلی میں اس وقت 342 میں سے 330 ارکان موجود ہیں، جبکہ 12 سیٹیں خالی ہیں، 330
میں سے 176 ارکان حکومتی اتحاد اور 150 اپوزیشن کے ہیں جبکہ 4 ارکان آزاد
ہیں،سینیٹ میں 68 ارکان کا تعلق اپوزیشن اور 25 کا حکومتی اتحاد سے ہے، 11 آزاد
ارکان ہیں۔
یوں
گرینڈ ٹوٹل میں پی ٹی آئی اتحاد کے امیدوار ڈاکٹر عارف علوی کو 346 ووٹ مل سکتے تھےجبکہ پیپلز پارٹی کی
طرف سے اعتزاز احسن اور مسلم لیگ ن سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے مولانا
فضل الرحمان میدان میں ہیں، اگر اپوزیشن کے دونوں امیدواروں میں سے کوئی بھی آخر
وقت تک دستبردار نہیں ہوتا، تو اپوزیشن کے 320 ووٹ بٹ جائیں گے، آزاد اور دیگر
ارکان کی تعداد 23 ہے، ان میں سے بھی بیشتر کا حکومتی امیدوار کی طرف ہی جانے کا
امکان تھا
1973 کا صدارتی انتخاب
چار اگست 1973 کو الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ ارکان پارلیمنٹ 10اگست 1973 کو مشترکہ اجلاس میں پانچویں صدر کا انتخاب کریں گے۔پولنگ قومی اسمبلی کی عمارت میں صبح ساڑھے آٹھ سے ساڑھے بارہ بجے دن تک ہوگی۔سیکریٹر ی الیکشن کمیشن اسلم عبداللہ خان کو پریزائڈنگ افسر مقررکیا گیا ہے۔
سات اگست کو صدر پاکستان کے عہدے کے لیے تین امیدواروں نے کاغذات نامزدگی داخل کیے۔ تین امیدواروں کی طرف سےگیارہ کاغذات نامزدگی داخل کیے گئے۔ان میں چار کاغذات نامزدگی پی پی پی کے حمایت یافتہ اسپیکر قومی اسمبلی چوہدری فضل الہی اور چھ کاغذات نامزدگی حزب اختلاف متحدہ جمہوری محاز کے امیدوار امیرزادہ خان جن کا سیاسی تعلق نیشنل عوامی پارٹی سے تھا ان کے داخل کیے گئے۔ ایک امیدوار شیخ محمد سلیم سیٹھی تھے۔حکومتی اور حزب اختلاف کے امیدوار وں کے کاغذات نامزدگی منظور جبکہ نامکمل فارم بھرنے کے سبب شیخ محمد سلیم سیٹھی کے کاغذات نامزدگی مستردکردیے گئے تھے۔
دس اگست کو پیپلزپارٹی حکومت کے حمایت یافتہ چوہدری فضل الہی 1973 کے آئین کے تحت صدر منتخب ہوگئے انہوں نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں قومی اسمبلی اور سینیٹ سے مجموعی طور پر 139ووٹ حاصل کیے جبکہ حزب اختلاف کے امیدوار امیرزادہ خان نے45ووٹ لینے میں کامیاب رہے ۔ووٹنگ خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوئی۔واضح رہے کہ ـصدارتی انتخاب کا کالج قومی اسمبلی کے 146 اور سینیٹ کے45ارکان پر مشتمل تھا۔ اس طرح کل ووٹوں کی تعداد191 ہوتی ہے۔تاہم صدارتی انتخاب میں 6ووٹر غیر حاضر رہے۔جبکہ ڈالے گئے185 میں سے ایک ووٹ مسترد کردیا گیا تھا۔جو ووٹرز غیرحاضر رہے ان میں جناب نورالامین،میاں ممتاز محمد خان دولتانہ،سردار شوکت حیات خان،عبدالخالق خان،میر دریاخان کھوسو اورنواب خیر بخش مری شامل تھے۔
چار دن بعد 14اگست کو نومنتخب صدر فضل الہٰی چوہدری اور وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو سے چیف جسٹس پاکستان حمود الرحمن نے1973 کے آئین کے تحت ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ حلف لیا تھا۔
1988 کا صدارتی انتخاب
اٹھائیس نومبر1988 کو چیف الیکشن کمشنر جناب جسٹس ایس اے نصرت نے اعلان کیا کہ نئےصدارتی انتخاب 12دسمبر 1988 کو منعقد ہوں گے۔اس موقع پر چاروں صوبوں کی ہائیکورٹ کے چیف صاحبان متعلقہ صوبوں کے لیے پریزائڈنگ افسر مقررکیے گئے۔پولنگ کے اوقات صبح 10 سے سہ پہر3بجے تک مقرر کیے گئے۔اس موقع پر اس بات سے بھی آگاہ کیا گیا کہ سینیٹ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان نے خفیہ رائے شماری کے ذریعے ووٹ کا حق استعما ل کرنا ہے۔ضابطے کے تحت سینیٹ کے87 قومی اسمبلی کے 237 پنجاب اسمبلی کے260 سندھ اسمبلی 114 سرحد کے87 اور بلوچستان اسمبلی کے45ارکان یعنی مجموعی طور پر 830ارکان پر مشتمل انتخابی کالج کوصدارتی انتخاب میں حصہ لینا تھا۔تاہم طے اصول کے مطابق آئینی طور پر جس اسمبلی کے ارکان کی تعداد سب سے کم ہوگی اسی تناسب سے دوسرے صوبے کے ارکان کےووٹ شمار کیے جائیں گے اس کا مطلب یہ تھا کہ بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد سب سے کم 45 تھی اس طرح باقی اسمبلیوں سے بھی 45ووٹ شمار کیے گئے۔
ابتدائی طور پرپی پی پی اور اسلامی جمہوری اتحاد کے مشترکہ امیدوار صدر پاکستان غلام اسحق خان سمیت آٹھ امیدواروں نے کاغذات نامزدگی داخل کیے جس میں پی پی کے سیکریٹری جنرل جنرل(ر) ٹکا خان جن کے متعلق محترمہ بے نظیربھٹو کا کہنا تھا کہ وہ محض متبادل امیدوارکے طور پر ہیں۔تیسرے پاکستان جمہوری پارٹی کے نواب زادہ نصراللہ خان،چوتھی شخصیت اسلام آباد سے تعلق رکھنے محمد رفیق،پانچویں احمد ابراہیم ہارون جعفر جو قائد اعظم کے سیکریڑی بھی رہ چکے تھے۔چھٹے محمد نوروز خان ملک،ساتویں کراچی کے لال خان بھٹی اور آٹھویں شیخ محمد سلیم سیٹھی تھے جو اس سے قبل 1973 میں بھی کاغذات نامزدگی جمع کراچکے تھے تاہم نامکمل ہونے کے سبب ان کے کاغذات مسترد کردیے گئے تھے۔بعدازاں تین امیدوار جس میں لال خان بھٹی محمد رفیق محمد اور سلیم سیٹھی تھے ان کے کاغذات نامزدگی مستردکردیے گئے۔
بارہ دسمبر کو چار امیدوار قائم مقام صدر پاکستان غلام اسحق خان،نوابزادہ نصراللہ خان،احمد ابراہیم ہارون جعفر اور ملک نوروز خان کے درمیان مقابلہ ہوا۔جس میں پی پی پی اور آئی جے آئی کے مشترکہ امیدوار قائم مقام صدر پاکستان غلام اسحق خان 348ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے۔دوسرے نمبر پر نوابزادہ نصراللہ خان رہے انہیں91ووٹ ملے،احمد ای ایچ جعفر کو 6 اور نوروز خان کو ایک ووٹ ملا ۔غلام اسحق خان کو قومی اور سینٹ سے 232بلوچستان اسمبلی سے 15پنجاب اسمبلی سے204 سرحد سے 47 اور سندھ اسمبلی سے104ووٹ حاصل کیے جبکہ نواب زادہ نصراللہ خان نے قومی و صوبائی سے 39بلوچستان اسمبلی سے 28،پنجاب اسمبلی سے39 سرحد سے 33اور سندھ سے ایک ووٹ حاصل کیا تھا۔تیرہ دسمبر کو غلام اسحق خان نے چیف جسٹس پاکستان جسٹس محمد حلیم سے ساتویں صدر پاکستان کا حلف لیا ۔
1993 کا صدارتی انتخاب
اکیس اکتوبر1993 کوالیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ صدارتی انتخاب13نومبر کو ہوں گے ،چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ نعیم الدین ریٹرنگ افسر مقرر ہوئے جبکہ صوبوں میں چاروں صوبائی ہائیکورٹس کے چیف جسٹس پریزائڈنگ افسر مقرر کیے گئے۔
ابتدائی طور پرستائیس امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جس میں سابق صدر غلام اسحق خان قائم مقام صدر وسیم سجاد ،حکمراں جماعت پی پی پی کی جانب سے تین امیدوار سردار فاروق احمد لغاری،آفتا ب شعبان میرانی اور آفتا ب خان شیرپاو،حزب اختلاف کی طرف سے قائم مقام صدر وسیم سجاد ،گوہر ایوب خان،سرتاج عزیز،سید افتخار حسین گیلانی اور لیفٹنٹ جنرل(ر)عبدالمجید ملک،این ڈی اے نوابزادہ نصراللہ خان ،جمہوری وطن پارٹی کے نواب اکبر خان بگٹی،میر بلخ شیرمزاری،محمد اصغر خان،پیرزادہ مختار سعید،بشیر احمد مئیو،ایم پی خان،غازی شفیق الرحمن صدیقی،حکیم سید نذیر حسین شاہ گیلانی،حاجی محمد ذرین، محمد عمر ایڈوکیٹ،صغیر حسین جعفری،حاجی معزالدین حبیب اللہ پیر میر عزیزاللہ حقانی اور یحیی بختیار شامل تھے۔تاہم ان میں سےتیرہ امیدواروں کے کاغذات مستر دکردیے گئے۔
13نومبر1993 کو حکمراں اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک فرنٹ کےامیدوار سردارفاروق خان لغاری 106ووٹ کی برتری سے ملک کے آٹھویں صدر منتخب ہوگئے۔انہیں 274ووٹ ملے دوسرے نمبر پر ن لیگ کے امیدوار وسیم سجاد رہے جنہیں168ووٹ ملے ۔اکبر بگٹی کو دو نواب زادہ نصراللہ خان اور افتخار گیلانی کو بھی ایک ایک ووٹ ملا گوکہ یہ تینوں سردار فاروق خان لغاری کے حق میں دستبرداری کا اعلان کرچکے تھے۔ پولنگ صبح دس سے سہ پہر تین بجے تک جاری رہی ۔اسلام آباد میں 283ارکان نےرائے شماری میں حصہ لیا جس میں سے فاروق لغاری کو 170 اور وسیم سجاد کو 108ووٹ پڑے جبکہ افتخار گیلانی نواب زادہ نصراللہ خان اور اکبر خان بگٹی کو ایک ایک ووٹ پڑا۔پنجاب اسمبلی سے فاروق لغاری کو 24 وسیم سجاد کو 17،سندھ میں فاروق لغاری کو39جبکہ وسیم سجاد کو ایک ،بلوچستان اسمبلی سے فاروق لغاری اور وسیم سجاد کو 21،21 ووٹ ملے۔جبکہ اکبر خان بگٹی کو ایک ووٹ ملا۔پشاور میں وسیم سجاد نے 21جبکہ فاروق لغاری نے20ووٹ حاصل کیے۔
چودہ نومبر1993 کو انہوں نے چیف جسٹس پاکستان جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ سے صدارت کا حلف لیا۔
1997 کا صدارتی انتخاب
2دسمبر1997 کو صدرفاروق لغاری کے مستعفی ہونے کے بعد5دسمبر1997 کو الیکشن کمیشن نے ایک بار پھر 31دسمبر 1997کو نئے صدارتی انتخاب کا اعلان کیا ۔
ابتدائی طور پر 28امیدوار وں نے کاغذات نامزدگی جمع کرایا،جس میں ن لیگ کے حکومتی حمائیت یافتہ امیدوار فیق تارڑ حزب اختلاف کے آفتاب شعبان میرانی،کیپٹن حلیم صدیقی ،جے یو آئی مولانا خان محمد شیرانی ۔ظفراللہ جمالی ،آغا محمد دلاور،سید محمد اقتدار حیدر،راجہ محمد افضل ،خواجہ قطب الدین،رضا گل ،میجر(ر) رمضان آرائیں،خورشید انور قریشی،ڈاکٹر فضل الرحمن ،ڈاکٹر سعیدالزماں صدیقی،رانا نائیک محمد ،محمد پٹھان،ملک جاویدحسین،حاجی محمد زرین،امیرعلی پیٹی والا،حاجی معیزالدین حبیب اللہ ،فقیر حسن انصاری،عمرحیات خاں نیازی ،محمد علی شیخ اور ناصر علی برنی شامل تھے۔31دسمبر کو چھ امیدوار مقابلے پر تھے تاہم مسلم لیگ ن کے امیدوار جسٹس(ر)رفیق تارڑملک کے نویں صدر منتخب ہوگئے۔انہوں نے 374ووٹ حاصل کیے۔پاکستان پیپلزپارٹی کے آفتاب شعبان میرانی کو 58 اور جے یو آئی کے مولانا خان محمد شیرانی کو 22ووٹ ملے ن لیگ کے متبادل امیدوار کیپٹن حلیم صدیقی جوکہ مقابلے سے دستبردار تھے انہیں بھی دو ووٹ ملے،آزاد امیدوار خواجہ قطب الدین کو ایک ووٹ ملا آزاد امیدوار راجہ سعید الزمان اور ظفراللہ جمالی کو کوئی ووٹ نہیں ملا۔پارلیمنٹ میں جسٹس (ر)رفیق تارڑ کو 243،میرانی کو 39 مولانا خان محمد شیرانی کو 7 حلیم صدیقی کو دو ووٹ ملے جبکہ سات مسترد ہوئے تھے۔پنجاب سے رفیق تارڑ نے235،آفتاب شعبان میرانی کو تین اور مولانا شیرانی نے دو ووٹ حاصل کیے۔سند ھ اسمبلی میں حکمراں جماعت کے امیدوارنے69 ،پی پی پی کے میرانی نے 34اجبکہ خواجہ قطب الدین نے ایک ووٹ حاصل کیا ۔سرحد اسمبلی میں رفیق تارڈ نے 69 میرانی نے چار اور مولانا شیرانی نے 8ووٹ حاصل کیے ۔بلوچستان میں تارڑ نے 26 میرانی نے دو اور مولانا شیرانی نے 9ووٹ حاصل کیے۔
یکم جنوری1998 انہوں نے چیف جسٹس پاکستان جسٹس اجمل میاں سے حلف لیا۔
2007 کا صدارتی انتخاب
20ستمبر2007 کو الیکشن کمشنر نے اعلان کیا کہ نیا صدارتی انتخاب6اکتوبر کو ہوگا۔کیونکہ نئے قومی اور صوبائی اسمبلیوںکے انتخاب بعد ہی صدارتی انتخاب کی روایت رہی تھی اس لحاظ سے صدرجنرل پرویزمشرف کا اپنی پانچ سالہ میعاد پوری کرنے والی اسمبلی سے صدارت کا نیا مینڈیٹ حاصل کرنا کا فیصلہ نہایت متنازع تھا۔ حزب اختلاف نے اس پرشدید ردعمل کا اظہار کیا تھا۔
ابتدائی طور پرصدارتی انتخاب کےلئے15امیدوار وں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جس میں صدر پرویز مشرف ،پیپلزپارٹی کے مخدوم امین فہیم اور وکلا کے نمائندے جسٹس (ر)وجیہہ الدین ۔فریال تالپور ،ریاض حسین چانڈیو،حیدر علی راشد، اوردیگر شامل تھے۔
6اکتوبر2007 کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں پرویز مشرف نےپارلیمنٹ 252،پنجاب سے253،سندھ سے102، بلوچستان سے33 اور سرحد سے31ووٹ حاصل کیےجبکہ جسٹس وجیہہ الدین نے 8ووٹ حاصل کیے جبکہ پیپلزپارٹی نے صدارتی انتخاب کا بائیکاٹ کیا تھا۔لیکن حلف لینے کا موقع 54 روز بعد آیا جب 29نومبر2007 کا صدر (ر) جنرل پرویز مشرف نے عہدہ صدارت کا حلف لیا۔
2008 کا صدارتی انتخاب
18اگست2008 کو صدر جنرل(ر) پرویزمشرف کے مستعفی ہونے کے بعد ایک مرتبہ پھر اکیس اگست2008 کو الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ نئے صدارتی انتخاب6ستمبر کو ہوگا۔
ابتدائی طور پر32صدارتی امیدوار سامنے آئے ،جس میں پی پی کے آصف علی زرداری،ن لیگ کے جسٹس(ر)سعیدالزماں صدیقی ق لیگ کے مشاہد حسین سید،فریال تالپور ،روائیداد خان،کلثوم صبا،منظور احمد بھٹی،محمد رمضان،وحیداحمد کمال،فقیر احمد انصاری،شکیل احمد،مرزاآصف بیگ،سید امتیاز حسین،سخاوت علی،،ڈاکٹر میاں احسان باری،امیرعلی پیٹی والا اور محمد اعجاز شامل تھے۔
اکتیس اگست کو پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری ملک کے بارویں صدر منتخب ہوگئے۔انہوں نے481الیکٹرول ووٹ حاصل کیے ،ن کے مدمقابل ن لیگ کے جسٹس سعید الزماں صدیقی نے153 ق لیگ کے مشاہد حسین سید نے44الیکٹرول ووٹ حاصل کیے تھے۔آصف علی زرداری نےسینیٹ اور قومی اسمبلی سے281،پنجاب سے22،سندھ سے63 سرحد سے56اور بلوچستان سے59ووٹ حاصل کیے۔قومی اسمبلی سینیٹ سے ن لیگ کے جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی نے111پنجاب سے 35 سرحد سے 10 سندھ سے کوئی نہیں اور بلوچستان سےدو ووٹ ملے،ق لیگ کے مشاہد حسین کو سینٹ اور قومی اسمبلی سے34 پنجاب سے4سرحد سے تین سندھ سے کوئی نہیں جبکہ بلوچستان سے دو ووٹ ملے۔نوستمبر2008 کو چیف جسٹس نے ان سے حلف لیا۔
2013 کے صدارتی انتخاب
16جولائی2013 کو الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ صدارتی انتخاب 6اگست کو ہوگا۔پولنگ صبح دس سے سہ پہ تین بجے تک جاری رہےگی۔ لیکن ن لیگ کی درخواست پرچیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی کہ نئے صدارتی انتخاب 30جولائی کو منعقد کیے جائیں۔
ابتدائی طور پرحکومتی حمایت یافتہ ممنون حسین ،پی پی کے حمایت یافتہ رضاربانی اور تحریک انصاف کے جسٹس (ر)وجیہہ سمیت 24امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے،تاہم 19 امیدواروں کو کوئی تجویز و تائید کنندہ نہیں تھا۔تاہم 26جولائی کو ایک پریس کانفرنس میں پاکستان پیپلزپارٹی نے اعلان کیا کہ وہ سپریم کورٹ اورالیکشن کمیشن کے جانبدارانہ فیصلے کے سبب صدارتی انتخاب کا بائیکاٹ کررہے ہیں۔ان کے اس فیصلے کی توثیق ان کی اتحادی جماعتیں ق لیگ اور عوامی نیشنل پارٹی نے بھی کی۔
تیس جولائی کو حکومتی حمایت یافتہ ممنون حسین 432ووٹ لے کر ملک کے بارویں صدر منتخب ہوگئے۔حزب اختلاف پی پی کے بائیکاٹ کے سبب دوسرے امیدوار پی ٹی آئی کےجسٹس(ر)وجیہہ الدین احمد تھے انہیں 77ووٹ ملے۔سینیٹ قومی اسمبلی اور خیبر پختون خواہ اسمبلی کے ممنون حسین نمایاں ووٹوں سے کامیاب ہوئے۔جبکہ خیبر پختوں خوا سے جسٹس وجیہہ الدین کامیاب رہے تھے۔
قومی اور سینٹ سے ممنون حسین نے277،پنجاب سے 54،سندھ سے25،بلوچستان سے 55 اور خیبر پختون خوا سے21الیکٹرول ووٹ حاصل کیے جبکہ جسٹس وجیہہ الدین احمد نے قومی اور سینیٹ سے34 خیبر پختون خوا سے36 ،پنجاب سےدو سندھ سے دو بلوچستان سے ایک الیکٹرول ووٹ حاصل کیا۔نو ستمبر2013 کو ممنون حسین نے ملک کے بارویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھالیا چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ان سے حلف لیا۔
پاکستان کے صدور
ملک کے پہلے صدر اسکندر مرزا تھے جو23مارچ 1956ء سے 27اکتوبر 1958ء تک صدر پاکستان رہے۔ چیف ما رشل لاایڈمنسٹریڑ جنرل ایوب خان 27مارچ 1958ء کو انہیں برطرف کر کے خود صدر بن گئے ۔ وہ 25مارچ 1969ء تک اس عہدے پر رہے۔پاکستان کے تیسرے صدر یحییٰ خان تھے۔ صدر ایوب خان نے اپنے دور صدارت میں انہیں 1966میں بری فوج کا سربراہ نامزد کیا۔ یحییٰ خان نے 25مارچ 1969ء کو ایوب خان کے استعفے کے بعد عہدہ صدارت بھی سنبھال لیا۔ یحییٰ خان کے یہ دونوں عہدے سقوط ڈھاکہ کے بعد 20دسمبر 1971ء کو ختم ہوئے۔چوتھے صدر ذوالفقار علی بھٹوتھے جنہیں 20دسمبر 1971ء میں جنرل یحییٰ خان نے پاکستانی حکومت کی ذمہ داریاں سونپیں۔ وہ 20دسمبر 1971ء سے 13اگست 1973ء تک صدر مملکت کے عہدے پر فائز رہے۔فضل ا لہیٰ چوہدری 1973ء کے آئین کے تحت پاکستان کے پہلے صدر منتخب ہوئے اور 14اگست 1973ء سے 16ستمبر 1978ء تک پاکستان کے صدر رہے اور جنرل ضیاء الحق کے اقتدار پر قبضے کے بعد
16ستمبر 1978 کو مستعفی ہو گئے۔جس کے بعد ضیاء الحق پاکستان کے چھٹے صدر بن گئے۔ انہوں نے 16ستمبر 1978ء کو حلف اٹھایا اور 17اگست 1988ء کو فضائی حادثے میں موت تک اس عہدے پر رہے۔ اسی دن غلام اسحاق خان نےصدر مملکت کے فرائض سنبھالے اور 18جولائی 1993ء تک صدر کے عہدے پر فائز رہے۔ آٹھویں صدر سردار فاروق احمد خان لغاری نے 14نومبر 1993ء کو پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں صدارت کا منصب سنبھالا اور 2دسمبر 1997ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ نویں صدر محمد رفیق تارڑ یکم جنوری 1998ء کو صدر مملکت بنے ۔ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف کی طرف سے میاں نواز شریف کی حکومت کی برطرفی کے باوجود انہیں عہدے سے نہیں ہٹایا گیا اور وہ 20جنوری 2001ء تک صدر رہے۔ دسویں صدر جنرل پرویز مشرف تھے۔ جنہوں نے 20جون 2001ء کو ریفرنڈم کے ذریعے صدر کا عہدہ اختیار کیا۔ وہ 18اگست 2008ء تک صدر مملکت کے عہدے پر فائز رہے۔ پرویز مشرف نے 18اگست 2008ء کو قوم سے خطاب کے دوران اپنے استعفے کا اعلان کیا۔جس کے بعد پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری صدر منتخب ہوئے اور 9ستمبر 2008ء سے 9ستمبر 2013ء تک صدر پاکستان رہے۔پاکستان کے بارہویں صدرمسلم لیگ (ن) کے ممنون حسین منتخب ہوئے۔ جنہوں نے 9ستمبر 2013ء کو عہدے کا حلف اٹھایا۔ ان کی مدت 8ستمبر 2018ء کو مکمل ہو ئی
نو ستمبر2018کو عارف علوی نے تیرھویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا
نو ستمبر2018کو عارف علوی نے تیرھویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا
President Election Procedure and History
Reviewed by News Archive to Date
on
September 03, 2018
Rating:
No comments